واشنگٹن بے حد غیر یقینی کا شکار ۔ چودھری احسن پریمی


 ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کے پینتالیسویں صدر کے طور پر حلف اٹھا لیا ہے۔یہ باضابطہ اور باوقار تقریب جمعے کی دوپہر کانگریس کی عمارت کے سامنے منعقد ہوئی۔ادھر، ایک ٹوئیٹ میں، سبک دوش ہونے والے صدر براک اوباما نے کہا کہ ”آپ کی خدمت بجا لانا میری زندگی کا عزت آفرین وقت تھا۔ آپ نے ایک بہتر رہنما اور ایک اچھا انسان بننے میں میری مدد فرمائی“۔علی الصبح، اپنی بیگم کے ہمراہ، منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ دعائیہ رسم کے لیے ایک مقامی گرجا گھر گئے؛ جس کے بعد وہ صدر براک اوباما اور مشیل اوباما کے ساتھ کافی پینے کے لیے وائٹ ہاو ¿س پہنچے۔وائٹ ہاو ¿س آمد پر، صدر اوباما اور مشیل اوباما نے منتخب صدر اور ملانیا ٹرمپ کو گرم جوشی سے خوش آمدید کہا۔ ٹرمپ اور اوباما نے ہاتھ ملایا، جب کہ نئی اور سبک دوش ہونے والی خاتون اول آپس میں ملیں۔عہدہ صدارت سنبھالنے سے پہلے، ایک ٹوئیٹ میں ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ ”تحریک جاری ہے، اور کام کا آغاز ہوا ہی چاہتا ہے“۔تقریب میں شرکت کے لیے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور ا ±ن کی بیگم، لورا کی بھی وائٹ ہاو ¿س میں آمد ہوئی۔ ادھر، سابق صدور بِل کلنٹن اور جِمی کارٹر بھی تقریب میں شریک ہوئے۔وائٹ ہاو ¿س سے، منتخب صدر اور سبک دوش ہونے والے صدر، اپنی بیگمات کے ہمراہ موٹرکیڈ میں؛ اور اِسی طرح، منتخب نائب صدر اور سبک دوش ہونے والے نائب صدر اپنی بیگمات کے ساتھ حلف برداری کی تقریب کے لیے روانہ ہوئے۔منتخب صدر کی مشیر، کیلانے کونوے نے کہا تھا کہ ٹرمپ کا حلف برداری کا خطاب ”باوقار، شاندار، مو ¿ثر اور مختصر“نوعیت کا ہوگا۔
واشنگٹن کا موسم ابر آلود جب کہ درجہ حرارت سرد تر تھا، جب کہ ہلکی بارش کی پیش گوئی کی گئی تھی۔انہوں مے ماضی کے صدور کی طرح، امریکہ کے آئین کو ”برقرار رکھنے، تحفظ دینے اور دفاع“ کا حلف اٹھایا کانگریس کی عمارت کے سائے میں منعقدہ تقریب کی جھلک دیکھنے کے لیے، اور واشنگٹن کے نیشنل مال پر لاکھوں لوگ موجود تھے۔ امریکہ کو پھر سے عظیم تر بنانے“ کا عہد دہراتے ہوئے، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ ”سیاہ، بھورے یا سفید رنگ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، چونکہ ہم سب میں حب الوطنی کا خون دوڑ رہا ہے“۔عہدہ صدارت کا حلف لینے کے بعد اپنے خطاب میں ا ±نھوں نے کہا کہ ”ضرورت اِس بات کی ہے کہ امریکی مفاد کو اولین ترجیح دی جائے“۔ بقول ا ±ن کے، ”آج کے دِن کے بعد ہم اپنے ملک کا نظام ایک نئے نصب العین کے تحت چلائیں گے، اور وہ یہ ہے کہ۔۔۔ امریکہ سب سے پہلے“۔ا ±نھوں نے کہا کہ ”ہم پرانے اتحادوں کو تقویت دیں گے اور نئے اتحاد تشکیل دیں گے؛ اور مہذب دنیا کو قدامت پسند اسلامی دہشت گردی کے خلاف متحد کریں گے؛ جسے ہم کرہ ارض سے مکمل طور پر اکھاڑ پھینکیں گے“۔صدر ٹرمپ نے، جنھوں نے ملک کے پینتالیسویں صدر کی حیثیت سے عہدے کا حلف لیا، کہا کہ “ہم دوسرے ملکوں کی سرحدوں کا دفاع کرتے رہے ہیں، جب کہ اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہے ہیں“۔کانگریس کی عمارت کے سامنے منعقدہ باوقار تقریب میں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس، جان رابرٹس نے ڈونالڈ ٹرمپ سے عہدے کا حلف لیا، جس میں سبک دوش ہونے والے صدر براک اوباما اور مشیل اوباما؛ کے علاوہ سابقہ صدور بِل کلنٹن اور ہیلری کلنٹن؛ جارج ڈبلیو بش اور لورا بش؛ جمی کارٹر اور روزلین کارٹر نے بھی شرکت کی۔ا ±نھوں نے کہا کہ ”واشنگٹن خوشحال ہوا، لیکن عوام محروم رہے؛ سیاست دان خوش حال ہوئے، لیکن روزگار کے مواقع معدوم ہوئے اور کارخانے بند ہوتے چلے گئے؛ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو تحفظ فراہم کیا، لیکن ملک کے شہری اس سے محروم رہے“۔اِس سے قبل، مائیک پینس نے نائب صدر کے عہدے کا حلف لیا۔ا ±نھوں نے کہا کہ ”امریکہ سے مکمل وفاداری ہماری سیاست کی اساس ہے، اور امریکہ کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے، ہم ایک دوسرے سے قربت کا رشتہ قائم و مضبوط کریں گے“۔صدر نے کہا کہ ”جب ہم دل کھول کر حب الوطنی سے رشتہ جوڑتے ہیں تو پھر کسی تعصب کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی“۔ا ±نھوں نے کہا کہ ”پ ±رعزم امریکی ہر چیلنج کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کر سکتا ہے، اور وقت دور نہیں جب ہم پھر سے خوشحال اور طاقت ور بن جائیں گے“۔بقول ا ±ن کے ”ہم متحد ہوکر امریکہ کو پھر مضبوط، دولت مند، قابلِ فخر، اور محفوظ بنائیں گے“۔حلف برداری کی تقریب کے بعد، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی کابینہ کے ارکان کی نامزدگی کی دستاویزات اور قومی سطح پر "حب الوطنی کا دن" منانے کے ایک حکم نامے پر دستخط کیے۔دستاویزات پر دستخطوں کے موقع پر کانگریس کے دونوں ایوانوں کے قائدین بھی موجود تھے۔بعدازاں، صدر ٹرمپ کانگریس کے ارکان کی جانب سے دیے جانے والے ظہرانے میں شریک ہوئے، جس کے بعد وہ پریڈ کی صورت میں کانگریس سے وائٹ ہاوس چلے گئے۔ نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو متحد اور ایک عظیم ملک بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔اپنی حلف برداری کی تقریب سے قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ قوم جمعہ کو "وہ دیکھے گی جو بہت شاندار ہو گا، جب وہ امریکہ کی پینتالیسویں صدر کے طور پر حلف اٹھائیں گے۔"جمعرات کو واشنگٹن ڈی سی میں لنکن میموریل میں ہونے والے ایک کنسرٹ کے دوران اپنے مداحوں سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا کہ انہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ موسم "اچھا سہانا ہو گا، یا بہت زیادہ بارش ہو گی، لیکن جو کچھ امریکہ میں ہو رہا ہو گا اسے ساری دنیا دیکھے گی۔"حلف برداری کے دن کے لیے ہلکی بارش اور شدید سردی کی پیش گوئی کی گئی تھی۔سیئن سپائسر جو ٹرمپ کے وائٹ ہاو ¿س کے پریس سیکرٹری بنے ہیں، نے کہا کہ منتخب صدر کی طرف سے جمعہ کی دوپہر کیا جانے والا خطاب کے امریکہ کے بارے میں ان کے "ایک ذاتی تصور (کے بارے ) میں ہو گا۔"اس ضمن میں ٹرمپ اپنے خطاب میں "درپیش چیلنجوں" کا ذکر کیا۔
حلف برداری کی تقریبات میں امن و امان کی بحالی اور کسی ناخوش گوار صورت حال سے بچنے کے لیے دارالحکومت میں 28 ہزار سیکیورٹی اہل کار تعینات کیے گئے۔ مخصوص علاقوں میں میلوں لمبی باڑیں لگائی گئی ہیں۔ سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی اور سیکیورٹی کے طور پر ریت سے بھرے ہوئے ٹرکوں کا انتظام بھی کیا گیا ۔مظاہرین کا کہنا ہے ان کے لگ بھگ 30 گروپ احتجاج کے لیے واشنگٹن آئے جس کے لیے انہوں نے اجازت نامے حاصل کئے ہوئے تھے۔مظاہرین کی تعداد کا تخمینہ پونے تین لاکھ افراد لگایا گیا تھا۔ایک احتجاج گروپ ’ جے 20 ‘ نے کہا تھا کہ وہ نیشنل مال پر واقع تمام 12 سیکیورٹی چوکیوں کے سامنے مظاہرے کریں گے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جمعرات کے دِن واشنگٹن پہنچے، جس سے ایک ہی روز بعد کانگریس کی عمارت کے سائے تلے انہوں نے ملک کے پینتالیسویں انتظامی سربراہ کے طور پر حلف اٹھایا۔ایک ٹوئٹر بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ ”سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ اور میں سخت محنت اور جدوجہد کے ساتھ، امریکی عوام کی بہتری کے لیے، اِسے ایک عظم سفر بناو ¿ں گا“۔ا ±نھوں نے کہا کہ ”اس بات میں مجھے کوئی شک نہیں کہ ہم مل کر امریکہ کو پھر سے ایک عظم ملک بنائیں گے“، جو انتخابی مہم کے دوران ا ±ن کا مشہور نعرہ ہوا کرتا تھا۔
بعدازاں، پینس کے ہمراہ، ٹرمپ نے آرلنگٹن نیشنل سمیٹری میں پھولوں کی چادر چڑھائی، جہاں 400000 سے زائد سابق فوجیوں اور ا ±ن کے اہل خانہ کی قبریں ہیں۔وہاں سے، جائیداد کے ارب پتی کاروباری کی آمد نیشنل مال پر واقع لنکن میموریل پر ہوئی جہاں، میلانیا ٹرمپ کے ہمراہ منتخب صدر محفلِ موسیقی میں شریک ہوئے۔ اس کے بعد، آتشبازی کا شاندار مظاہرہ ہوا۔ٹرمپ اور پینس کے علاوہ نئے انتظامیہ کے دیگر کلیدی اہل کار ایک ’کینڈل لائٹ ڈنر‘ میں شریک ہوئے، جو تقریب ا ±ن کی انتخابی مہم میں عطیہ دہندگان کی جانب سے واشنگٹن کے یونین اسٹیشن کے ریلوے ڈپو میں منعقد کی گئی۔امریکی صدر کی
 تقریبِ حلف برداری کوئی سستا کام نہیں بلکہ اس پر کروڑوں ڈالر خرچ آتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری کی تیاریوں اورپورا ہفتہ جاری رہنے والی تقریبات پر لگ بھگ 20 کروڑ ڈالر خرچ ہوں گے۔ اس میں سے آدھی رقم ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں سے جمع کیے جانے والے عطیات اور باقی آدھی سرکاری خزانے سے ادا کی جائے گی۔
 سب سے زیادہ خرچ تقریبات کی سکیورٹی پر آیاجس پر ایک اندازے کے مطابق 10 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ نومنتخب امریکی صدر کی تقریبِ حلف برداری کی سکیورٹی کے لیے لگ بھگ تین درجن ریاستی، مقامی اور فیڈرل اداروں کے 28 ہزار سے زائد اہلکاروں نے ڈیوٹی انجام دی۔
ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے تقریبِ حلف برداری کے انتظامات کی نگرانی کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی نے مہینوں کی محنت کے بعد کارپوریشنوں، کاروباری شخصیات، اور نومنتخب صدر کے حامی عام شہریوں سے 10 کروڑ ڈالر جمع کیے جو ایک ریکارڈ ہے۔
اس سے قبل کسی امریکی صدر کی اِن آگریشن کےلیے سب سے زیادہ عطیات اکٹھے کرنے کا ریکارڈ صدر اوباما کی ٹیم نے قائم کیا تھا جس نے 2009 میں ان کی حلف برداری کی تقریبات کے لیے لگ بھگ ساڑھے پانچ کروڑ ڈالرجمع کیے تھے۔
اب جبکہ امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس ہفتے عہدہ سنبھال لیا ہے اس سے قبل دنیا نے اپنی سانسیں روکی ہوئی تھی۔اس ضمن میں مبصرین و تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کے قابلِ بھروسہ ہونے کے حوالے سے اٹھتے سوالات کی وجہ سے واشنگٹن بے حد غیر یقینی کا شکار ہے۔ ان کے انتخاب نے ملک کو پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ تقسیم کا شکار بنا دیا ہے۔ دنیا کا مضبوط ترین عہدہ سنبھالنے والے شخص کے لیے یہ سازگار شروعات نہیں۔ نوبیل انعام یافتہ ماہرِ اقتصادیات پال کرگمین لکھتے ہیں کہ "امریکا میں واضح طور پر حکمرانی نااہل ترین شخص کے ہاتھ میں آئی ہے۔" پال مزید لکھتے ہیں کہ "چوں کہ ٹرمپ صدر کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں، صرف اس بناء پر ان کا احترام نہیں کیا جانا چاہیے۔مبصرین کے خیال میںنئے آنے والے صدر کی مشکوک اخلاقی اور سیاسی ساکھ کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا غیر یقینی حالات کی جانب گامزن نظر آ رہا ہے۔ عہدہ سنبھالنے سے قبل ہی انہیں قابو میں رکھنے کی باتیں ہوتی رہی ہیں. ان کا اپنے ملک کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور خفیہ اداروں سے تنازع چل رہا ہے، جن کا موازنہ وہ نازیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی تعریف، اور یہ الزام کہ صدارتی انتخابات کے نتائج میں روس کا اثر شامل تھا، نے نئے صدر پر عدم اعتمادی کو مزید بڑھایا ہے۔چند دن قبل لیک ہونے والی ایک غیر تصدیق شدہ انٹیلیجنس معلومات میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ممکنہ طور پر ماسکو کے ایک ہوٹل میں ٹرمپ کو سیکس ورکرز کے ساتھ فلما کر روس ٹرمپ کو بلیک میل کر چکا ہے؛ اس طرح نئے صدر کئی امریکی افسران کی نظر میں ایک 'سیکیورٹی رسک' بن چکے ہیں۔اس شک پر اسرائیلی اخبارات میں شائع ایک خبر میں مزید روشنی ڈالی گئی ہے جس کے مطابق امریکی افسران نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتے وقت ’خیال رکھا جائے'، کیوں کہ اس طرح معلومات روس تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
اگر ایک رہنما کی ساکھ اس قدر مشکوک و مشتبہ ہو، تو اس کے بارے میں کوئی سوچنے پر مجبور کیوں نہ ہو؟ اس سے پہلے کسی بھی امریکی صدر کی اہم قومی سلامتی کے معاملات سنبھالنے کی اہلیت کی اس قدر سخت جانچ پڑتال نہیں کی گئی ہے.
خارجہ پالیسی پر ٹرمپ کے عجیب و غریب خیالات عالمی رہنماو ¿ں کے لیے ایک بڑی تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ وہ غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لیے میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنے اور اس دیوار کی قیمت بھی میکسیکو سے وصول کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ مگر سب سے زیادہ تشویش ناک بات امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کا فیصلہ ہے. یہ واشنگٹن کی طویل عرصے سے قائم پالیسی سے انحراف ہوگا.
امریکا میں جو بھی شخص صدر منتخب ہو، روایت ہے کہ وہ حلف اٹھانے سے قبل موجودہ انتظامیہ کی پالیسیوں پر تبصرہ نہیں کیا کرتا. ڈونلڈ ٹرمپ نے اس روایت کو توڑتے ہوئے فلسطینی زمین پر نئی اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کی روک تھام کے لیے اقوامِ متحدہ میں پیش ہونے والی قراداد کو ویٹو نہ کرنے کے اوباما کے فیصلے کو عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔اسرائیلی بستیوں کے حامی وکیل ڈیوڈ فرائیڈمین کو اسرائیل میں سفیر تعینات کرنے کے ارادے کو امریکی اتحادیوں کی جانب سے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو اس اقدام کو ایک بڑی تباہی کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے مشرق وسطیٰ میں صرف مزید آگ پھیلے گی۔
ایک اور متنازع قدم اٹھاتے ہوئے ٹرمپ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے داماد جیرڈ کشنر کو مشرق وسطیٰ میں امن سمجھوتہ کروانے کا ٹاسک دیں گے. اس نامعقولی نے نہ صرف فلسطین بلکہ امریکا کے مغربی اتحادیوں کو بھی شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔چین بھی ٹرمپ کی سرکش خارجہ پالیسی کی حرارت محسوس کر رہا ہے۔ بطور منتخب صدر، عالمی رہنماو ¿ں کو کی جانے والی ٹیلی فون کالز میں سے ایک تائیوان کے صدر کو بھی کی گئی تھی۔ گزشتہ تمام سابقہ امریکی حکومتیں، چاہے وہ ری پبلکن ہوں یا ڈیموکریٹس، 1979 سے ’ون چائنہ‘ کی پالیسی پر قائم رہی ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران کئی تلخیوں کے باوجود بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کافی مضبوط ہوئے ہیں۔ٹرمپ کے تائیوان کی جانب پرتپاک رویوں اور اشاروں سے ایک بار پھر ’ٹو چائناز’ کا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہ بات بیجنگ کے لیے بھی شدید غصے کا باعث بنی ہے اور اس کے یقینی طور پر زبردست علاقائی اور عالمی اثرات مرتب ہوں گے۔ چین نے منتخب صدر پر آگ سے کھیلنے کا الزام عائد کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ بیجنگ کے پاس پھر اپنی طاقت دکھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچے گا۔ٹرمپ کی بریگزٹ کے لیے عوامی سطح پر حمایت اور اپنے بیانات میں دیگر یورپی ملکوں کو بھی برطانیہ کے نقش قدم پر چلنے کا مشورہ دینے کی وجہ سے انہیں یورپی ملکوں کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ایک انٹرویو میں وہ یورپی یونین کو توڑنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ 10 لاکھ سے زیادہ مہاجرین کو جرمنی آنے کی اجازت پر انہوں نے جرمن چانسلر اینگلا مرکل پر عوامی سطح پر تنقید کی، جس پر جرمنی سے شدید ردعمل ابھرا۔ ٹرمپ کے انتخاب نے ایک شدید قوم پرستانہ لہر کو ہوا دی ہے جو کہ یورپی اتحاد کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ایک دوسرا حساس مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے پر نظرِثانی کی کوشش میں ہیں۔ یہ معاہدہ ایران اور چھے عالمی طاقتوں پی 5 پلس ون نے 2015 میں کیا تھا جس کے تحت ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی ایران کی صلاحیت ختم کرتے ہوئے اس پر عائد معاشی پابندیاں ہٹائی گئی ہیں۔یقیناً واشنگٹن تنہا اس معاہدے کو واپس نہیں لے سکتا مگر اس طرح ایران کے لیے بین الاقوامی دھارے میں دوبارہ آنے کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اب جبکہ وہ صدارت کا عہدہ سنبھالنے والے ہی ہیں، مگر اب بھی ان کے مسلم مخالف مو ¿قف میں نرمی کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ اس طرح دولت اسلامیہ اور القاعدہ جیسے اسلامی انتہا پسند گروپس کو مزید تقویت ملے گی۔
مگر افغانستان پر ٹرمپ کی پالیسی کافی حد مبہم نظر آتی ہے جہاں قریب 10 ہزار امریکی فوجی اب بھی دہشتگردوں سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ افغان مسئلے پر ان کا مو ¿قف نہ انتخابی مہم کے دوران اور نہ اس کے بعد دیے جانے والے انٹرویوز میں واضح ہوا۔مشیر قومی سلامتی کے عہدے کے لیے ان کے نامزد کردہ جنرل مائیکل فلن اور دفاعی سیکریٹری ریٹائرڈ جنرل جیمز میٹس افغان جنگ میں شریک رہے ہیں اور صورتحال سے واقف ہیں، مگر اس وقت ایسا کوئی واضح اشارہ نہیں ملتا جس سے پتہ چلتا ہو کہ آیا نئی انتظامیہ فوجیوں کو وہاں اسی تعداد میں وہاں تعینات رکھے گی یا پھر مزید بڑھائے گی۔ 15 سالہ طویل افغان جنگ کے خاتمے کے کسی سیاسی حل پر بھی کوئی وضاحت نظر نہیں آ رہی ہے۔ان تمام باتوں میں یقیناً پاکستان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ کئی مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر افغانستان میں صورتحال بگڑتی ہے تو وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ مشہور زمانہ ٹیلیفونک گفتگو کے باوجود بھی پاکستان پر دباو ¿ بڑھے گا۔
سینیٹ اجلاس کے موقع پر جنرل میٹس نے اپنے بیان میں پاکستان سے تعلقات پر ملا جلا پیغام بھیجا۔ جہاں انہوں نے تعلقات مضبوط کرنے کا عہد کیا، وہاں انہوں نے پاکستان کو خبردار کیا کہ وہ اپنی زمین سے دہشتگردی کرنے والے انتہاپسند گروپس کے خلاف کارروائی کرے۔تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے بارے میں صرف ایک بات متوقع ہے اور وہ ہے ان کا غیر متوقع مزاج۔ اس بڑے عہدے پر ان کی موجودگی سے امریکا اور دنیا میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا کانگریس اور مضبوط امریکی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں قابو میں رکھ سکتی ہیں یا نہیں، اور اگر ہاں، تو کیسے۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اعلان کیا ہے کہ ’آج کے بعد سے ہر فیصلہ امریکی مفاد میں کیا جائے گا۔‘انھوں نے کہا کہ آج ہم ایک نیا اعلان کر رہے ہیں جو دنیا کے ہر دارالحکومت میں سنا جائے گا۔ آج کے بعد سے صرف امریکہ پہلے، صرف امریکہ پہلے کی پالیسی چلے گی۔ تجارت، ٹیکس، امیگریشن اور خارجہ امور کے بارے میں ہر فیصلہ امریکی ملازمین اور امریکی خاندانوں کے مفاد میں کیا جائے گا۔'ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر کے دوران امریکہ کی تاریک اور شکستہ تصویر پیش کی اور متروک کارخانوں، جرائم اور ناکام تعلیمی نظام جیسے مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے عہد کیا کہ ان کے دورِ صدارت میں تبدیلی لائی جائے گی۔انھوں نے کیپیٹل کی سیڑھیوں پر تقریر کرتے ہوئے کہا: 'یہ امریکی تباہی یہیں اور اب سے ختم ہوتی ہے ۔ہم نے کھربوں ڈالر بیرونِ ملک خرچ کر دیے اور امریکہ بنیادی ڈھانچہ شکست کا ریخت کا شکار ہوتا رہا۔ ہم نے دوسرے ملکوں کو امیر بنا دیا اور ہمارے اپنے ملک کی دولت، طاقت اور اعتماد ختم ہوتا چلا گیا۔اے پی ایس