ہمیں ریٹنگ کی دوڑ میں اپنی اقدار اور کلچر کو نہیں بھولنا چاہیے۔ سید اطہر رضوی




معروف نوجوان براڈ کاسٹر سید اطہر رضوی سے گفتگو
 معروف نوجوان براڈ کاسٹرصحافی و صدرآل پاکستان ر یڈیو براڈ کاسٹر ایسوسی ایشن سید اطہر رضوی کا شمار  ان خوش قسمت افراد میں ہوتا ہے جو اپنی قابلیت،ذہانت اورکارکردگی  کے لحاظ سے دوسروں سے منفرد مقام رکھتے ہیں۔گذشتہ روز ان سے ایک نشست کا اہتمام کیا گیا اس ضمن میں ان سے مختلف سوال و جواب زیربحث آئے جو قارئین کے نذر ہیں۔
 ایک سوال کے جواب میں سید اطہر رضوی نے اپنا خاندانی پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ میرا بنیادی طور پر تعلق برصغیر پاک وہند کے ایک مشہور علمی ادبی خاندان سے ہے.میرے دادا شہاب دہلوی ایک معروف صحافی, شاعر , ادیب اور دانشور کے طور پر جانے پہچانے جاتے ہیں.جبکہ میرے والد شہود رضوی بھی صحافت سے ایک طویل عرصہ وابستہ رہے اور ریڈیوپاکستان سے بحیثیت سینئر پروڈیوسر ریٹائر ہوئے۔انہوں نے مزید کہا کہ شہاب دہلوی نے 1947 میں جب انڈیا دلی سے ہجرت کرکے پاکستان کو اپنا وطن ثانی چنا تو ساتھ ہی دلی سے شائع ہونے والے اپنے اخبار روزنامہ "الہام " کو اپنے خاندان کا فرد سمجھتے ہوئے اپنے ساتھ بحفاظت پاکستان لائے اور پھر بہاوپور میں رہتے ہوئے اسے باقاعدہ  شائع کرتے رہے۔الہام اخبار پاکستان کے ان چند اخبارات میں سے ایک ہے جس کو تحریک پاکستان کی جدوجہد میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔میرے دادا شہاب دہلوی روزانہ کی بنیاد پر اپنے اخبار کے دفتر مصروف رہتے تھے اور میں پہلا اور لاڈلا پوتا ہونے کی وجہ سے مجھے مستقل اپنے ساتھ رکھتے اور کچھ نہ کچھ سکھاتے رہتے۔اطہر رضوی کا کہنا تھا کہ میں نے بچپن میں اپنے گھر میں اعلی پائے کے مشاعرے دیکھے جس میں پاکستان اور ہندوستان کے چوٹی کے شاعر شرکت کیا کرتے تھے جبکہ گلشن شہاب میں تواتر کے ساتھ ادبی مکالمہ اور مختلف نوعیت کی علمی,ادبی اور صحافتی سرگرمیاں اس وقت کی طرح آج بھی جاری وساری ہیں۔
اطہر رضوی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے سب سے زیادہ اپنے دادا شہاب دہلوی اور انکی پاکستان کیلئے خدمات نے متاثر کیا جکہ میرے والد شہود رضوی نے آنکھ کھلتے ہی بہترین تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ریڈیو سے آشنا کرایا چائلڈ براڈکاسٹر بنایا.. چونکہ میرا مضمون شروع سے کمپیوٹر سائنس رہا اسی وجہ سے میرے والد نے میرے نک نیم مون کے نام سے بچوں کے پروگرام میں ایک سیگمنٹ اپروو کرایا جس کا نام " کمپیوٹر کہانی مون بھائی کی زبانی" رکھا گیا۔
میرے والد شہود رضوی ریڈیو پاکستان میں ملازمت کے دوران خاصہ عرصہ کراچی میں رہے اور مجھے مختلف ڈراموں میں چائلڈ سٹار کے طور پر پاکستان کے مشہورومعروف ریڈیو اور ٹیلی وژن کے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے اور ان 
   سے سیکھنے کا موقع ملا۔
جیساکہ میں نے آپ کو بتایا کہ میں پیدائشی براڈکاسٹر اور ڈرامہ آرٹسٹ ہوں تو ان 
دونو ں میں سے میرے لیئے شائد کوئی کام مشکل نہیں ہے۔یہ میرے والد صاحب ہی کی ٹرینگ تھی کہ میں نے بحثیت اینکر پرسن ایک بہت اچھا وقت پی ٹی وی نیوز کے ساتھ گزارا۔
کوک سرایئکی ٹی وی چینل سے نیوز اور کرنٹ افیئرز کے پروگرام میں اپنے وسیب بہاولپور اور خاص طور پر جنوبی پنجاب کے مسائل کو اقتدار کے اعلی ایوانوں تک پہنچایا..جب روز نیوز اسلام آباد لانچ ہوا تو وہاں سے اہم پروگرام "آواز پاکستان" کا اینکر پرسن رہا۔
اطہر رضوی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی سے آئی ٹی آنرز میں ڈگری حاصل کی اور آجکل بھی زیر تعلیم ہی ہوں.
میں نے باقاعدہ اپنے فنی سفر کا آغاز اپنی تعلیم کے دوران پاکستان کے پہلے ایف ایم ریڈیو ایف ایم 100 پاکستان سے کیا.اور مجھے میرے مضمون کے ہی مطابق پروگرام آئی ٹی یوتھ زون کیلئے منتخب کیا گیا۔
اطہر رضوی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے پیارے ملک پاکستان کو ہمارے بزرگوں نے قربانیوں کی  لازوال داستانیں رقم کروا کر حاصل کیا ہے...اگر باقاعدہ کسی عہدہ کی صورت میں وطن عزیز کی   خدمت کرنے کا موقع ملا تو میں حاضر خدمت کیلئے حاضر ہوں۔
اس وقت پاکستان سرکاری میڈیا کے ساتھ ساتھ بہت سے نجی ٹی وی چینلز کام کر رہے ہیں جن میں سے چند ایک نے اپنے منفرد پرگرامز اور رپورٹنگ سے عوام کے دل میں گھر کیا ہے..
اینکر پرسنز کی لسٹ خاصی طویل ہے ہوچکی ہے..کچھ نام بہت بڑے ہیں..لیکن طلعت حسین ہوں حامد میر ہوں یا پھر نجم سیٹھی یہ وہ نام جن کا پروگرام دیکھتے ہوئے ہم جیسے نوجوانوں کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے.اور سب سے بڑھ کر دوران پروگرام کس طرح صحافتی و اخلاقی اقدار کو ملحوز خاطر رکھا جائے یہ سب کچھ سیکھنا میرے جیسے نوجوانوں صحافیوں اور اینکرز کے لیئے بہت ضروری ہے..
اطہر رضوی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میرے خیال میں یہ ضروری نہیں کہ جب پاکستان کے نوجوان بڑھاپے میں داخل ہوتے ہوئے اپنی سروں کے بال سفید کر بیٹھیں تو ہی انکو موقع دیا جائے..بلکہ ریٹائرڈ لوگوں کو چاھیئے یہ کہ وہ پاکستان کے نوجوانوں کیلئے اکادمی کا درجہ بنیں۔
پڑھنے والے ہوں, سننے والے ہوں یا دیکھنے والے ہوں ان کو کیسے پروگرامز پسند ہیں اور وہ کیا پسند کرتے ہیں یہ ایک لمبی بات ہو جائے گی۔۔مگر ہمیں ریٹنگ کی دوڑ میں اپنی اقدار اور کلچر کو نہیں بھولنا چاہیے۔
میری ایک دلی خواہش ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ملک میں ایسے قابل نوجوانوں کی کمی نہیں ہے جن کو ٹی وی میں کام کرنے کا موقع نہیں مل رہا..ایسے میں یہ ذمہ داری ریاست پی ٹی وی کو نوجوانوں کے لئے ایک پلیٹ فارم بنادے تو آنے والے وقت میں مزید بڑے نام پیدا کیے جاسکتے ہیں۔