پانامہ تحقیقات: عدالتی کمیشن پر ابہام۔ چودھری احسن پریمی



سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کے فیصلے کے بارے میں ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ عدالت کسی قانون کے تحت یہ تحقیقات کرے گی۔ اس فیصلے سے مزید سوالات نے جنم لیا ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا کہ آیا کمیشن کے ٹی او آرز پر تمام جماعتوں کا اتفاق ہو جائے گا؟۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ قانون سپریم کورٹ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ایک طاقتور کمیشن بنا دے۔ کمیشن بنانے کے موجودہ قانون کے محدود دائرہ کار کا حوالہ دے کر سپریم کورٹ پہلے ہی کمیشن بنانے سے انکار کر چکی ہے۔ اب کونسی ایسے پاور ہے جس کا استعمال کرکے کورٹ ایک طاقتور کمیشن بنائے گی؟۔اس ضمن میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ سپریم کورٹ نے خود ٹی او آرز بنائے ہوں۔یہ بھی خدشہ ہے کہ اس کیس کی وجہ سے سپریم کورٹ کو تنقید کا سامنا کرنا پڑے۔ان کے نزدیک لگتا ہے سپریم کورٹ نے اس صورت حال کو ٹھنڈا کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہو۔ اب معاملہ عدالت میں پہنچ گیا ہے اور قوم کو امید ہے کہ کوئی حل نکلے گا۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالیں تو پاکستان مسلم لیگ نواز کو ہمیشہ عدالتوں سے ریلیف ملا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ اس بار تاریخ بدل جائے۔ عدالت نے تمام جماعتوں سے ٹی او آرز جمع کروانے کو کہا ہے اور عدالت کے بقول اگر ان پر اتفاق ہوگیا تو ٹھیک ہے بصورت دیگر عدالت ٹی او آرز بنائے گی۔ تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ عدالت کو تو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ خود ٹی او آرز بنائے اسے یا کمیشن کو اختیار دیا جاتا ہے۔ اگر عدالت خود ٹی او آرز بنا چاہتی ہے تو اس کے لیے قانون میں تبدیلی کرنا پڑے گی۔تاہم ان سوالوں کا جواب ابھی واضح نہیں ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ اگلی سماعت پر صورتحال کچھ واضح ہو۔جبکہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کسی کی جیت یا ہار نہیں بلکہ پاکستان اور جمہوریت کی جیت ہوئی ہے۔ میں وزیرِ داخلہ کے طور پر نہیں ایک پاکستانی کے طور پر کہتا ہوں کہ پچھلے دو گھنٹے میں جو کچھ ہوا ہے یہ نہ کسی کی ہار ہے نہ جیت۔انھوں نے تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے دھرنا اور اسلام آباد کا لاک ڈان ختم کرنے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ عمران نے جو کہا ہے کہ میں ذاتی طور پر اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور اس کا خیرمقدم کرتا ہوں۔انھوں نے کہا کہ 'خیبر پختونحوا سے اسلام آباد آنے والوں کو روکنے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ پختونوں سے زیادتی ہو رہی ہے ۔پختونوں کا راستہ نہیں بلکہ ایک صوبائی حکومت اور ایک پارٹی کا راستہ روکا گیا۔وزیرِ داخلہ نے کے پی کے سے ملحقہ علاقوں اور راولپنڈی کے عوام سے معذرت کی: 'میں پاکستان کے عوام بالخصوص راولپنڈی کے عوام کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے روزمرہ معمولات میں رکاوٹیں آئیں۔ کے پی کے عوام سے بطور ملکی نمائندہ کے معذرت خواہ ہوں کہ انھیں اگر آنسو گیس سے تکلیف ہوئی۔ یا لاٹھی پڑی، لیکن اس کا باعث حکومت نہیں تھی۔طاہر القادری نے تحریک انصاف کی جانب سے اپنے احتجاج کو یوم تشکر میں بدلنے کے فیصلے پر سب سے دلچسپ تبصرہ کیا۔عمران خان کی جانب سے احتجاجی دھرنے کو یوم تشکر میں تبدیل کرنے پر سب سے دلچسپ اور معنی خیز تبصرہ ان کے سابق رفیق کار علامہ طاہر القادری نے کیا۔ ان سے جب ایک ٹیلی وژن چینل نے پوچھا کہ عمران خان نے بدھ کو اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے کو یوم تشکر میں تبدیل کر دیا ہے اس پر آپ کیا کہیں گے، علامہ کا جواب تھا، اناللہ و انا الیہ راجعون۔اس کی تفصیل علامہ نے کچھ زیادہ نہیں بتائی بس اتنا کہا کہ انھیں سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کیا کہیں اور کیا نہ کہیں۔ یاد رہے کہ علامہ طاہر القادری نے بھی عمران خان کے اس احتجاج کی حمایت کی تھی اور اپنے کارکنوں سے اس احتجاج میں شریک ہونے کا کہا تھا لیکن خود کو اس معاملے سے عملا دور ہی رکھا تھا۔عمران خان کی جماعت اس موقعے پر بظاہر خوشیاں منا رہی ہے۔ پی ٹی آئی ایک رکن نے قوم کو مبادکباد دیتے کہا کہ جمعرات سے نواز شریف کی تلاشی شروع ہو رہی ہے۔وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ عمران خان کو یہ پیشکش حکومت چھ ماہ سے کر رہی تھی۔ انھوں نے آج سپریم کورٹ میں تسلیم کر لی ہے۔ یہ حکومت کی فتح ہے۔خواجہ سعد رفیق نے یوم تشکر کے عمران خان کے اعلان پر کہا کہ وہ جو مرضی کریں، جگہ پریڈ گرانڈ ہی ہے جہاں جلسہ کرنے سے پہلے انہیں ڈپٹی کمشنر اسلام آباد سے باضابطہ اجازت لینا ہو گی جو کہ طریقہ کار ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کے فیصلے پر پاکستان تحریکِ انصاف نے دو نومبر کو اسلام آباد میں ہونے والا احتجاج منسوخ کرتے ہوئے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا ۔ عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور یہ کمیشن وزیراعظم کی کرپشن کا احتساب کرے گا۔ تحریکِ انصاف وزیراعظم کی کرپشن کے مطالبے پر ہی احتجاج کر رہی تھی اور کمیشن کی تشکیل ان کی اخلاقی فتح ہے۔ اب احتجاج کے بجائے دو نومبر کو پریڈ گرانڈ میں یوم تشکر منایا گیا۔انھوں نے کہا تھا کہ 'ریاستی اداروں سے انصاف نہ ملنے کے بعد ہم نے میں فیصلہ کیا تھا کہ ہم اسلام آباد آئیں گے اور اسے بند کریں گے اور ہم نے صرف دو شرائط رکھی تھیں کہ یا نواز شریف استعفی دیں یا پھر تلاشی دیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ تین نومبر سے نواز شریف کی تلاشی شروع ہو گی اور یہ ملک کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی طاقتور کی تلاشی لی جارہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کارکن گھر جائیں، کیونکہ کل دوبارہ اسلام آباد آنا ہے لیکن احتجاج کرنے نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر یوم تشکر منانے کے لیے آنا ہے۔ادھر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند دن پاکستان کی سیاست کے لیے تلخ رہے، تاہم وہ عمران خان کی جانب سے احتجاجی دھرنے کو منسوخ کرنے کے فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔عمران خان نے جو فیصلہ کیا اس میں نہ کسی کی جیت ہے نہ ہار، اگر کسی کی جیت ہوئی ہے تو وہ پاکستان کی ہوئی اور ہمیں اس کا اعتراف کرنا چاہیے۔پاکستان کی جیت امن، جمہورت، قانون کی بالادستی اور اپنے اداروں پر اعتماد میں ہے۔ سیاسی بیان بازی اور گولہ باری ہوتی رہتی ہے لیکن جب یہ سیاسی دشمنی میں بدلنے لگے اور عوام کا نقصان ہو تو یہ عوام دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔چوہدری نثار نے اسلام آباد کے عوام اور موٹر وے پر اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے والے تحریکِ انصاف کے کارکنوں سے معذرت کی اور کہا کہ وہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ اس رکاوٹ کا سبب حکومت نہیں بلکہ اسلام آباد بند کرنے کا اعلان تھا۔جبکہ سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کے تحقیقات کے لیے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے پر اتفاق کرتے ہوئے فریقین سے تین نومبر تک ضوابطِ کار طلب کر لیے ہیں۔اس سے قبل سپریم کورٹ نے کمیشن کے قیام پر یہ تحریری یقین دہانی طلب کی تھی کہ فریقین تحقیقاتی کمیشن کے فیصلے کو من و عن تسلیم کریں گے۔سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ اگر فریقین پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ کمیشن کے ضوابطِ کار پر متفق نہ ہوئے تو عدالت خود ضوابطِ کار بنائے گی۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی آئینی درخواستوں کی سماعت کی۔یہ درخواستیں پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔سپریم کورٹ کا لارجر بینچ چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیر ہانی مسلم، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل ہے۔سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آیا تمام فریقین نے پاناما لیکس کے حوالے سے جواب جمع کروا دیا ہے جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ نیب کے سوا کسی بھی فریق نے جواب جمع نہیں کرایا۔اس سلسلے میں وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل اور سابق اٹارنی جنرل سلمان بٹ کا کہنا تھا کہ انھیں پانچ دن قبل ہی وکیل مقرر کیا گیا ہے لہذا انھیں جواب داخل کروانے کے لیے مزید مہلت درکار ہے۔اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پوری قوم کی نظریں پاناما لیکس پر لگی ہیں اس لیے جواب جمع ہونا چاہیے تھا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بادی النظر میں یہ معاملہ عوامی ہے اس لیے اس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو سکتی ہے۔سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ تھا کہ پاناما لیکس کا معاملہ سامنے آتے ہی اس کی تحقیقات شروع کر دی جاتیں۔انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں نیب، ایف آئی اے اور
ایف بی آر تاخیر اور اپنا کام احسن طریقے سے سرانجام نہ دینے کے ذمہ دار ہیں۔اس پر عدالت نے نیب کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیب اور دیگر اسے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانے میں سنجیدہ نہیں تھے۔عدالت نے سماعت کے آغاز میں تو کمیشن بنانے کی درخواست رد کی اور کہا جب معاملہ سپریم کورٹ میں آ گیا ہے تو اب اس کی کیا ضرورت ہے۔حامد خان نے جب عدالت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تو بینچ نے کہا کہ سپریم کورٹ نہ تو ٹرائل کورٹ ہے اور نہ ہی کوئی تحقیقاتی ادارہ۔تاہم بعد ازاں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کے کسی جج کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا جاتا ہے تو فریقین اس بات کی تحریری یقین دہانی کروائیں کہ اس کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے گا۔ادھر سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ کمیشن کی تجویز پر اگر دونوں فریق متفق ہیں تو انھیں کمیشن کی 'فائنڈنگز' پر بھی متفق ہونا پڑے گا۔انھوں نے کہا کہ 'ہم نے آج سے چھ ماہ قبل ہی الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کے لیے سپریم کورٹ کو خط لکھا تھا۔اگر آج کمیشن بنتا ہے تو یہ ہماری ہی تجویز کی توثیق ہو گا۔وزیر دفاع نے کہا کہ حکومت آئین کا احترام کرتی ہے اور آئین اعلی عدالیہ اور محترم ججوں کے احترام کا درس دیتا ہے۔انھوں نے کہا کہ 'یکم نومبر کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے معاملے پر کارروائی کا باقاعدہ آغاز کیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس مخمصے کا فیصلہ ہو۔خواجہ آصف نے کہا کہ اب جب معاملہ عدالت میں ہے تو سڑکوں پر احتجاج کو کوئی جواز موجود نہیں ہے اور عدالت قوم کو اس احتجاج کی سیاست سے نجات دلوائے۔ وزیراعظم نے پاناما لیکس کے معاملے پر ان کی نااہلی سے متعلق الیکشن کمیشن میں دائر درخواستوں پر جواب داخل کروادیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو بغیر ثبوتوں کے دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کرنے کا اختیار نہیں ہے اس لیے ان درخواستوں کو خارج کیا جائے۔سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کی وساطت سے محمد نواز شریف کی طرف سے جمع کروائے گئے اس جواب میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار جن معاملات کے ثبوت ہی فراہم نہیں کرسکے ان درخواستوں کو کیسے قابل سماعت قرار دیا جاسکتا ہے۔چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے پانچ ارکان پر مشتمل اس خصوصی بینچ نے وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور اس جماعت کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔سماعت کے دوران دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل اس جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جن سیاسی جماعتوں نے ان درخواستوں میں وزیر اعظم پر الزامات عائد کیے ہیں ان کے ثبوت بھی فراہم کرنا بھی درخواست گزاروں کی ذمہ داری ہے لیکن ان درخواستوں کے ساتھ کوئی ثبوت لف نہیں کیے گئے۔محمد نواز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب پانامالیکس میں ان کا نام ہی نہیں ہے تو پھر ان درخواستوں کی بادی النظر میں کوئی قانونی حثیت نہیں بنتی۔ اس جواب میں الیکشن کمیشن سے استدعا کی گئی کہ وہ ان درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دے کر مسترد کردے۔اس جواب میں الیکشن کمیشن کے دائرہ سماعت کو بھی چیلنج کیا گیا اور کہا گیا کہ الیکشن کمیشن جھوٹ پر مبنی ان درخواستوں کی سماعت نہیں کرسکتا۔سماعت کے دوران وزیر اعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کی طرف سے ان درخواستوں پر جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ان پر جواب دینے کے لیے تیار ہیں تاہم پاکستان تحریک انصاف کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ انھیں دلائل کی تیاری کے لیے وقت چاہیے۔عدالت کے ایک ہفتے کاوقت دیا تاہم حامد خان کا کہنا تھا کہ چونکہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات بھی ہور ہے ہیں اس لیے اگلے ماہ کی کوئی تاریخ دے دی جائے جس پر الیکشن کمیشن نے ان درخواستوں کی سماعت دو نومبر تک کے لیے ملتوی کردی۔عمران خان نے کہا تھاکہ اس عرصے کے دوران وزیر اعظم کے پاس دو ہی راستے ہیں کہ یا وہ خود کو احتساب کے لیے پیش کریں یا پھر مستعفی ہوں۔انھوں نے کہا کہ جو سیاسی جماعتیں حکمرانوں کی حمایت کر رہی ہیں وہ دراصل ملک میں بدعنوانی کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں۔عمران خان نے حکومت کو دھمکی دی کہ اگر انھیں نظر بند کرنے یا پھر ان کے کارکنوں پر تشدد کرنے کی کوشش کی گئی تو حالات کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔انھوں نے کہا کہ بدعنوانی کے معاملے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور وزیر اعظم میاں نواز شریف ایک ہی پیج پر ہیں۔پی ٹی آئی کے چیئرمین نے الزام عائد کیا کہ موجودہ حکومت نے عدلیہ سمیت تمام اداروں میں اپنے بندے بھرتی کیے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ احتساب کرنے والے ادارے موجودہ وزیر اعظم کا احتساب کرنے سے خوفزدہ ہیں۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پانامالیکس کے معاملے پر وزیر اعظم کی نااہلی سے متعلق درخواستوں کے سماعت کے لیے 20 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے جبکہ الیکشن کمیشن میاں نواز شریف کی نااہلی کی درخواستوں کی سماعت اگلے ماہ کرے گا۔اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ملک میں سکیورٹی کی موجودہ صورت حال کے پیش ِنظر تقریبا چار ماہ سے اسلام آباد میں جاری احتجاجی دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔عمران خان نے پشاور میں منعقدہ کل جماعتی کانفرس میں شرکت کے بعد اسلام آباد کے ڈی چوک میں اپنے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس میں وزیراعظم نواز شریف کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔انھوں نے کہا اگرچہ میں وزیراعظم کی جانب سے بلوائی جانے والی کانفرنس میں حکومتی رویے کی وجہ سے شرکت نہیں کرنا چاہتا تھا تاہم میں نے ملک کی خاطر اس کانفرنس میں شرکت کی۔عمران خان نے دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کور کمانڈر پشاور نے ہمیں بتایا کہ کیا حالات ہیں، جو دہشت گردی ہوئی ہے اس میں سرحد سے باہر سے بھی فورسز بھی ملوث ہیں ہم نے بات چیت کی کہ ان حالات میں ہم کیا کریں، ملک کی یہ ضرورت ہے کہ ساری قوم اکھٹی ہو، اور کیا اس وقت میں ہم اپوزیشن کریں اور دھرنے میں بیٹھے رہیں، میں اس نتیجے میں آیا کہ جو آج پاکستان کے حالات ہیں ہمیں دھرنا ختم کرنا پڑے گا۔عمران خان نے پشاور حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے طالبان کا نام لیے بغیر کہا اس وقت کا تقاضا ہے کہ ملک اکھٹا ہو اور جنھوں نے بھی یہ کیا ہے ان کا مل کر مقابلہ کریں۔عمران خان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے موقف کو دوہرایا کہ وہ سال 2013 میں مبینہ انتخابی دھاندلی کی تحقیقات کے مطالبے پر قائم ہیں اور اگر نواز شریف تحقیقات کے وعدے سے پیچھے ہٹے تو پھر دوبارہ احتجاج کیا جائے گا۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ مبینہ انتخابی دھاندلی کے تحقیقات کے لیے جلد عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے اور اس ضمن میں جلد مذاکرات کیے جائیں۔خیال رہے کہ تحریک انصاف نے اگست میں مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا شروع کیا تھا اور اس کے بعد اپنے پلان سی کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع کیے تھے۔عمران خان نے اس ضمن میںملک گیر احتجاج کی کال دے رکھی تھی تاہم پشاور میں شدت پسندی کے واقعے کے بعد تحریک انصاف نے ملک گیر احتجاج کی کال واپس لے لی تھی۔ عمران خان نے کہا کہ انھوں نے وزیرِ اعظم نواز شریف سے جو سوالات کیے ہیں انھی کے جوابات وہ پہلے اپنی ذات کے حوالے سے دینا چاہتے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ بڑی بیصبری سے وزیر اعظم کی قومی اسمبلی میں تقریر کا انتظار کر رہے ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ وزیرِاعظم ان کی تقریر سننے کے لیے پارلیمنٹ میں رکیں گے یا نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے اپنی آف شور کمپنی کے بارے میں وضاحتی بیان دینا چاہتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ حزب مخالف کی جماعتیں یہ امید کر رہی ہیں کہ میاں نواز شریف قومی اسمبلی کے اجلاس میں سات سوالوں کے جواب دیں گے۔حزب مخالف کا مطالبہ رہا کہ وزیرِ اعظم محض تقریر نہ کریں بلکہ ان کے سوالوں کا جواب دیںان کا کہنا تھا کہ ایک لیڈر پر جب کوئی بات آتی ہے تو وہ الٹا الزامات نہیں لگاتا بلکہ صفائی پیش کرتا ہے کیونکہ وہ عوام کو جواب دہ ہے۔انھوں نے وزیرِ اعظم کو مخاطب کر کے کہا میں آج صفائی پیش کروں گا۔ جو جواب میں دوں گا وہ بھی وہی جواب دیں۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو اپنی تقریر کے بعد حزب مخالف کی جماعتوں کے قائدین کی تقاریر سننی پڑیں گی اور پاناما لیکس کے بارے میں حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے متفقہ طور پر پوچھے گیے سات سوالوں کا جواب دیں گے۔ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا حکومتی خط کا جواب حزب مخالف کی جماعتوں کے موقف کی تائید ہے۔عمران خان پاکستان پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر فرینڈلی اپوزیشن کا الزام لگاتے رہے ہیںدوسری جانب حزب مخالف کی جماعتوں کا اجلاس قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاس میں منعقد ہو اہے جس میں پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے چیف جسٹس کا حکومت کو لکھے جانے والے خط اور اس معاملے کے لیے ضوابط کار طے کرنے سے متعلق غور کیا جاچکا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اپنے تیسرے دورِ اقتدار میں ایک بار پھر مشکل صورتحال میں گھرے دکھائی دے رہے ہیں۔تاہم سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کی رائے مختلف ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یا تو کوئی نیا قانون بنا کر عدالت کو اختیار دیا جائے یا پھر موجودہ قانون میں ترمیم کی جائے تاہم ایسی کوئی کوشش ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ پاناما پیپرز کے حوالے سے تحقیقات کئی ماہ میں نہیں، برسوں کی بات ہے، پاناما دستاویزات تک رسائی، تحقیقات پھر لوگوں کو دفاع کا حق ملنا یہ طویل معاملہ ہے۔بدعنوانی کے الزامات نہ تو نواز شریف اور نہ ہی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر لگائے جانے والے پہلے الزامات ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سیاست دانوں پر سب سے زیادہ یہ ہی الزام لگایا جاتا رہا ہے۔وزیراعظم نواز شریف کو اس سے قبل دونوں مرتبہ اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں مل سکا اس بار بھی ان پر پہلے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگے اور اب ان کے خاندان کے اثاثوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ منتخب حکومتوں میں کمزوریاں رہی ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ اس قسم کے بحرانوں میں غیر منتخب ادارے اپنا قد اونچا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ مختلف حرکتیں کرتے ہیں، میڈیا پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں کہ ان پر زیادہ دبا ڈالیں اور یہ ایک حقیقت ہے جو ہم آج کل دیکھ رہے ہیں۔وزیراعظم اپنا عہدہ تو کبھی نہیں چھوڑیں گے اور نہ ہی پاکستان کی تاریخ میں ایسی کوئی روایت ہے مگر حل یہی ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر وزیراعظم سپریم کورٹ کو کوئی متفقہ فارمولا پیش کریں کیونکہ اس ملک میں پہلے کئی بار ایسی صورتحال دیکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ نے مداخلت کی۔خیال رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت حزبِ مخالف کی دیگر جماعتوں نے پانامہ پیپرز میں وزیراعظم کے خاندان پر لگنے والے الزامات کے بعد مشترکہ طور پر وزیرِاعظم سے سات سوالات پوچھے تھے اور ان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں آ کر ان سوالوں کا جواب دیں۔ پامانہ پیپرز کے حوالے سے مخالفین نے جو بھی گرد اڑائی ہے اور حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا ہے، وزیراعظم اس حوالے سے ایوان کے سامنے حقائق پیش کرنے چاہیے تھے۔حزبِ مخالف کی جانب سے وزیرِ اعظم سے پوچھے گئے سات سوالوں کے حوالے سے پرویز رشید کا کہنا تھا کہ اگرچہ وزیرِ اعظم تمام تفصیل واضح کریں گے لیکن اسمبلی میں سوال پوچھنے کے کچھ آئینی تقاضے ہیں اور وزیرِاعظم سے وقف سوالات میں ہی سوال کیا جا سکتا ہے۔وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ وزیرِاعظم حزبِ مخالف کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات پر تفصیل سے بات کریں گے تاکہ عوام حقائق سے آشنا ہو سکیں۔ وزیراعظم کی تقریر کے بعد یہ واضح ہو جائے گا کہ ان پر جو الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔وزیراعظم پاناما لیکس پر دو بار قوم سے خطاب کر چکے ہیں لیکن اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئیایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اپنے بچوں کے بیرونِ ملک کاروبار کے بارے میں جو بھی حقائق ہیں وزیرِاعظم تفصیل سے ایوان کو اس بارے میں آگاہ کر دیں گے۔وزیرِ اعظم کی جانب سے ایوان میں کم آنے کے حوالے سے پرویز رشید کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اپنے مخصوص حالات ہیں اور وزیرِ اعظم کو بہت سے دیگر کام کرنے ہوتے ہیں۔انھوں نے کہا ملک میں جاری فوجی آپریشن، توانائی کے بحران، معاشی بدحالی اور ایسے دیگر مسائل کی وجہ سے وزیرِاعظم بہت مصروف رہتے ہیں جس کے باعث وہ ایوان میں کم آتے ہیں۔دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماہ شاہ محمود قریشی نے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم منتظر ہیں کہ وزیرِاعظم اپنے اوپر لگے الزامات کی کیا وضاحت پیش کرتے ہیں۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وزیرِاعظم اس حوالے سے دو بار قوم سے خطاب کر چکے ہیں لہذا ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ ایوان میں تقریر کے بجائے مشترکہ حزبِ اختلاف کے جانب سے اٹھائے گئے سات سوالات کا مفصل جواب دیں۔ حزبِ مخالف کا مطالبہ تھا کہ وزیرِاعظم وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائیں جو اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کے عدالتی کمیشن کے لیے مشترکہ ٹی او آرز بنائے۔شاہ محمود قریشی کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا وزیرِاعظم سے یہ بھی مطالبہ ہوگا کہ ایک مشترکہ قانونی کمیٹی بنائی جائے جو عدالتی کمیشن بنانے کے لیے قانون سازی کرے کیونکہ چیف جسٹس نے 1956 کے ایکٹ کے تحت کمیشن کی تشکیل کو مسترد کر دیا ہے۔تحریکِ انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ ہم وزیراعظم سے کہیں گے کہ وہ تحقیقات مکمل ہونے تک اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں۔مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم وزیرِاعظم کا موقف سننے کے بعد حزبِ مخالف کی جماعتوں کے مشترکہ اجلاس میں اس حوالے سے کوئی فیصلہ کریں گے۔پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور بظاہر حکومت کے لیے اس بحران سے نکلنے کے راستے مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے حکومت کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہاتھا کہ جو ضوابطِ کار حکومت نے تجویز کیے ہیں ان کے تحت بنایا جانے والے کمیشن بے اثر ہو گا اور تحقیقات ضوابطِ کار واضح نہ ہونے کی وجہ سے سالہاسال چل سکتی ہیں۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے پاناما پیپرز کی چھان بین کے لیے حکومت کے تھمائے ہوئے لامحدود ضابطہ کار کی روشنی میں 1956 کے پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت پاناما ایک بے جان پوپلے کمیشن کی تشکیل سے معذوری کے باوجود ابھی دیر نہیں ہوئی۔سپریم کورٹ کے رجسٹرار ارباب محمد عارف کی طرف سے وفاقی سیکرٹری قانون کے خط میں حکومت کے لیے لائف لائن موجود ہے اگر اس کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔اول یہ کہ ضابطہِ کار کا دائرہ لامحدود سے گھٹا کر محدود کیا جائے۔ ایسا اپوزیشن کے ساتھ بیٹھے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔
حکومت 1956 کے ایکٹ کے تحت ایک بے جان کمیشن کی تشکیل کے بجائے سپریم کورٹ کی اس تجویز پر دھیان دے کہ پارلیمنٹ بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں ایک موثر قانون بنانے کی کوشش کرے، جس کے تحت قائم ہونے والا کمیشن بار آور و نتیجہ خیز ثابت ہو سکے۔ یہ کام بھی اپوزیشن کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ۔