مذہب،عقیدہ کی آزادی میں مفاہمت،برداشت۔چودھری احسن پریمی



 آزادی فکر،ضمیر،مذہب اور عقیدے کے حق کا پاس نہ کرنا اور اس سے انحراف کرنا ایک ایسا  فعل ہے۔جو بالواسطہ یا بلاواسطہ بنی نوع انسان کیلئے آفات اور بڑی بڑی مصیبتوں کا باعث بنا ہے۔مذہب اور عقیدہ کی آزادی  سے متعلق معاملات میں مفاہمت،برداشت اور باہمی احترام کو ترویج دینا ضروری ہے۔اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ مذہب یا عقیدہ کا ان مقاصد کے حصول کی خاطر استعمال ہو جو ملکی قانون سے مطابقت نہیں رکھتے ناقابل قبول بات ہے۔
  ایک ایسا معاشرہ جس کے لوگ آپس میں بات چیت نہ کرتے ہوں ایک غیر صحت مند اور شکست و ریخت سے دوچار معاشرہ ہوتا ہے۔بات چیت کے بغیر صبر و تحمل،رواداری یا اعتماد نہیں پیدا ہوسکتا اور بخل و کینہ غصہ و اشتعال میں بدل کر نفرت میں تبدیل ہوسکتا ہے اور پھر کھلے تصادم پر ختم ہوسکتا ہے۔ ایسے تمام گروپ جو ایک دوسرے کے عقائد کے خلاف تنقید کرنے کے عادی ہیں انہیں دوسروں کے خیالات،نظریات اور قانون کی حکمرانی کا احترام سیکھنے کی ضرورت ہے۔
 جبکہ جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی نعیم کا کہنا ہے کہ ملک میں تمام مکاتب فکر کے علما کو توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے تشدد کے واقعات کی متفقہ طور پر مذمت کرنی چاہیے۔ مفتی نعیم نے کہا کہ علما کو یہ بیان بھی جاری کرنا چاہیے کہ توہین مذہب کے الزامات کے تحت کسی کو قتل کرنا شریعت اور پاکستان کے قانون کے خلاف ہے۔ ملک میں توہین مذہب کا الزام لگا کر تشدد کا نشانہ بنائے جانے کے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں اور ملک میں توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال کیا جارہا ہے، جس سے اس قانون کی وقعت کم ہوتی جارہی ہے۔ ملک سے مذہبی انتہا پسندی اسی صورت میں ختم ہوسکتی ہے جب عدالتی نظام کو مضبوط کیا جائے، اگر کوئی شخص توہین مذہب کا مرتکب پایا جائے تو اسے سزا دی جائے نہ کہ عدالت میں کیس کو سالوں تک لٹکایا جائے اور اگر جس پر الزام لگایا گیا وہ معصوم ثابت ہو تو اسے رہا کیا جائے۔مفتی نعیم نے کہا کہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ میڈیا مختلف مکاتب فکر کے علما کو ایک دوسرے کے مخالف کرنا بند کرے، میڈیا علما کو آپس میں طوطوں کی طرح لڑاتا ہے، جب تک علما کے درمیان اتحاد نہیں ہوگا اس طرح کے واقعات پیش آتے رہیں گے۔
 یہ امر خوش آئند ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طلبا کے تشدد سے طالب علم کی موت کا نوٹس لے لیا ہے۔چیف جسٹس نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی خیبر پختونخوا سے 36 گھنٹے میں رپورٹ طلب کرلی۔چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ آئندہ 36 گھنٹے میں واقعے کی تمام تر تفصیلات اور اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کیا جائے۔
دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے گستاخی کے الزام میں طالب علم کو ہلاک کیے جانے کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مشعال کے مسئلے پر اجتماعی گروہ کی کارروائی اس معاشرے کے لیے شرمناک ہے جو پیار، رحم اور ہمدردی کے علمبردار رسول پاک کی ذات پر یقین رکھتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کسی پر بنا تصدیق توہین رسالت کا الزام لگانا بھی توہین رسالت ہے، جبکہ یہ ہمارے پیارے نبی کی تعلیمات نہیں ہیں۔واضح رہے کہ دو روز قبل عبدالولی خان یونیورسٹی میں دیگر طلبہ کے تشدد سے ایک 23 سالہ طالب علم کی موت ہوگئی تھی جبکہ ایک طالب علم زخمی ہوا۔ڈی آئی جی مردان عالم شنواری کے مطابق ہلاک ہونے والے طالب علم پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک پر ایک پیج بنا رکھا تھا، جہاں وہ توہین آمیز پوسٹس شیئر کیا کرتا تھا۔انہوں نے بتایا کہ اسی الزام کے تحت مشتعل طلبہ کے ایک گروپ نے مشعال پر تشدد کیا، جس کے نتیجے میں طالب علم ہلاک ہوگیا۔واقعے کے بعد یونیورسٹی سے متصل ہاسٹلز کو خالی کرالیا گیا جبکہ یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا۔وزیراعظم نواز شریف نے طالبعلم کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی میں بے حس ہجوم کی طرف سے طالبعلم کے قتل پر بے حد دکھ ہوا۔مشعال کی بہن کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی پر لگائے گئے الزامات غلط ہیں اور مشعال کا کسی سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں تھا۔جبکہ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مبینہ گستاخی پر طالب علم کی ہلاکت کے واقعے کو 'وحشیانہ قتل' قرار دے دیا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ 'پاکستان کے طول و عرض سے اس واقعے کی مذمت کی جارہی ہے اور یہ بے حسی سے کیا جانے والا قتل ہے'۔انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس واقعے میں جو لوگ ملوث ہیں وہ اسے کسی نہ کسی طریقے سے مذہب سے جوڑ رہے ہیں لیکن مذہب اسلام تو انصاف کے حوالے سے ایک ماڈل ہے۔چوہدری نثار نے کہا کہ اسلام میں تو کسی غیر مسلم سے بھی ظلم و زیادتی کی اجازت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ 'اگر کسی پر لگایا گیا الزام درست بھی ہے تو اس کا ایک طریقہ کار موجود ہے، ایسا تو وہاں ہوتا ہے جہاں جنگل کا قانون ہو'۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اس واقعے پر صوبائی حکومت نے عدالتی تحقیقات کا جو فیصلہ کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور ہمیں عدالتی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس واقعے سے بہت ہی غلط پیغام گیا ہے کہ کس طرح اس ملک میں بعض لوگ اسلام کے نام کا غلط استعمال کررہے ہیں۔مشعل خان کی زندگی کے حق کے تحفظ میں ریاست کی مکمل ناکامی سے طالبعلموں اوراساتذہ میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ اگرمشعل خان کے بہیمانہ قتل میں ملوث تمام عناصرکے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو اس بربریت میں صرف اضافہ ہی ہو گا۔مردان میں جس انتشار کا اظہارہوا ہے یہ صرف یونیورسٹی کی چند روزبندش سے ختم نہیں ہوگا۔مثبت انسانی اقدارپریقین رکھنے والے تمام لوگوں کو بولنا پڑے گا اوران لوگوں کے ہاتھوں مذہب کے نام پرہونیوالی قتل و غارت کو ختم کرنے کے لیے تجاویز دینا ہوں گی جومذہب کے نام نہاد محافظ بنے ہوئے ہیں۔ ایسی بربریت کے سامنے ہماری خاموشی شریک جرم ہونے کے مترادف ہے۔
  ایک جمہوری ملک میں ترقی اور انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے اقدام کا ایک دوسرے پر انحصار ہے اور یہ ایک دوسرے کیلئے باعث تقویت ہیں۔جمہوریت کا انحصار لوگوں کی آزادانہ رائے کے اظہار پر ہے جس سے وہ اپنے نظام ہائے سیاسی،سماجی، اور ثقافتی کا فیصلہ کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں بھر پور شرکت کرتے ہیں۔اس تناظر میں انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کا ملکی و بین الاقوامی سطح پر تحفظ اور فروغ عالمگیر اور غیر مشروط ہونا چاہیے۔عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت،ترقی، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو مضبوط بنانے اور فروغ دینے کیلئے حمایت کرے۔
 فرسودہ زمانوں کا وحشیانہ طرز عمل ایک کینسر کی طرح اس معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔ اس کا پھیلا نہ صرف پسماندہ علاقوں تک محدود ہے بلکہ یہ ان جگہوں تک بھی پھیل چکا ہے جہاں لوگوں کے ذہن علم و درس سے منور ہونے چاہیئں۔ مشعال خان کے قتل کی ایک ایک بھیانک تفصیل اس دہشت ناک حقیقت کی عکاس ہے۔ نوجوان لڑکے پر ہونے والے وحشیانہ تشدد کی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مشتعل ہجوم مذہبی نعرے بلند کرتے ہوئے اس کے برہنہ جسم پر ڈنڈے، لاتیں اور پتھر برسا رہا ہے۔ ایک دوسرے طالب علم پر بھی اسی وجہ سے حملہ کیا گیا جو بری طرح سے زخمی ہو گیا؛ کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے۔جبکہ اس بارے مبصرین اور اداریہ نویسوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ مگر نیکی سمجھ کر کی جانے والی درندگی کا یہ تماشا دیکھ کر ہمیں بھلا حیرانی کیوں ہونی چاہیے؟ جو راستہ ہمیں آج مشعال کے قتل تک لایا ہے، اس راستے پر تو جگہ جگہ سنگ میل نصب ہیں جو اس منزل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں آج ہم کھڑے ہیں: 2009 میں گستاخی کے الزامات لگا کر گوجرہ میں ایک بچے سمیت آٹھ افراد زندہ جلا دیا گیا؛
 2011 میں گستاخی کی ملزمہ کا دفاع کرنے پر سلمان تاثیر کو اپنے ہی محافظ نے فائرنگ سے ہلاک کر دیا؛ مئی 2014 میں گستاخی کے ملزم کا دفاع کرنے پر وکیل راشد رحمان کو فائرنگ سے ہلاک کر دیا؛ نومبر 2014 میں ایک مشتعل ہجوم نے دو بھٹہ مزدوروں شمع اور شہزاد کو آگ میں زندہ جلا دیا تھا۔ اور یہ تو ابھی ادھوری ہی فہرست ہے، حتی کے ہلاکتوں کے حوالے سے بھی۔گستاخی کے الزامات نے کئی زندگیاں برباد کی ہیں: لوگ گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اپنے روزگار سے محروم ہوجاتے ہیں، کبھی کبھار برسوں جیل میں سڑتے رہتے ہیں کیونکہ چند ہی وکلا ایسے ہیں جو ان کا دفاع کرنے کی ہمت کر پاتے ہیں۔معاملات کو اس نہج تک پہنچانے میں ریاست  باالخصوص اس کے چند عناصر  کا کردار ناقابل تردید ہے۔ انسداد انتہاپسندی کے نام پر فرسودہ باتیں دہراتے ہوئے بھی اس نے عدم برداشت کی آگ کو بڑھکایا ہے، سوچ سمجھ کر ایسا ماحول خود پیدا کر دیا ہے جہاں محض گستاخی کے الزامات پر ہی مشتعل ہجوم انصاف کرنے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں، اور جہاں رہائی کی اپیلوں کو بھی گستاخی کے تحفظ میں شمار کر لیا جاتا ہے۔یہ ڈیموکلز کی وہ تیز دھار تلوار ہے جو بڑی آسانی سے ریاست کے منظور کردہ بیانیے پر سوال اٹھانے یا اس پر اعتراض کرنے والے کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ اور اگر اس دوران معصوم افراد کو بھی مرنا پڑے تو بھی کوئی بات نہیں۔مگر، جہاں قانون کو مشعال خان کے قتل میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے، وہاں اس ملک کے معقول ذہنوں کو چاہیے کہ وہ مذہبی جذبات سے کھیلنے والوں کے خلاف آوازیں بلند کریں۔
عمران خان، جن کی جماعت خیبر پختونخواہ میں حکمران ہے، نے مشعال خان پر وحشیانہ تشدد کی بالکل درست انداز میں مذمت کی، جس میں انہوں نے جنگل کے قانون کو مسترد کرنے کا عہد کیا۔ شرمناک حتی کہ زیادہ تر ٹی وی چینلز، جو کہ ویسے تو فضول گوئی کے عادی ہیں، نے بڑی احتیاط سے سانحے کی جڑ میں موجود اصل مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے مشعال خان کے قتل کو سطحی انداز میں کوریج کی ہے۔ جب تک ان مسائل پر بحث نہیں ہوتی اور سماج میں موجود تضادات کو سمجھا نہیں جاتا، تب تک ہم بدترین اور خوف میں گھرے حالات کی جانب گامزن رہیں گے۔
 جبکہ عوامی حلقوں و سول سوسائٹی کی جانب سے بھی عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں ہجوم کے ہاتھوں ایک طالبعلم کی ہلاکت پرشدید تشویش کا اظہارکیا گیاہے۔ انہوں نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اوروحشیانہ قتل کے بعد شہریوں، خاص طورپرطالبعلموں اوراساتذہ میں پھیلنے والی دہشت اورخوف پرقابو پانے کے لیے تمام موثراقدامات کیے جائیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مردان میں ایک طالبعلم کی ہلاکت اوردوسرے کے شدید زخمی ہونے کے واقعے نے پہلے سے عیاں حقیقت کو ایک بارپھرآشکارکردیا ہے کہ ہمارا معاشرہ کس حد تک خون کا پیاسا ہو چکا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہرہوتا ہے کہ کسی کو بلا جھجک مارنے کے لیے مذہب کا استعمال، چاہے وہ ناجائز ہی کیوں نہ ہو، کتنی آسانی کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کریہ کہ ریاست کا شہریوں کو تشدد سے تحفظ کا عزم ان کے عزم سے کمزورہے جو انسانوں کے قتل عام کے لیے مذہب کا نام استعمال کررہے ہیں۔الفاظ اس صورتحال کی مذمت سے قاصرہیں۔سب کے لیے یہ بات انتہائی دکھ کا باعث ہے کہ رونگٹے کھڑے کرنے والی بربریت اعلی تعلیم کے ادارے میں پیش آئی ہے جہاں طالبعلموں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کے خیالات کو برداشت کریں گے جو کہ خیالات کے آزادانہ تبادلے کے لیے ناگزیرہے۔اے پی ایس