ہارٹ آف ایشیا کانفرنس۔چودھری احسن پریمی



 بھارت نے سیکیورٹی ایشو کا بہانہ بنا کر مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو ہوٹل سے باہر نکلنے سے روک دیا۔ کانفرنس کے سیکیورٹی عملے نے پاکستانی صحافیوں اور سفارتی عملے کے ساتھ بدتمیزی کی۔ اس موقع پر ہائی کمشنر عبدالباسط کو میڈیا سے بات کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کانفرنس کے سیکیورٹی انچارج کو ڈانٹ دیا۔ عبدالباسط کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کا ہائی کمشنر ہوں۔ پاکستانی میڈیا والے میرے لوگ ہیں۔ ان سے بات کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ دوسری جانب مشیر خارجہ سرتاج عزیز کو گولڈن ٹیمپل کا دورہ کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے ۔
پاکستان کے اپنے مشرقی اور مغربی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات میں تلخی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں بھی نمایاں طور پر دیکھنے میں آئی جہاں بھارت اور افغانستان کے راہنماں نے پاکستان کا نام لیے بغیر دہشت گردی کے معاملے پر اسے ہدف تنقید بنایا۔تاہم پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے افغانستان کو بے بنیاد الزام تراشی سے گریز کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ تمام تصفیہ طلب معاملات کا پرامن حل ہی خطے میں تعاون اور روابط میں پیش رفت کا واحد ذریعہ ہے۔جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے سرتاج عزیز ایک ناکام کوشش کے بعد واپس آئے ہیں ۔اس ضمن میں دونوں ملکوں کی قیادت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں لڑوانے میں دیگر طاقتوں کا فائدہ ہے تاکہ وہ اسلحہ بیچ پائیں اور اپنا اثر رسوخ بڑھا سکیں۔ بھارتی عوام اور قیادت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ نہیں امن کا ماحول ہونا چاہیئے۔مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سفارت کاری میں جس طرح کا برتا وآپ کے ملک کے ساتھ کیا جائے اس کے جواب میں اسی طرح کا جواب آپ کی جانب سے جانا چاہیئے۔ ہم بھی چین اور ترکی جیسے دوست ممالک سے ہارٹ آف ایشیا کانفرفنس میں شرکت نہ کرنے کی درخواست کر سکتے تھے۔ سرتاج عزیز سفارتکاری کو بہت بہتر سمجھتے ہیں لیکن انہیں قوم کو آگاہ کرنا ہو گا کہ بھارت کے سرد رویے کے باوجود کن وجوہات کی بنا پر وہ بھارت گئے اور یہ کس قسم کی سفارت کاری ہے۔ پاکستان میں منعقد ہونے والی سارک کانفرنس میں بھارت شامل نہیں ہوا اور اس نے دیگر ممالک کو بھی اس میں شرکت کرنے سے روکا تھا۔اتوار کو امرتسر میں ہونے والی کانفرنس سے اپنے افتتاحی خطاب میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ خطے میں دہشت گردوں کو پناہ دینے والوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کے خلاف مشترکہ کوشش کی ضرورت ہے۔افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ کچھ عناصر اب بھی دہشت گردوں کو پناہ دے رہے ہیں اور ساتھ ہی انھوں نے طالبان کے ایک سینیئر راہنما کے حال میں دیے گئے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کے اس رکن کا کہنا تھا کہ اگر انھیں "پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں نہ ملتیں تو وہ ایک مہینہ بھی نہیں چل سکتے تھے۔"
تاہم کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں دیرپا امن کے لیے مشترکہ اور بامعنی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کابل کو بے بنیاد الزام تراشی سے گریز کا مشورہ بھی دیا۔بھارت اور افغانستان یہ الزامات عائد کرتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کو اپنی سرزمین ان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دیتا آرہا ہے، لیکن پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اپنے ہاں ہر قسم کے دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کر رہا ہے۔کانفرنس کے بعد بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان ایک عرصے سے اپنے ہاں کالعدم تنظمیوں کے خلاف کارروائی کرتا آرہا ہے اور افغانستان کو درپیش حالات پر صرف پاکستان کو موردالزام ٹھہرانا کسی طور بھی مناسب نہیں۔
"پاکستان اپنے تئیں دہشت گردی کے خلاف مربوط کوششیں کر رہا ہے لیکن سوال وہی ہے کہ افغانستان میں جو بھی حالات و معاملات ہیں ان میں تمام پڑوسی ریاستوں اور علاقائی ممالک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم الزام تراشی کی بجائے ان چیزوں پر توجہ دیں جو جامع اور مربوط ہیں جن سے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر صرف پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانا ہے تو اس سے بات نہیں بنے گی۔"انھوں نے بتایا کہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کانفرنس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرنی تھی لیکن ان کے بقول میزبان ملک نے بوجوہ انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔
 تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ان تینوں ممالک کو الزام تراشی کی بجائے بات چیت کے سلسلے کو بحال رکھنا چاہیے۔سب سے اہم چیز ہے کہ بات چیت کا سلسلہ شروع ہو  تاکہ افغانستان کے معاملات میں بہتری آئے اور افغانستان کو بھی پاکستان کے ساتھ مسلسل بات کرنے کی ضرورت ہے ناکہ الزام تراشی کرے ۔فغانستان اور بھارت کی پاکستان سے بات چیت شروع ہونی چاہیے اور اسی میں خطے کی بہتری ہے۔ الزام تراشیوں سے صرف ان ہی عناصر کو تقویت ملے گی جو تلخی میں اضافہ چاہتے ہیں۔افغانستان میں امن و ترقی سے متعلق ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے وزارتی اجلاس کا آغاز اتوار کو بھارت کے شہر امرتسر میں ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے میزبان وزیراعظم نریندر مودی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے دہشت گردی کے خلاف مربوط کوششوں پر زور دیتے ہوئے خطے میں رابطوں کے فروغ پر بات کی۔بھارت کے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ "دہشت گردی اور بیرونی طور پر پیدا کیے جانے والا عدم استحکام افغانستان کے امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے پورے خطے کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔"نریندر مودی کے بقول افغانستان میں امن کے لیے صرف آواز بلند کرنا کافی نہیں اس کے لیے مشترکہ عزم کی ضرورت ہے۔"افغانستان اور ہمارے خطے میں دہشت گردی پر خاموشی اور عدم کارروائی سے صرف دہشت گردوں اور ان کے آقاں کو شہ ملے گی۔"کانفرنس سے خطاب میں افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ ان کے ملک کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ میں قابل ذکر حد تک شدت آئی ہے اور ان کے بقول اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دیے گئے لگ بھگ 30 گروپ افغانستان میں اپنی آماجگاہیں بنانے کی کوشش کر ر ہے ہیں۔
انھوں نے خطے میں انسداد دہشت گردی کے لیے ایک فنڈ قائم کرنے کی تجویز بھی دی جو ان کے بقول نہ صرف افغانستان بلکہ ایشیا کی سلامتی کے لیے مددگار ہو سکتا ہے۔افغان صدر نے اپنے خطاب میں افغانستان کی جغرافیائی حیثیت کے تناظر علاقائی رابطوں میں اس کی اہمیت کا بھی تذکرہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ جلد ہی بھارت کے ساتھ مال برداری کے لیے فضائی رابطے آغاز سے تاجروں کے لیے نئی منڈیاں کھل جائیں گے اور "یہ رابطہ ہمارے لوگوں کو غربت سے نکال سکتا ہے۔"بھارتی وزیراعظم نے بھی اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ان کا ملک افغانستان کو جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے ایک مضبوط مرکز کے طور پر دیکھتا ہے۔کانفرنس سے اپنے خطاب میں پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ ان کا ملک افغانستان میں ترقی و استحکام کے لیے ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے اور ان کے بقول افغانستان میں پائیدار امن کے لیے مشترکہ اور موثر حکمت علی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔اس کانفرنس میں چالیس سے زائد ممالک کے عہدیدار شریک تھے۔یہ کانفرنس ایسے وقت منعقد ہوئی جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور جب کہ افغانستان کے ساتھ بھی اس کے تعلقات کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہیں۔یہ دونوں ملک پاکستان پر الزام عائد کرتے ہیں وہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے رہا ہے لیکن اسلام آباد ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر چکا ہے۔کانفرنس میں شرکت کے لیے جانے والے پاکستان کے اعلی ترین سفارتکار سرتاج عزیز کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مختصر بات چیت ہوئی جس میں رسمی خیرسگالی جملوں کا تبادلہ ہوا۔ علاوہ ازیں مشیر خارجہ کی بھارت کے مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دوول سے بھی غیر رسمی ملاقات ہوئی لیکن اس کی تفصیل تاحال سامنے نہیں آئی ہے۔ افغانستان میں امن و استحکام اور خطے میں دہشت گردی سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے دو روزہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا آغاز ہفتہ کو بھارتی شہر امرتسر میں ہوا جس میں رکن ممالک سمیت 40 سے زائد ملکوں کے نمائندے شریک ہوئے۔بھارت کے ساتھ تعلقات میں حالیہ کشیدگی کے باوجود پاکستان نے امرتسر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کی ہے جو کہ پاکستانی عہدیداروں کے بقول افغانستان میں امن و استحکام سے متعلق پاکستان کے سنجیدہ عزم کو ظاہر کرتا ہے۔
پانچ سال قبل ہارٹ آف ایشیا۔استنبول پراسس کا آغاز اس نظریے کے تحت کیا گیا تھا کہ جنگ سے تباہ حال ملک میں امن و سلامتی اور اقتصادی ترقی کے لیے افغانستان کے پڑوسی اور خطے کے دیگر ممالک مل بیٹھ کر اپنے کردار کو مربوط بنانے پر تبادلہ خیال کریں۔گزشتہ برس اس کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد میں ہوا تھا جبکہ رواں سال یہ دو روزہ کانفرنس بھارت میں منعقد ہوئی ہے۔ اس میں پاکستان کی نمائندگی وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیزنے کی ہے۔گوکہ پاکستان کا دفتر خارجہ یہ کہہ چکا تھا کہ کانفرنس کے موقع پر سرتاج عزیز کی بھارتی عہدیداروں سے دوطرفہ ملاقات طے نہیں ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کو اس موقع کو باہمی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن و خوشحالی کے لیے پاکستان اور بھارت دونوں ہی کے مفادات ہیں لہذا انھیں مد نظر رکھتے ہوئے ان دونوں ملکوں کو بھی اپنے تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہیئے۔"ایسے مواقع پر عام طور پر ہوتا یہی ہے کہ کانفرنس تو ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی ایک صورت نظر آتی ہے جس میں آپ بات چیت کا کوئی آغاز کر سکتے ہیں جس سے کہ پھر باقاعدہ مذاکرات کی طرف آپ جا سکتے ہیں اور اس سے کشیدگی کم ہو سکتی ہے، تو یہ ایک موقع تھا کہ بات چیت میں تھوڑی پیش رفت ہوتی جس سے کم ازکم سرحدوں پر تنا ختم ہو جاتا باقی معاملات پھر بعد میں دیکھے جاتے۔"گزشتہ برس اسلام آباد میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر بھی پاکستانی مشیر خارجہ اور بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے درمیان بات چیت کے بعد دوطرفہ جامع مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن رواں سال جنوری میں بھارتی فضائی اڈے پر دہشت گرد حملے کے بعد یہ مذاکرات التوا کا شکار ہوئے جو تاحال بحال نہیں ہو سکے۔بھارت نے اس حملے میں پاکستان سے آئے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا اور پاکستان نے اس کی تحقیقات میں نئی دہلی کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے اپنے ہاں کالعدم تنظیم جیش محمد کے لوگوں کے خلاف کارروائی بھی کی تھی۔متنازع علاقے کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بانڈری پر آئے روز فائرنگ و گولہ باری کے تبادلے کی وجہ سے دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے مابین تعلقات انتہائی کشیدہ چلے آرہے ہیں اور دونوں جانب کے اعلی سطحی رابطے بھی معطل ہیں۔کشیدہ تعلقات کے تناظر میں ہی بھارت نے گزشتہ ماہ پاکستان میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد یہ اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔بھارت پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کرتا آرہا ہے جسے اسلام آباد مسترد کرتا ہے جب کہ حالیہ کشیدگی کو برانگیخت کرنے والی فائر بندی کی خلاف ورزیوں میں پہل کا الزام بھی دونوں ملک ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔پاکستان کی طرف سے یہ دعوے بھی کیے جاتے رہے ہیں کہ بھارت پاکستان کے خلاف کابل میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے افغان سرزمین کو اس کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ لیکن نئی دہلی اور کابل دونوں ہی اسے مسترد کر چکے ہیں۔اے پی ایس