قانونی و انتظامی اداروں کی نااہلی۔ چودھری احسن پریمی



مبصرین کاکہنا ہے کہ سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے عدالتی کمیشن کی رپورٹ پرحکومت کو نوٹس لینا ہوگا۔۔۔کیونکہ سپریم کورٹ کی سطح کی ایک انکوائری کا یہ نتیجہ ہے تو یہ بھی توقع کی جا سکتی ہے کہ سپریم کورٹ اس کی سفارشات خود ان کی نگرانی کرے اور اس پر سوال کرے۔
سول اسپتال کوئٹہ پر ہونے والے خودکش بم حملے کی سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ اور حزب مخالف کی طرف سے چودھری نثار پر کی گئی تنقید کو مختلف سیاسی ،عوامی اور بعض صحافتی حلقوں نے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اتفاق رائے سے شروع کیے گئے قومی لائحہ عمل پر چودھری نثار اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے نبھا رہے ہیں۔شفافیت اور ایمان داری چودھری نثار کا طرہ امتیاز رہا ہے۔تاہم بعض سرمایہ دار حلقوں نے اپنے ذاتی مفادات کیلئے چودھری نثار کے خلاف مہم جاری رکھی ہوئی ہے ۔تاہم آٹھ اگست کو کوئٹہ کے سول اسپتال کے باہر ہونے والے خودکش بم دھماکے میں 74 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں اکثریت وکلا کی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی تھی جس کی دو روز قبل سامنے آنے والی رپورٹ میں وفاقی وزارت اور وزیر داخلہ کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مناسب اقدام نہ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔تاہم چودھری نثار نے کہا ہے کہ اس رپورٹ میں ان کا یا ان کی وزارت کا موقف نہیں لیا گیا اور ان کے بقول وہ اس یکطرفہ رپورٹ کو سپریم کورٹ سمیت ہر فورم پر چیلنج کریں گے۔انھوں نے بتایا کہ خود پر لگنے والے الزامات کی وجہ سے انھوں نے وزیراعظم سے کہا تھا کہ وہ مستعفی ہونا چاہتے ہیں لیکن ان کے بقول وزیراعظم نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
قومی لائحہ عمل پر پوری طرح سے عملدرآمد نہ ہونے کی باتیں پہلے بھی مختلف حلقوں کی طرف سے سامنے آتی رہی ہیں لیکن اس تحقیقاتی رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد حکومت کو ایک بار پھر کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے پیپلز پارٹی کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کی نسبت وزارت داخلہ کی کارکردگی میں قابل ذکر بہتری آئی اور قانون نافذ کرنے اور انٹیلی جنس اداروں کے درمیان رابطوں میں بہتری سے لاتعداد دہشت گرد واقعات کو رونما ہونے سے پہلے ہی ناکام بنا دیا گیا۔ وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی کوئٹہ کمیشن رپورٹ میں ان پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے وہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر اپنا اور وزارتِ داخلہ کا موقف پیش کریں گے۔انھوں نے کہا 'اس رپورٹ میں صرف سرکاری نہیں، ذاتی سطح پر بھی الزامات لگائے گئے۔ مجھے رنج ہوا کہ کہا گیا کہ وزیرداخلہ نے جھوٹ بولا۔
یاد رہے کہ صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں آٹھ اگست کو سول ہسپتال میں ہونے والے خود کش حملے پر قائم عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں صوبائی حکومت اور دیگر حکومتی اداروں کے کردار پر کڑی تنقید کی تھی۔اگست میں ہونے والے اس خود کش حملے میں 70 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد سپریم کورٹ کے کمیشن نے اس واقعے کی تحقیقات کے بعد تفصیلی رپورٹ جاری کی۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مبنی ایک رکنی کمیشن نے 56 دنوں کی کارروائی کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا کہ حکومت نفرت انگیز تقاریر اور شدت پسندی پر مبنی پروپیگنڈا روکنے میں ناکام رہی ہے۔چوہدری نثار علی نے کہا کہ کمیشن نے ان سے پانچ سوالات پوچھے تھے جن کے جواب انھوں نے کمیشن کو جمع کروائے۔انھوں نے کہا کہ سکیورٹی کے حوالے سے 'کامیابیاں ہوتی ہیں تو بہت سارے دعویدار نکل آتے ہیں اور 'ناکامیاں میری وزارت کی ذمہ داری نہ بھی ہوتے ہوئے میری وزارت پر ڈال دی جاتی ہیں'۔انھوں نے بتایا کہ 'جب نیکٹا میرے حصے میں آیا تو اسلام آباد میں ایک کرائے کے مکان میں (اس کا دفتر) تھا جس کا چھ ماہ سے لاکھوں روپے کا کرایہ بھی ادا نہیں کیا گیا تھا۔گذشتہ ڈھائی سالوں میں 7774 انٹیلیجنس ایکسرپٹس (یعنی معلوماتی دستاویز) دیگر اداروں کے ساتھ شیئر ہوئی ہیں۔'
کوئٹہ کمیشن کی جانب سے سوالات کے بارے میں وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ ان سے پانچ سوالات کیے گئے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
آپ اہل سنت و الجماعت کے وفد سے کیوں ملے؟
اہلِ سنت و جماعت کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت کیوں دی گئی؟
نیکٹا ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں تاخیر کی کیا وجہ ہے؟
نیکٹا کے بورڈ آف گونر کا اجلاس کیوں نہیں ہوا؟
وزارتِ داخلہ میں سپیشل سیکرٹری کیوں تعینات ہیں؟
وزیرِ داخلہ چوہدری نے کہا کہ وزارتِ داخلہ کو نہیں معلوم تھا کہ دفاعِ پاکستان کونسل کے وفد کے ساتھ مولانا لدھیانوی بھی ملاقات کرنے کے لیے آئیں گے۔کوئٹہ کمیشن رپورٹ پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ 'میں وکیل نہیں ہوں تو مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ ہمارا موقف سنے بغیر یکطرفہ رپورٹ کیسے سامنے آگئی۔'چوہدری نثار علی کا کہنا تھا کہ جب وفد ملاقات کے لیے پہنچ گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس مولانا لدھیانوی بھی شامل ہیں۔ انھوں نے کہا 'کیا میں ان سے کہتا کہ مولانا لدھیانوی نکل جائیں؟'حال ہی میں مقامی میڈیا میں ایک تصویر شائع کی گئی جس میں وزیرِ داخلہ کو مولانا لدھیانوی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کے سربراہاں کے ساتھ ملاقات کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔مولانا لدھیانوی اہل ِ سنت و الجماعت کے اہم رہنما ہیں اور اس جماعت پر پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات اور شیعہ مسلک کے افراد کے قتل میں ملوث ہونے کے الزامات رہے ہیں۔
وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ انھوں نے کمیشن کو بتایا کہ وہ اہلِ سنت و الجماعت کے وفد سے نہیں ملے بلکہ دفاعِ پاکستان کونسل کے وفد سے ملے تھے جس کی قیادت مولانا سمیع الحق کر رہے تھے۔ اہلِ سنت و الجماعت کو جلسے کی اجازت کے حوالے سے وزیرِ داخلہ نے کمیشن کو بتایا کہ یہ ان کی نہیں بلکہ ضلعی انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی اور اس حوالے سے ان کے پوچھنے پر بتایا گیا ہے کہ نہ اجازت مانگی گئی اور نہ ہی دی گئی۔ کوئٹہ کے ہسپتال میں آٹھ اگست کو ہونے والے بم دھماکے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ قانونی و انتظامی اداروں کی نااہلی، وسائل کی کمی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت خصوصاً وزارتِ داخلہ کی غیر ذمہ داری اور پالیسیوں پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مبنی ایک رکنی کمیشن نے 56 دنوں کی کارروائی کے بعد اپنی رپورٹ میں جو نتائج حاصل کیے ہیں انھیں 26 نکات میں بیان کیا ہے جنھیں دستاویزی ریکارڈ، شہادتوں، اور تحریری ثبوتوں کی تصدیق کرنے کے بعد مرتب کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے اہم نکات کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
کرائم سین کو محفوظ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی فرینزک طریقے سے ان کا معائنہ کیا گیا۔کمیشن کا کہنا ہے کہ آٹھ اگست کو ہونے والے دونوں حملوں کا ایک دوسرے سے تعلق تھا اور انھیں ایک ہی گروہ نے کیا۔
خودکش حملہ آوروں کی شناخت تب ہی ممکن ہوئی جب کمیشن نے مداخلت کی اور پولیس سے کہا کہ وہ ان کی فورینزک طریقہ کار کے ذریعے تصاویر لیں اور اخبارات میں شائع کریں۔ اس کے لیے انعام بھی مقرر کیا گیا، نتیجتاً ایک شخص نے خود کش حملہ آوروں کی شناخت کی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں بھی بتایا۔
ان حملہ آوروں کی جانب سے کیا جانے والا یہ پہلا حملہ نہیں تھا۔ اگر ریاست کے کچھ عہدیدار اپنے گذشتہ حملوں کا فورینزک ریکارڈ محفوظ رکھتے اور کیس آگے بڑھاتے تو شاید آٹھ اگست کے حملوں سے بچا جا سکتا تھا۔ کمیشن نے حوالہ دیا کہ سنہ 2012 کے دہشت گردی کے حملے کے بعد آنے والے عدالتی فیصلے پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا۔
رپورٹ کے مطابق آئی جی پولیس کو دہشت گردی کے حملے کے بعد جائے حادثہ کو محفوظ رکھنے کے لیے موجود اصول و طریقہ کار کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ ' کرائم سین کو محفوظ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی فرینزک طریقے سے ان کا معائنہ کیا گیا تھا۔' اور بہت دن بعد کمیشن کی ہدایات ملنے پر یہ اقدامات کیے گئے۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ لیویز اہلکاروں نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر حملے کی زد میں آنے والے کوئٹہ ہسپتال میں ہوائی فائرنگ بھی کی۔ پولیس کو دہشت گردی کے حملے کے بعد معلوم طریقہ کار میں سے کوئی بھی ہدایات نہیں دی گئی تھیں۔وسائل اور عملے کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت سے زخمیوں کی موت واقع ہوئی اور بہت سوں کو دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کرنا پڑا۔رپورٹ کے مطابق کوئٹہ ہسپتال مکمل طور پر غیر فعال ہے۔ وہاں نہ صفائی کا مناسب انتظام ہے، نہ ابتدائی طبی امداد کے لیے سامان نہ ہی ایمبولیسنز۔ ہسپتال میں ناکافی سٹریچرز ہیں اور ضروری طبی سامان موجود نہیں اگر ہے تو خستہ حالت میں ہے۔ہسپتال میں آمدورفت کے لیے نگرانی کا کوئی نظام نہیں کوئی جب چاہے ہسپتال کے کسی بھی حصے میں جا سکتا ہے۔ کمیشن نے ہسپتال کے سکیورٹی نظام کو ناکافی قرار دیا اور وہاں کے عملے کی غیر ذمہ داری پر بھی بات کی ہے۔کہا گیا ہے کہ وسائل اور عملے کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت سے زخمیوں کی موت واقع ہوئی اور بہت سوں کو دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کرنا پڑا۔وزیراعلیٰ، وزیرِ داخلہ اور ان کے ترجمان نے پریس میں غیرذمہ دارانہ بیانات دے کر حکومت کی ساکھ کو کمزور کیا۔کمیشن کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں قانون پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا اور اقربا پروری کا کلچر ہے جس کی وجہ سے غیر قانونی طور پر نا اہل افراد کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں سیکریٹری ہیلتھ کا حوالہ دیا گیا جو کہ ایک وفاقی وزیر اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کے بھائی ہیں۔’حکومتی امور میں وزارتوں کی مداخلت کرپشن کو پیدا کیا اور ڈسپلن کو کمزور کیا اور حکومتی سروسز کو سیاست زدہ کیا ہے۔‘ کمیشن کے مطابق بلوچستان کو اے اور بی ایریا میں پولیس اور لیویز کے درمیان تقسیم کرنے سے متعدد مسائل نے جنم لیا ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایف سی سول انتظامیہ کو جوابدہ نہیں ہے لیکن پولیس کے مقابلے میں اس کا کردار غیر واضح ہے۔کمیشن کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ، وزیرِ داخلہ اور ان کے ترجمان نے پریس میں غیرذمہ دارانہ بیانات دے کر حکومت کی ساکھ کو کمزور کیا۔ 'ان بیانات میں من گھڑت بیانات بڑے پیمانے پر نشر ہوئے، تحقیقات میں خلل ڈلا، اور غلط توقعات بیان کی گئیں۔'دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار دینے میں وفاقی وزیر نے ناقابل بیان حد تک دیر کی۔کمیشن کا کہنا ہے کہ وزارتِ داخلہ کی جانب سے داخلی قومی سکیورٹی پالیسی پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ یہ وزارت غیر واضح لیڈر شپ اور ہدایات کے بغیر چل رہی ہے اور 'دہشت گردی کے نمٹنے کے لیے اپنے کردار کے بارے میں کنفیوڑن کا شکار ہے۔کمیشن کی رپورٹ میں نیشنل ایکشن پلان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ 'نیشنل ایکشن پلان بامعنی یا منظم منصوبہ نہیں ہے، نہ ہی اس کے اہداف کی اس طرح نگرانی کی جارہی ہے یا ان پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔کمیشن کے مطابق انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ کالعدم تنظیمیں اب بھی اپنی غیر قانونی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور نئی تنظیموں کو طویل عرصے بعد کالعدم قرار دیا گیا ہے۔ 'کچھ دہشت گرد تنظیموں کو اب بھی کالعدم قرار نہیں دیا گیا یا ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی، حالانکہ ان کی جانب سے دہشت گرد حملے کے جانے کے اعترافی بیانات نشر اور شائع ہوتے ہیں۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں وفاقی وزارتِ داخلہ کے وزیر چوہدری نثار کے بارے میں کہا ہے کہ انھوں نے اپنی وزارتی ذمہ داری بہت کم نبھائی ہیں اور ساڑھے تین سال کے دوران نیکٹا کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا فقط ایک اجلاس منعقد ہوا ہے۔ اس وزارت نے نیکٹا کے فیصلوں کی خلاف ورزی کی ہے۔'ایک کالعدم تنظیم کے سربراہ سے ملے، اسے میڈیا میں بڑے پیمانے پر ان کی تصویر کے ساتھ رپورٹ کیا گیا مگر وہ اب بھی ایسا کیے جانے سے انکاری ہیں۔کمیشن کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیرِ داخلہ نے شناختی کارڈ کے حوالے سے کالعدم تنظیم کے مطالبات کو پورا کیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کو کالعدم قرار دینے میں وفاقی وزیر نے ناقابل بیان حد تک دیر کی۔ 'ایک جانی پہچانی دہشت گرد تنظیم کو کالعدم قرار نہیں دیا۔رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ 'نیکٹا ایکٹ پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا ہے اور نیکٹا مکمل طور پر ناکام ہو گیا ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ نیکٹا کے بورڈ آف ممبر نے اجلاس نہیں کیا، ایگزیکٹو کمیٹی ساڑھے تین سال میں فقط ایک بار ملی ہے اور نیکٹا کی نگرانی مشترکہ قانون کے بغیر بنائے گئے ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کو سونپی گئی ہے جس کی سربراہی حکومت کے ریٹائرڈ افسران کر رہے ہیں۔کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتہاپسندی کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے وزارتِ داخلہ، وزارتِ مذہبی امور و مذہبی ہم آہنگی، کسی صوبائی ڈپارٹمنٹ یا حکومتی ادارے نے عوامی نمائندوں کی جانب سے اس انتباہ کے باوجود کہ 'دہشت گردی اور انتہاپسندی کی لعنت ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے کوئی بیانیہ تحریر نہیں کیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’مغربی سرحدوں کی نگرانی نہیں کی جاتی حتیٰ کہ سرکاری طور پر موجود راستے پر لوگوں اور اشیا (دہشت گردوں، ہتھیاروں اور ایمونیشن اور دیگر ممنوع اشیا) کی آزادانہ آمدورفت کو میں کوئی رکاوٹ نہیں۔
کمیشن کی رپورٹ میں وزارتِ مذہبی امور کو قریب المرگ وزارت قراردیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے کا اپنا بنیادی مینڈیٹ پورا نہیں کر رہی۔کمیشن کا کہنا ہے کہ 'مدارس کی رجیسٹریشن یا نگرانی نہیں کی جا رہی۔کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی وجہ سے مالی نقصان ہو رہا ہے تاہم اس کے اثرات کم کرنے یا اس سے بچنے کے لیے بہت کم کام کیا جا رہا ہے۔وفاقی وزارتوں اور اداروں اور صوبائی محکموں کے درمیان کے پاس رابطوں جن میں پوسٹل ایڈریس، ای میل اور ٹیلی فون نمبرز شامل ہیں کی تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔کمیشن نے کہا ہے کہ میڈیا کے پاس دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کی بہت کم کہانیاں ہیں۔ بظاہر میڈیا دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کی کوریج کرتا ہے جو کہ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 11 ڈبلیو خلاف ورزی ہے۔
کمیشن کی رپورٹ کے آخرے نکتے میں کہا گیا ہے کہ بہت سے افراد اور اداروں نے مثالی خدمات بھی سرانجام دی ہیں۔ اس میں پنجاب حکومت نے قلیل مدت میں فرانزک لیبارٹری تیار کی۔ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ہونے والے بم دھماکے کے سلسلے میں بنائے گئے سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت انسدادِ دہشت گردی کے قانون پر عملدرآمد یقینی بناتے ہوئے دہشت گردوں اور ا ±ن کی تنظیموں پر فوری طور پر پابندی عائد کرے۔اگست میں ہونے والے اس خودکش حملے میں 70 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد سپریم کورٹ کے کمیشن نے اس واقعے کی تحقیقات کے بعد تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مبنی ایک رکنی کمیشن نے 56 دنوں کی کارروائی کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت نفرت انگیز تقاریر اور شدت پسندی پر مبنی پروپیگنڈا روکنے میں ناکام رہی ہے۔سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے لیے نیشنل ایکشن پلان کو مناسب طریقے سے ترتیب دیا جائے اور اس کے اہداف واضح ہوں۔کمیشن نے انسدادِ دہشت گردی کے ادارے نیکٹا کی ناقص کارکردگی پر تنقید کی اور تجویز دی کہ نیکٹا کو فعال بنایا جائے۔تحقیقاتی کمیشن نے اپنی تجاویز میں کہا ہے کہ حکومت شدت پسند تنظیموں کو عوامی اجتماعات کرنے سے روکے اور کالعدم جماعتوں کی فہرست کو وزراتِ داخلہ کی ویب سائٹ، نیکٹا اور تمام صوبوں کو جاری کرے۔لعدم قرار دی جانے والی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست کو عوام کے لیے بھی عام کرے اور ا ±س میں کی جانے والی تبدیلی سے بھی سب کو آگاہ کیا جائے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے مرتب کردہ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کا اطلاق تمام سرکاری افراد پر بھی ہو اور اسے صرف کالعدم جماعتوں کے لیے ہی استعمال نہ کیا جائے۔کمیشن نے تجویز دی ہے کہ اس معاملے میں برتی جانے والی ریاکاری کو ختم کیا جائے اور قومی سطح پر رائج پالیسی کو مربوط بنایا جائے جس کے تحت تمام سرکاری ملازم اپنے فرائض صحیح سے انجام دیں نہیں تو نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔کمیشن نے اپنی رپورٹ میں صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'سنہ 2012 میں دہشت گردی کے ایک مقدمے کے فیصلے میں بلوچستان ہائی کورٹ نے حکومتِ پاکستان اور صوبائی حکومت کو ہدایت کی تھی کہ جامع معلومات پر مبنی ایک ڈیٹا بیس بنایا جائے، جس میں سنگین جرائم میں کے مرتکب افراد اور مشتبہ افراد، دہشت گرد تنظیموں کے کوائف ا ±ن میں شامل افراد کی تفصیلات، ہتھیاروں کی تفصیل، وہ کون کون سا دھماکہ خیز مواد استعمال کرتی ہیں اور ا ±ن کے حملے کا طریقہ کار کیا ہے، کی معلومات ہوں۔چار سال گزرنے کے بعد بھی ایسا نہیں ہوا اور قانون کے تحت بھی تین سال اور نو ماہ گزرنے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔کمیشن کا کہنا ہے کہ نیکٹا کے قانون کے تحت بھی تمام معلومات جمع کر کے ا ±سے متعلقہ اداروں کو دینا ضروری ہے لیکن اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔کمیشن نے اپنی تجاویز میں مزید کہا ہے کہ میڈیا بھی اگر دہشت گردوں کے موقف کو نشر کرے تو ا ±ن کے خلاف بھی متعلقہ قوانین کے تحت کارروائی کی جائے۔
سپریم کورٹ کے کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے علاوہ کسی اور دوسرے صوبے میں خطیر اخراجات کے باوجود بھی فورینزک لیبارٹری نہیں بنائی گئی اور تجویز کیا گیا ہے کہ باقی صوبے بھی اسی طرز کی لیبارٹری بنائیں جس کا سربراہ پولیس کے ماتحت نہ ہو۔جائے وقوعہ کو فورینزک معلومات کے لیے پیشہ ورانہ انداز میں محفوظ بنایا جائے اور تحقیقاتی افسر اگر ایسا کرنے میں ناکام رہے تو ا ±س کے خلاف کارروائی کی جائے۔کمیشن نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف حکومت اپنا بیانیہ عام کرے اور اپنی ذمے درایوں کو پورے نہ کرنے والے افراد کا احتساب کیا جائے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ایک نئے عزم سے بھرپور جنگ کا آغاز دو سال قبل پشاور میں اسکول پر شدت پسندوں کے مہلک حملے کے بعد ہوا تھا۔
اس حملے کے بعد ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت اسلام آباد میں اکٹھی ہوئی اور انسداد دہشت گردی کا ایک قومی لائحہ عمل متفقہ طور پر تیار کیا گیا، جس کے تحت قانون سازی بھی کی گئی اور دو سال کے لیے فوجی عدالتیں بنانے کا فیصلہ بھی ہوا۔پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کے دو سال مکمل ہونے پرگزشتہ روز جہاں دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے بچوں کے والدین اور خاندانوں سے یکجتہی کا اظہار کیا گیا وہیں ایک مرتبہ پھر یہ مطالبہ بھی دہرایا گیا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے بھی سول سوسائٹی کے نمائندے اکٹھے ہوئے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اتفاق رائے سے طے پانے والے قومی لائحہ عمل کی ہر شق پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
اس مظاہرے میں شریک افراد نے کہا کہ ا ±ن کے یہاں جمع ہونے کا مقصد یہ بتانا بھی ہے کہ پشاور میں اسکول پر حملے کو قوم نہیں بھولی ہے۔ان کا مطالبہ تھا کہ کہ 16 دسمبر 2014 کو ایک بہت بڑا سانحہ ہوا، جس کو پاکستان کا سب سے بڑا سانحہ کا کہا جائے تو کم نہیں ہے، نیشنل ایکشن پلان کو اگر ردی کی بوریوں میں دفن نا کر دیا جائے اور اس کی روح کی مطابق عمل کیا جائے تو پاکستان بہت آرام سے دہشت گردی کے بھوت سے نجات پا سکتا ہے۔مظاہرے میں شریک افراد کا کہنا ہے کہ امن ملک میں بسنے والوں کی اولین ترجیح ہے، اس لیے حکومت بلاتفریق دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے۔ اب بھی ملک میں وقفے وقفے سے دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور ا ±ن کے بقول شدت پسندی سے چھٹکارے کے لیے ریاست کے تمام اداروں کو یکجا ہونا ہو گا۔”اس سے قبل کہ اس طرح کسی اور سانحہ پر آپ قوم کو ماتم کرنے پر مجبور کریں، تو آج کے دنہ ماری یکجہتی ا ±ن والدین کے ساتھ ہے جن کے بچے ا ±ن کی زندگیوں سے چلے۔۔۔ اور ہم اپنی ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔واضح رہے کہ رواں سال کوئٹہ کے سول اسپتال کے احاطے میں جمع وکلا پر دہشت گرد حملے کے حقائق جاننے کے لیے بنائے گئے سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں بھی کہا گیا کہ ملک میں انسداد دہشت گردی کے قانون پر عمل درآمد کرتے ہوئے دہشت گردی میں ملوث تنظیموں پر فوری پابندی عائد کی جائے۔ا ±دھر پاکستانی فوج سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر کے جو زخم لگایا وہ بہت گہرا ہے۔جو ہماری ایک جدوجہد ہے دہشت گردی کے خلاف ہے۔۔۔ ہم اس وقت تک جب تک ہم ہر بچے کے خون کا حساب نہیں لے لیتے، پاکستان سے دہشت گردی کا قلع قمع نہیں کر لیتے ہم آرام سے نہیں بیٹھیں گے ہم پر ان بچوں کا خون قرض ہے۔وزیراعظم نواز شریف نے بھی کہا کہ مستقبل کی نسلوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔اے پی ایس