محاصرہ ۔ سیاسی کشیدگی کے نتائج سنگین ہونے کا خدشہ۔چودھری احسن پریمی



  اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد کو بند کرنے کے خلاف  فیصلہ سناتے ہوئے شہریوں کے مفاد میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا جمہوری حق ہے تاہم ضلعی انتظامیہ سمیت پی ٹی آئی کو حکم دیا کہ اسلام آباد کو بند نہیں کیا جاسکتا جس سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف خلاف ورزی ہو۔تاہم الیکٹرانک میڈیا نے عدالت کے فیصلے کا ایسا تاثر دیا جیسے عدالت کی جانب سے کسی ایک فریق کی حمایت کی گئی ہے حالانکہ عدالت کا ایک خوبصورت فیصلہ صرف اورصرف آئین کی روشنی میں مفاد عامہ کے حق میں کیا گیا اور پی ٹی آئی سمیت حکومت دونوں کو کہا گیا کہ آپ دونوں کوئی ایسا اقدام نہ کریں جس سے شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہو۔اس ضمن میں میڈیا کے ضابطہ اخلاق اور خاص کر پیمرا کو اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ایسے عدالتی فیصلے جو مفاد عامہ میں کئے جائیں ان کا یکطرفہ تاثر پھیلانے والوں کے خلاف جرمانے اور قانونی کاروائی کی جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران شہر بند کرنے سے روکتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو بھی شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر کرنے نہیں دیے جائے گا۔عدالت نے حکومت سے بھی کہنا ہے کہ شہر میں کسی مقام پر آمدورفت روکنے کے لیے رکاوٹیں نہ لگائی جائیں۔
 عدالت کی جانب سے یہ حکم اسلام آباد میں عمران خان کے دھرنے کو روکنے سے متعلق چار درخواستوں کی سماعت کے دوران دیا گیا ہے۔عمران خان نے دو نومبر کو حکومت کے خلاف احتجاجی مہم کے سلسلے میں اسلام آباد میں دھرنا دینے اور شہر بند کر دینے کا اعلان کیا ہے۔اس معاملے پر دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے سیکریٹری داخلہ سے کہا گیا کہ ضلعی انتظامیہ اس بات کو یقینی بنائے کہ عمران خان کو جلسے کے لیے کوئی ایک مخصوص مقام فراہم کیا جائے اور انھیں وہاں تک محدود رکھا جائے۔
اس کے علاوہ سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ شہر میں کسی بھی مقام پر کنٹینرز نہ لگائے جائیں۔عدالت نے مزید کہا ہے کہ احتجاج کرنا سب کا حق ہے لیکن اس کے لیے شہر کو بند نہیں کیا جا سکتا اور دو نومبر کو شہر میں کوئی سکول اور کالج بند نہیں کیا جائے گا۔شوکت عزیز صدیقی نے اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا ہے کہ وہ عمران خان کے جلسے کے لیے پریڈ ایوینیو میں انتظامات کریں اور انھیں وہیں تک محدود رکھنے کو یقینی بنایا جائے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی نے عمران خان کو 31 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے بھی کہا ہے۔پی ٹی آئی اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ یا سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی اور پہلے مرحلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کے اس فیصلے کے خلاف حکمِ امتناعی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔دھرنا روکنے کی درخواستوں کی سماعت کے دوران جج شوکت عزیز صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کی جانب سے شہر کو بند کرنے کی تقاریر ان کی موجودگی میں ہی سنی جائیں گی اور اس پر ان سے وضاحت طلب کی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان حکومتی مشینری کو جام کرنا چاہتے ہیں۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سماعت میں مزید کہا کہ یہ سب جان لیں کہ امپائر یا تھرڈ امپائر کوئی نہیں صرف عدالت ہے۔خیال رہے کہ عمران خان نے حال ہی میں کہا تھا کہ ان کے احتجاج کے نتیجے میں کوئی تیسری قوت آتی ہے تو اس کے ذمہ دار بھی نواز شریف ہی ہوں گے۔عدالت کے اس حکم کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے عمران خان کی سربراہی میں تحریکِ انصاف کے اہم رہنماں کا اجلاس بنی گالہ میں منعقد ہوا۔جبکہ حکومت نے پی ٹی آئی مظاہرین کیساتھ سختی سے نمٹنے کافیصلہ کیا ہے ضلعی انتظامیہ کاکہناہے کہ نظربندی کے احکامات نہیں ، سیکیورٹی کی جارہی ہے۔اس صورتحال میں عوامی مسلم لیگ نے جلسے کامقام تبدیل کرنے پر غورشروع کردیاہے۔
حکومت عمران خان اور شیخ رشید کے خلاف حرکت میں آگئی ہے۔بنی گالا اور لال حویلی کا پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری نے گھیراوکرلیا اوراطراف کی سڑکیں کنٹینرز لگا کر بند کردی گئی تاہم پی ٹی آئی کے بعض کارکن گیس ماسک پہنے بنی گالا پر موجود رہے۔ عمران خان کی زیرصدارت پارٹی کی سینئرقیادت کااہم اجلاس بھی ہوا ۔جس میں موجودہ صورتحال سے نمٹنے کی حکمت عملی پرغور کیا گیا۔ ممکنہ نظربندی کے پیش نظرعمران خان کارکنوں کے حصارمیں بنی گالاسے نکلنے اورعمران خان کیلیے نجی کمپنی سے ہیلی کاپٹرکی بکنگ کرانے کی خبریں بھی زیر گردش رہی۔پولیس رکاوٹ کی صورت میں ہیلی کاپٹرکے ذریعے بنی گالہ سے نکلنے کا آپشن بھی زیر غور بھی آیا۔جبکہ کارکنوں پر کریک ڈاون کے بعد شاہ محمود قریشی نے اسلام آباد لاک ڈاون کرنے کے بجائے صرف احتجاج کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں ہروقت نظر ثانی کی گنجائش ہوتی ہے ۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی لوگ ہیں زبردستی کر ہی نہیں سکتے۔ کم از کم وہ کسی زبردستی کے حق میں نہیں ہیں ،اور جمہوری ذہن رکھنے والے شخص ہیں ۔ اس دائرے میں رہ کر ہی تحریک آگے بڑھا سکتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ان کی جماعت اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ یا سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔انھوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کے اس فیصلے کے خلاف حکمِ امتناعی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔جبکہ دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس نے تحریک انصاف کے ایک یوتھ کنونشن کے اجتماع میں کارروائی کرتے ہوئے متعدد کارکنوں کو گرفتار کر لیا ۔اسلام آباد انتظامیہ کے مطابق شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے اور تحریک انصاف نے اس کنونشن کے لیے درکار اجازت نامہ حاصل نہیں کیا تھا۔
اس واقعے کے بعد تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے کارکنوں کی گرفتاری پراگلے  روزجمعے کو ملک بھر میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا ۔اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر حکومت کی جانب سے ایسا ہی رویہ رہا تو آنے والے دنوں میں حالات اور زیادہ کشیدہ ہوں گے۔عمران خان نے کہا ہے کہ کارکن آج کے واقعے پر مشتعل ہیں اور حکومت کے اس اقدام کا بڑا ردعمل آئے گا۔گرفتاری کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انھیں کتنے عرصے تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے اور وہ جب بھی جیل سے باہر نکلیں گے احتجاج کریں گے۔تحریک انصاف کا یہ اجتماع اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون میں ایک پنڈال میں منعقد ہونا تھا تاہم پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں کی بڑی تعداد وہاں پہنچ گئی۔پولیس اور ایف سی کے ان اہلکاروں نے جب کنونشن میں آنے والے کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کیا تو وہاں تصادم کی صورتحال پیدا ہو گئی۔
ٹی وی پر دکھائے جانے والے مناطر میں ایف سی اور پولیس کے اہلکاروں کو کارکنوں پر لاٹھی چارج کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔اس موقع پر وہاں موجود تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے حکومت کے اس اقدام کی سختی سے مذمت کی اور اپنے کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔جب وہ میڈیا سے بات کر رہے تھے تو اس وقت بھی پولیس اور ایف سی اہلکار تحریک انصاف کے کارکنوں کو پکڑ کر وہاں موجود بسوں کے ذریعے منتقل کر رہے تھے۔شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ وہ حکومت کو جواب دینا ہو گا کہ کس جواز کے تحت پرامن اجتماع کو اس طرح کی کارروائی میں نشانہ بنایا گیا۔انھوں نے اس موقع پر اعلان کیا کہ وہ جماعت کے دیگر رہنماں کے ساتھ پولیس کے آئی جی اسلام کے دفتر جا رہے ہیں اور وہاں نہ صرف اس اقدام پر احتجاج کریں گے بلکہ اپنے کارکنوں کی فوری کارروائی کا مطالبہ کریں گے۔تاہم اس کے کچھ دیر بعد شاہ محمود قریشی نے اپنی جماعت کے سربراہ عمران خان کی بنی گالہ میں واقع رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے ورکر کنونشن میں پہنچنے سے پہلے ہی پولیس کا محاصرہ ہو چکا تھا حالانکہ ہم نے کوئی راستہ بند نہیں کیا تھا، کوئی قانون نہیں توڑا تھا پر ایسا کیوں کیا گیا؟
شاہ محمود قریشی نے کہا ہے اس صورتحال پر جماعت کے رہنماں سے مشاورت کر رہے ہیں اور اپنے وکلا کو مختلف تھانوں میں زیر حراست اپنے کارکنوں کی رہائی کے لیے بھیجا جائے گا اور وہ خود بھی کمشنر اور آئی جی پولیس سے ملاقات کریں گے۔جبکہ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا تھا کہ دو نومبر کو جس احتجاج کی کال انھوں نے دی ہے وہ ان کا آئینی حق ہے جس سے انھیں کوئی نہیں روک سکتا۔
اسلام آباد میں اپنی جماعت کے رہنماں کے اہم اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ احتجاج روکنے کی حکومتی کوششوں کی وجہ سے معاملہ انتشار کی جانب جائے گا اور 'جو مرضی ہو جائے ہم نکلیں گے۔پی ٹی آئی کا یہ اجلاس اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس حکم کے بعد بلایا گیا تھا جس میں عمران خان کو دو نومبر کو اسلام آباد بند کرنے سے روکتے ہوئے پریڈ گرانڈ میں احتجاج کرنے کو کہا گیا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے اپنے اس حکم میں کہا ہے کہ احتجاج کرنا سب کا حق ہے لیکن اس کے لیے شہر کو بند نہیں کیا جا سکتا۔عمران خان نے کہا کہ وہ ایک بار پھر پوری قوم کو دو نومبر کے 'فیصلہ کن' اجتماع میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 'میں پاکستان میں انصاف کے اداروں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سے جمہوری پرامن احتجاج کا حق چھینا جا رہا ہے۔ یہ میرا اور میری قوم کا آئینی حق ہے۔ کوئی بھی ہمیں اس سے نہیں روک سکتا۔اس موقع پر تحریکِ انصاف کے رہنما اور معروف وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ 'یہ فیصلہ نہیں ایک حکم ہے۔ یہ حکم ہمیں سنے بغیر جاری کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا اس حکم میں کچھ ایسی چیزیں ہیں جن سے ہم اختلاف کرتے ہیں۔ ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کیا ہائی کورٹ کے پاس اس حکم کو جاری کرنے کا اختیار ہے۔ کیا ہائی کورٹ رٹ پٹیشن میں انفرادی طور پر کسی شخص کو بلا سکتی ہے؟'
نعیم بخاری نے کہا کہ 'ہماری نظر میں یہ حکم اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل کر جاری کیا گیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ اس بات پر غور ہو رہا ہے کہ آیا اس فیصلے کو انٹرا کورٹ اپیل میں چیلنج کیا جائے یا پھر سپریم کورٹ جایا جائے۔اس موقع پر معروف قانون دان بابر اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام عدالتوں پر محکم ہے اور آئین کے آرٹیکل 10کے تحت کسی فریق کو سنے بغیر کوئی فیصلہ یا حکم نہیں دیا جا سکتا۔نعیم بخاری کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'آیا عمران خان کو 31 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونا چاہیے یا نہیں اس حوالے سے 30 تاریخ کو عدالت کو بتا دیا جائے گا۔خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے عمران خان کو 31 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے بھی کہا ہے۔
جبکہ پاکستان میں حزب اختلاف کی کئی سیاسی جماعتوں نے اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے یوتھ کنونشن پر پولیس اور ایف سی کی کارروائی اور گرفتاریوں کی شدید مذمت کی ۔ پرامن احتجاج کو سیاسی جماعتوں کا آئینی اور جمہوری حق تسلیم کرتے ہوئے سیاسی رہنماں نے حکومت کی طرف سے کی جانے والی کارروائی کو بلا جواز قرار دیا ہے۔سیاسی جماعتوں کے رہنماں کا کہنا تھا کہ صورت حال خراب ہوئی تو اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زردرای نے پی ٹی آئی کنونشن پر پولیس کارروائی کو غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔انھوں نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا کہ برسرِاقتدار جماعت کو صبر کے ساتھ کام لینا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ یوتھ کنونشن ایک جمہوری عمل ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کسی بھی جمہوری عمل کو روکنے کی مذمت کرتی ہے۔جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومت کے اس طرح کے ردعمل سے ملک میں انتشار پھیلے گا اور ایک ایسے وقت جب کشمیر کی صورت حال کے پیش نظر ملک میں یکجہتی اور اتحاد کی ضرورت ہے ملک میں افرا تفری انتہائی نقصان دہ ثابت ہو گی۔لیاقت بلوچ نے کہا کہ پاناما سکینڈل پر تحقیقات کرانے کا مطالبہ اگر تسلیم کر لیا جاتا تو یہ نوبت نہ آتی۔جبکہ اسی روز وزیر اعلی پنجاب اور وزرا کی آرمی چیف سے ملاقات ہوئی انھوں نے المائڈا کی خبر کی تحقیقات سے آگاہ کیا۔
وزیر اعلی پنجاب، وفاقی وزیر خزانہ اور وفاقی وزیر داخلہ نے قومی سلامتی کے اجلاس سے متعلق لیک ہونے والی خبر کے حوالے سے ہونے والی تحقیقات سے جنرل راحیل شریف کو آگاہ کیا۔یہ ملاقات آرمی ہاس راولپنڈی میں کی جو شام چار بجے سے ساڑھے پانچ بجے تک جاری رہی۔اس ملاقات میں وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر خزانہ اسحاق ڈار سمیت ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر بھی موجود تھے۔حکومتی وفد نے آرمی چیف کو قومی سلامتی کے اجلاس کی خبر لیک ہونے کی تحقیقات سے آگاہ کیا اور سفارشات بھی دیں۔بعض ہلکوں کی جانب سے ٹوئٹر اور میڈیا پر قیاس آرائیاں بھی کی جانے لگیں جن میں خاص طور پر شہباز شریف کے آرمی چیف کے ساتھ ملاقات پر تعجب کا اظہار کیا جا رہا تھا۔اس موقع پاکستان تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ شہباز شریف رات گئے وفاقی وزرا کے ہمراہ آرمی چیف سے ملنے کیوں گئے جبکہ وفاقی حکومت کی جانب سے دیگر وزار اعلی میں سے کسی کو بھی ساتھ جانے کے لیے نہیں کہا گیا۔اس کے جواب میں مریم نواز نے بھی ٹویٹ ہی کے ذریعے اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ شاید چار بجے تو اتنی تاریکی نہیں ہوتی؟ براہ مہربانی انتشار پھیلانے سے باز رہیں۔
تاہم مبصرین اور تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نواز شریف کے لیے معاملات اور بھی زیادہ بگڑتے جا رہے ہیں مگر شاید وہ اب بھی اس بات سے انکاری ہیں۔اس ضمن میں ممتاز کالم نویس زاہد حسین کا کہنا ہے کہ صورتحال کا تعلق صرف عمران خان کی جانب سے دارالحکومت بند کرنے سے نہیں، بلکہ فوج کے ساتھ بڑھتے ہوئے کشیدہ تعلقات سے ہے جو کہ ان کی سب سے بڑی پریشانی کی وجہ ہونی چاہیے۔ 2014 کے دھرنے کے دوران نواز شریف کو جس صورتحال کا سامنا رہا، اس کے مقابلے میں اس بار صورتحال کہیں زیادہ سنجیدہ ہے۔
افواہیں موجود ہیں کہ 2 نومبر سے پہلے نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان کیا جائے گا، مگر اس سے معاملات میں بہتری آنے کا امکان نہیں ہے۔ سکیورٹی صورتحال پر اعلی سطحی ملاقات کی کارروائی میڈیا میں لیک ہونے والا ایک غیر حل شدہ مسئلہ آرمی چیف کی تبدیلی سے ٹل نہیں جائے گا۔
چنانچہ انتہائی مشکلات میں گھرے وزیر اعظم کے لیے عمران خان کے دھرنے کا اس سے زیادہ بدتر وقت نہیں ہو سکتا تھا۔اس بات کا بھی امکان نہیں کہ حزبِ اختلاف کی دیگر جماعتیں نواز شریف کو پاناما اسکینڈل، جس میں ان کے گھر والے شامل ہیں، میں عدالتی کارروائی پر رضامند کیے بغیر ان کی مدد کو آگے آئیں گی، جس طرح وہ 2014 میں آئی تھیں۔ بال اب ان کے کورٹ میں ہے۔اب عمران خان اس سفر میں تنہا بھی نہیں، بلکہ بالآخر طاہر القادری بھی 2 نومبر کے مارچ میں شرکت کا فیصلہ کر چکے ہیں۔بلاشبہ ان کی جماعت مرکزی دھارے کی سیاسی جماعت نہیں، مگر اتنی جارحانہ ضرور ہے جتنے وہ خود دکھائی دیتے ہیں۔ مفتی صاحب بڑی تعداد میں اپنے انتہائی پرعزم پیروکاروں کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو کسی بھی قسم کے محاصرے کے لیے بھرپور طاقت ثابت ہوں گے۔مگر جو سب سے زیادہ تشویشناک بات ہے، وہ چند انتہاپسند مذہبی گروہوں کی جانب سے اس چڑھائی میں شمولیت کی اطلاعات ہیں، جو کہ ضروری نہیں کہ پی ٹی آئی کی حمایت میں ایسا کر رہے ہیں مگر وہ اس آتے ہنگامے کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
خود ساختہ دفاع پاکستان کونسل، جس میں حافظ سعید اور چند کالعدم جماعتوں کے لیڈران شامل ہیں، بھی سڑکوں پر آنے کا اعلان کر چکی ہے۔
یہ بات یقینا داخلی اور خارجی وجوہات کی بنا پر ایک سنجیدہ تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ اس طرح پاکستان کی جانب سے تمام اقسام کے دہشتگرد اور انتہا پسند گروہوں کو ختم کرنے کی کوششوں پر بین الاقوامی برداری کی جانب سے شکوک و شبہات کو مزید تقویت ملے گی۔بے قابو مشتعل افراد کے دارالحکومت پر دھاوے کے نتائج انتہائی سنگین ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی قسم کی طاقت کا استعمال صورتحال کو مزید بگاڑ دے گا، جو حکومت کی مشکلات کو مزید بدتر کردے گا۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ انتظامیہ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت ریڈ زون کی حفاظت کے لیے آرمی کو بلانے پر بھی غور کر رہی ہے۔مگر کمزور سول ملٹری تعلقات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اقدام بھی غیر متوقع مشکلات کے بغیر نہیں ہے۔ اس کشیدہ صورتحال میں جب مشتعل افراد شہر کو مفلوج بنا رہے ہوں گے، تب کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا۔
وہ خبر، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس اخبار کو دانستہ طور پر فراہم کی گئی، کشیدہ سول ملٹری تعلقات کا واضح اظہار ہے۔ یہ بھی الزام تراشی کے اس کھیل کا ہی حصہ لگتا ہے جو کہ ایک طویل عرصے سے میڈیا پر کھیلا جا رہا ہے کہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد میں ناکامی کا ذمہ دار کون ہے۔ کئی مواقع پر فوج نے عوامی سطح پر "حکومتی نااہلی" کی مذمت کی ہے۔سویلین حکومت پر تنقید کچھ ٹی وی اینکرز اور تجزیہ نگاروں کے ذریعے مسلسل نشر ہوتی رہی ہے۔ یہ یقینا نواز شریف حکومت کے لیے ایک پریشان کن بات ہے جو کہ یہ مانتی ہے کہ یہ حکومت کے خلاف انٹیلیجنس ایجنسیوں کے احکامات پر چلائی جانے والی ایک سوچی سمجھی مہم ہے۔کئی لوگوں کے لیے، ڈان کی خبر نے شاید ہی کہانی کا دوسرا رخ پیش کیا ہو۔ وزیرِ اعظم ہاس کی جانب سے تردید بھی صورتحال کو ختم کرنے میں ناکام رہی کیوں کہ فوج چند لوگوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ نواز حکومت کے لیے اپنی کابینہ کے وزرا یا افسران میں سے کسی ایک کے خلاف بھی اقدام کا مطلب اپنا جرم تسلیم کرنا ہوگا۔حکومت میں ایک مضبوط رائے یہ بھی ہے کہ مسئلے کی شدت وقت کے گزرنے اور اس مہینے کے آخر میں نئے آرمی چیف کے اعلان کے ساتھ کم ہو جائے گی۔ کافی لوگ ایسا مانتے ہیں کہ مسئلہ بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور حکومت میں کوئی بھی ایسا فرد نہیں جو مسئلے کا ذمہ دار قرار پائے۔ مگر فوج اس طرح نہیں سوچتی۔جنرل راحیل شریف کو نومبر کے تیسرے ہفتے میں ریٹائر ہونا ہے۔ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے بارے میں قیاس آرائیاں پہلے سے ہی دفن ہو چکی ہیں مگر اپنے جانشین کو کمان سونپنے تک وہ کمزور نہیں بنے رہیں گے۔ایک اور چیز جو نواز شریف اپنے ماضی کے تجربات کے باوجود سمجھنے میں ناکام رہے ہیں، وہ یہ کہ یہ صرف ایک فرد کا نہیں بلکہ ایک ادارے کا معاملہ بھی ہے۔
شاید یہ بات سچ ہو کہ ایک منتخب سویلین حکومت کے خلاف کچھ کرنے میں فوج کی اپنی حدود ہیں، مگر عدم اعتماد کی بڑھتی ہوئی فضا اور سیاسی کشیدگی کے موقعے پر حکومت کی حمایت سے پیچھے ہٹ جانا یقینا نواز شریف کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔علاازیں اس تنازعے سے ملک میں جاری عسکریت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جنگ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ کوئٹہ اور ملک کے دیگر حصوں میں عسکریت پسند تشدد کی حالیہ لہر مفلوج پالیسی کی جانب ایک اور اشارہ ہے۔ حکومت ہر حادثے کے بعد جاگتی ہے، اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کا عزم دہراتی ہے، اور پھر سو جاتی ہے۔کوئٹہ پولیس اکیڈمی میں ہونے والا دہشتگرد حملہ جس میں 60 لوگ مارے گئے، ایک اور افسوسناک یاد دہانی ہے کہ دہشتگردی کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔ بلاشبہ سول عسکری اختلاف اس بڑے خطرے سے نمٹنے کے لیے ضروری باہمی اور مربوط لائحہ عمل کی عدم موجودگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ الزام تراشی کے کھیل سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اپنے اختلافات کو دور کرنے کی ذمہ داری سویلین اور فوجی دونوں قیادتوں پر عائد ہوتی ہے۔ملکی جمہوری نظام کے لیے خطرہ بنی ہوئی سیاسی کشیدگی کو ختم کرنے کی ذمہ داری بھی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ کوئی بھی فرد یقینی طور پر عمران خان کی اشتعال انگیزی اور دارالحکومت پر دھاوا بولنے کی حمایت نہیں کر سکتا۔ مگر حکومت کو بھی وزیر اعظم کے گھر والوں کے بیرون ملک اثاثوں اور پیسوں کی منتقلی کے معاملے پر احتساب کو نظر انداز کرنے کے لیے اس چیز کا فائدہ نہیں اٹھانا نہیں چاہیے۔نواز شریف کے لیے اس مشکل سے نکلنے کا ایک راستہ، پاناما اسکینڈل کی آزادانہ تحقیقات کی شرائط پر حزبِ اختلاف سے معاہدے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔جب بھی سیاستدان اپنے اختلافات جمہوری طریقے سے حل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تب ایک ماورائے آئین مداخلت کا خطرہ رہتا ہے"۔اے پی ایس