نئے آرمی چیف جنرل باجوہ کو درپیش چیلنجز۔چودھری احسن پریمی



آرمی چیف کی تقرری کے روزوزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے نامزد چیف آف آرمی اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ اور نامزد چیئرمین چیفس آف اسٹاف کمیٹی لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔وزیراعظم ہاوس میں ہونے والی ملاقات میں نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو نئے آرمی چیف مقرر کیے جانے پر مبارکباد دی۔بعد ازاں نامزد چیئرمین جوائنٹ چیفس آف آرمی اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات بھی وزیراعظم ہاوس پہنچے اور نواز شریف سے ملاقات کی۔واضح رہے کہ کئی ہفتوں سے جاری قیاس آرائیوں و افواہوں کے بعد صدر ممنون حسین نے وزیراعظم نواز شریف کی تجویز پر لیفٹننٹ جنرل زبیر محمود حیات اور لیفٹننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو جنرل کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دی، ترقی کے بعد لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جبکہ لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کو نیا آرمی چیف مقرر کیا گیا۔لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں انسپکٹرجنرل آف ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن تعینات تھے، جبکہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی مقرر کیے گئے لیفٹننٹ جنرل زبیر حیات کا تعلق آرٹلری سے ہے اور وہ حاضر سروس چیف آف جنرل اسٹاف ہیں۔دونوں جنرل 29 نومبر بروز منگل سے اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے اور اسی دن موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ریٹائرڈ ہوں گے۔خیال رہے کہ وزیراعظم نواز شریف اس سے قبل اقوام متحدہ کے زیر انتظام عالمی پائیدار ٹرانسپورٹ کانفرنس میں شرکت کے لیے ترکمانستان میں موجود تھے، جہاں انہوں نے پاکستان کی اشک آباد اور لیپز لازولی راہداری منصوبے میں شمولیت کا اعلان کیا تھا، وہ اس کانفرنس میں خطاب کے فوری بعد پاکستان روانہ ہوئے تھے اور آرمی چیف کے اعلان سے دو گھنٹے قبل ہی ملک پہنچے تھے۔یاد رہے کہ 29 نومبر کو ریٹائرڈ ہونے والے جنرل راحیل شریف بھی گذشتہ دو دنوں کے دوران اپنے اعزاز میں دیئے جانے والے الواداعی عشائیے میں شرکت کے لیے ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاوس کا دورہ کرچکے ہیں۔صدرمملکت ممنون حسین نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں چیف آف آرمی اسٹاف کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل راحیل شریف کو باوقار انداز سے الوداع کہنا خوش آئند ہے۔دوسری جانب وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے بھی آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے الوداعی ملاقات میں کہا تھا کہ جنرل راحیل شریف نے اپنے عزم اور محنت سے خود کو بہترین آرمی چیف ثابت کیا ہے، میں ہمیشہ جنرل راحیل شریف سے اسٹریٹیجک مشاورت کرتا تھا اور مستقبل میں بھی ایسا کرتا رہوں گا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو بری فوج کا نیا سپہ سالار جب کہ جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر کر دیا ہے۔ صدر پاکستان ممنون حسین نے وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود حیات کو جنرل کے عہدے پر ترقی دینے کی منظوری دے دی ہے۔ ترقی کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کو بری فوج کا نیا چیف اور جنرل زبیر محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مقرر کردیا گیا۔جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل زبیر محمود حیات 29 نومبر سے اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھال لیں گے اور اسی روز موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوجی کیریر کا آغاز 16 بلوچ ریجمنٹ میں اکتوبر 1980 میں کیا تھا۔ وہ کینڈا اور امریکہ کے دفاعی کالج اور یونیورسٹیوں سے پڑھ چکے ہیں۔ وہ کوئٹہ میں انفرینٹری سکول میں انسٹریکٹر کے طور پر فراض سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ کانگو میں اقوام متحدہ کی امن فوج کی کمانڈ سنبھال چکے ہیں۔وہ راولپنڈی کی انتہائی اہم سمجھی جانے والی 10 ویں کور کو بھی کمانڈ کرچکے ہیں۔نئی تعیناتی سے قبل وہ انسپکٹر جنرل تھے جی ایچ کیو میں جنرل ٹرینگ اور ایولیوشین کے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے حال ہی میں ان تربیتی مشقوں کی خود نگرانی کی جو لائن آف کنٹرول کے اطراف کشیدگی کی وجہ سے کی جا رہی تھیں۔ اِن مشقوں کا معائنہ موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل نے خود کیا تھا۔دوسری تعیناتی جنرل زبیر محمود حیات کی ہے بطور چیرمین جائنٹ چیف آف سٹاف اور ان کا بھی وہی بیج تھا جو باجوہ کا تھا یعنی انیس سو اسی میں فوج میں شمولیت۔ وہ بھی امریکہ، برطانیہ سے فوجی کالجوں سے پڑھے ہوئے ہیں۔ کئی اہم ترین فوجی عہدوں پر فائز رہے ہیں۔آرمی چیف کے پرآیوٹ سکرٹری کے علاوہ وہ جوہری اثاثوں کی دیکھ بحال کرنے والے سٹریٹیجک پلان ڈویژن کے بھی ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں۔ آرٹلری ریجمنٹ کی کمان بھی کرچکے ہیں۔ نئے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے پیش رو جنرل راحیل شریف میں ذاتی اور پیشہ وارانہ لحاظ سے کئی باتیں مشترک ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں میں جنرل راحیل ہی کی طرح کھلے ڈلے افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں اور انہی کی طرح فوج کی تربیت اور مہارت میں اضافے کے ہر وقت خواہشمند رہتے ہیں۔جنرل جاوید قمر باجوہ کے بارے میں ان کے ساتھ ماضی میں کام کرنے والے بعض افسروں کا خیال ہے کہ ان کے ساتھ کسی بھی وقت کسی بھی موضوع پر بے تکلف گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ان کی یہ خوبی انھیں اپنے ساتھیوں میں مقبول اور ممتاز بناتی ہے۔پاکستانی فوج کے سینیئر افسر عام طور پر اپنے آپ کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر رکھنے کی جستجو میں سیاسی معاملات پر گفتگو کرنے سے عموما اپنے قریبی دوستوں کے علاوہ نجی محفلوں میں بھی پرہیز ہی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔لیکن جنرل قمر باجوہ اس معاملے میں مختلف مزاج رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کر چکے بعض افسروں کا کہنا ہے کہ وہ نا صرف سیاسی معاملات پر پختہ رائے رکھتے ہیں بلکہ اس کا اظہار کرنے سے بھی نہیں گھبراتے۔ یوں وہ ایک کھلے ڈلے بے تکلف شخص کے طور پر اپنے ملنے والوں کو متاثر کرتے ہیں۔جنرل باجوہ فوری فیصلہ کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھنے والے افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں، جنرل راحیل اور جنرل باجوہ کے درمیان یہ قدر بھی مشترک پائی جاتی ہے۔ جنرل راحیل نے شمالی وزیرستان میں کئی برس سے التوا میں پڑے فوجی آپریشن کو شروع کر کے اور 2014 میں عمران خان کے دھرنے کے موقع پر فیصلہ کن کردار ادا کر کے اس صلاحیت کو منوایا تھا۔جنرل راحیل ہی کی طرح جنرل باجوہ بھی فوج کی تربیت کے معاملات میں غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں اور گذشتہ سالوں میں انھوں نے اس سلسلے میں فوج کی تربیتی برانچ کے سربراہ کے طور اہم کردار کیا ہے۔جنرل باجوہ پاکستان کی سب سے بڑی 10 کور کی ناصرف کمانڈ کر چکے ہیں۔حال ہی میں مکمل ہونے والی فوجی مشقوں کو جنرل باجوہ ہی نے ڈیزائن کیا تھا۔اس کے علاوہ وہ کوئٹہ میں انفینٹری سکول کے کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں۔ چاروں سینیئر لیفٹیننٹ جنرل یکساں قابلیت کے حامل تھے تاہم کسی کو بھی فوج کا سربراہ مقرر کرنے کا آئینی اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ قمر جاوید کو فوج کا سربراہ مقرر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ بھی جنرل راحیل شریف کی طرح فوج کی سیاسی امور میں مداخلت پر یقین نہیں رکھتے ہیں۔"جس طرح راحیل شریف (سیاسی امور میں) مداخلت نہیں کی وہ اس پر یقین رکھتے ہیں اور انہیں یقین رکھنا بھی چاہیئے۔ لیکن یہ بات اہم ہو گی کہ وہ پاکستان کو آگے کس طرح لے کر جاتے ہیں۔"انہوں نے کہا کہ نئے آرمی چیف کو بہت سے چیلنج بھی درپیش ہوں گے جن میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی اور دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کے علاوہ نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بھی ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔" خطے کی (سلامتی کی) صورت حال ہے کمزور ہے، لائن آف کنڑول پر فائرنگ ہو رہی ہے۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات نچلی سطح پر ہیں اور اس کے ساتھ کیسے آگے بڑھا جائے کیونکہ یہ کشیدگی پاکستان پر کسی نا کسی طرح اثر انداز ہو سکتی ہے۔"سبکدوش ہونے والے جنرل راحیل شریف نے قبائلی علاقوں خصوصا شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کروائی تھی جس کی بدولت ملک میں امن و امان کی صورتحال میں ماضی کی نسبت بہتری دیکھی گئی اور اس کارروائی کے تناظر میں جنرل راحیل کو نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اے پی ایس