غیرت اور تشدد ۔ چودھری احسن پریمی



کوئی بھی برتری کا اصول جس کی بنیاد نسلی امتیاز پر ہو سائنسی طور پر جھوٹا،اخلاقی طور پر قابل مذمت،سماجی طور پر غیر منصفا نہ اور خطرناک ہوگا اور یہ کہ نسلی امتیاز کیلئے کہیں بھی کوئی نظری یا عملی جواز نہیں پایا جاتاکو ئی بھی امتیاز،خراج،حد بندی یا ترجیح جس کی بنیاد نسل، رنگ،نسب یا قومی نسلی وابستگی پر ہو اور جس کا مقصد انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے مساوی بنیاد پر اعتراف،خوشی و مسرت یا نفاذ کو سیاسی،معاشی،سماجی،ثقافتی یا عوامی زندگی کے کسی دوسرے میدان میں ختم کرنا یا کمزور کرنا۔ایک طویل عرصہ سے خواتین کو عدم تحفظ کا شکار گروہ سمجھا جاتا رہا ہے اس ضمن میں حکومت کو صرف اقدامات نہیں بلکہ مثبت کاروائی بھی کرنی چاہیے تاکہ ان حقوق سے مثبت طور پر لطف اندوز ہو نے کو یقینی بنایا جاسکے یہ صرف قوانین تشکیل دینے سے ممکن نہیں بلکہ قومی اداروں کی تشکیل اور زیادہ عالمی تعاون کی ضرورت ہے تاکہ ان عملی مسائل کو حل کیا جاسکے جو مردوں اور عورتوں کیلئے مساوی حقوق کو یقینی بنانے سے وابستہ ہیں۔اگرچہ موجودہ حکومت خواتین کی فلاح و بہبود کے اقدامات کر رہی ہے۔ پہلے ماحول اور حالات ایسے نہیں تھے کہ زیادہ خواتین روزگار کی جانب توجہ دیتیں لیکن اب خواتین مردوں کے شانہ بشانہ ملکی ترقی میں اپنا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اور بھر پور طریقے سے اداکر رہی ہیں۔بنک، سرکاری دفاتر،کاروباری، تعلیمی اداروں،فورسز اور پولیس میں خواتین کی بڑھتی ہو ئی دلچسپی خوش آئند اقدام ہے۔تاہم ملکی سطح پر آج بھی خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔اگرچہ خواتین کے خلاف آئے روز کئی واقعات رونما ہوتے ہیں تاہم پاکستان میں نام نہاد غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کو روکنے کے لیے قانون کا مسودہ تقریبا تین برس التوا میں رہنے کے بعد حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کر سکا ہے۔ اس دوران 2000 سے زائد خواتین اس جرم کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔
خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کے دو قانونی مسودے جنوری 2014 سے قومی اسمبلی میں زیر التوا تھے۔حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر ان قوانین کو منظور کروانے کا اعلان کیا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اس دوران2300 خواتین نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کر دی گئیں۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ حکومت ان خواتین کے قتل کی کس حد تک ذمہ دار ہے؟ وہ ارکان پارلیمنٹ اس جرم کو روکنے میں ناکامی کے کتنے ذمہ دار ہیں جنھوں نے حکومت مخالف دھرنے کو روکنے کے لیے بلائے گئے پارلیمنٹ کے اجلاس میں تو شرکت کی لیکن اس دوران دس منٹ ان قوانین کی منظوری کے لیے مختص نہیں کروائے؟ خواتین کے حقوق کے نام پر بننے والی تنظیموں نے اس دوران خواتین کے قتل کے واقعات کا ریکارڈ مرتب کرنے کے علاوہ اس جرم کو روکنے کے لیے کیا کوئی اور کام بھی کیا؟
غیرت کے نام پر قتل کی حوصلہ شکنی کے لیے سخت قوانین بنانے کا مطالبہ کئی برسوں سے کیا جا رہا ہے۔نام نہادغیرت کے نام پر قتل میں اضافہ:اسے اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب سے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانونی سازی کا مسودہ پارلیمنٹ میں زیرِ بحث آیا، اس جرم میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
رکن قومی اسمبلی نفیسہ شاہ اپنی کتاب" آنر اینڈ وائلنس "غیرت اور تشدد میں اس بات کا جائزہ لے رہی ہیں آیا غیرت کے نام پر رائج معاشرتی رسوم میں کوئی ماڈرن عنصر تو شامل نہیں ہوگیا؟۔ان کے نزدیک اسلام میں آپ کو حق ہے کہ آپ اپنی مرضی سے شادی کریں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ایک بچی نے اپنا حق استعمال کیا تو آپ نے اٹھا کر کلہاڑی یا بندوق سے اس کا گلا گھونٹ دیا۔۔۔ یہ کیا غصہ ہے معاشرے میں کہ آپ اپنی بیوی کو جلا کر راکھ کر دیتے ہیں؟
نفیسہ شاہ، جو پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں تیزی کا ذکر کر رہی ہیں۔ پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا میں سال 2016 کے موسم گرما میں غیرت کے نام پر قتل کے تین واقعات کی بازگشت رہی۔ لیکن گزشتہ سال کے دوران کم از کم 300 عورتیں پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کی گئیں۔ اس سال صرف جنوری کے مہینے میں اب تک کم از کم 2 ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔
یہ واقعات کسی بلوچ یا پشتون قبیلے یا سندھ کے کسی گاوں میں نہیں ہوئے۔ یہ کراچی، لاہور، ملتان جیسے شہروں میں ہو رہے ہیں۔ اس لئے ہم یہ کہیں کہ یہ غیرت کے نام پر ہو رہے ہیں یا کسی اور ثقافتی لبادے میں ہو رہے ہیں۔ ہمیں اس سارے عمل کو مسترد کرنا چاہئے۔ یہ عورتوں کے خلاف تشدد ہے، یہ انسانیت کے خلاف تشدد ہے۔ اور ایسے ہر کیس کو اسی طریقے سے نمٹانا چاہئے کہ یہ ایک خون ہے، اور کسی بھی طرح کا خون جان بوجھ کر کیا گیا ہے، تو اس میں صلح کی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔
نفیسہ شاہ رکن قومی اسمبلی ہیں۔ لیکن انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ایک ایسے مسئلے پر تحقیقی مقالہ لکھ کر حاصل کی ہے جسے غیرت کے نام پر قتل کہا جاتا ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ، حال ہی میں ان کی کتاب Honour and violence ' کے نام سے امریکہ اور برطانیہ میں شائع ہوا ہے۔نفیسہ شاہ ایسے قتل کو غیرت یا عزت کے نام پر کیا جانے والا تشدد نہیں، صرف قتل سمجھتی ہیں۔ جس کی مثال، ان کے بقول، پاکستان کی کسی روایت میں نہیں ملتی۔ رسوم معاشرے سے الگ نہیں ہوتیں. لیکن, ان کا کہنا ہے کہ ان میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔نفیسہ شاہ کا کہنا ہے کہ ان کا پی ایچ ڈی کا تھیسس اسی بارے میں تھا کہ آیا ان رسوم میں کوئی نیا، ماڈرن عنصر تو شامل نہیں ہوگیا؟ کیونکہ، یہ ایک طرح سے اپنی مرضی کی ایجاد ہے۔ لوگ غیرت کے نام پر قتل کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ جب آپ کہتے ہیں غیرت کے نام قتل، تو معاشرہ چپ ہو جاتا ہے۔ قاتل اس کی آڑ میں جرائم کرتے ہیں اور پھر اصل مسئلہ، بد قسمتی سے، یہ نہیں کہ آپ قبائلی انداز میں جرگہ لگا کر فیصلہ کریں۔ زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ عدالتوں کے طرز عمل میں بھی ایک نرمی ہے کہ ہاں جی ان کا چونکہ غیرت کا مسئلہ ہے، اس لئے یہ آپس میں صلح کر لیں۔نفیسہ شاہ کہتی ہیں کہ 90 کی دہائی کے پاکستان میں اسلام کے نام پر متعارف کروایا گیا قصاص اور دیت کا قانون جلد بازی میں پاس کیا گیا تھا۔ جس میں دیئے گئے اختیارات کے مطابق , جس کی بچی کا خون ہوتا ، اس کے وارث کو قانون کی طرف سے اجازت دی گئی کہ یا تو وہ قصاص لیں، یا پھر دیت کے بدلے معاف کر دیں یا صلح کر لیں۔یہ قانون اسلام کے نام پر تو آیا تھا۔ لیکن غیر اسلامی ہے کیونکہ اسلام میں عورتوں کو حقوق دیئے گئے ہیں۔نفیسہ کے بقول، کسی بھی جدید قوم میں جرائم کی سزا دینے کا واحد اختیار ریاست کے پاس ہوتا ہے۔ وہ اگر یہ اختیار کسی فرد واحد، والد یا والدہ کو دے دیں تو ایسے خون جس خاندان میں ہوتے ہیں، وہاں ایک مارتا اور دوسرا صلح کر لیتا ہے، اور یہی خرابی اس قانون سے پیدا ہوئی۔
پاکستانی پارلیمنٹ نے سال 2016 میں ایک نئے قانون کے تحت غیرت کے نام پر قتل کے کیس میں اہلخانہ کی طرف سے قاتل کو معاف کرنے کا اختیار ختم کر دیا ہے۔ لیکن، نفیسہ شاہ کہتی ہیں کہ یہ ترمیم ناکافی ہے۔ اب یہ ضرور ہوگا کہ جو لوگ پہلے کھل کر غیرت کے نام پر قتل کا اعتراف کر لیتے تھے، اب نہیں کریں گے۔ لیکن، باقی جو دوسرے خون ہیں، ان کے لئے تو معافی نامہ یا راضی نامہ اب بھی ہے۔ ابھی خون یا ہرٹ کے حوالے سے قوانین میں بہت ابہام ہے، بہت خلا ہے۔ اور اسے پر کرنے کے لئے ہمیں اور ترامیم کرنی پڑیں گی۔ لیکن، یہ پہلا قدم ہے۔ اس سے کم از کم دنیا بھر میں اور پاکستان میں یہ تاثر پیدا ہوگا کہ اب کوئی بھی دندناتے ہوئے اپنی بچی کو غیرت کے نام پر قتل نہیں کر سکتا۔ لیکن، اس کے باوجود ہم نے دیکھا ہے کہ خون ہو رہے ہیں اور بڑی تعداد میں ہو رہے ہیں۔ بس لوگ انہیں غیرت کا نام نہیں دے رہے۔ اس لئے میں کہتی ہوں کہ یہ کام ابھی مکمل نہیں ہوا۔گزشتہ دنوں نفیسہ شاہ صرف ایک دن کے لئے واشنگٹن میں تھیں۔ لیکن، انہیں ان کی کتاب آنر اینڈ وائلنس کے بارے میں بات کرنے کے لئے امریکی تھنک ٹینک، یونائیٹڈ اسٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس اور جارج ٹان یونیورسٹی میں مدعو کیا گیا تھا۔امریکی میڈیا میں ان سے پوچھا گیاکہ جب امریکی یا مغربی اداروں میں ان سے غیرت کے نام پر قتل کے تناظر میں پاکستان کے بارے میں سوالات کئے جاتے ہیں تو وہ سیاسی مصلحت پسندی سے کام لیتی ہیں یا ایک روشن خیال پاکستانی کے طور پر جواب دینا پسند کرتی ہیں؟۔نفیسہ نے کہا کہ ان کا مطالعہ اور ان کی تعلیم عالمگیر نوعیت کی ہے۔ میں نے برطانیہ سے پڑھا ہے۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان کا یا ہمارے قبیلوں کا نہیں ہے۔ نہ ہی یہ صرف مسلمان ملکوں میں، مسلمان خواتین کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اسے سٹیریو ٹائپ نہیں کرنا چاہئے۔ اصل مقصد اگر جرم کے ذمہ داروں کو بے نقاب کرنا ہے تو اس خون کو خون تصور کرنا ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو ان کے دیگر حقوق بھی اس طرح نہیں ملتے، جیسے ملنے چاہئیں۔ غربت کی شرح، خوراک میں کمی، خواتین کے ان سب مسئلوں میں معاشرے یا ریاست کی طرف سے کمزوریاں ہیں جنہیں دور کرنا ہوگا۔لیکن، کیا خواتین کے حقوق اور صنفی برابری کی لڑائی صرف پاکستان کی عام عورت کا مسئلہ ہے یا پارلیمنٹ کے ایوانوں میں بیٹھی خواتین اراکین کو بھی اسی جدو جہد کا سامنا ہے؟۔نفیسہ کہتی ہیں کہ بالکل۔۔ خواتین اراکین کو اپنے حلقے کے کام کروانے کے لئے سرکاری فنڈز کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ لیکن، مرد اراکین کو ایسی مشکلات پیش نہیں آتیں۔گزشتہ سال پنجاب اسمبلی میں خواتین کے تحفظ کے لئے ویمن پروٹیکشن بل لانے کی کوشش کی گئی تھی، جس پر اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے زبردست مزاحمت سامنے آئی تھی۔ نفیسہ کہتی ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ مذہب کے نام پر ووٹ لینے والے حلقے مزاحمت کرتے ہیں، مخصوص روایتی سوچ پر مبنی ردعمل بھی سامنے آتا ہے۔لیکن، بحیثیت پارلیمنٹیرین، ہمارا یہ کام ہے کہ ہم ان کے ساتھ بھی مذاکرات کریں۔لیکن، اگر مذاکرات سے بات نہ بنے تو؟ نفیسہ کہتی ہیں کہ اس صورت میں اکثریت کی رائے کے مطابق فیصلہ کر لینا چاہئے۔ اس بات پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے کہ فلاں جماعت ناراض ہو جائے گی۔ اگر آپ کے پاس اکثریت ہے تو آگے بڑھیں اور ان کے بغیر ہی فیصلہ کر لیں۔نفیسہ شاہ کے بقول، پاکستان کی اکثریت اپنے ملک کو ایک ترقی پسند ملک دیکھنا چاہتی ہے، جہاں عورت اور مرد اپنے مکمل حقوق کے ساتھ انفرادی اور ملکی ترقی کے لئے کام کرتے ہوں۔اے پی ایس