نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو درپیش چیلنجز۔ چودھری احسن پریمی



امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ابتدائی طور پر 30 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کریں گے یا پھر انھیں جیلوں میں ڈال دیں گے۔امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کو ایک انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں، گینگسٹروں اور منشیات فروخت کرنے والے پناہ گزینوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔نو منتخب ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران کیے اپنے ایک اور وعدے کی تصدیق کی کہ وہ میکسیکو کے ساتھ متصل سرحد پر دیوار تعمیر کروائیں گے۔ تاہم ان کے اس وعدے میں کچھ حد تک تبدیلی آئی ہے۔
گذشتہ دنوں رپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹک امیدوار ہلیری کلنٹن کو شکست دی تھی جس نے تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا تھا، کیونکہ اکثریت کو امید تھی کہ ہلیری کلنٹن امریکی صدراتی انتخاب جیت جائیں گی۔ڈونلڈ ٹرمپ اب آئندہ سال 20 جنوری کو اس وقت اقتدار سنبھالیں گے جب موجودہ صدر باراک اوباما کی صدارتی مدت مکمل ہو جائے گی۔آٹھ نومبر کو ہونے والے انتخابات میں کانگریس کے دونوں ایوان میں بھی رپبلکن جماعت نے اکثریت حاصل کر لی ہے۔امریکہ میں اس وقت تقریبا ایک کروڑ دس لاکھ غیر رجسٹرڈ تارکین وطن موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر میکسیکو سے آئے ہیں۔جب ٹرمپ سے میکسیکو کی سرحد کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ دیوار تو سرحد کے بعض حصوں کے لیے مناسب ہے لیکن بعض حصوں میں باڑ بھی لگائی جا سکتی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ایک بار سرحد کو محفوظ بنا دیا جائے تو دیگر غیر رجسٹرڈ تارکین وطن کا جائزہ لیا جائے گا۔یاد رہے کہ نو منتخب ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل کہا تھا کہ ان کی بنائی ہوئی دیوار ایک ہزار میل تک پھیلی ہو گی اور بچ جانے والے حصے میں قدرتی رکاوٹیں بقیہ کام کریں گی۔
جائیداد کے اکلوتے وارث، ارب پتی کاروباری، شہ سرخیوں کی زینت بننے والے، ریلٹی ٹی وی اسٹار اور اب امریکہ کے نومنتخب صدرڈونالڈ ٹرمپ دنیا بھر میں آفس ٹاورز، ہوٹل، کیسینوز، گاف کورسز اور مشہور تنصیبات کے مالک ہیں۔ وہ ٹرمپ آرگنائزیشن کے سربراہ اور صدر ہیں، جو ان کی جائیداد اور کاروباری مفادات پر مشتمل ہولڈنگ کمپنی ہے۔وہ نیویارک سٹی کے کوئینز بورو میں پیدا ہوئے۔ ٹرمپ جمائکا اسٹیٹس کے امیر ترین مضافات میں پلے بڑھے، وہ ریئل اسٹیٹ کی تعمیر و ترقی سے وابستہ رہے۔ ان کا انداز حاکمانہ رہا ہے، جو انھوں نے اپنے اولوالعزم بیٹے کو منتقل کیا ہے۔
سنہ 1968 میں ڈونالڈ ٹرمپ نے وارٹن اسکول آف فائننس سے گریجوئیشن کی۔ان کے والد بروکلن اور کوئینز میں تعمیراتی منصوبوں سے منسلک رہے، جب کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے مین ہٹن میں بلند و بالا عمارات کھڑی کیں۔مین ہٹن میں بروکلن برج سے باہر کام کرنا مشکل مرحلہ تھا، جہاں جرائم کی شرح بڑھی ہوئی تھی اور شہر ویران اور بے رونق تھا۔ لیکن، نوجوان ٹرمپ نے والد کے ذریعے کاروباری روابط قائم کیے۔ اس حمایت کے نتیجے میں، ٹرمپ کہتے ہیں کہ انھوں نے 10 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری سے اپنی ذاتی کمپنی قائم کی۔
سنہ 1970 کی دہائی میں، محکمہ انصاف نے ٹرمپ آرگنائزیشن پر فیئر ہازنگ ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام لگایا، جس کے ذریعے اقلیت کو ان کی عمارتیں کرائے پر لینے سے روکا گیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اس مقدمے کا فیصلہ عدالت سے باہر طے کیا۔بعد میں، ایک اہم قدم کے طور پر، ٹرمپ نے گرینڈ سینٹرل اسٹیشن کے ساتھ والا ایک ہوٹل خریدا، جو دیوالیہ قرار دیا جا چکا تھا۔ انھوں نے سات کروڑ ڈالر ادھار لیے اور نیو یارک سٹی سے ٹیکس کی مراعات مانگیں، اور تعمیر نو کے بعد انھوں نے اسے گرینڈ ہائٹ ہوٹل کا نام دیا۔ٹرمپ ٹاور ان کی پہچان بنا، جو 20 کروڑ ڈالر مالیت کے اپارٹمنٹ اور آڑھت کے کاروبار پر مشتمل ایک تنصیب ہے، جس کی تعمیر میں گلابی رنگ کا سنگ مرمر استعمال ہوا، جس کی 58 منزلیں ہیں، جب کہ آبشار 18 میٹر بلند ہے۔
نیو جرسی میں ایٹلانٹک سٹی میں کیسینوز کی تعمیر کی وجہ سے بھی، ٹرمپ کو شہرت ملی۔ پہلے ٹرمپ پلازا، پھر ٹرمپ کیسل اور پھر، تاج محل تعمیر کیا جس پر ایک ارب ڈالر خرچ آئے۔ لیکن، بعد میں دیوالیہ پن کا شکار ہوئے۔سنہ 1990 میں جب جائیداد کی مارکیٹ کریش ہوئی، تو ان کی ملکیت 1.7 ارب ڈالر سے گِر کر 50 کروڑ ڈالر رہ گئی۔کڑکی سے بچنے کے لیے، انھوں نے رقوم ادھار لیں، اور نئے سرمایہ کار تلاش کیے۔لیکن، گھر کے محاذ پر، طلاق کے معاملے سے نہ بچ سکے۔ ذرائع ابلاغ میں انھیں دی ڈونالڈ سے پہچانا جانے لگا۔ انھوں نے اپنی پہلی بیوی، اوانا کو طلاق دی، جن سے ان کے تین بچے ہیں۔ بعد میں انھوں نے مارلہ میپلز سے شادی کی، اور طلاق دی۔ ٹرمپ نے سنہ 2005 میں اپنی موجودہ بیوی، سلووینا سے تعلق رکھنے والی ماڈل، ملانیا سے شادی کی۔ان کے ریئلٹی ٹی وی شو دِی اپرنٹس نے ٹرمپ کو ایک اداکار کا درجہ دیا۔ ٹرمپ کی املاک کے منتظم بننے کی خواہش رکھنے والے سخت مقابلے کی دوڑ میں شامل ہوئے۔ ناکام ہونے والوں کی فائل پر ٹرمپ یو آر فائرڈ تحریر کیا کرتے تھے۔اس شو کی وجہ سے ٹرمپ کو 20 کروڑ ڈالر سے زائد کی کمائی ہوئی۔
سنہ 80 کی دہائی میں، پہلی بار، ٹرمپ نے کھلے عام سیاست میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ انھوں نے ریفارم پارٹی میں شمولیت اختیار کی، پھر ڈیموکریٹک پارٹی میں شامل ہوئے، اور پھر آزاد سیاست اپنائی۔ سنہ 2012 میں انھوں نے ری پبلیکن ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اِس بات کا عہد کیا کہ وہ ملک کو پھر سے عظیم بنائیں گے۔امیدوار کے طور پر متنازع بیانات ٹرمپ کی شہرت کا باعث بنے، جن میں انھوں نے میکسیکو کے تارکین وطن پر امریکہ میں منشیات کی اسمگلنگ اور دیگر مسائل کا ذمہ دار ہونے کا الزام شامل ہے۔ان کا متنازع حل: امریکی سرحد پر دیوار تعمیر کی جائے گی جس پر اٹھنے والے اخراجات میکسیکو بھرے گا۔کیلی فورنیا میں شوٹنگ کے واقعے کے بعد، ان کا اِس سے بھی زیادہ متنازع بیان یہ مطالبہ تھا کہ مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ بند کیا جائے۔ پھر بھی، ری پبلیکنز میں ان کی حمایت میں اضافہ دیکھا گیا، جن کا کہنا ہے کہ روزگار کے زیادہ مواقع پیدا کرنے اور عام امریکی کے لیے مواقع کی فراہمی کے لیے وہ ٹرمپ پر بھروسہ کرتے ہیں۔امریکی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ صدارتی انتخاب پہلے جیسا نہیں ہے۔اِس سیاسی اکھاڑے میں، شوخ مزاج اور متنازع ٹرمپ کا مقابلہ سابق وزیر خارجہ اور خاتون اول، ہیلری کلنٹن سے تھا۔ یہ ایسا ٹکرا تھا جو کسی کے خواب و خیال میں نہیں تھا۔
امریکی تاریخ کے سب سے ڈرامائی سیاسی اپ سیٹ کے مکمل ہوتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 45ویں صدر بن جائیں گے۔اس سے قبل ناقدین کہتے رہے کہ معیشت پر پانچ ایسے سوالات پیش خدمت ہیں جن کے جوابات نئے امریکی صدر کو دینا ہوں گے۔کیا وہ مارکیٹ کو مستحکم کر سکتے ہیں؟۔یہ سوال بظاہر غیر موزوں لگ رہا ہے کیونکہ صدر ٹرمپ 20 جنوری سے پہلے تو اقتدار سنبھال نہیں سکتے اور دس ہفتے مارکیٹ کے حوالے سے ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے۔تاہم اس سے فرار بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا کہ رائے عامہ کے اختتامی لمحات تک اقتصادی مارکیٹ میں ہلیری کلنٹن کی جیت کی بات ہو رہی تھی۔اس خبر کے بعد کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے نئے صدر ہوں گے، عالمی بازار حصص کو زبردست جھٹکا لگا ہے۔ سرمایہ کاروں میں بھی کافی غصہ پایا جاتا ہے۔ہر کوئی اکنامک پالیسی کے بارے میں جاننا چاہتا ہے جو کہ آئندہ سامنے آنے والی ہے۔کیا ٹرمپ انتظامیہ موجودہ تجارتی معاہدوں کو ختم کرنے والی ہے؟۔صدر کے انتخاب میں ان کی مہم کا بھی بہت بڑا حصہ ہے جس میں انھوں نے موجودہ امریکی تجارتی معاہدوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان معاہدوں میں سب سے اہم شمالی امریکی فری ٹریڈ کا معاہدہ شامل ہے جس کے تحت قریبی پڑوسی ممالک کے ساتھ جن میں میکسیکو اور کینیڈا شامل ہیں ٹیرف فری تجارت ہوتی ہے۔ٹرمپ یہ بھی کہہ چکے
ہیں کہ وہ ان نئے معاہدوں پر دستخط نہیں کریں گے جن پر اوباما انتظامیہ اتفاق کر چکی ہے، جن میں ٹرانز پیسیفک پارٹنرشپ (ٹی پی پی) نمایاں ہے۔اس سے ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کے موجودہ تجارتی روابط کے فریم ورک کو سائڈ پر رکھنے کے امریکہ اور عالمی معیشت پر شدید نتائج مرتب ہوں گے۔کیا وہ فیڈرل ریزروو کی آزادی کو کم کریں گے؟
عالمی مالیاتی نظام کے لیے ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران سب سے تشویش ناک پہلو ان کا امریکی مرکزی بینک، فیڈرل ریزروو کی آزادی پر سوالات اٹھانا تھا۔ان کا دعوی تھا کہ فیڈرل چیف جینیت یلن نے ریٹس صدر اوباما کے حکم پر کم رکھے تھے، جو کہ بذات خود امریکی اور عالمی مالیاتی نظام پر حملہ تھا۔خیال رہے کہ فیڈرل ریزروو خود مختار ہے اور وہ منتخب سیاستدانوں کے کنٹرول سے باہر رہ کر مانیٹری پالیسی مرتب کرتا ہے۔اگر ڈونلڈ ٹرمپ اس مفروضے کا اظہار نہیں کرتے تو معاشی مارکیٹ میں ہر کسی کو اپنے تبدیل کرنا ہوں گے۔ٹرمپ کیسے امریکی پیداوار میں اضافہ کریں گے؟۔امریکی صدارتی انتخاب کے لیے آغاز کرتے ہوئے ان کا سب سے بڑا دعوی یہ تھا کہ وہ امریکی معیشت کو اس شرح نمو کو پر واپس لے جائیں گے جس گذشتہ دہائیوں نہیں تو کئی سالوں تک نہیں دیکھی گئی۔
جیسے ہی ٹرمپ اقتدار سنبھالیں گے تو ان پر شدید دبا ہوگا کہ وہ یہ سب کرنے کے لیے کیسے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔اوباما انتظامیہ ایک ایسی معاشی توسیع کر چکی ہے جسے اب کئی سال ہو چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے معاشی منصوبے صدر اوباما سے بڑی حد تک مختلف ہیں، وہ تیزی سے ٹیکسوں میں کمی کرنا چاہتے ہیں خاص طور پر امیروں پر، لیکن یہ تو واضح ہے کہ ان کے پاس امریکی معیشت میں اضافے کا راز موجود ہے۔وہ کانگرس کے ساتھ کام کیسے کریں گے؟۔ٹیکسوں میں کمی یا حکومت کے ساتھ فیڈرل کے تعلقات، یا پھر تجارتی معاہدوں پر ازسر نو غور کرنے کے لیے تمام صدور کے لیے کانگریس کا تعاون حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔رپبلکن پارٹی اب صدارت، ایوان اور سینیٹ کو سنبھالے گی لیکن ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کے اندر ڈونلڈ ٹرمپ کے 18 ماہ قبل انتخابی مہم کے آغاز کرنے کے بعد سے کافی تقسیم ہو چکی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ ان جیسے کئی سوالات کے جوابات کیسے دیں گے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ کیسے کانگرس کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی بات کو لوگوں تک پہنچانے میں بہت زیادہ موثر شخصیت ہیں۔سر ایلٹن جان نے بظاہر کہا تھا کہ وہ بغیر آواز اور بغیر ساز کے بہترین براہ راست پرفارمر ہیں۔ وہ لوگوں سے شاندار طور پر گفتگو کرتے ہیں۔لیکن ایک چیز جسے ان کے سامعین شاید بھول گئے وہ ان کا 'برگزٹ پلس پلس پلس' کا وعدہ ہے۔
تاہم یورپین یونین کے ٹرمپ بارے اپنے تحفظات ہیں کہ برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ کیوں ہوا یہ بہت سے امریکیوں کے لیے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں لیکن اس سے ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے اس کی کیا معنویت تھی وہ بہت اہم ہے۔انھوں نے اس سے یہ سبق لیا کہ اگر برطانیہ جیسا ایک بورنگ، ہوشمند، قدامت پسند ملک مستقبل کی پرواہ کیے بغیر برگزٹ کے حق میں ووٹ دے سکتا ہے تو انھیں یہ یقین تھا کہ امریکیوں کو بھی اپنی جست لینے کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔برگزٹ ووٹنگ کے ایک دن بعد میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ سکاٹ لینڈ کے مغربی ساحل پر ان کے ٹرن بیری گولف کورس کے دوبارہ کھلنے کے موقعے پر گیا۔انھوں نے نویں ٹی پر بحرِ اوقیانوس کے ساحل پر پریس کانفرنس کی۔ اس دن امریکہ اور برطانیہ کے درمیان تین ہزار میل پھیلے پانی کا فاصلہ کسی بھی طرح کم نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس دن انھیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ امریکی ان کے میک امریکہ گریٹ اگین کے پیغام پر لبیک کہیں گے۔امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو واضح جیت حاصل ہوئی ہے اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے مزدوروں کے غصے کو پہچانا جن کا خیال تھا کہ ملک غلط سمت میں جارہا ہے، امیگریشن کے متعلق لوگوں کے خدشات کو پہچانا کہ وہ کنٹرول سے باہر ہے۔ یہ پہچانا کہ تجارتی معاہدوں
سے امریکہ کے محنت کش مزدوروں کو نقصان پہنچا ہے اور یہ کہ ڈیموکریٹس ان کی بندوقیں ان سے چھین لیں گے اور یہ کہ سپریم کورٹ کو مزید لبرل سمت میں جھکایا جائے گا۔انھوں نے اس بیانیے کو اہمیت دی کہ امریکہ بہت تیزی کے ساتھ بدل رہا ہے اور واشنگٹن میں بیٹھے سیاست داں اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔اس لیے سیاست کے باہر کے فرد کے طور پر ان کے پیغام کی لوگوں میں بازگشت سنائی دینے لگی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی دیوار گرا کر اس کی اینٹوں سے جنوبی سرحد پر ایک دیوار بنائیں گے۔
آخر کے دنوں میں ان کی انتخابی مہم ہر چہار سمت سے پریشانیوں کا شکار رہی۔ انھیں ہالی وڈ ٹیپ سکینڈل کا سامنا رہا۔ ان کے خلاف خواتین آئیں جنھوں نے کہا انھوں نے ان کے خلاف ان کی خواہش کے بغیر دست درازی کی۔ مختلف شدت کے ٹوئٹر کے طوفان دیکھنے کو آئے۔ہلیری کلنٹن کو ایف بی آئی سے اپنی مہم کے معاملے میں دقت ہوئی ہوگی لیکن کون جانتا ہے کہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔ایک چیز جو ان کی مہم کے دوران بالکل غیرمستحکم رہی وہ بڑی بھیڑ تھی جو ان کی ریلیوں میں اس امید کے ساتھ شامل ہوتی تھی کہ وہ ان کی دعاوں کا نتیجہ ہیں۔اس چیز نے ارب پتی تاجر کو وہ اعتماد فراہم کیا جو انتخابی جزیات کے ماہرین اور تجزیہ کار دیکھنے سے قاصر رہے کہ بہت سے نہ نظر آنے والے ووٹرز ان کے لیے نکلیں گے۔
ٹرمپ ایک بار پھر درست ثابت ہوئے۔ ان کی حمایت کا تخمینہ ہمیشہ کم لگایا گیا۔اس طرح امریکہ کی تاریخ میں ایک نیا اور حیرت انگیز باب لکھا گیا۔ ایک شخص جسے حکومت کا کسی شکل میں کوئی تجربہ نہ ہو اور کبھی کسی منتخب عہدے پر نہیں رہا ہو وہ امریکہ کا نیا صدر ہے۔ اس نے اپنے ناقدوں اور مخالفین کو چپ کرا دیا ہے۔اور اب ٹرمپ زبردست قوت کے ساتھ وائٹ ہاس میں جائیں گے جہاں صدارت، رپبلیکن سینیٹ اور رپبلیکن کے زیر کنٹرول ایوان نمائندگان ہوگی۔ان کے پاس عہد ایفا کرنے کے ذرائع ہیں۔ وہ اپنے نامزد شخص سے سپریم کورٹ کی خالی جگہ کو پر کریںگے۔ انھیں اس ڈیڈ لاک کا شکار نہیں ہونا پڑے کا جس کا صدر براک اوباما کو سامنا تھا۔انھوں نے امریکہ کو عظیم بنانے کا وعدہ کیا ہے اور اب انھیں اس کو نبھانا ہے۔ امریکہ کے نو منتخب صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ اب وائٹ ہاس جانے والے ہیں لیکن بہت سے نجی مقدمات بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان مقدمات کی نوعیت کیا ہے اور یہ کس طرح ان کی صدارت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ غیر معمولی طور پر ایک متنازع بزنس مین ہیں جو کہ ہزاروں مقدمات میں ملوث رہے ہیں جو یا تو انھوں نے خود دائر کیے یا پھر وہ اپنے خلاف عائد مقدمات کا دفاع کیا۔
منتخب صدر گذشتہ 30 سال میں لگ بھگ 4000 مقدمات میں فریق رہے جن میں سے اس وقت 75 مقدمات چل رہے ہیں۔ان مقدمات میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اس وقت غیر فعال ٹرمپ یونیورسٹی کے ان سابقہ طالب علموں کی جانب سے کیے گئے ہیں۔ جن کا دعوی ہے کہ ان سے ریئل سٹیٹ کے گر سکھانے کے لیے دسیوں ہزار ڈالر لیے گئے لیکن ایسا کیا نہیں گیا تاہم ٹرمپ ان کے ان دعوں کی تردید کرتے ہیں۔یہ مقدمات صدر منتخب ہونے سے بہت پہلے قائم کیے گئے تھے اس لیے مسٹر ٹرمپ کوصدارتی اثتثنی حاصل نہیں اور انھیں ان مقدمات کے لیے عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ٹرمپ کے خلاف سب سے بڑا فراڈ کیس ٹرمپ یونیورسٹی کے طالب علموں کی جانب سے دائر کیا گیا ہے جن کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی مارکیٹنگ کی جانب سے انھیں دھوکہ دیا گیا ہے۔ یہ کیس سنہ 2010 میں دائر کیا گیا جو کہ سان تیاگو میں28 نومبر کو شروع ہوگا۔مسٹر ٹرمپ کے وکیل نے عدالت سے کہا ہے کہ وہ انھیں اگلے برس کے اوائل تک کی مہلت دیں کیونکہ صدارتی امور کی منتقلی کے لیے انھیں وقت درکار ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انھوں نے معاملے کے حل کے لیے مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔
مسٹر ٹرمپ نے مقدمے کے جج گونزالو کیورئیل پر بھی موروثی رنجش کا الزام عائد کیا ہے۔ جج کے والدین کا تعلق میکسیکو سے ہے اور اپنی صدارتی مہم کیدوران ٹرمپ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار تعمیر کریں گے۔ انھوں نے میکسیکو کے عوام کو مجرم اور قاتل اور ریپ کرنے والے والا کہا تھا۔مسٹر ٹرمپ کے خلاف دوسرا کیس بھی سان ٹیاگو میں ہی دائر ہے جس میں ٹرمپ کے سکول کو ایک مجرمانہ ادارہ قرار دیا گیا ہے۔ابھی وکلا اس مقدمے میں شواہد کے لیے کوششیں کر رہے ہیں اور مقدمے کے آغاز کی تاریخ طے ہونا بھی باقی ہے۔تیسرا کیس نیویارک میں دائر ہوا جس میں مسٹر ٹرمپ کی غیر لائسینس یافتہ یونیورسٹی کے بارے میں کہا گیا کہ اس یونیورسٹی کے ذریعے نیویارک کے عوام کو چار کروڑ ڈالر کا دھوکہ دیا گیا۔اس درخواست پر جج نے مارچ میں مقدمے کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم مسٹر ٹرمپ نے اس فیصلے کے حلاف اپیل کر دی تھی۔ مسٹر ٹرمپ کی کمپنی پر فراڈ، بلوں کی عدم ادائیگی، کنٹریکٹ کے تنازعات اور صنفی امتیاز کے 75 مقدمات درج ہیں۔جیوپیٹر اور فلوریڈا میں ٹرمپ کے گاف کورس کے ممبران نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے ان سے 24 لاکھ ڈالر فیس لی لیکن کلب سے ان کی رکنیت معطل کر دی گئی۔اسی کلب کی ایک سابقہ ملازمہ نے گذشتہ ماہ ایک مقدمے میں کہا کہ انھیں غیر قانونی طور پر نوکری سے اس وقت نکال دیا گیا جب انھوں نے اپنے ایک ساتھی پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا تھا گیا۔ادھر رپبلکن پارٹی کے پولیٹیکل معاون کیرل جیکوبس نے ٹرمپ پر 40 لاکھ ڈالر کا ہتک عزت کا کیس دائر کیا ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ ٹرمپ نے ٹویٹر پر انھیں 'جعلی' کہہ کر ان کا کریئر تباہ کر دیا ہے۔ایک اور کیس کس کی سماعت 29 نومبر کو شکاگو میں ہوگی میں مسٹر ٹرمپ پر الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے اپنی مہم کا پیغام عوام کے سیل فونز پر بھیج کر صارفین کے حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔
مسٹر ٹرمپ کے خلاف عائد اہم مقدمات میں دو مقدمات ایسے بھی ہیں جو ان کی جانب سے میکسیکن عوام کے حلاف دیے جانے والے نازیبا بیان پر معروف شیف جیوفری زکیرین اور جوش اینڈرس کی جانب سے دائر کیے گئے ہیں۔ ان دونوں نے واشنگٹن میں نومنتخب صدر کے لگژری ہوٹل سے کی جانے والی ڈیل بھی ختم کر دی ہے۔اپنی مہم کے دوران مسٹر ٹرمپ نے بھی کہا تھا کہ وہ ان تمام خواتین کے خلاف مقدمات دائر کریں گے جنھوں نے ان پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ان الزامات کو چھاپنے والے اخباروں پر بھی مقدمہ دائر کریں گے۔اسی طرح انتخابات سے قبل نیو یارک سٹیٹ کے اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ان کا دفتر اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا ٹرمپ فانڈیشن چیریٹی ملک کے قانون پر عمل کر رہا ہے یا نہیں۔ادھر انٹرنل ریوینیو سروس مسٹر ٹرمپ کی جانب سے ادا کیے جانے والے ٹیکسوں کی آڈیٹنگ کر رہا ہے۔انتخابی مہم کے دوران نیویارک ٹائمز نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ فیڈرل ٹیکس کو 18 برس تک نظر انداز کرتے رہے۔اسی طرح انتخابات سے قبل نیو یارک سٹیٹ کے اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ان کا دفتر اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا ٹرمپ فانڈیشن چیریٹی ملک کے قانون پر عمل کر رہا ہے یا نہیں۔بہت سے سول مقدمات مسٹر ٹرمپ کے لیے اس بات کے لیے دبا بڑھا سکتے ہیں کہ وہ اپنا ریکارڈ ظاہر کریں۔ برطانوی سیاسی جماعت یوکِپ کے سابق سربراہ نائجل فراج نے امریکہ میں رپبلکن ارکان سے کہا ہے کہ وہ پوری طرح تیار ہو کر باہر نکل آئیں اور پارٹی کے نامزد امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔
نائجل فراج امریکی ریاست مسی سپی میں جیکسن کے مقام پر 15 ہزار کے قریب رپبلکن حامیوں سے خطاب کر رہے تھے۔ وہاں ڈونلڈ ٹرمپ نے جلسہ کے شرکا سے ان کا تعارف بھی کرایا۔نائجل فراج نے کہا کہ رپبلکن پارٹی اور اس کے صدارتی امیدوار انتخابی جائزوں کو شکست دے سکتے ہیں۔مسٹر ٹرمپ نے، جو حالیہ انتخابی جائزوں میں حریف امیدوار ہِلیری کلنٹن کے مقابلے میں خاصے پیچھے ہیں، برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کی حمایت کی تھی۔گذشتہ ہفتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ انھیں جلد ہی مسٹر بریکسٹ کے نام سے پکارا جائے گا۔مسٹر ٹرمپ نے نائجل فراج کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے زبردست مہم کے ذریعے برطانیہ کی یورپی یونین کی 40 سالہ رکنیت کے خاتمے کے لیے عوامی حمایت حاصل کی۔اگر آپ اس ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ اپنے پیدل چلنے کے بوٹ پہنیں اور انتخابی مہم کے لیے باہر نکل آئیں۔
نائجل فراج نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ وہ رپبلکن پارٹی کے لیے امید اور بہتر مستقبل کا پیغام لائے ہیں۔ انھوں نے مسٹر ٹرمپ کی صدارتی مہم کا بریکسٹ ریفرنڈم کے لیے چلائی جانے والی مہم سے موازنہ کیا۔اگر آپ اس ملک میں تبدیلی چاہتے ہیں تو آپ اپنے پیدل چلنے کے بوٹ پہنیں اور انتخابی مہم کے لیے باہر نکل آئیں۔ اور یاد رکھیں کہ اگر کافی تعداد میں لوگ اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہونے پر آمادہ ہو جائیں تو ہر کامیابی ممکن ہو جاتی ہے۔آپ رائے عامہ کا جائزہ لینے والی کمپنیوں، تجزیہ کاروں اور واشنگٹن سب کو شکست دے سکتے ہیں۔فراج نے گذشتہ ماہ کلیولینڈ میں ہونے والے رپبلکن کنونشن میں بھی شرکت کی تھی۔ وہ ماضی میں یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ صدارتی دوڑ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرنے کے چکر میں نہیں آئیں گے۔تاہم جیکسن میں انتخابی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اگر وہ امریکی ہوتے تو وہ کبھی بھی مسز کلنٹن کو ووٹ نہ دیتے چاہے اس کے لیے انھیں پیسوں کی پیش کش ہی کیوں نہ کی جاتی جبکہ امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وائٹ ہاس میں منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات بہترین ماحول میں ہوئی؛ اور یہ کہ 20 جنوری تک کے دو ماہ کے عبوری دور میں، میرا اولین کام، خوش اسلوبی کے ساتھ اقتدار کی منتقلی میں سہولت فراہم کرنا ہو گا۔اوباما نے کہا کہ صدر کے طور پر منتخب صدر، ٹرمپ کی کامیابی، امریکہ کی کامیابی ہوگی۔انھوں نے یہ بات ڈیڑھ گھنٹے تک اوول آفس میں منتخب صدر، ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ جاری رہنے والی پہلی ملاقات کے بعد، اخباری نمائندوں سے مختصر بات چیت میں کی۔اِس موقعے پر، منتخب صدر، ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ یہ بہترین ملاقات تھی جس میں خوش کن اور مشکل معاملات۔۔ دونوں ہی زیر غور آئے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے صدر اوباما کی تعریف کرتے ہوئے بتایا کہ ان دونوں کی یہ پہلی ملاقات تھی، اور یہ کہ اوباما ایک اچھے انسان ہیں۔ملاقات کے بارے میں، صدر اوباما نے بتایا کہ منتخب صدر ٹرمپ کے ساتھ وسیع جہتی امور، اور کچھ تنظیمی نوعیت کے معاملات پر گفتگو ہوئی، جس میں بیرونی امور بھی شامل ہیں۔ٹرمپ نے کہا کہ وہ مستقبل میں بھی اوباما سے ملنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انھوں نے آج کی ملاقات کو عزت کا معاملہ قرار دیا۔اوول آفس ملاقات سے قبل، وائٹ ہاس نے کہا تھا کہ اقتدار کی پرامن منتقلی ہماری جمہوریت کے اصولوں کی اساس ہے۔جس وقت وائٹ ہاس میں اوباما، ٹرمپ ملاقات کر رہے تھے، اسی وقت مشیل اوباما اور ملانیا ٹرمپ اگزیکٹو مینشن کے نجی کوارٹر میں ایک دوسرے کے ساتھ نجی ملاقات کی۔وائٹ ہاس نے بتایا ہے کہ جب ڈیموکریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار، ٹرمپ کی کامیابی واضح ہوئی، صدر اوباما نے اہل کاروں سے کہا تھا کہ وہ عبوری دور میں دونوں انتظامیہ کے درمیان خیر اسلوبی سے اقتدار کی منتقلی کے کام کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔جبکہ یورپی یونین کے صدر کا کہنا ہے کہ مسٹرٹرمپ نے نیٹو پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں جس کے نقصان دہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں کیونکہ نیٹو یورپ کے دفاع کا ایک ماڈل ہے۔یورپی یونین کمشن کے صدر جین کلاڈ یونکر نے کہا ہے کہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان تعلقان کے لیے ایک خطرہ بن سکتے ہیں۔ لگسمبرگ میں ایک کانفرنس میں طالب علموں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب جنوری میں وہ اپنا صدراتی عہدہ سنبھالیں گے تو انہیں یورپی یونین کے ساتھ کا م کرنے کی رفتار میں تیزی لانی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ سیاسی طبقہ اور امریکہ کی عمومی طور پر یورپ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مسٹر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ کہہ چکے ہیں کہ میں اپنے صدر کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ بیلجیئم کی یورپ میں حیثیت ایک چھوٹے سے قصبے کی ہے۔ اگر آپ دور سے دیکھیں تو یہ ایک نقطے کی طرح نظر آتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ نہیں ہے ۔ اس لیے ہمیں نو منتخب امریکی صدر کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یورپ حقیقت میں کیا ہے اور یورپ کس طرح کام کرتا ہے۔انہوں نے کانفرنس میں موجود لوگوں کو بتایا کہ مسٹرٹرمپ نے نیٹو پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں جس کے نقصان دہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں کیونکہ نیٹو یورپ کے دفاع کا ایک ماڈل ہے۔یورپی یونین کے صدر کے اعلانیہ تبصرے انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں کامیابی پر کئی یورپی راہنماں کے ان خدشات کی عکاسی کرتے ہیں ، جو اپنے کئی بیانات میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن کی تعریف اور نیٹو کے تحت اجتماعی دفاع کے اصول پر نکتہ چینی کر چکے ہیں۔اپنی ڈیموکریٹک حریف ہلری کلنٹن پر مسٹر ٹرمپ کی فتح کے بعد یورپی یونین اور یورپی کونسل کے صدر نے نو منتخب امریکی صدر کودہشت گردی اور یوکرین سمیت دیگر مسائل پر بات چیت کے لیے یورپی یونین اورامریکہ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی تھی ۔ ایک ایسے موقع پر ٹرمپ کی جیت، جب کہ رائے عامہ کے جائزے ہلری کلنٹن کی فتح کی پیش گوئیاں کررہے تھے، سب کے لیے حیران کن تھی۔روس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا ہے اور وہاں کے عہدے دار، تجزیہ کار اور عام شہری یہ توقع کر رہے ہیں کہ ان کی کامیابی روس اور امریکہ کے درمیان تعلقات کا نیا باب ثابت ہو سکتی ہے۔روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے ٹرمپ کو ان کی کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو موجودہ بحران سے باہر نکالنے، بین الاقوامی مسائل کے حل اور دنیا کو درپیش سلامتی کے چیلنجز کے مقابلے کے لیے وہ امریکہ کے نئے صدر کے ساتھ مل کر کام کریں گے ۔امریکہ کا انتخابی عمل دیکھنے کے سلسلے میں روس میں امریکی سفیر جان ٹیفٹ کی رہائش گاہ پر روسی اور مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات اکھٹی ہوئیں اور انہوں نے بین الاقوامی اور روس کے میڈیا سے گفتگو کی۔روس کی کچھ تجزیہ کاروں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ آیا انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ کی شعلہ بیانیاں ایک صدر کے طور پر ان کی پالیسیوں میں منتقل ہوں گی اور کیا وہ روس امریکہ تعلقات بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا کر سکیں گے۔ماسکو میں قائم ایک تھنک ٹینک کارنیگی سینٹر کے ڈائریکٹر دمتری ترنین کا کہنا ہے کہ روسی حکام صدر ٹرمپ کے ساتھ جلد مل بیٹھنے اور روس امریکہ تعلقات پر بات چیت کے موقع کا خیر مقدم کریں گے۔ماسکو کی سڑکوں اور گلی کوچوں میں زیادہ تر روسی شہریوں نے ٹرمپ کی فتح کا گرم جوشی سے خیر مقدم کیا۔روسیوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی کسی اور امیدوار کے مقابلے میں روس کے لیے ایک بہتر انتخاب ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ روس کے زیادہ خلاف نہیں ہیں۔ روسی ترجمان کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چاہے انتخابات کا نتیجہ کچھ بھی نکلتا ہے اور کسی کی بھی جیت ہوتی ہے، لیکن اس سے یہ نتیجہ برآمد ہو گا کہ امریکی جمہوریت کتنی بدعنوان ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ایک ایسے موقع پر جب کہ امریکہ بھر میں صدارتی انتخابات ہوئے، کریملین کے صدارتی ترجمان ڈمیٹری پسکوف نے امریکی ووٹروں کے لیے ایک اپیل جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ روس کا امریکی انتخابات میں مداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔وہائٹ ہاس کریملین پر ڈیموکریٹک پارٹی کے کمپیوٹر ہیک کرنے، ہلری کلنٹن کی انتخابی مہم سے متعلق ای میلز افشا کرنے، جن کے بارے میں امریکی انٹیلی جینس کا کہنا ہے کہ اس میں روس کی خفیہ ایجنسی ملوث ہے، اور روسی میڈیا پر امریکی صدارتی امیدواروں کے بارے میں مہم چلانے کے الزامات عائد کرتا ہے۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ تقریبا ایک سال کے عرصے میں روس کی جانب سے امریکی انتخابات میں مرکزی کردار ادا کرنے کے بعد اب کریملین کی جانب سے یہ کہنا ہے کہ اسے سبو تاژ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، ایک بعید از قیاس اور خلاف عقل بات ہے۔جبکہ روس کے صدارتی ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکیوں کو ہمارے ساتھ کافی مسائل ہیں۔جب کہ دوسری جانب روس کا سرکاری ٹیلی وژن یہ کہتا رہا کہ روحیں قبروں سے نکل کر ہلری کے لیے ووٹ ڈال رہی ہیں۔روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے کہا کہ روسی حکومتی عہدیدار نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ارکان سے رابطے میں رہے ہیں۔ "ہم ان کے وفد کے بہت سے لوگوں کو جانتے ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ سے امریکہ میں توجہ کا مرکز رہے ہیں اور اعلی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان سب سے تو نہیں لیکن چند ایک روسی نمائندوں سے رابطے میں رہے ہیں۔"تاہم ٹرمپ کی مہم کی ترجمان ہوپ ہکس نے اس دعوے کو مسترد کیا جب کہ ٹرمپ خود بھی ایسے تاثر کو مسترد کرتے رہے ہیں کہ وہ روسی حکومت کے ساتھ رابطے میں رہے۔روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے بلومبرگ نیوز کو بتایا کہ روسی سفارتخانے کے عملے کے ارکان ٹرمپ کی مہم کے نمائندوں سے ملے جو ان کے بقول ایک "معمول کی بات" ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ڈیموکریٹ ہلری کلنٹن کی مہم کے ارکان نے تاہم ایسی ملاقاتوں کی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا۔انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ اور روس کے صدر ولادیمر پوتن ایسے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ تعلقات کی بہتری میں دلچسپی رکھتے ہیں۔یوکرین اور شام میں روس کی فوجی کارروائیوں کے معاملے پر ٹرمپ کا رویہ اپنی ریپبلکن جماعت کی نسبت نرم رویہ اپنائے ہوئے تھے۔پوتن نے ٹرمپ کو انتخاب میں کامیابی پر مبارکباد دی تھی اور ان کی کامیابی کا روسی پارلیمنٹ میں بھی خیر مقدم کیا گیا۔اے پی ایس