تنقید امریکی جمہوری عمل کا حسن ۔ تحریر حفصی عزیز





 تحریر حفصی عزیز

 امریکہ کے صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ آئندہ صدر کے لیے ریپبلیکن پارٹی کے نامزد امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ صدر بننے کے لیے نا اہل ہیں۔انھوں نے سوال کیا کہ ان کی پارٹی اب تک اس ارب پتی کی کیوں حمایت کر رہی ہے۔براک اوباما کا کہنا تھا ایک وقت آتا ہے جب آپ کہتے ہیں بس بہت ہو گیا۔ادھر امریکہ میں ڈیموکریٹس اور رپبلکن رہنماں کی جانب سے ایک مسلم فوجی کی والدہ کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کی حمایت پر بھی ان کی کافی مذمت کی جا رہی ہے۔براک اوباما نے کہا کہ انھیں کئی سابق ریپبلیکن صدور اور امیدواروں سے پالیسی اختلافات رہے ہیں لیکن انھوں نے کبھی کسی کے بارے میں یہ نہیں سوچا تھا کے وہ بطور صدر کام نہیں کر سکتے۔ گزشتہ دنوں کو براک اوباما کا کہنا تھا کہ ریپبلیکن پارٹی کے امیدوار صدر کے عہدے کے لیے نا اہل ہیں اور وہ مسلسل یہ ثابت کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا ایک گولڈ سٹار خاندان جس نے غیر معمولی قربانی دی ہو اس پر حملے کی حرکت نے ثابت کیا ہے کہ وہ اس کام کے لیے قطعی قابل نہیں ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں صدر اوباما کی ناکام قیادت کے بارے میں ایک بیان جاری کیا لیکن انھوں نے صدر کی تنقید کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔براک اوباما نے ان ریپبلیکن رہنماں سے بھی سوال کیا جو متواتر ٹرمپ کی جانب سے خواتین، تارکینِ وطن اور مسلمانوں کے بارے میں دیے جانے والے بیانات پر الجھتے رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کیا یہ معاملہ آپ کی پارٹی کے بارے میں بتاتا ہے کہ یہ آپ کا معیار ہے؟۔ریپبلیکن پارٹی کے اعلی رہنماوں ایوان کے سپیکر پال ریان اور سینیٹ کے رہنما مچ مک کونیل دونوں ڈونلڈ ٹرمپ کے بڑے ناقدین رہے ہیں تاہم ٹرمپ کو اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔
منگل کو نیویاک سے تعلق رکھنے والے پہلی بار کسی ریپلیکن رہنما رچرڈ ہانا نے سرعام کہا ہے کہ وہ ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیں گے۔انھوں نے کہا کہ خان فیملی کے بارے میں ٹرمپ کے بیان نے ان کے لیے فیصلہ ساز ثابت ہوا۔کئی ٹرمپ مخالف ریپبلیکن رہنماں نے کہا ہے کہ وہ کلنٹن کے بجائے کسی تیسری پارٹی کے رہنما کو ووٹ دے دیں گے۔جبکہ امریکہ کی خاتونِ اول مشیل اوباما نے ڈیموکریٹک پارٹی کے نیشنل کنونشن سے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی مذمت کرتے ہوئے ممکنہ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کی پر زور حمایت کرچکی ہیں۔پر زور تالیوں کی گونج میں ان کا کہنا تھا ایک عوامی شخصیت کی جانب سے ٹی وی پر نفرت آمیز زبان کا استعمال ہمارے ملک کی اصل روح کی ترجمانی نہیں کرتا۔ان کی سطح تک مت گریں۔ ہمارا مقصد ہے کہ جب وہ نیچے ہوتے ہیں تو ہم اوپر جاتے ہیں۔امریکی خاتونِ اول مشیل اوباما نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ ہلیری کلنٹن ہی امریکہ کے صدر کے عہدے کے لیے سب سے بہتر امیدوار ہیں۔انھوں نے کہا: امریکہ کے وزیر خارجہ کے طور پر ہلیری کلنٹن نے شاندار کام کیا ہے۔ وہ دبا میں کبھی نہیں بھریں۔فلیڈلفیا میں ہونے والے کنونشن میں سینیٹر برنی سینڈرز جب سٹیج پر پہنچے تو پرجوش پارٹی کے ارکان نے ان کا زبردست خریر مقدم کیا۔انھوں نے رپبلن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلسل ٹویٹ کرنے کی عادت پر حملہ کرتے ہوئے کہا: ہلیری کلنٹن کو معلوم ہے کہ ہر مسئلے کو 140 حروف سے نہیں سلجھایا جا سکتا۔ جب آپ کے ہاتھ میں ایٹمی طاقت ہوتی ہے تو آپ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے۔انھوں نے ماں کے طور پر اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے کہا: مجھے ہلیری پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ امریکہ کے لیے بہتر ثابت ہوں گی۔ میں نے انہیں ملک کے بچوں کی بہتری کے لیے ان کے عزم کو دیکھا ہے۔اس نیشنل کنونشن میں ہلیری کلنٹن کو پارٹی کی طرف سے باقاعدہ طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کا صدارتی امیدوار بنانے کا اعلان کیاگیا۔
اس سے پہلے امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے نیشنل کنونشن سے اپنے خطاب میں سینیئر رہنما برنی سینڈرز نے ہلیری کلنٹن کی حمایت کرتے ہوئے انھیں امریکہ کا صدر بنانے کی پرزور حمایت کی ہے۔برنی سینڈرز ہلیری کلنٹن کے خلاف ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بننے کی دوڑ میں شامل تھے لیکن یہ بازی ہلیری کلنٹن کے ہاتھ رہی۔خطاب کے دوران انھوں نے کہا: امریکہ کی اگلی صدر ہلیری کلنٹن کو ہی ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ: جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک کے بعد ایک نسلی گروہوں کی توہین کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ہلیری کلنٹن سمجھتی ہیں کہ ہمارا تنوع ہی ہماری عظیم طاقت ہے۔
انھوں نے کہا: اگر آپ کو یقین نہیں کہ یہ انتخابات اہم ہیں، اگر آپ سوچتے ہیں کہ اس سے آپ الگ رہ سکتے ہیں تو پھر اس وقت کے متعلق سوچیں جب ڈونلڈ ٹرمپ سپریم کورٹ کے لیے ججوں کی تعیناتی کریں گے اور ذرا غور کریں پھر ہماری شہری آزادی، مساوی حقوق اور ملک کے مستقبل کا کیا ہوگا۔
صدارتی امیدوار بننے کی ریس کے دوران برنی سینڈرز نے کئی معاملات پر ہلیری کلنٹن کی سخت مخالفت کی تھی اور ان پر شدید نکتہ چینی کی تھی لیکن کنونشن سے اپنے خطاب میں انھوں نے ان کی زبردست انداز میں حمایت کی۔ جبکہ عراق میں ہلاک ہونے والے ایک امریکی مسلمان فوجی کے پاکستانی نژاد امریکی والد نے ڈانلڈ ٹرمپ کی امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی عائد کرنے کی تجویز پر سخت تنقید کی ہے۔
خضر خان نے جمعرات کو منعقد ہونے والی ڈیمو کریٹک کنونشن میں ایک تقریر کے دوران امریکی صدارت کے لیے رپبلکن پارٹی کی جانب سے نامزد امید وار ڈانلڈ ٹرمپ سے کہا میں آپ سے پوچھتا ہوں، کیا آپ نے کبھی امریکہ کا آئین پڑھا ہے؟ میں خوشی سے آپ کو اپنی کاپی دیتا ہوں۔خضر خان کی تقریر سننے پر کئی لوگوں نے پر جوش انداز سے تالیان لگائیں۔خضر خان ایک پاکستانی نژاد امریکی مسلمان ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور پھر متحدہ عرب امارات چلے گئے جہاں سے وہ 80 کی دہائی میں امریکہ آگئے تھے۔ناظرین کی پرجوش تالیوں کے دوران انھوں نے مزید کہا اس دستاویز میں آزادی اور قانون کے الفاظ پڑھیں۔
خان کے بیٹے ہمایوں خان ان 14 مسلمان امریکی فوجیوں میں سے ایک تھے جنھوں نے امریکی افواج میں 10 سال خدمات انجام دیں اور سنہ 2004 میں عراق میں ڈیوٹی کرنے کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔خان نے کہا کہ اگر ٹرمپ کی تجویز کے مطابق مسلمانوں پر پابندی عائد کر دی جاتی تو ان کے مقتول بیٹے کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملتی۔انھوں نے لوگوں سے گذارش کی کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نامزد صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن کو ہی ووٹ دیں۔
 جبکہ ڈانلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابنادی عائد کردینی چاہیے ۔ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن کے موقع پر اپنی بیوی کے ساتھ کھڑے تقریر کرتے وقت خان نے مزید کہا ٹرمپ تم نے کوئی قربانی نہیں دی ہے۔انھوں نے ناظرین سے کہا اس الیکشن کو معمولی نہ سمجھیں۔ یہ ایک بہت تاریخی انتخابات ہیں اور میں آپ سے گذارش کرتا ہوں کے میرے بیٹے کی قربانی کا احترام کریں۔
ڈانلڈ ٹرمپ پر مزید تنقید کرتے ہوئے خان نے کہا وہ دیگر اقلیتوں، خواتین، ججوں اور یہاں تک کہ اپنی ہی پارٹی کی قیادت کی توہین کرتے ہیں۔الفاظ کی حرمت، اس کے چنا اور استعمال پر زور دیتے ہوئے خضر خان نے کہا ہے کہ بولے اور لکھے گئے الفاظ امانت کا درجہ رکھتے ہیں جنھیں سوچ سمجھ کر ادا کیا جانا چاہیئے کیونکہ اِن کا سوچ اور مستقبل کے دھارے پر بے حد اثر پڑتا ہے۔انھوں نے یہ بات امریکی نشریاتی ادارے کی اردو سروس کے دورے میں مختصر کلمات ادا کرتے ہوئے کہی۔اسِ موقعے پر عراق میں ملک کے لیے جان کا نذرانہ دینے والے امریکی فوجی، ہمایوں خان کی والدہ، بیگم غزالہ خان بھی موجود تھیں۔ساتھ ہی، خضر خان کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دینِ اسلام کی روشن خیالی کے پہلو کے درس کو ہمیشہ ذہن میں تازہ رکھا جائے۔خضر خان نے ہارورڈ لا کالج سے اعلی تعلیم حاصل کی تھی، جب کہ بیگم غزالہ خان فیصل آباد میں تعلیم و تدریس سے وابستہ رہ چکی ہیں۔
خضر اور غزالہ خان مسلسل چار روز سے امریکی میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہیں اور ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کے جوابی بیان کے بعد کئی بڑے سیاست دانوں نے ان کی حمایت میں بیانات دیے ہیں۔ریاست ایریزونا سے منتخب سینیٹر اور 2008 میں ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار جان مک کین نے خضر اور غزالہ خان کے خلاف ڈونالڈ ٹرمپ کے بیان پر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔جان مکین جو خود بھی سابق فوجی ہیں 1960 کی دہائی میں جنگِ ویتنام کے دوران قیدی رہ چکے ہیں، نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ امریکی عوام ڈونالڈ ٹرمپ کے جوابی بیان کو ری پبلکن پارٹی اور اس کے ذمہ داران کے خیالات کا نمائندہ نہیں سمجھیں گے۔اس سے قبل خضر خان نے بتایا کہ تنقید امریکی جمہوری عمل کا حسن ہے۔۔۔ جس میں تنقید کی جاتی ہے، اسے سنا جاتا ہے، برداشت کیا جاتا ہے، جو طریقہ کار اچھا اور بہت ہی صحت مند ہے۔گولڈ اسٹار مدرز کے مقام کے بارے میں سوال پر، انھوں نے کہا کہ امریکہ میں گولڈ اسٹار مدرز کا بہت بڑا مقام ہوتا ہے، اور یہ کہ شہیدوں کی ماں نے غزالہ خان کے بارے میں بیان پر ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار، ڈونالڈ ٹرمپ کے انداز کو درست قرار نہیں دیا۔
اپنے بیٹے کی یادوں کے بارے میں ایک سوال پر، کیپٹن ہمایوں خان کی والدہ، غزالہ خان نے بتایا کہ مدرز ڈے کے موقعے پر انھوں نے عراق سے ٹیلی فون کیا تھا جس مین انھوں نے ان کے محفوظ رہنے کی تاکید کی تھی۔بقول غزالہ خان، اِس پر انھوں نے کہا تھا کہ ماں میرے سر پر ذمہ داری ہے جو مجھے پوری کرنی ہے۔ مجھے میرے سپاہیوں، میرے لوگوں کی ذمہ داری ہے، جو مجھے پوری کرنی ہے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ اور بیٹے نے وہی کیا۔والد نے بتایا کہ جب ہمایوں کی عراق تعیناتی ہو رہی تھی تو انھوں نے بیٹے سے دریافت کیا تھا کہ سوچ میں کوئی اخلاقی الجھن تو حائل نہیں، جس پر، بقول والد، انھوں نے بتایا تھا کہ ہرگز نہیں؛ اور یہ کہ میں لوگوں کی حفاظت کروں گا، کسی کو نقصان نہیں پہنچاں گا۔
عراق جنگ کے بارے میں ایک سوال پر خضر خان نے کہا کہ اس قوم کی قیادت مان چکی ہے کہ یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔پاکستان میں ڈرون حملوں کے بارے میں سوال پر، انھوں نے کہا کہ اِس پالیسی کا از سر نو جائزہ لیا جانا چاہیئے؛ چونکہ، بقول ان کے، اس سے وہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے۔ ڈرون کے استعمال کا مقصد انتہا پسندی کا خاتمہ ہے، جب کہ یہ انتہا پسندی کو ہوا دیتی ہے۔ ادھر، اِس ضمن میں، امریکہ کی واضح پالیسی یہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے اور شدت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں کا قلع قمع کرنے کے لیے دنیا میں کہیں بھی اور کسی وقت بھی درکار فضائی کارروائی کی جا سکتی ہے۔اس تنقید پر کہ فلاڈیلفیا میں منعقدہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنوینشن میں اپنے شوہر کی تقریر کے دوران وہ ان کے ہمراہ کھڑی تھیں؛ لیکن انھوں نے کوئی بات نہیں کی، غزالہ خان نے کہا کہ دراصل اس کی اور کوئی وجہ نہیں، ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے بیٹیکے بارے میں زیادہ دیر بات نہیں کر پاتیں۔ اس ضمن میں، خضر خان نے کہا کہ اسٹیج پر وہ ایک امریکی مسلمان کی حیثیت سے کھڑے تھے۔خضر خان نے بتایا کہ ری پبلیکن پارٹی کے رہنماوں نے ان سے رابطہ کیا ہے۔
جبکہ کلنٹن سے متعلق 50 فیصد لوگ اگر مناسب رائے رکھتے ہیں تو 36 فیصد لوگ ناموافق خیالات رکھتے ہیں جب کہ ٹرمپ کے لیے یہ شرح 52 فیصد میں سے 31 ہے۔امریکہ میں تازہ سیاسی جائزوں میں ایک بار پھر ڈیموکریٹک امیدوار ہلری کلنٹن کو اپنے حریف ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری ظاہر کی جا رہی ہے۔نومبر میں ہونے و الے صدارتی انتخاب کے لیے دونوں امیدوار اپنی اپنی مہم شروع کر چکے ہیں اور اس دوران دونوں کی طرف سے مخالف امیدوار کو منصب صدارت کے لیے نا اہل ثابت کرنے کے دعوے اور بیانات بھی تواتر سے سامنے آ رہے ہیں۔
اے پی ایس نیوز کے تازہ جائزے کے مطابق کلنٹن 39 کے مقابلے میں 49 فیصد حمایت کے ساتھ ٹرمپ سے آگے ہیں اور جون میں بھی یہ شرح کچھ ایسی ہی تھی جب 37 کے مقابلے میں کلنٹن 43 پوائنٹس کے ساتھ سبقت لیے ہوئے تھیں۔اے پی ایس نیوز ایجنسی کا مزید کہنا تھا کہ تازہ ترین سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ رائے دہندگان اب بھی کلنٹن اور ٹرمپ کے بارے میں ناموافق خیالات کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔اے پی ایس نیوز ایجنسی کی طرف سے جاری کیے گئے جائزے میں ہلری کلنٹن اپنے حریف سے خاصی آگے دکھائی دیتی ہیں اور اس میں یہ شرح 43 کے مقابلے میں 52 فیصد دکھائی گئی ہے۔اس جائزے میں یہ بھی بتایا گیا کہ گزشتہ ہفتے ڈیموکریٹک قومی کنونشن کے بعد ایسے لوگوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہلری کلنٹن کی پالیسیاں ملک کو درست سمت میں آگے لے کر جا سکتی ہی۔ یہ شرح پہلے 43 فیصد تھی جو کہ اب 48 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔دونوں جماعتوں کے کنونشز کے بعد پبلک پالیسی پولنگ نامی ادارے کی طرف سے جاری کیے گئے جائزے میں بھی کلنٹن کو 46 فیصد اور ٹرمپ کو 41 فیصد حمایت ظاہر کی گئی ہے۔