غیرت کے نام پرخواتین کے قتل میں اضافہ: چودھری احسن پریمی




کوئی بھی برتری کا اصول جس کی بنیاد نسلی امتیاز پر ہو سائنسی طور پر جھوٹا،اخلاقی طور پر قابل مذمت،سماجی طور پر غیر منصفا نہ اور خطرناک ہوگا اور یہ کہ نسلی امتیاز کیلئے کہیں بھی کوئی نظری یا عملی جواز نہیں پایا جاتاکو ئی بھی امتیاز،خراج،حد بندی یا ترجیح جس کی بنیاد نسل، رنگ،نسب یا قومی نسلی وابستگی پر ہو اور جس کا مقصد انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے مساوی بنیاد پر اعتراف،خوشی و مسرت یا نفاذ کو سیاسی،معاشی،سماجی،ثقافتی یا عوامی زندگی کے کسی دوسرے میدان میں ختم کرنا یا کمزور کرنا۔ایک طویل عرصہ سے خواتین کو عدم تحفظ کا شکار گروہ سمجھا جاتا رہا ہے اس ضمن میں حکومت کو صرف اقدامات نہیں بلکہ مثبت کاروائی بھی کرنی چاہیے تاکہ ان حقوق سے مثبت طور پر لطف اندوز ہو نے کو یقینی بنایا جاسکے یہ صرف قوانین تشکیل دینے سے ممکن نہیں بلکہ قومی اداروں کی تشکیل اور زیادہ عالمی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ ان عملی مسائل کو حل کیا جاسکے جو مردوں اور عورتوں کیلئے مساوی حقوق کو یقینی بنانے سے وابستہ ہیں۔اگرچہ موجودہ حکومت خواتین کی فلاح و بہبود کے اقدامات کر رہی ہے۔ پہلے ماحول اور حالات ایسے نہیں تھے کہ زیادہ خواتین روزگار کی جانب توجہ دیتیں لیکن اب خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ملکی ترقی میں اپنا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اور بھر پور طریقے سے اداکر رہی ہیں۔بنک، سرکاری دفاتر،کاروباری، تعلیمی اداروں،فورسز اور پولیس میں خواتین کی بڑھتی ہو ئی دلچسپی خوش آئند اقدام ہے۔تاہم ملکی سطح پر آج بھی خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔اگرچہ خواتین کے خلاف آئے روز کئی واقعات رونما ہوتے ہیں تاہم پاکستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کو روکنے کے لیے قانون کا مسودہ تقریبا تین برس التوا میں رہنے کے بعد حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کر سکا ہے۔ اس دوران 2000 سے زائد خواتین اس جرم کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔
خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کے دو قانونی مسودے جنوری 2014 سے قومی اسمبلی میں زیر التوا تھے۔حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ان قوانین کو منظور کروانے کا اعلان کیا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اس دوران انسانی حقوق کمیشن کے مطابق 2300 خواتین نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کر دی گئیں۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ حکومت ان خواتین کے قتل کی کس حد تک ذمہ دار ہے؟ وہ ارکان پارلیمنٹ اس جرم کو روکنے میں ناکامی کے کتنے ذمہ دار ہیں جنھوں نے حکومت مخالف دھرنے کو روکنے کے لیے بلائے گئے پارلیمنٹ کے اجلاس میں تو شرکت کی لیکن اس دوران دس منٹ ان قوانین کی منظوری کے لیے مختص نہیں کروائے؟ خواتین کے حقوق کے نام پر بننے والی تنظیموں نے اس دوران خواتین کے قتل کے واقعات کا ریکارڈ مرتب کرنے کے علاوہ اس جرم کو روکنے کے لیے کیا کوئی اور کام بھی کیا؟
غیرت کے نام پر قتل کی حوصلہ شکنی کے لیے سخت قوانین بنانے کا مطالبہ کئی برسوں سے کیا جا رہا ہے۔نام نہادغیرت کے نام پر قتل میں اضافہ:اسے اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانونی سازی کا مسودہ پارلیمنٹ میں زیرِ بحث آیا، اس جرم میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی تحقیق کے مطابق 2015 میں 1096 خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ یہ ملک میں ایک سال میں اس طرح سے قتل کی جانے والی خواتین کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
2014 میں غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کی تعداد 1005 تھی۔
اس سے ایک سال پہلے یعنی 2013 میں قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 869 تھی۔
سال قتل ہونے والی خواتین کی تعداد
2013 869
2014 1005
2015 1096
2016 212 مئی تک
قانون سازی میں سرکاری عدم دلچسپی: غیرت کے نام پرقتل کی حوصلہ شکنی کے لیے سخت قوانین بنانے کا مطالبہ کئی برسوں سے کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں پیش رفت کرتے ہوئے پیپلز پارٹی نے 2014 فروری میں سینیٹ میں ایک قانونی مسودہ پیش کیا۔
حکومت نے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے اسے پارلیمنٹ سے منظور کروانے کا اعلان کیا۔ اس بل کی حکومت کی حلیف مذہبی جماعتوں کی جانب سے مخالفت کے بعد اسے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی سے منظور کروانے کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جانا تھا۔
اس دوران حکومت کے خلاف عمران خان کی تحریک انصاف نے تحریک شروع کر دی، اسلام آباد میں دھرنا ہوا اور پھر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی۔ لیکن اس دوران اس قانون کو منظور کروانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
قانون و انصاف کے امور پر وزیراعظم کے مشیر بیرسٹر ظفر اللہ خان کہتے ہیں کہ ان قانونی مسودے بروقت منظور نہ ہو سکنے کا سرکاری عدم دلچسپی سے تعلق نہیں ہے۔ہم اس قانون پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے اسی لیے یہ قانون کچھ تاخیر سے منظور ہوئے۔
قتل و غیرت:انسانی حقوق کمیشن کی تحقیق کے مطابق غیرت کے نام پر قتل میں تقریبا ہمیشہ مقتول خواتین کے شوہر اور بھائی ملوث پائے جاتے ہیں۔تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ قتل کی جانے والی خواتین پر غیر ازدواجی تعلقات کا الزام لگانے کا رواج بہت عام ہے لیکن دراصل غیرت کے نام پر ہونے والی زیادہ تر وارداتیں لڑکی کی اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر شادی یا اس کی کوشش کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کی تحقیق کے مطابق نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی 30 فیصد وارداتوں میں خواتین کے شوہر اور 20 فیصد سے زائد میں ان کے اپنے بھائی ملوث پائے جاتے ہیں۔
ایسے میں انسانی حقوق کے علمبردار سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر ملک کا قانون ایک عورت کو اپنی مرضی سے شادی کی اجازت دیتا ہے اور سپریم کورٹ بھی اس کا حق تسلیم کرتی ہے تو پھر لوگ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو اپنی پسند سے شادی کی خواہش پر کیوں مار دیتے ہیں؟
مقتول صرف عورتیں:جب بھی کسی خاتون کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے اس کے مبینہ جرم میں فریق ثانی کے طور پر کسی مرد کا نام ضرور موجود ہوتا ہے یعنی نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی بنیاد ہی یہ بنائی جاتی ہے کہ کسی خاتون کے مرد کے ساتھ ناجائز روابط تھے یا اس کا شک تھا۔
تاہم انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ بتاتی ہے کہ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی گذشتہ دس برس میں ہونے والی وارداتوں میں جن میں کوئی عورت قتل کی گئی اس کے مقابلے میں اسی واردات میں کسی مرد کو بھی یہی سزا دینے کا تناسب صرف ایک فیصد ہے۔دیہی اور دور دراز علاقوں میں اس جرم کی شرح بڑے شہری علاقوں کی نسبت بہت کم ہے۔شہری علاقوں میں وارداتیں دیہات سے زیادہ:خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فانڈیشن کی تحقیق بتاتی ہے کہ عام تاثر کے برعکس دیہی اور دور دراز علاقوں میں اس جرم کی شرح بڑے شہری علاقوں کی نسبت بہت کم ہے۔اسی طرح آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ عورت کے خلاف اس جرم میں بھی سب سے آگے ہے۔عورت فانڈیشن کے مطابق نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں میں صوبوں کے لحاظ سے پنجاب پہلے نمبر پر ہے جہاں پورے ملک کے دیگر صوبوں کے برابر اس جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔
پنجاب کے صنعتی شہر فیصل آباد میں پورے ملک میں سب سے زیادہ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیے جاتے ہیں۔ پنجاب کی آبادی باقی تینوں صوبوں کو ملا کر بھی ان سے زیادہ ہے۔ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر واقعات مرکزی اور جنوبی پنجاب میں پیش آتے ہیں۔عام تاثر کے برعکس خواتین کے خلاف اس جرم کا تناسب دیہی سے زیادہ شہری علاقوں میں پایا جاتا ہے۔انتظامی طور پر تو یہ ایک صوبہ ہے لیکن جغرافیائی اور ثقافتی اعتبار سے اسے تین بڑے حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ شمالی پنجاب اور پوٹھوہار کا علاقہ ان میں سب سے ترقی یافتہ ہے، جو شرحِ خواندگی، صحت کی سہولیات اور معاشی مواقع کے لحاظ سے سرِفہرست ہے۔نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر واقعات مرکزی اور جنوبی پنجاب میں پیش آتے ہیں۔اس کے بعد وسطی پنجاب کا نمبر آتا ہے، جب کہ جنوبی پنجاب ان تینوں درجہ بندیوں میں سب سے نیچے آتا ہے۔شمالی اور وسطی پنجاب میں بھاری صنعتیں قائم ہیں جو لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہیں، جب کہ جنوبی پنجاب میں جاگیردارانہ نظام کی وجہ سے زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔
سندھ:سندھ، تضادات کی سرزمین: صوفی شاعروں اور ولیوں کے پہلو بہ پہلو وڈیروں، سیٹھوں اور سرمایہ کاروں کی سرزمین جہاں خواتین کے خلاف جرائم کی ایک لمبی تاریخ ہے۔کاروکاری کی رسم کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں اور آج بھی اس نام پر خاص طور پر خواتین کو نشانہ بنانے کا چلن ہے۔یہاں ایک طرف تو تھر کی عورتیں مٹیالے پانی سے بھرے گھڑے سروں پر اٹھا کر کئی کلومیٹر دور بھٹی کی طرح تپتی زمین پر چلتی دکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف کلفٹن کے بنگلوں کے وسیع و عریض باغیچوں کی شادابی برقرار رکھنے کے لیے پانی پیسے کی طرح بہایا جاتا ہے۔سندھ کو سمجھنے کے لیے ہم اسے بحیر عرب کی توسیع سمجھ سکتے ہیں جہاں غربت، جہالت اور پسماندگی کے گدلے دیہی پانیوں کے درمیان شہری علاقوں کے جزیرے پائے جاتے ہیں جہاں تعلیم، روزگار، صنعت و حرفت اور ذرائع ابلاغ کی روشنیاں جھلملاتی ہیں۔جس طرح یہ دو خطے دو مختلف جہانوں کا حصہ لگتے ہیں، ویسے ہی ان پر روایتی طور پر دو مختلف سیاسی قوتوں کا کچھ ایسا غلبہ رہا ہے جس پر پچھلے چھ انتخابات سے مختلف جماعتوں کی جانب سے دراڑ ڈالنے کی ہر کوشش کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔سندھ وہ صوبہ ہے جس نے ملک کے ہر گوشے سے آنے والوں کو کھلی بانھوں سے بھلی کری آئیو کہا ہے، چنانچہ کراچی میں صرف دنیا کی سب سے بڑی اردو سپیکنگ آبادی مقیم نہیں ہے، بلکہ یہ دنیا کا سب سے بڑا پشتون شہر بھی ہے۔یہ تضادات کے شکار سندھ کا ایک اور تضاد ہے۔دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بلوچستان میں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا چلن بہت کم ہے۔
بلوچستان:بلوچستان رقبے اور قدرتی وسائل کی فراوانی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو پسماندگی، غربت اور بیروزگاری کے اعتبار سے بھی پاکستان میں سرِفہرست ہے۔
عام تاثر تو یہی ہے کہ اس صوبے میں خواتین حقوق کی جنگ میں کہیں شامل نہیں ہیں لیکن اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پنجاب یا کسی بھی دوسرے صوبے کے مقابلے میں یہاں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے کا چلن بہت کم ہے۔ سیاہ کاری کی رسم موجود ہے لیکن یہ بعض علاقوں اور بعض قبیلوں تک محدود ہے۔ماہرین کے مطابق برصغیر میں باقاعدہ آبادی کا آغاز بلوچستان سے ہوا اور یہیں سے ہڑپہ اور موہنجودڑو کی عظیم الشان تہذیب کے سوتے پھوٹے۔ اسی قدیم ثقافت نے اس صوبے کے عوام کو مخصوص طرزِ زندگی بخشا ہے جس کی بنیاد جفاکشی، خودداری اور خودمختاری ہیں۔بلوچستان جس قدر سنگلاخ پہاڑوں اور بے آب و گیاہ میدانوں میں گھرا ہوا ہے، اسی طرح سے اسے ایک عرصے سے علیحدگی پسندانہ شورش اور فرقہ واریت کے شعلوں نے بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔صرف قدرتی وسائل ہی نہیں، یہ صوبہ جغرافیائی وسائل کی دولت سے بھی مالامال ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی شہ رگ اس کے ایک سرے پر واقع گہری سمندری بندرگاہ گوادر ہے۔ اسی منصوبے کے باعث یہ صوبہ ایک بار پھر تمام تر توجہ کا مرکز بن گیا ہے اور تمام سٹیک ہولڈر اس کے ثمرات میں سے اپنا اپنا حصہ بٹورنے کی کوشش میں مگن ہیں۔اس رسہ کشی سے جو دھول اٹھی ہے اور اس کے اندر صوبے کے اصل سٹیک ہولڈر یعنی اس کے پسے ہوئے عوام کہیں گم ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا:اس صوبے کی تاریخ، رسم و رواج اور ثقافت دوسرے صوبوں سے مختلف ہے۔ یہاں دوسرے صوبوں کے مقابلے پر روایتی جاگیرداری نظام کبھی بھی بڑے پیمانے پر رائج نہیں رہا، جس کی وجہ سے یہاں کے باسی سیاسی طور پر نسبتا زیادہ خودمختار ہیں۔اس کا ایک ثبوت یہاں ہونے والے صوبائی انتخابات کے نتائج کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پنجاب اور سندھ میں چند مخصوص جماعتوں کا غلبہ رہتا ہے اور ہر بار وہی چہرے اسمبلیوں میں نظر آتے ہیں، لیکن خیبرپختونخوا میں پچھلے تین انتخابات میں تین مختلف جماعتوں کو مینڈیٹ ملا ہے۔یہ صوبہ جنگلات اور آبی وسائل کی صورت میں خاصا مالامال ہے۔ چین پاک اقتصادی راہداری کا بڑا حصہ بھی یہاں سے گزرتا ہے، جس کی وجہ سے اس کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔دنیا کے عظیم سلسلہ ہائے کوہ کی قربت کی وجہ سے خیبر پختونخوا قدرتی حسن کے لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ ہے، یہ الگ بات کہ یہاں کئی عشروں سے جاری شدت پسندی کی لہر کی وجہ صوبے کے سیاحتی وسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔
پاکستان کی غیر سرکاری تنظیم عورت فانڈیشن کی تحقیق کے مطابق سنہ 2015 میں ملک میں 1096 خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ 2014 میں غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کی تعداد 1005 تھی۔ اس سے ایک سال پہلے یعنی 2013 میں قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 869 تھی۔
فیصل آباد:مرکزی پنجاب کا یہ ضلع کپڑے کی صنعت کے لیے مشہور ہے۔اس ضلعے میں نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کا رجحان ملک کے باقی اضلاع کی نسبت زیادہ ہیاور یہاں سنہ 2008 سے 2014 کے درمیان 200 ایسے واقعات پیش آئے۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں فیصل آباد میں نام نہاد غیرت کے نام پر پورے ملک میں سب سے زیادہ یعنی 45 قتل ہوئے۔
اس سے ایک سال پہلے یعنی 2013 میں یہاں اس قتل کی وارداتوں کی تعداد 28 تھی جو ملک بھر میں دوسرے نمبر پر رہی۔گذشتہ پانچ برسوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائِے تو فیصل آباد کا ذکر غیرت کے نام قتل کی وارداتوں کی تعداد کے لحاظ سے ہمیشہ ملک کے پہلے پانچ شہروں میں رہا ہے۔
لاہور:صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں کی تعداد کے لحاظ سے ملک کے چند اہم شہروں میں شامل ہے۔لاہور میں شہر کے علاوہ اردگرد کے مضافاتی دیہات بھی شامل ہیں لیکن خواتین کے خلاف اس جرم کے زیادہ تر واقعات شہری علاقوں ہی سے رپورٹ ہوئے ہیں۔یہاں سنہ 2008 سے 2014 کے درمیان نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے 163 سے زیادہ ایسے واقعات پیش آئے۔2014 میں تو یہ شہر وارداتوں کی تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر تھا لیکن اس سے ایک سال پہلے لاہور 29 واقعات کے ساتھ اس بدنام فہرست میں سب سے پہلے نمبر پر رہا۔اس سے پہلے کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ لاہور میں ہمیشہ سے ہی ان وارداتوں کا چلن رہا ہے اوریہ ہمیشہ ان دس شہروں میں شامل رہا ہے جن میں ایسی وارداتیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔
جیکب آباد:صوبہ سندھ اور بلوچستان کا سرحدی ضلع جیکب آباد بھی ملک کے ان شہروں میں شامل ہے جہاں نام نہاد غیرت کے نام پر عورتوں کو قتل کرنے کی وارداتیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔سنہ 2008 سے 2014 کے دوران یہاں 222 ایسے واقعات پیش آئے۔2014 میں 33 قتال کے ساتھ یہ ضلع ان واقعات کے لحاظ سے ملک کا چوتھا بڑا شہر تھا۔ 2012 میں یہ اس بدنام فہرست میں دوسرے جبکہ 2011 میں تیسرے نمبر پر رہا۔2010 اور 2009 میں ملک بھر میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی سب سے زیادہ وارداتیں جیکب آباد میں ہی رپورٹ کی گئی تھیں اور یہ تعداد بالترتیب 42 اور 36 تھی۔
لاڑکانہ:صوبہ سندھ کا ضلع لاڑکانہ سیاسی لحاظ سے ملک کا اہم ضلع ہے۔نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی جس قدر وارداتیں اس علاقے میں ہوتی ہیں ان کے پیش نظر انسانی حقوق کے کارکنوں کا یہ شکوہ بے جا نہیں ہے کہ سیاسی شعور کے تناسب سے اس علاقے میں خواتین کے حقوق کا شعور اجاگر کرنے کے اثرات دکھائی نہیں دیتے۔یہی وجہ ہے کہ لاڑکانہ میں نام نہاد غیرت کے نام پر ہر سال درجنوں خواتین قتل کی جاتی ہیں اور سنہ 2008 سے سنہ 2014 کے درمیان یہ تعداد 158 سے زیادہ تھی۔2014 میں یہ تعداد 27 تھی جس کی وجہ سے لاڑکانہ کا نمبر نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کرنے والے شہروں میں چوتھے نمبر پر رہا۔2013 ایک ایسا سال تھا جب یہاں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں کمی دیکھی گئی اور یہ تعداد 13 تھی۔2012 کے دوران لاڑکانہ میں ایسی وارداتوں کی تعداد 20 تھی جبکہ 2011 میں یہاں 22 اور 2010 میں 33 خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔کشمور:کشمور سندھ کا ایسا ضلع ہے جہاں قبائلی اثرات آج بھی شدت سے پائے جاتے ہیں۔انسانی حقوق کے کارکن اس علاقے میں خواتین کے خلاف جرائم کو انھی روایات سے جوڑنے پر بضد ہیں۔دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کشمور کا ضلع گزشتہ کم از کم چار برسوں سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے لحاظ سے ان پانچ شہروں میں شامل ہے جہاں یہ جرم سب سے زیادہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔
2014 میں ضلع کشمور میں 25 خواتین قتل کی گئیں۔ 2013 میں یہ تعداد 18 تھی جبکہ اس سے پچھلے سال ان وارداتوں میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا اور یہ تعداد 31 تھی۔
نصیر آباد:بلوچستان کا ضلع نصیر آباد صوبے کے ان چند اضلاع میں شامل ہے جہاں سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں مسلسل رپورٹ ہوتی ہیں۔صوبہ سندھ کی سرحد کے قریب واقع اس ضلعے میں متعدد پشتون اور سندھی قبائل بھی آباد ہیں۔یہ بات انسانی حقوق کے کارکنوں کے لیے حیرت کا باعث ہے کہ گزشتہ تین سے چار برسوں کے دوران اس علاقے سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی اتنی زیادہ وارداتیں رپورٹ نہیں ہو رہیں جتنی اس سے پہلے کئی برسوں تک ہوتی رہی ہیں۔
مثلا 2011 میں نصیر آباد میں 39 خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ 2008 میں یہ تعداد 36 ریکارڈ کی گئی تھی۔
رحیم یار خان:رحیم یار خان جنوبی پنجاب کا ضلع ہے جو دریائی، بارانی اور صحرائی زرعی علاقے پر مشتمل ہے۔ یہاں رہنے والوں کی اکثریت کا ذریعہ معاش زراعت ہے اور یہاں خواتین کے کھیتی باڑی میں حصہ لینے کا رواج عام ہے۔اس کے ساتھ ہی نام نہاد غیرت کے نام پر ان کے خلاف جرائم کے واقعات بھی اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔2014 میں اس ضلعے میں نام نہاد غیرت کے نام پر 20 خواتین قتل کی گئیں جبکہ ایک سال پہلے یہ تعداد 15 تھی۔
شکارپور:صوبہ سندھ کا یہ ضلع بلوچستان کی سرحد کے قریب واقع ہے اس لیے یہاں بلوچ قبائل بھی بڑی تعداد میں بستے ہیں۔شکارپور میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی وارداتیں معمول کا حصہ تو نہیں ہیں لیکن دستیاب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہر کچھ سال بعد یہاں خواتین کے خلاف اس جرم میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔مثال کے طور پر 2008 اور 2009 میں یہاں سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ واقعات رپورٹ نہیں ہوئے لیکن 2010 میں 17 خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی گئیں۔اگلے دو سال پھر اس جرم میں کمی دیکھنے میں آئی لیکن 2013 میں یہاں 24 اور 2014 میں 19 خواتین کے قتل کی رپورٹس سامنے آئیں۔
گھوٹکی:صوبہ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے سنگم پر واقع ضلع گھوٹکی میں نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کے واقعات میں گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔2008 میں گھوٹکی 34 واقعات کے ساتھ اس جرم کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان بھر میں اول نمبر پر تھا۔ اس سے اگلے سال یعنی 2009 میں یہاں 24 خواتین نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔2010 میں یہ تعداد بڑھ کر 37 تک جا پہنچی تاہم پھر اس میں بتدریج کمی آئی اور 2011 میں یہاں 21 اور 2012 میں 14 خواتین موت کی بھینٹ چڑھائی گئیں۔
سکھر:صوبہ سندھ کے ضلع سکھر میں خواتین کو نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کرنے کے واقعات میں کمی بیشی سال بہ سال دیکھنے میں آتی ہے۔2009 میں سکھر نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کی تعداد کے لحاظ سے 32 قتل کے ساتھ ملک بھر میں دوسرے نمبر پر تھا۔2011 میں سکھر میں 21، 2012 میں 20 اور 2013 میں 19 خواتین نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔
پشاور:خیبر پختونخوا کا شہر پشاور قبائلی علاقے سے منسلک اور صوبے کا سب سے بڑا شہری علاقہ ہے۔
اسی تناسب سے یہ شہر جہاں جدید اور قدیم روایات کا امین ہے وہیں اسے تضادات کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے۔رسوم و روایات اور رہن سہن میں پائے جانے والے یہ تضادات تنازعات اور جرائم کا باعث بھی بنتے ہیں۔نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے رپورٹ شدہ واقعات میں پشاور کا اس صوبے میں پہلا نمبر ہے۔سنہ 2014 میں پشاور میں نام نہاد غیرت کے نام پر 12 خواتین کو قتل کیا گیا۔
سوات:ملک بھر سیاحتی مقام کے طور پر مشہور سوات کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہاں خواتین کے خلاف جرائم بھی بڑی تعداد میں وقوع پذیر ہوتے ہیں جن میں نام نہاد غیرت کے نام پر قتل بھی شامل ہیں۔تاہم یہاں رپورٹ ہونے والے واقعات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خواتین میں خودکشی کے رجحانات میں بہت اضافہ دیکھا گیا ہے۔اے پی ایس