ڈونلڈ ٹرمپ اور میڈیا۔ چودھری احسن پریمی




 امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اِس بات پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ ایک روز قبل ملک کے کئی شہروں میں لاکھوں افراد نے ا ±ن کی نئی انتظامیہ کے خلاف مظاہرہ کیا۔وائٹ ہاﺅس سے ایک ٹوئٹر پیغام میں ٹرمپ نے کہا کہ ''کل احتجاجی مظاہرے دیکھے، لیکن میرا تاثر یہی تھا کہ ابھی تو انتخاب ہوا ہے۔ اِن لوگوں نے ووٹ کیوں نہیں دیا؟ مشہور شخصیات مقصد کو ب ±ری طرح سے نقصان پہنچاتی ہیں''۔
حقوق نسوان کی مشہور حامی، گلوریا اسٹائنم؛ پاپ گلوکارہ میڈونا؛ اکٹریس اسکارلیٹ جانسن اور دیگر معروف شخصیات نے ہفتے کے روز واشنگٹن میں خواتین کی ریلی کی قیادت کی، جس کا مقصد جمعے کے روز ٹرمپ کی جانب سے عہدہ صدارت کا حلف لینے پر برہمی کا اظہار تھا۔
دو گھنٹے بعد، ٹرمپ نے ایک اور ٹوئیٹ میں کہا کہ ''پ ±رامن مظاہرے ہماری جمہوریت کا حسن ہے۔ اگر میں اِس سے اتفاق نہ بھی کروں، تو بھی میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ لوگوں کو اپنے خیالات کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ واشنگٹن میں احتجاجی مظاہروں کی طرح خواتین کی حقوق کی تنظیموں اور شہریوں کے حقوق کے سرگرم کارکنوں اور ماحولیات کے لیے کام کرنے والوں نے صدر ٹرمپ کااقتدار شروع ہونے کے ساتھ دنیا بھر میں مظاہرے کیے.ایک ایسے وقت میں جب کہ واشنگٹن میں بڑی تعداد میں خواتین اپنے حقوق کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے جمع ہوئی، ان کے ساتھ یک جہتی کے لیے امریکہ کے کئی دوسرے شہروں سمیت دنیا بھر خواتین مظاہرے ہوئے۔یہ مظاہرے صدر ڈونلڈٹرمپ کے اپنی چار سالہ مدت کے لیے عہدے سنبھالنے کے ایک روز بعد ہو ئے ہیں۔عہدے داروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے لگ بھگ 30 گروپس کو صدارتی حلف برداری اور اس کے بعد مظاہروں کے اجازت نامے جاری کیے ہیں۔
 جمعے کے دن ڈونلڈٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر بھی دارالحکومت واشنگٹن ڈی میں ہزاروں لوگوں نے مظاہرے کیے جو کئی مقامات پر تشدد میں بدل گئے۔ مظاہرین نے پولیس پر پتھراو ¿ کیا۔ عمارتوں کے شیشے توڑے اور گاڑیوں کو نذر آتش کیا۔ پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا اور درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔واشنگٹن میں احتجاجی مظاہروں کی طرح خواتین کی حقوق کی تنظیموں اور شہریوں کے حقوق کے سرگرم کارکنوں اور ماحولیات کے لیے کام کرنے والوں نے صدر ٹرمپ کا اقتدار شروع ہونے کے ساتھ دنیا بھر میں مظاہرے کیے۔
 یہ مظاہرے مسٹر ٹرمپ کے ان تبصروں کے خلاف تھے جو وہ اپنی طویل انتخابی مہم اور مختلف موقعوں پر خواتین، تارکین وطن، مسلمانوں، نسلی گروپوں، ہم جنس پرستوں، ماحولیاتی تبدیلیوں کی روک تھام کے لیے کام کرنے والوں اور کئی دوسروں کے بارے میں کرتے رہے ہیں۔
جبکہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مئی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران اگر ا ±نھیں محسوس ہوا کہ کوئی ناقابلِ قبول بات کہی گئی، تو ا ±نھیں اِس کی نشاندہی کرنے میں کوئی عار نہیں ہوگا۔
ا ±نھوں نے بتایا کہ اس موقع پر وہ امریکہ اور برطانیہ کے مابین آئندہ کے تجارتی تعلقات، کے ساتھ ساتھ نیٹو اور چیلنج، مثال کے طور پر، دہشت گردی کو شکست دینے سے متعلق گفتگو کریں گی۔
 یورپی دارالحکومتوں کی سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے ٹرمپ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے، خاص طور پر وہ بیانات جنھیں خواتین کے لیے نازیبا قرار دیا جا رہا ہے۔
مئی نے خواتین کے حوالے سے ڈونالڈ ٹرمپ کے چند بیانات ناقابلِ قبول ہیں، جن میں سے چند کے لیے ا ±نھوں نے خود معذرت کر لی ہے''۔
ا ±ن کے الفاظ میں ''جب میں ا ±ن (ڈونالڈ ٹرمپ) کے ساتھ گفتگو کروں گی، تو میرے خیال میں یہ بذاتِ خود واضح ہے کہ میں بحیثیت ایک خاتون وہاں بیٹھوں گی، یہ حقیقت ہے کہ میں ایک خاتون وزیر اعظم ہوں۔۔۔ جب بھی ایسی کوئی بات ہوتی ہے جو میرے خیال میں ناقابلِ قبول ہوگی، تو مجھے ڈونالڈ ٹرمپ سے اس بات کا اظہار کرنے میں کوئی خوف نہیں ہوگا''۔آسٹریلیا میں ہزاروں مظاہرین نے سنڈنی میں امریکی قونصیلٹ تک مارچ کیا اور نئے صدر کے خلاف بقول ان کے نفرت پر مبنی بیانات پر احتجاج کیا اور انہیں جنس اور نسل کی بنیاد پر تعصب برتنے والی شخصیت قرار دیا۔ آسٹریلیا کے ٹیلی وڑن کی معروف شخصیت اور مصنفہ ٹریسی سپائسر نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب عالمی تحریک کا حصہ ہیں اور سات براعظموں کے 600 سے زیادہ شہروں میں ہونے والے احتجاج میں ہماری آواز شامل ہے۔
نیروبی میں احتجاجی مارچ کی ایک منتظم ریچل مویکالی نے کہا کہ امریکی خواتین اس تحریک میں اکیلی نہیں ہیں۔ ہم سب ا ن کے ساتھ ہیں۔نائیجیریا، جنوبی افریقہ ، ملاوی اور مڈغاسکر سمیت کئی دوسرے افریقی ملکوں میں بھی احتجاجی مظاہرے ترتیب دیے گئے تھے۔
منتظمین کا کہنا ہے کہ انہوں نے انٹارکٹیکا سمیت دنیا کے ہر براعظم میں مظاہروں کا بندوبست کیا اور دنیا کے ہر حصے کی خواتین اپنے حقوق کے دفاع کے لیے متحد اور یک زبان ہیں۔لندن میں ہزاروں خواتین نے امریکی سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کیا۔ایمسٹرڈم، ہیگ اور برلن سمیت یورپ کے کئی دوسرے شہروں میں بھی مظاہروں کی اطلاعات ہیں۔جبکہ ٹرمپ نے یہ واضح کیا کہ شدت پسند گروپ داعش کے خلاف جنگ ان کی اولین ترجیح ہو گی اور ان کی انتظامیہ اس معاملے سے نمٹنے کی طریقہ کار کو اور مضبوط کرے گی۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے خفیہ ادارے 'سی آئی اے' کے ارکان کے کام کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی بھر پور حمایت ان کے ساتھ ہو گی۔ٹرمپ نے یہ بات سی آئی اے کے ہیڈکوارٹر کے دورے کے دوران اہلکاروں سے خطاب کے دوران کہی۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ "میں جانتا ہوں کہ بعض اوقات آپ کو وہ حمایت نہیں ملی جس کے آپ متمنی تھے لیکن (اب) آپ کو بہت زیادہ حمایت ملے گی۔ شاید آپ یہ کہیں براہ کرم ہماری اتنی زیادہ حمایت نا کریں۔"سی آئی اے کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ صدر کا خطاب سننے کے لیے سی آئی اے اسٹاف کے تقریباً چارسو اراکان موجود تھے۔ٹرمپ نے یہ واضح کیا کہ شدت پسند گروپ داعش کے خلاف جنگ ان کی اولین ترجیح ہو گی اور ان کی انتظامیہ اس معاملے سے نمٹنے کی طریقہ کار کو اور مضبوط کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ "ہم نے جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں ان میں سے یہ جنگیں ہم ایک طویل عرصے سے لڑ رہے ہیں۔ ہم نے اپنی حقیقی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کیا ہے ہم نے تحمل سے کام لیا۔ ہمیں داعش سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، داعش کو ختم کرنا ہے۔ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔"تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر کا سی آئی اے کے صدر دفتر کا دورہ کرنا بظاہر معاملات کو بہتر کرنے کی ایک کوشش ہے۔ قبل ازیں ٹرمپ امریکہ کے انٹیلیجنس اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
ٹرمپ نے عہدہ صدارت پر فائز ہونے سے قبل کئی ماہ تک سی آئی اے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے' ایف بی آئی' کی ان رپورٹس سے اتفاق کرنے سے انکار کیا کہ روس نے امریکی انتخاب میں مداخلت کرنے کے لیے ڈیموکریٹک نیشنل کنوینشن ( ڈی این سی) کی ای میلز کی ہینکنگ کی تھی۔
تاہم 11 جنوری کی اپنی پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے یہ تسلیم کیا کہ "میرے خیال میں یہ روس تھا" جس نے ڈی این سی کی ہیکنگ کی لیکن بعد ازاں انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ شاید چین سمیت کوئی دوسرا (ملک) بھی ہو سکتا ہے۔امریکہ کے نئے صدر یہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ ماسکو نے یہ حملے ان کی سابق ڈیموکریٹک حریف ہلری کلنٹن کو ناکام بنانے کے لیے کیے تاکہ وائٹ ہاو ¿س جانے میں ان (ٹرمپ) کی مدد کی جا سکے۔وہ بارہا انٹیلیجنس ادارواں کی ماضی کی غلطیوں کا ذکر کر چکے ہیں اور انہوں نے اس بات کا عندیہ دیا کہ امریکہ کی انٹیلیجنس برادری نے شاید یہ غیر مصدقہ رپورٹ افشا کی ہو کہ روس کے پاس ان کے خلاف پریشان کن معلومات ہیں۔
ہفتے کو اپنے خطاب میں ٹرمپ نے کہا کہ ان کا یہاں آنے کا مقصد ''میڈیا کے ساتھ طویل عرصے سے جاری لڑائی ہے" اور ان کے بقوال انہوں (ذرائع ابلاغ) نے یہ تاثر دیا ہے جیسے میری انٹیلیجنس اداروں کے ساتھ کوئی لڑائی ہے۔"ٹرمپ نے ایک ایسے وقت سی آئی اے کے صدر دفتر کا دورہ کیا جب کانگرس کے ڈیموکریٹک ارکان ٹرمپ کے سی آئی اے کے نامزد ڈائریکٹر، ایوان نمائندگان کے رکن مائیک پامپیو کی توثیق کے لیے ہونے والی سماعت کو پیر تک موخر کروانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔دوسری طرف ریپبلکن قانون سازوں نے اس معاملے کو موخر کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اختتام ہفتہ خفیہ ادارہ بغیر سربراہ کے ہو گا۔ٹرمپ نے پامپیو کو سراہتے ہوئے سی آئی اے کے اسٹاف کو کہا کہ ان کے نامزد ڈائریکٹر اس عہدے کے لیے موزوں (شخص) ہیں۔ انہوں ںے کہا کہ وہ ایک باکمال شخص ہیں۔
سی آئی کے صدر دفتر کے دورے سے پہلے نئے صدر نے اپنی اہلیہ، نائب صدر مائیک پینس اور ان کہ اہلیہ کیرن کے ہمراہ واشنگٹن کے نیشنل کیتھیڈرل میں ایک دعائیہ تقریب میں شرکت کی۔ہفتہ کو قبل ازیں ٹرمپ نے ٹوئیٹر پر امریکی عوام کا جمعہ کو ہونے والی افتتاحی تقریب میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کیا اس ساتھ انہوں نے ذرائع ابلاغ کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے عمومی طور پر بطور صدر ان کے پہلے خطاب کو سراہا ہے۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ذرائع ابلاغ پر حقائق کے منافی خبر دینے کا الزام عائد کیا جسے اپنی صدارتی مہم کے دوران میڈیا کے خلاف ان کی شکایات کی ایک تازہ کڑی سمجھا جا رہا ہے۔
ہفتہ کو امریکی انٹیلی جنس ایجنسی "سی آئی اے" کے صدر دفتر کے دورے کے موقع پر اپنے خطاب میں انھوں نے میڈیا پر دو بڑے اعتراضات اٹھائے، جن میں ایک ان کی تقریب حلف برداری کے وقت لوگوں کی تعداد کو ان کے بقول غلط بتانا اور دوسرا اوول آفس سے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی مورتی کو ہٹانے کی غلط خبر چلانا شامل تھے۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے تقریر کی تو ان کے سامنے اندازاً دس لاکھ، پندرہ لاکھ نظر آرہے تھے۔"ایک نیٹ ورک نے کہا کہ "یہاں ڈھائی لاکھ لوگ آئے۔ ٹھیک ہے کہ یہ کوئی اتنی بری تعداد نہیں، لیکن یہ جھوٹ ہے۔"صدر نے دعویٰ کیا کہ ڈھائی لاکھ کے قریب لوگ تو مرکزی اسٹیج کے پاس موجود تھے جب کہ "دیگر 20 بلاکس کے علاقے میں، واشنگٹن مونیﺅمنٹ تک کھچا کھچ بھرے تھے۔"ٹرمپ نے کہا کہ "لہذا ہم نے ان کا (جھوٹ) پکڑ لیا اور میرا خیال ہے انھیں اس کی بھاری قیمت چکانا ہوگی۔"ٹرمپ کے اس دعوے سے متعلق حاصل کی گئی معلومات سے پتا چلتا ہے کہ یہ غلط ہے۔ صدر کی تقریب حلف برداری کے موقع پر نیشنل مال کی حاصل کردہ تصاویر سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں کا ہجوم واشنگٹن مونیﺅمنٹ تک نہیں تھا۔ اس کے بیچ بہت سی خالی جگہیں دکھائی دیتی ہیں۔ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں واقع ہوٹلز سے بھی پتا چلا کہ ان کے ہاں بھی کمرے خالی تھے جو کہ عموماً نئے صدور کی افتتاحی تقاریب کے موقع پر بھرے ہوئے ہوتے تھے۔واشنگٹن کے میٹرو نظام کے اعدادوشمار بھی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ماضی کی نسبت جمعہ کو خاصی کم تعداد میں لوگوں نے سفر کیا۔
ٹرانزٹ سروس کے ٹوئٹر اکاو ¿نٹ کے مطابق 20 جنوری کو دن 11 بجے تک ایک لاکھ 93 ہزار لوگوں نے سفر کیا۔ آٹھ سال قبل یہ تعداد پانچ لاکھ 13 ہزار تھی جب کہ چار سال قبل جب براک اوباما نے دوسری مدت صدارت کے لیے حلف لیا تو یہ تعداد تین لاکھ 17 ہزار تھی۔2005ء میں صدر جارج ڈبلیو بش کی افتتاحی تقریب میں دن گیارہ بجے اس ذریعے سے سفر کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ 97 ہزار بتائی گئی۔وائٹ ہاو ¿س کے ترجمان شان سپائسر نے دعویٰ کیا کہ پہلی مرتبہ نیشنل مال کی گھاس کو محفوظ رکھنے کے لیے وہاں سفید چادریں بچھائی گئی تھیں جس سے ایسا لگا کہ کافی جگہ پر لوگ موجود نہیں تھے۔
لیکن چار سال قبل بھی ایسا ہی اہتمام کیا گیا تھا۔سپائسر کا مزید کہنا تھا کہ "پہلی مرتبہ دھات کی نشاندہی کرنے والے آلات کا استعمال کیا گیا جس سے لاکھوں لوگ ماضی کی نسبت نیشنل مال تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔سیکرٹ سروس کا کہنا ہے کہ پہلی مرتبہ نیشنل مال کے گرد سکیورٹی کے لیے باڑ لگائی گئی تھی لیکن دھات جانچنے والے آلات کا استعمال نہیں کیا گیا۔صدر کا ٹرمپ کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ ایک صحافی نے یہ غلط خبر دی کہ اوول آفس سے مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی مورتی ہٹا دی گئی ہے۔اس صحافی نے بعد ازاں اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا سیکرٹ سروس کے ایک ایجنٹ اور دروازے کی وجہ سے وہ یہ مورتی نہیں دیکھ پائے اور انھوں نے اسے ہٹائے جانے کی خبر دے دی تھی۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ "لیکن اس سے پتا چلتا ہے کہ میڈیا کتنا بددیانت ہے، ایک بڑی خبر اور پھر اس کی تردید۔ لیکن یہ (تردید) کیا ہے کہ ایک آدھ لائن اور بس۔"اے پی ایس