وفاقی بجٹ :نجی شعبے کی معیشت پر اجارہ داری تباہ کن ہوگی۔چودھری احسن پریمی



 موجودہ وفاقی حکومت نے خیالات و حکمت عملی کے بغیر جس طرح بجٹ میں امیدوں کا سہارا لیا ہے اس طرح وہ پاکستان کے عوام کا مستقبل تعمیر نہیں کرسکتے جبکہ ملک بھر کے عوام اورپارلیمان میں موجود حزب مخالف کی جماعتوں نے آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں امیر طبقے کو سہولت دی گئی جبکہ عام شہریوں پر مزید بوجھ ڈالا گیا ہے۔
 یہ بجٹ بھی موجودہ حکومت کے پہلے تین بجٹ کی طرح تھا جس میں ہدف مقرر کیے جاتے ہیں اور پھر مالیاتی اختتام پر اکنامک سروے شائع کر دیا جاتا ہے اور اس کا عنوان ہوتا ہے کہ وہ اہداف جن کو حاصل نہیں کیا جا سکا۔ پھر اس کے بعد یہ ناکامی بجٹ تقریر کا حصہ بن جاتی ہے۔اس بجٹ تقریر میں ویڈ ہولڈنگ ٹیکس سنائی دیتا رہا ہے جس میں انحصار بلواسطہ ٹیکسوں پر رہا جبکہ براہ ٹیکسوں کی مد میں بڑے طبقے کو سہولت دی گئی جبکہ عام پاکستانی پر مزید بوجھ ڈالا گیا۔ بجٹ میں زراعت کے شعبے کے لیے مراعات کی کافی امیدیں تھیں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ کپاس کی وجہ سے ہماری اقتصادی ترقی کا طے کردہ ہدف پورا نہیں ہو سکا لیکن بجٹ میں فصلوں کی امدادی قیمتوں کا اعلان سامنے نہیں آیا ہے جس کی وجہ سے کاشت کار کوکوئی سہارا نہیں ملا۔ جو کہانی ہم سب تین بار پہلے سن چکے ہیں، اس کو چوتھی بار پھر سنا ہے۔عوامی حلقوں نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی جماعت بجٹ کا جائزہ لے اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کم از کم بیس فیصد اضافہ کرے کیونکہ اس وقت سرکاری ملازمین کی ماہانہ آمدن سے وہ صرف خوراک بھی پوری نہیں کر پا رہے ہیں جبکہ وہ بچوں کی تعلیم و رتربیت اور علاج معالجہ کے حوالے سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومتقومی اسمبلی میں بجٹ پر ہونے والی بحث میں مذکورہ بالاعوامی رائے پر سنجیدگی سے غور کرکے عملی جامہ پہنائے۔اگرچہ ہماری معیشت میں بنیادی کمزوریاں اور خرابیاں ہیں اور اگر ان خرابیوں کو دور کرنے کے بجائے اگر صرف لیپا پوتی سے کم لیں گے تو اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
ملک گیر عوام نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بجٹ میں کوئی مثبت چیز سامنے نہیں آئی جس میں آپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ کارپوریٹ سیکٹر کے لیے کر رہے ہیں جس میں اگر پبلک سیکٹر جب تک معیشت کے اندر نہیں آئے گا تو نہ تو شرح نمو میں اضافہ ہو گا اور نہ ہی ملک سے بے روزگاری ختم ہو گی۔
 حکومت کی تجاویز سے لگتا ہے کہ آپ نے نجی شعبے کو معیشت پر اجاری داری دے دی ہے تو یہ رعایت پر رعایت مانگ رہے ہیں، ملک میں مقابلے کی فضا نہیں بلکہ مختلف انڈسٹریز کے کارٹیل بنتے جائیں گے اور وہ مل کر حکومتیں سے رعایتیں لے رہے ہیں۔ لیکن اگر پبلک سیکٹر میں بھی یہ تمام صعنتیں ہوں تو پھر مقابلے کی فضا بن پائے گی۔جبکہ تعلیم اور صحت پر اس بجٹ میں بھی جو خرچ کیا گیا وہ باعث شرم ہے اور مختص کی گئی رقم بھوٹان، نیپال اور بنگلہ دیش میں ان شعبوں کے لیے رکھی گئی رقم سے بھی کم ہے۔  اس وقت ہر پانچواں پاکستانی بیمار ہے اور گذشتہ بجٹ میں صحت کے لیے بجٹ کا محض 069 فیصد رکھا گیا لیکن اس بار اضافے کی توقع کر رہے تھے لیکن یہ حکومت نہ تو صحت اور نہ ہی تعلیم کے شعبے میں انقلابی کام کر سکی۔جبکہ بین الاقوامی جائزوں کے مطابق کراچی سے خیبر تک شہروں میں آلودگی اس حد تک پہنچ چکی ہے جس سانس لینا خطرناک بنتا جا رہا ہے لیکن حکومت نے اس طرف بھی کوئی توجہ نہیں دی اور کوئی بڑا منصوبہ پیش نہیں کر سکی ہے۔ جبکہ بعض دعووں کے مطابق کہ آئندہ دو برس میں دو کروڑ افراد ملک میں بے روزگار ہوں گے لیکن حکومت نے ملک میں بے روزگاری کے مسئلے سے نمٹنے میں بھی ناکامی دکھائی ہے جس سے پاکستان بے روزگاروں کا ملک بن جائے گا۔جبکہ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں امیر کو امیر ترین اور غریب کو غریب تر بنانے کا ایک اور روایتی بجٹ تھا۔ 70 برسوں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے اور آج پھر انھیں بے وقوف بنانے کے لیے یہ اجلاس بلایا گیا اور اس میں جھوٹے دعوے کیے گئے کہ عوام کو ریلیف دیا جا رہا ہے۔عوام کی اکثریت نے اس بجٹ کو روایتی اور عوام دشمن بجٹ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔
اگرچہ حکومت نے آئندہ مالی سال کے لیے 204 ارب روپے مالیت کے نئے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے جبکہ بعض شعبوں کے لیے ٹیکسوں کی شرح کم کی گئی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال کے لیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 36 کھرب 21 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 16 فیصد زائد ہے۔ٹیکس سے حاصل والی آمدن میں اضافے کے لیے اس بجٹ میں ماضی کی طرح کچھ نئے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔پاکستان میں جائیداد کی خرید وفرخت کو بہت منافع بخش کاروبار تصور کیا جاتا ہے۔ مالی سال 2016-2017 کے بجٹ میں پانچ سال کے اندر اندر خریدی گئی جائیداد فروخت کرنے پر دس فیصد کیپٹل گین ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔چینی پر عائد آٹھ فیصد فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی کو ختم کر کے آٹھ فیصد سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔مشروبات پر عائد ڈیوٹی کو 10.5 فیصد سے بڑھا کر 11.5 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔کم معیار کے سگریٹ پر عائد ڈیوٹی کو 23 پیسے فی سگریٹ کرنے اور اعلی معیار کے سگریٹ پر یہ شرح 55 پیسے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس سے حکومت کو اضافی 15 ارب روپے ملنے کا امکان ہے۔مہنگے موبائل فون کی خرید پر عائد سیلز ٹیکس 1000 روپے سے بڑھا کر 500 اور درمیانے درجے کے موبائل فون پر سیلز ٹیکس 500 روپے سے بڑھا کر 1000 روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ کمپیوٹروں کی درآمد پر عائد ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے۔استعمال شدہ کپڑے یا لنڈا بازار کے کپڑوں پر سیلز ٹیکس کی شرح دس فیصد سے کم کر کے آٹھ فیصد کر دی جائے گی۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے خدمات پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس کو ایک فیصد سے بڑھا دو فیصد کر دیا گیا ہے۔نان فائلرز کے لیے ڈیویڈنڈ سے حاصل ہونے والے آمدن پر 17.5 ٹیکس کو بڑھا کر 20 فیصد کر دیا گیا ہیسالانہ دس لاکھ روپے کم آمدن کمانے والے افراد کے لیے بچوں کی 60 ہزار روپے سالانہ سکول فیس پر عائد پانچ فیصد ٹیکس کو ختم کر دیا گیا ہے۔پان اور چھالیہ پر عائد موجودہ ڈیوٹی کو دس فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ایل ای ڈی یا انرجی سیور بلب، شمسی توانائی کے لیے ہوم سولر پینل کی درآمد پر دی جانے والی ٹیکس چھوٹ آئندہ سال بھی جاری رہے گی۔اس کے علاوہ سٹیل کی صنعت پر سیلز ٹیکس لگایا گیا ہے، جب کہ زرعی شعبے پر عائد 15 ارب کے ٹیکسوں کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔مکانوں کے کرائے سے ہونے والی آمدن پر بھی ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ دو لاکھ روپے سے زائد کرائے سے حاصل ہونے والی آمدن پر کم سے کم پانچ فیصد اور زیادہ سے زیادہ دس فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ 20 لاکھ سے زائد سالانہ کرائے کی آمدن پر 20 فیصد ٹیکس ہو گا۔پولٹری انڈسٹری میں فیڈ کی تیاری میں استعمال ہونے والی مصنوعات پر سیلز ٹیکس کو پانچ فیصد سے بڑھا کر دس فیصد کر دیا گیا ہے۔سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی کو ختم کر کے ایک روپے فی کلو سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔تقریبا 900 مصنوعات کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح دس سے بڑھا کر 11 فیصد کر دی گئی ہے۔ایسے افراد جو ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرواتے انھیں انعامی بانڈ سے حاصل ہونے والی آمدن پر 20 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
وزیر خزانہ نے آئندہ مالی سال کے لیے 43 کھرب 94 ارب روپے مالیت کے وفاقی بجٹ کا اعلان کیا ہے، جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 7.3 فیصد زائد ہے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مالی سال 2016 -2017 کے لیے مجوزہ بجٹ کا اعلان کیا جو مسلم لیگ نواز کی حکومت کا چوتھا بجٹ ہے۔بجٹ کا خسارے 1276 ارب روپے ہے جو جی ڈی پی یا خام ملکی پیداوار کا 3.8 فیصد ہے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دفاعی اخراجات کی مد میں 11 فیصد اضافہ کیاگیا ہے اور دفاعی بجٹ کا حجم 860 ارب روپے اور وفاقی ترقیاتی بجٹ 800 ارب روپے ہے جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 21 فیصد زائد ہے۔دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی وجہ سے عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے افراد کی بحالی کے لیے بجٹ میں 100 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
بجٹ دستاویز کے مطابق آئندہ مالی سال میں مجموعی اخراجات کا تخمینہ 43 کھرب 95 ارب روپے ہے جبکہ کرنٹ اخراجات کا تخمینہ 32 کھرب 82 ارب روپے لگایا گیا ہے۔اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران ٹیکسوں کی وصولی میں 60 فیصد اضافہ ہوا جب کہ جون کے اختتام تک ٹیکسوں کی وصولی کا 3104 ارب روپے کا ہدف حاصل کر لیں گے۔آئندہ مالی سال کے لیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ٹیکس وصولیوں کے لیے 36 کھرب 21 ارب روپے کا ہدف دیا گیا ہے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کم سے کم اجرت 13 ہزار ماہانہ سے بڑھا کر 14 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔
حکومت نے یکم جولائی سے سرکاری ملازمین کو سنہ 2013 اور سنہ 2014 میں ملنے والے ایڈہاک الانس کو بنیادی تنخواہ کا حصہ بنا دیا گیا ہے اور اس کے علاوہ سرکاری ملازمین کو نئی بنیادی تنخواہ پر مزید 10 فیصد ایڈہاک الانس دیا جائے گا۔یکم جولائی سے پنشن میں بھی 10 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے جبکہ 85 سال سے زائد عمر کے پنشنرز کو ملنے والے پنشن میں 25 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔
زرعی شعبے کے لیے مراعات کے حوالے سے وفاقی بجٹ سنہ 2016-2017 میںیوریا کھاد کی فی بوری قیمت میں کمی 400 روپے،فاسفیٹ کھاد کی فی بوری قیمت میں کمی 300 روپے،کاشکاروں کو کھاد کے لیے 10 ارب روپے کی سبسڈی،زرعی قرضوں کے حجم 100 ارب کا اضافہ،زرعی ٹیوب ویل کے لیے بجلی کی قیمت میں فی یونٹ کمی 3.32 پیسے،گریڈ 1 سے 15 کے ملازمین کے اوور ٹائم الانس میں 50 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔وفاقی ملازمین کے ایم فل اور پی ایچ ڈی الانس میں 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد یہ رقم 12500 روپے ماہانہ ہوجائے گی۔سرحدی علاقوں میں تعینات سول آرمڈ فورسز کی خصوصی الانس کو بڑھا کر 210 روپے ماہانہ کر دیا گیا ہے۔معذور افراد کو ملنے والے کنوینس الانس کو بڑھا کر ایک ہزار روپے ماہانہ کر دیا گیا ہے۔بجٹ دستاویزات کے مطابق تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی مد میں حکومت 57 ارب روپے اضافی خرچ کرے گی۔
حکومت نے بجٹ میں سگریٹ پر مزید سیلز ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کم درجے کے سگریٹ پر 23 پیسے جب کہ اعلی درجے کے سگریٹ پر 55 پیسے ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔پان اور چھالیہ پر عائد موجودہ ڈیوٹی کو 10 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔آئندہ مالی سال کے بجٹ میں لیپ ٹاپ اور ڈیسک ٹاپ پر سیلز ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ اعلی درجے کے اسمارٹ فونز پر ڈیوٹی 1000 روپے سے بڑھا کر 1500 روپے کر دی گئی ہے۔کم کیٹیگری کے فونز پر عائد 500 روپے ڈیوٹی کو برقرار کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔کارپوریٹ سیکٹر پر عائد ٹیکس کی شرح 32 فیصد سے کم ہو کر 31 فیصد کر دیا گیا ہے۔سالانہ دس لاکھ روپے کم آمدن کمانے والے افراد کے لیے بچوں کی 60 ہزار روپے سالانہ سکول فیس پر عائد 5 فیصد ٹیکس کو ختم کر دیا گیا ہے۔پانچ سال کے اندر اندر خریدی گئی جائیداد فروخت کرنے پر 10 فیصد کیپٹل گین ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
رواں سال کے بجٹ میں سب سے زیادہ توجہ زرعی شعبے کو دی گئی ہے جبکہ برآمدت میں اہم کردار ادا کرنے والے پانچ بڑے سیکٹرز کو ٹیکسوں سے مستشنی قرار دیا گیا ہے۔زرعی شعبے میں قرضوں پر شرح سود کو دو فیصد کم کیا گیا ہے اور یوریا کھاد اور فاسفیٹ کھاد کی فی بوری قیمت میں کمی کی گئی ہے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی سے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو چارٹر اور اکنامکی یا میثاقِ معیشت کی ضرورت ہے تاکہ تمام جماعتیں سیاسی مشاورت سے لائحہ عمل بنائیں۔
قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر میں وزیراعظم نواز شریف کی عدم موجودگی کے باعث نہ تو حکومتی ارکان کی کوئی خاص دلچسپی نظر آئی اور نہ ہی حزب مخالف کی جانب سے روایتی طور پر تجاویز پر خاص تنقید یا رد کرنے کی آوازیں سنائی دی۔شاید اسی وجہ سے وزیر خزانہ کو حکومتی بینچز پر بیٹھے ارکان کو دو بار کہنا پڑا کہ اچھے اعلان پر خوشی کا اظہار کریں۔ وزیر خزانہ ایوان میں بجٹ تقریر کرنے کے لیے آئے تو پہلی بار قرآن کی تلاوت کے بعد نعت بھی پڑھی گئی جبکہ تقریر شروع ہونے سے پہلے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کے تقسیم کے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ یا این ایف سی کے پانچ برس سے اعلان نہ کیے جانے پر تنقید کی اور کہا کہ اس بنیاد پر فنانس بل کو چیلیج کیا جا سکتا ہے۔اس پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ پارلیمانی قواعد کے تحت بجٹ کے اعلان سے پہلے قائد حزب اختلاف تقریر نہیں کر سکتے ہیں۔تاہم وزیر خزانہ نے ایوان کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لیے کہا کہ آپ سیدہ زادہ ہیں تو آپ کے احترام میں بیٹھ جاتا ہوں، اس پر سید خورشید شاہ اپنی نشست پر بیٹھ گئے اور وزیر خزانہ نے تقریر کا آغاز کیا ہی تھا کہ حزب مخالف کے ارکان نے شور مچایا کہ بجٹ تقریر کی کاپیاں نہیں۔اس پر انھوں نے کہا کہ کاپیاں آ رہی ہیں اور ساتھ ہی عملے نے تقریر کی کاپیاں تقسیم کرنا شروع کر دی۔وزیر خزانہ کی تقریر کے دوران حزب مخالف کے ارکان کی تعداد کافی کم تھی اور یہ پوری تقریر کے دوران 75 کے قریب رہی جبکہ حکومتی ارکان بھی کم تھے اور آخر کی زیادہ تر نشستیں خالی تھیں جس میں تقریر کے کافی دیر بعد وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف وزیر خزانہ کی ساتھ والی نشست پر بائیں جانب بیٹھ گئے جبکہ اس کے تھوڑی دیر بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار آئے اور وزیر خزانہ کی دائیں جانب بیٹھ گئے، تاہم ان دنوں کے درمیان دوسرے ارکان کے برعکس سلام دعا نہیں ہوئی۔وزیر خزانہ تقریر کرتے رہے لیکن ایوان میں بیٹھے زیادہ تر ارکان کی توجہ تحریری بجٹ تقریر کو پڑھنے پر مرکوز تھی اور اس دوران وقفے وقفے سے حکومتی ارکان ڈیسک بجا کر تجاویز کا خیرمقدم کرتے تھے۔ تاہم جسیے جیسے تقریر آگے بڑھتی گئی یہ تائید بھی کم ہوتی گئی جس میں اقتصادی راہداری کے منصوبے اور گودار کی ترقی کے اقدامات کی تجاویز پر بھی خاموشی رہی۔بجٹ تقریر پڑھنے کے بعد حکومتی بینچز میں بیٹھے ارکان کی تعداد کم ہوتی گئی جبکہ وزیر خزانہ کے ساتھ بیٹھے وزرا احسن اقبال اور خواجہ آصف اپنے موبائل فون پر مصروف رہے جبکہ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور وزیر داخلہ چوہدری نثار کے درمیان رقعوں کا تبادلہ ہوتا رہا۔تقرر کے دوران جب وزیر خزانہ نے زراعت کے شعبے کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کیں تو اس حزب مخالف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ بہت کم ہیں تو وزیر خزانہ نے کہا کہ آپ بھی کاشت کار ہیں، آپ بھی تالی بجا دیں، آپ پر آج سب کچھ لٹا دیا، جناب سپیکر آج تو زراعت کا دن ہے ہم نے تو زراعت پر سب کچھ لٹا دیا، آج تو قریشی صاحب کو سب سے زیادہ تالیاں بجانی چاہیں۔ اس پر ایوان میں قہقے بلند ہوئے۔اس پر شاہ محمود قریشی نے مسکرا کر وزیر خزانہ کی جانب دیکھا اور پھر اشارہ کیا کہ ان تجاویز میں کچھ نہیں۔شاہ محمود قریشی نے مسکرا کر وزیر خزانہ کی جانب دیکھا اور پھر اشارہ کیا کہ ان تجاویز میں کچھ نہیں۔تقریر جیسے جیسے اختتام کی جانب بڑھ رہی تھی اس کے ساتھ ایوان میں موجود ارکان چاہے وہ اپوزیشن کے بینچز میں تھے یا حکومتی بینچز میں، ان کے درمیان ہونے والی بات چیت کا شور بلند ہوتا گیا۔اسی دوران وزیر خزانہ نے جب تقریر میں استعمال شدہ کپڑوں پر دو فیصد اضافی سیلز ٹیکس ختم کرنے کی تجویز دی تو انھوں نے اس کے ساتھ ہی حکومتی ارکان کی عدم دلچسپی کو محسوس کرتے ہوئے ان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ او بھائی سیکنڈ ہینڈ کپڑے سستے ہو گئے ہیں آپ سوئے ہوئے ہیں۔اس پر ایوان میںبجٹ تقریر کی بوریت کا جمود ٹوٹا اور جہاں حزب مخالف کے ارکان کی جانب قہقوں کی آوازیں آئیں وہیں حکومتی ارکان نے خاصی دیر تک ڈیسک بجائے۔وزیر خزانہ کی تقریر میں جب مزدوروں کی کم سے کم اجرت میں 13 ہزار سے بڑھا کر 14 ہزار کرنے کی تجویز دی گئی تو اس پر اپوزیشن کے چند ارکان کی جانب سے ناکافی ناکافی کی آوازیں آئیں۔تقریر میں آگے چل کر وزیر قانون نے 85 برس سے پنشرز کی پنشن میں 25 فیصد اضافے کی تجویز دی تو حزب اختلاف کے رکن شیخ رشید نے کہا کہ یہ ہوں گے ہی نہیں، اس پر وزیر خزانہ کہا کہ چند ہزار ہیں، آپ کو بتا دیں گے۔
تاہم بجٹ کے اگلے روز پوسٹ بجٹ کے حوالے سے پریس کانفرنس کے دوران وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ مالی سال 17-2016 کے بجٹ میں حکومت نے ساری توجہ پیداوار گروتھکی طرف مرکوز رکھی اور وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے بہترین اور متوازن بجٹ پیش کیا۔جبکہ اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران آئندہ مالی سال 17-2016 کے لیے بجٹ تجاویز کے اہم پہلوں کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ عالمی سطح پر قیمتوں میں کمی کے باعث ڈالر برآمدات میں کمی ہوئی جبکہ برآمدات میں بھی 11 فیصد کمی ہوئی ہے جسے مرحلہ وار 45 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف ہے۔واضح رہے کہ مالی سال 16-2015 کے اقتصادی سروے میں زرعی شعبے میں حکومتی ناکامی کا اعتراف کیا گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں زراعت کے شعبے کے لیے حکومت کی جانب سے تمام ممکنہ اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران اسحاق ڈار نے بتایا کہ زرعی شعبے کو ریلیف دینے کے لیے یوریا کھاد کی فی بوری قیمت میں 400 روپے جبکہ ڈی اے پی کھاد کی قیمت میں 300 روپے فی بوری کمی کی گئی ہے۔انھوں نے بتایا کہ کھاد کی قیمتوں کے حوالے سے تمام فریقوں سے مشاورت کی اور بجٹ میں کاشتکاروں کی مشکلات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سال کے آخر میں زراعت کے لیے مختص رقم 341 ارب بڑھ کر 400 ارب روپے ہوجائے گی۔پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے دوران اسحاق ڈار نے بتایا کہ 2016 میں ٹیکس کی شرح 15 فیصد تک پہنچ گئی ہے جبکہ ٹیکس ریفنڈز کی واپسی 30اگست تک مکمل کرلی جائے گی۔ خیراتی اداروں کے علاوہ رواں سال تمام مراعاتی اسٹیچوری ریگولیٹری آرڈر ایس آر اوزختم کردئیے گئے۔ مشینری اور خام مال کی درآمد پر ڈیوٹی 3 فیصد تک کردی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میثاق جمہوریت کی طرح میثاق معیشت کی بھی ضرورت ہے۔پوسٹ بجٹ تقریر کے دوران پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے کے حوالے سے وزیر خزانہ نے بتایا کہ سی پیک کے مغربی روٹ پر کام کا آغاز ہوچکا ہے۔اے پی ایس