نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے باوجودسول فوجی تناو ختم ہوگا ؟۔چودھری احسن پریمی



صدرمملکت ممنون حسین نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چیف آف آرمی اسٹاف کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ جنرل راحیل شریف کو باوقار انداز سے الوداع کہنا خوش آئند ہے۔صدرممنون حسین نے ایوان صدر میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے اعزاز میں عشائیہ دیا اور ان سے الوداعی ملاقات کی۔اس موقع پر صدر پاکستان نے کہا کہ جنرل راحیل شریف کا آپریشن ضرب عضب میں اہم کردار ہے جو پاکستان کی تاریخ کا سنہرا دور ہے۔انھوں نے کہا کہ جنرل راحیل شریف نے یقین دلایا کہ کراچی آپریشن جاری رہے گا۔ممنون حسین کا کہنا تھا کہ کراچی اور بلوچستان سمیت ملک کے کئی حصوں میں آپریشن امن کی بحالی میں کامیاب ثابت ہوا ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے اپنے پیشرووں کی رہنمائی کے لیے اچھی روایت قائم کی ہے۔
قبل ازیں جنرل راحیل شریف نے ملتان اور بہاولپور گیریژن کا الوداعی دورہ کیا اور جوانوں اور افسروں سے خطاب بھی کیا۔وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے اپنے الوداعی ملاقات میں کہا تھا کہ جنرل راحیل شریف نے اپنے عزم اور محنت سے خود کو بہترین آرمی چیف ثابت کیا ہے۔واضح رہے کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے 28 نومبر کو ریٹائرمنٹ کے پیش نظر ایک ہفتہ قبل الوداعی دوروں کا آغاز کیا تھا۔وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ سخت محنت اور عزم و ہمت کی بدولت راحیل شریف بہترین آرمی چیف ثابت ہوئے۔وزیر اعظم نے آرمی چیف کے اعزاز میں دیے گئے الوداعی عشائیے سے خطاب کے دوران ملکی دفاع کیلئے جنرل راحیل شریف اور ان کے اہلخانہ کی خدمات کو سراہا۔نواز شریف نے کہا کہ جنرل راحیل شریف کو بہترین خدمات پر آرمی چیف مقرر کیا گیا تھا اور ملک کے دفاع کیلئے ان کا خاندان کی خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ جنرل راحیل شریف سے اسٹریٹیجک مشاورت کرتا تھا اور مستقبل میں بھی ایسا کرتا رہوں گا۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا کہ وہ ان خوبصورت الفاظ اور ہمیشہ تعاون کرنے پر وزیر اعظم کے مشکور ہیں۔اس سے قبل نواز شریف نے آرمی چیف سے ملاقات بھی کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔وزیراعظم ہاس میں آرمی چیف کے اعزاز میں دیے گئے اس عشائیے کی تقریب میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ، لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد، لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر رضوان اختر سمیت اعلی سیاسی، سول اور فوجی قیادت نے بھی شرکت کی۔
'میرا جینا اور مرنا ملک کے لیے ہے'، یہ جملہ پاک فوج کے بہادر آرمی چیف راحیل شریف کا ہے، جو رواں ماہ 29 نومبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوجائیں گے۔جنرل راحیل شریف نے 28 نومبر 2013 کو پاکستان کے 15ویں سپہ سالار کا منصب سنبھالا، انہیں 20 دسمبر 2013 کو نشان امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔جب 2013 میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے آرمی چیف کا منصب راحیل شریف کے سپرد کیا تو وہ اس دوڑ کے پسندیدہ امیدوار نہیں تھے۔اپنے آگے آنے والی ہر مشکل کو پار کرتے ہوئے وہ آرمی چیف تو بن گئے تاہم اس کے بعد بھی ان کے ناقدین ان پر شک کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ انہیں انٹیلی جنس اور کارروائیوں کے پس منظر کا کچھ خاص علم نہیں۔تاہم راحیل شریف نے اپنے ناقدین کو غلط ثابت کیا، ان کے دور کا سب سے اہم کارنامہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب تھا، جس کا آغاز 2014 جون میں کیا گیا۔
راحیل شریف کو عوام کی جانب سے بے پناہ مقبولیت اور پذیرائی ملی، پاکستان کا ہر شخص 'شکریہ راحیل شریف' سے بخوبی واقف ہے۔کہتے ہیں کہ روایات لوگوں کے ذہنوں میں گھر کرتی ہے اور پھر لوگ آپ کے بارے میں کہانیاں دوسرے لوگوں کو سناتے ہیں۔اس ضمن معروف  دانشور زاہد حسین نے اپنی ایک رائے میں کہا ہے کہآرمی کمان حاصل کرنے کے کئی ہفتوں بعد جنرل راحیل شریف نے اپنے ایک مہمان کو بتایا کہ وہ اپنے پیچھے طاقتور روایت چھوڑنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ ایک انتہائی پروفیشنل فوجی کے طور پر اپنے عہدے سے پورے وقار سے سبکدوشی کے ساتھ انہوں نے اپنے ادارے کا وقار بلند کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ایسا کہا جا سکتا ہے کہ ہماری تاریخ میں ایسا کوئی دوسرا آرمی چیف نہیں گزرا ہوگا جس نے اس قدر عزت اور مقبولیت حاصل کی ہوگی۔ بلاشبہ اس ملک میں ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے، یہاں اکثر فوجی سربراہان غاصب بن جاتے ہیں اور رسوا ہو کر رخصت ہوتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف کی فیصلہ کن صلاحیتوں اور ان کی سربراہی کو ایک مثال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
مگر اسی اثنا میں جنرل راحیل شریف نے اپنے کئی مقبول مداحوں کو مایوس کیا ہے جن میں ٹی وی ٹاک شوز کے میزبان اور تبصرہ نگار بھی شامل ہیں جو مسلسل ان کے عہدے کی مدت میں توسیع کا مطالبہ کرتے رہے۔ چند نے تو ملک کو فوجی حکومت کی طرف موڑنا بھی چاہا۔ اس کے بعد انہیں فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی دیے جانے یا سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والی چند مسلم ملکوں کی مجوزہ مشترکہ افواج کی کمان سنبھالے جانے کی افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں۔
مگر آئی ایس پی آر کی جانب سے جنرل راحیل کے مختلف فوجی چھانیوں کے الوداعی دورے کرنے کے اعلان کے ساتھ تمام قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں اور پرجوش تبصرہ نگاروں کی خواہشات ادھوری رہ گئیں۔ وہ ہر گز بوناپارٹ ازم کی لیگیسی کی پیروی نہیں کرنا چاہتے۔ وہ کسی بھی تنازع میں نہیں گھرے۔ رخصت ہونے والے فوجی سربراہ کے معاملے میں ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے۔ ان کی باقار رخصتی سے ان کا کردار اب اور بھی بلند ہو چکا ہے۔
جنرل راحیل شریف عظیم حکمت عملی ترتیب دینے والے یا مفکر بھلے نہ ہوں مگر انہوں نے ایسے سخت فیصلے ضرور کیے جن سے دہشتگردوں کو موڑ توڑ جواب دیا گیا، البتہ ان کے چند اقدامات پر جائز سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے پیچھے ایک ایسا خلا چھوڑ کر جا رہے ہیں جسے پر کرنا ان کے بعد آنے والے کے لیے دشوار ہوگا۔ نئے چیف کے لیے بھلے کسی کا بھی انتخاب کیا جائے مگر انہیں کئی خطرناک چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ ابھی جنگ میں مکمل فتح نہیں ملی ہے۔
یقینا شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے کامیاب اختتام کا سہرا جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے، جس علاقے کے بارے میں بین الاقوامی دہشتگردی کا بنیادی مرکز اور ہر قسم کے عسکری گروپوں، جن میں القاعدہ سے لے کر پاکستانی اور افغان طالبان شامل ہیں، کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ اس آپریشن میں تاخیر کی وجہ سابقہ فوجی قیادت اور سول انتظامیہ کے تحفظات تھے۔ فیصلے میں اس ہچکچاہٹ سے ایک بھاری رقم چکانی پڑی۔
جنرل راحیل شریف کے کمان حاصل کیے جانے کے بعد جلد ہی فوج حرکت میں آئی۔ انہوں ان لوگوں کے تمام خدشات غلط ثابت کر دیے جو ان خطرناک علاقوں میں جانے سے خبردار کر رہے تھے اور وہاں موجود باغیوں سے مصالحتی راہ اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے تھے۔ مگر ایک یہ بھی حقیقت ہے کہ سابق فوجی قیادت اگر جنوبی وزیرستان اور دیگر قبائلی ایجنسیوں کو طالبان باغیوں سے کلیئر نہ کرتی تو شمالی وزیرستان کی مہم میں کامیابی حاصل نہ ہو پاتی۔سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کی شاید عہدے میں توسیع کے بعد کی مدت کے دوران عملی سستی پر تنقید کی جاسکتی ہے مگر آپ کو یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ یہ ان کی ہی انسداد بغاوت کی حکمت عملی تھی جس کی مدد سے زیادہ سے زیادہ قبائلی اور خیبر پختونخوا کے علاقوں کو طالبان کے چنگل سے آزاد اور وہاں ریاست کی رٹ قائم کی گئی۔
درحقیقت جنرل کیانی نے جہاں سے یہ سلسلہ چھوڑا وہاں سے ہی جنرل راحیل شریف نے نہ صرف اسے شروع کیا بلکہ زیادہ مثر انداز میں جاری رکھا۔ جس فوج کی قیادت جنرل راحیل شریف کر رہے تھے وہ اور بھی زیادہ تجربہ اور جنگی مہارت حاصل کرچکی تھی۔ اس لڑائی میں زیادہ تر سینئرز کمانڈرز نے حصہ لے کر ان کے ٹاسک کو اور بھی زیادہ آسان بنا دیا۔ یقینا آپریشن ضرب عضب میں کامیابی کے لیے تسلسل کو قائم کرنا نہایت ضروری تھا۔مگر انسداد دہشتگردی کے آپریشنز کا دائرہ ملک کے مرکزی حصوں میں بھی بڑھانے کا سہرا جنرل راحیل شریف کو جاتا ہے۔ جس کی مدد سے ملک میں تشدد میں کمی واقع ہوئی۔
مگر اب بھی پرتشدد انتہاپسندی کے چیلنچ سے نمٹنے کے لیے ایک کامل اور جامع طریقہ کار کی کمی کا ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے، جس کے باعث انسداد بغاوت کی مہم میں حاصل ہونے والی اب تک کی کامیابیاں بھی گنوائی جا سکتی ہیں۔خاص طور پر فوجی قیادت کے لیے بلوچستان ایک سنجیدہ چیلنچ رہا ہے، اس صوبے کوحکمت عملی کے اعتبار سے غیر معمولی خطے میں واقع ہونے کی وجہ سے کم درجے کے آزاد پسند افراد سے لے کر بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد تک، کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ماضی کی ناقص حکمت عملیاں سکیورٹی ایجنسیز کے لیے مشکلات کھڑی کر چکی ہیں۔
افغانستان میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام کی وجہ سے اطلاعات کے مطابق صوبے کو افغان باغی، مرکزی بیس کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، اس طرح صورتحال اور بھی زیادہ حساس ہو چکی ہے۔ اس کے بعد عالمی جہادی گروپس اور فرقہ وارانہ عکسریت گروپس کے درمیان بڑھتی قربتوں نے ریاست کو درپیش مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ وہ ایک علاقہ ہے جہاں جنرل راحیل شریف نے زیادہ کامیابی حاصل
 نہیں کی۔یقینا سولین حکام کو بھی اس ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔ یہ بنیادی طور پر سول اور فوجی قیادت کے مسلسل تنازعات کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے کوئی بہتر پالیسی ترتیب نہیں دی جا پاتی۔ حالانکہ جنرل راحیل شریف کے ذہن میں کسی قسم کی سیاسی خواہشات نہیں تھیں، مگر دونوں کے درمیان عدم اعتماد کا خاتمہ نہ ہو پایا۔
بلکہ گزشتہ چند مہینوں کے واقعات نے جنرل راحیل شریف کے آخری دنوں کو کافی متاثر کیا۔ چند اطلاعات کے مطابق فوجی قیادت نے قومی سلامتی پر اعلی سطح کے اجلاس کی کارروائیوں کی میڈیا لیک کی تحقیقات مکمل نہ ہونے پر وزیر اعظم ہاس میں کسی بھی اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔
سول فوجی تنا کے اصل اسباب مہینے کے آخر میں فوجی سربراہ کی تبدیلی سے ختم نہیں ہو جائیں گے۔ یہ کسی فرد سے زیادہ ایک ادارے کی بات ہے۔چیف کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ فوج کے اعلی سربراہان کی تبدیلی کا سیزن آ گیا ہے۔ یقینا نئے چیف کی تقرری کا خصوصی اختیار وزیر اعظم کو حاصل ہے۔ چار امیدواروں میں سے کسی کو بھی اس عہدے پر فائر کرنے سے فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اگر ان کے تجربات اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو مد نظر رکھا جائے تو، ان میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔اب جبکہ کئی سینئر کمانڈرز جلد ہی ریٹائر ہو رہے ہیں تو نئے آرمی چیف کو اپنی ٹیم بھی تشکیل دینی ہوگی۔ فوجی قیادت میں تبدیلی ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ملک اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ بلاشبہ ہر کوئی یہی توقع رکھتا ہے کہ نیا سربراہ اپنے عہدے پر بیٹھے سابق سربراہ کی روایات کی پیروی کرے گا، جبکہ کچھ ناکامیوں سے سبق حاصل کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔اے پی ایس