پاناما فیصلہ مزید توقعات اور خدشات۔ چودھری احسن پریمی




پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ایسی ججمنٹ کبھی نہیں آئی اور وزیراعظم فوری طور پر مستعفی ہوجائیں۔ انھوں نے کہا کہ آج قوم کے سامنے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ آیا جس کا مطلب یہ سپریم کورٹ میں جو ثبوت جمع کیے گئے وہ غلط ہیں۔مستقبل کے دو چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ان کو گھر بھیج دو یہ جج ملک کے معزز جج ہیں۔چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم فوری طورپر استعفی دے دیں۔کیونکہ ان کے اوپر کریمنل تفتیش ہوگی تو وہ ملک کے وزیراعظم کیسے رہ سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف عزیر بلوچ کی طرح تفتیش ہوگی اس لیے ان کے پاس وزیراعظم رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ چونکہ سپریم کورٹ بھی کہہ چکی ہے کہ نیب ٹھیک کام نہیں کررہا ہے اسی لیے ان کی موجودگی میں ادارے اچھی طرح تفتیش نہیں کرسکیں گے اس لیے انھیں فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ وزیراعظم فوری مستعفی ہوں اور اگر 60 روز کے بعد یہ شفاف قرار دیے جاتے ہیں تو واپس آجائیں کیونکہ یہی مطالبہ انھوں نے یوسف رضا گیلانی سے کیا تھا۔ایک سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ صرف 60 دن کی بات ہے اس کے بعد جشن منائیں گے۔
جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ جب بھی ریاست کا کوئی ادارہ کسی بڑی مچھلی کے لیے جال بچھاتا ہے تو کس طرح اس کی متعلقہ ریگولرٹی اور نگرانی کرنے کے کردار ماند پڑ جاتے ہیں۔ کمپیٹیشن کمیشن انتہائی کمزوریوں کا شکار ہے، اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان،ایف آئی اے اور نیب تو محض ایک مذاق تک ہی محدود ہو گیا ہے اور ایسی دیگر مثالیں بھی ہیں۔ان کے خیال میں  اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کے ہر ادارے کو دہائیوں سے جاری اقتدار کی اس جدوجہد نے اس قدر روند دیا ہے کہ ایک یا دو سال بعد اقتدار پا لینے کے ساتھ ہی ہر پیمانے کو کرو یا مرو والی صورتحال میں ڈال دیتی ہے۔ یہ جدوجہد دیگر تمام اداروں کو اپنی آگ میں کھینچ لیتی ہے، ان کی تمام شرائط پر گفتگو محدود کر دیتی ہے، کسی مسئلے پر دو اطراف کے درمیان لکیر کھینچ دیتی ہے اور ایک ایک کر کے ہر کسی کو اپنی اپنی ٹیم منتخب کرنے پر زور ڈالتی ہے۔مختصرا کہیں تو یہ ہماری سیاست سے آکسیجن نکال دیتی ہے اور ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے کہ جس میں وہ جو ڈیل توڑنے اور اپنی ترقی کو تحفظ دینے کے راضی ہوتے ہیں وہ تیزی سے ترقیاں پاتے ہیں، جبکہ باقی ان حالات کی مایوسیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ بدعنوانی اور نہ ختم ہونے والی اقتدار کی جدوجہد جو کہ ہماری سیاست ہے ایک دوسرے کے سامنے رکھے دو شیشوں کی مانند ہیں: جو ایک دوسرے پر نہ ختم ہونے والے عکس چھوڑتے ہیں۔
  جبکہ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنانے کا حکم دے دیا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے کورٹ روم نمبر 1 میں پاناما لیکس کے معاملے پر آئینی درخواستوں کا فیصلہ سنایا، جو رواں برس 23 فروری کو محفوظ کیا گیا تھا۔فیصلہ 540 صفحات پر مشتمل ہے، جسے جسٹس اعجاز اسلم خان نے تحریر کیا۔
فیصلے پر ججز کی رائے تقسیم ہے، 3 ججز ایک طرف جبکہ 2 ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد خان نے اختلافی نوٹ لکھا۔فیصلے کے مطابق فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔عدالتی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، قومی احتساب بیورو (نیب)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کا نمائندہ شامل کیا جائے۔اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات میں ناکام رہے۔
پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنماں نے فیصلے کو اپنی 'جیت' قرار دیتے ہوئے 'گو عمران گو' کے نعرے لگائے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اللہ کا جتنا شکر ادا کریں وہ کم ہے، ہم سرخرو ہوئے ہیں، عدالت عظمی نے فیصلہ دیا ہے، مزید تحقیقات کی جائیں جبکہ یہی بات 6 ماہ قبل خود وزیراعظم نواز شریف نے بھی کہی تھی۔انہوں نے کہا کہ مخالفین نے جو شواہد پیش کیے، وہ ناکافی تھے، ان کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔دوسری جانب وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جے آئی ٹی کے ساتھ مکمل
 تعاون اور عدالتی فیصلے پر عمل کیا جائے گا۔سعد رفیق نے مزید کہا کہ آج ثابت ہوگیا کہ 'وزیراعظم صادق بھی ہیں اور امین بھی'۔پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔
ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے۔موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔
پاناما انکشافات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آنے پر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔اس سلسلے میں وزیراعظم نے قوم سے خطاب کرنے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی خطاب کیا اور پاناما لیکس کے معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک اعلی سطح کا تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کے لیے رضامند ہیں، تاہم اس کمیشن کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر حکومت اور حزب اختلاف میں اتفاق نہیں ہوسکا۔
بعدازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں دی گئی تقریر کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں ان کے خلاف نااہلی کی پٹیشن دائر کردی، ان کا موقف تھا کہ نواز شریف نے ایوان میں متضاد بیانات دیے، چنانچہ اب وہ صادق اور امین نہیں رہے۔پی ٹی آئی کے علاوہ جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے بھی پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔ابتدا میں سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر اعتراضات لگاکر انھیں واپس کردیا، تاہم بعدازاں 27 ستمبر کو عدالت عظمی نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے دائر تمام درخواستوں پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرلیں۔20 اکتوبر 2016 کو سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی تھی، بعد ازاں اس کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔پہلے پہل سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما لیکس کی درخواستوں پر سماعت کی، تاہم 31 دسمبر 2016 کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس ثاقب نثار نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا اور پاناما کیس کی سماعت کے لیے نیا لارجر بینچ تشکیل دیا گیا۔رواں برس 4 جنوری سے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بننے والے پانچ رکنی نئے لارجر بینچ نے پاناما کیس کی درخواستوں کی سماعت کی، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن شامل تھے۔31 جنوری کو ہونے والی سماعت کے بعد لارجر بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید کو دل کی تکلیف کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی تھی جس کا دوبارہ سے آغاز پندرہ روز بعد (15 فروری سے ہوا تھا۔
بعدازاں جج جسٹس آصف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 23 فروری کو محفوظ کیا تھا، جو 20  اپریل کوسنایا گیا۔واضح رہے کہ اس فیصلے کو عوام کے سامنے لانے میں 57 دن کا وقت لگا ہے۔  پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعد عدالت کے باہر حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماں نے گو عمران گو کے نعرے لگائے۔ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے اس موقع پر کہا کہ مخالفین نے عدالت کے ذریعے عوام کے مینڈیٹ پر شب خون مارنے کی کوشش کی لیکن سپریم کورٹ نے سازش کو ناکام بنادیا۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ چور دروازے کے ذریعے وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانا چاہتے تھے آج انہیں منہ کی کھانی پڑی ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ وہ لوگ جو یہ دعوی کرتے تھے کہ ان کے پاس ناقابل تردید شواہد ہیں انہیں بھی شرمندہ ہونا پڑا ہے کیوں کہ جے آئی ٹی کی تشکیل اس بات کا ثبوت ہے کہ عدالت نے ان شواہد کو مسترد کیا اور مزید تحقیقات کا حکم دیا۔وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آج ایک بار پھر میاں نواز شریف اور ان کی ٹیم اور کروڑوں ووٹرز سرخرو ہوئے ہیں، ہم سب نے بارہا یہ کہا کہ عدالت عظمی کے فیصلے کا احترام کیا جائے گا اور اب وقت آگیا ہے کہ جو کچھ کہا گیا اس پر عمران خان، سراج الحق اور دیگر درخواست گزار بھی عمل کریں۔انہوں نے کہا کہ ملک کی اعلی ترین عدالت نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے اور جے آئی ٹی کی تشکیل وزیراعظم کے موقف کی فتح ہے۔
سعد رفیق نے کہا کہ ہم چاہتے تو عمران خان کی طرح سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال کرسکتے تھے لیکن وزیراعظم قانونی مشیروں کے روکنے کے باوجود سامنے آئے اور عدالت عظمی کے سامنے پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا اور عدالتی فیصلے پر عمل کیا جائے گا۔سعد رفیق نے کہا کہ آج ثابت ہوگیا کہ 'وزیراعظم صادق بھی ہیں امین بھی ہیں'۔
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا کہ وزیراعظم نے الزام تراشی اور بہتان بازی کا مقابلہ تحمل، بردباری اور پروقار خاموشی سے کیا اور ایسی منفرد مثال قائم کی کہ سپریم کورٹ کے سامنے تین نسلوں کو پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم یہ چاہتے تھے کہ جو اعتماد عوام نے ان پر کیا ہے اس پر کسی قسم کا کوئی شبہ نہ رہے۔وزیراعظم نے اپریک 2016 میں سپریم کورٹ کو خود خط لکھا تھا کہ اگر پاناما لیکس میں کوئی شبہ ہے تو کمیشن بناکر تحقیقات کا آغاز کیا جائے۔ن لیگ کے رہنما دانیال عزیز نے اس موقع پر کہا کہ آج سچ کا بول بالا ہوا ہے اور جھوٹ کا منہ کالا ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ثابت کیا ہے کہ وزیراعظم صادق بھی ہیں، امین بھی ہیں اور وہ 2018 تک نہیں بلکہ مزید 6 سال تک وزیراعظم رہیں گے۔انہوں نے کہا کہ 'مجھے خدشہ ہے چونکہ فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں نہیں آیا لہذا اللہ سپریم کورٹ کی عزت عمران خان سے محفوظ رکھے'۔فیصلے کے بعد وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ایک تصویر شیئر کی جس میں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف وزیراعظم نواز شریف کو گلے لگاکر مبارکباد دے رہے ہیں۔مریم نواز نے یہ بھی کہا کہ چار مہینے تک سماعت کرنے کے بعد سپریم کورٹ کا تحقیقات کا حکم دینا درخواست گزاروں کی شکست ہے، درخواست گزار 4 مہینے میں اپنا کوئی الزام ثابت نہیں کر سکے۔فیصلے سے قبل سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر اپنے پیغام میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ بھی ہو، عوام کی محبت دیکھ کر خوش ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی غیر معمولی حمایت دیکھ کر خوشی ہوئی۔سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کا فیصلہ سنائے جانے سے قبل بھی حکمران جماعت کے رہنما اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف محاذ کھولے بیٹھے رہے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے جو وعدہ کیا وہ پورا ہوتا نظر آرہا ہے، نواز شریف اور ان کے بچوں نے کوئی استثنی نہیں لیا لیکن تلاشی نہ دینے کی بات کرنے والے آج منہ چھپائے بیٹھے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے دانیال عزیز کا کہنا تھا کہ عمران خان نے 2000 میں کالا دھن سفید کیا اور اپنے اثاثے چھپائے۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان سند یافتہ ٹیکس چور ہیں۔اس موقع پر ان کے ہمراہ طلال چوہدری بھی موجود تھے۔آج ہم یوم تشکر اور یہ یوم شرمندگی منائیں گے۔سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق بات کرتے ہوئے طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ اگر آج نواز شریف کو نااہل قرار دیا جاتا ہے تو عمران خان کیس جیت جائیں گے لیکن اگر 2 بجے کے بعد بھی نواز شریف وزیراعظم رہتے ہیں تو سب کچھ فضول ہے اور کیس ختم ہوگیا'۔صحافیوں سے گفتگو میں عمران خان کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لیگی رہنما نے کہا کہ اگر آج نواز شریف کی اہلیت پر کوئی سوال نہ اٹھا تو کیس نواز شریف نہیں ان کی تین نسلیں جیت جائیں گی۔طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ آج تین نسلوں کا حساب دینے والا سرخرو ہوگا، آج ہم یوم تشکر اور یہ یوم شرمندگی بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ آج عمران خان کے لیے بڑا صدمہ آئے گا جو عوامی عدالت میں نااہل ہوئے، وہ قانونی عدالت میں بھی نااہل ہونے والے ہیں جبکہ عوامی عدالت سے جیتنے والے نواز شریف آج قانونی عدالت سے بھی جیتنے جارہے ہیں، آج اس بات کی تصدیق ہوجائے گی کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے۔وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے بھی پرجوش انداز میں اس امید کا اظہار کیا آج ہم یوم تشکر منائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ جب بھی نواز شریف کی حکومت آتی ہے تو سیاسی پنڈت اور چند افراد جو ترقی سے خائف ہیں، نہ جانے کس بیرونی ایجنڈے پہ کام کرتے ہیں اور الزامات لگاتے ہیں۔سیاسی مخالفین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کرپشن کے عالمی چیمپئن نواز شریف کے خلاف باتیں کرتے ہیں، اگر دنیا میں کسی کو کرپشن کا ایوارڈ ملے گا تو وہ آصف زرداری ہیں جو سوتے ہوئے بھی کرپشن کرتے ہیں اور ناشتے میں بھی۔وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد پاکستان میں جھوٹ بولنے کی سیاست ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گی کیونکہ عدالت شواہد پر چلتی ہے مفروضوں پر نہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آج آئین اور قانون کی جیت ہوگی۔نواز شریف آج بھی وزیراعظم ہیںکل بھی رہیں گے۔پاناما کیس کے تاریخی فیصلے سے قبل جہاں ایک طرف نواز شریف کے وزیراعظم برقرار رہنے یا نہ رہنے سے متعلق مختلف قیاس آرائیاں جاری تھیں، وہیں وزیراعلی پنجاب شہباز شریف پرامید تھے کہ 'وزیراعظم مرد آہن ہیں، وہ آج بھی وزیراعظم ہیں اور کل بھی وزیراعظم رہیں گے'۔قصور میں ایک تقریب میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اختلاف رائے کا حق ہوتا ہے جبکہ قانون ہمیں درس دیتا ہے کہ مہذب قومیں فیصلے مانتی ہیں.وزیراعلی پنجاب کا کہنا تھا کہ سب جانتے ہیں وزیراعظم نواز شریف کا کردار کتنا صاف ہے، نواز شریف 3 بار وزیراعظم منتخب ہوئے اور 3 بار وزیراعظم رہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا کہ عدالت نے حکومت کے ثبوت کو ناکافی قرار دے کر ایک کمیشن بنانے کا حکم دیا ہے اور سات دن کے اندر اس کی تحقیقات شروع ہوں گی.ان کا کہنا تھا کہ 'ملک کا وزیراعظم جوائنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوں گے، جسٹس کھوسہ اور جسٹس گلزار نے کہا کہ وزیراعظم کو گھر بھیج دیا جانا چاہیے جبکہ تین ججوں نے کہا کہ 60 دن انتظار کریں اور تفتیش کریں'۔ان کا کہنا تھا کہ جو نعرے لگارہے ہیں ان کو نہیں پتا ان کے ساتھ کیا ہوا ہے یہ اپنی شکست چھپانے کے لیے باتیں کررہے ہیں۔پی ٹی آئی کے رہنما عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کہا کہ وزیراعظم اور ان کے بیٹے جھوٹ بولنے کے مرتکب ہوئے ہیں اور پاکستان کا پیسہ چوری کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ انھیں صرف 67 روز کی مہلت ملی ہے اور اس کے بعد اسی کورٹ میں گھسیٹ کر لائے تھے اور ساتھ والی بلڈنگ سے گھسیٹ کر نکال لیں گے۔پی ٹی آئی کے رہنما فیض الحسن چوہان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ججوں نے یہ فیصلہ دینا تھا تو قوم کا وقت کیوں ضائع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ میری ذاتی رائے ہے اس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کمیشن نہیں بنے گا اور ہم اس کیس کی تحقیقات کریں گے۔پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی) کے صدر اور سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے ہمارے ساتھ بددیانتی کی ہے اس لیے وہ اب ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں میزبان کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'نواز شریف کا کبھی ساتھ نہیں دوں گا کیونکہ جمہوریت کے لیے ہمارے اور دوست کافی ہیں'۔ایک سوال پر کہ اگر نواز شریف کی جانب سے رابطے کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں کسی کا فون نہیں اٹھاتا اور آئندہ کبھی رابطے کی کوشش کی تو بھی فون نہیں اٹھاوں گا۔ان کا کہنا تھا کہ 'چونکہ نواز شریف نے ہمارے اعتماد کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ اگر میں ان کی بات کرتا ہوں تو ہمارے کارکن مجھ سے لڑنے آتے ہیں'۔پی پی پی پی کے صدر نے کہا کہ 'ہر سیاسی فورس کے لیے میرے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں اور عمران سے بات ہوسکتی ہے اس کے لیے ایجنڈا پاکستان، پاکستان اور پاکستان ہوگا'۔آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ' حکمران جمہوریت کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور وہ شہنشاہ بن کر پارلیمنٹ چلا رہے ہیں اورحکومت کے خاتمے تک پورے پاکستان میں تحریک چلائیں گے'۔پاناما کیس کے فیصلے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاناما کے فیصلے پر احتجاج جمہوریت کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔انھوں نے کہا کہ اگر فیصلہ نواز شریف کے خلاف آتا ہے تو ان کے پاس بہت سے لوگ ہیں وہ کسی اور کو وزیراعظم بنا دیں۔سابق صدر نے کہا کہ ہمیں پاناما کیس کے فیصلے کا شدت سے انتظار ہے۔خیال رہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ روز شیخوپورہ میں بھکی پاورپلانٹ کے افتتاح کے موقع پر اپوزیشن جماعتوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ سب کے ساتھ انصاف ہو اور سب کا احتساب ہو۔امیر جماعت اسلامی کا سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کے فیصلے کے حوالے سے کہنا تھا کہ 'اس فیصلے کے آنے کے بعد سیاست میں بھی گرمی ضرورآئے گی لیکن میں چاہتا ہوں کہ انصاف ہو عدل ہو یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ احتساب ہو سب کا ہو'۔خیال رہے کہ سراج الحق پاناما کیس میں عمران خان اور شیخ رشید کیساتھ تیسرے فریق ہیں۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ 'ہمارے وکلا نے بڑی مہارت سے عدالت کیسامنے ہمارا موقف پیش کیا ہے، ہم نے عوامی کچہریوں میں اور ہمارے وکلا نے عدالت عظمی کے سامنے ہمارا موقف پیش کردیا ہے اب فیصلے کی گھڑی ہے اور ہم پرامید ہیں'۔ان کا کہنا تھا کہ 'کسی کی ذات کے خلاف نہیں ہیں بلکہ کرپٹ نظام کے خلاف ہماری جدوجہد جاری تھی، جاری ہے اور جاری رہے گی'۔پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے فیصلے سے قبل سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرنے سے گریز کیا اور بس اتنا ہی کہا کہ 'انشا اللہ سب بہتر ہوگا'۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ انشا اللہ جیتیں گے اور ہم جیت چکے ہیں اور اگر ہماری بات نہیں بھی سنی گئی تو قبر کی دیواروں تک چوروں کا پیچھا کریں گے۔شیخ رشید نے کہا کہ عوام مایوس نہ ہوں، کرپشن کا تابوت ہر صورت نکلے گا۔
 ملک بھر میں پاناما کیس کے فیصلے کے انتظار کے ساتھ ساتھ وفاقی دارالحکومت کی فضا میں جوش و خروش بھی بڑھتا رہا ہے جو کرپشن کے الزامات پر وزیراعظم نواز شریف کی معزولی کا انتظار کرتے رہے۔اسلام آباد کے ریڈ زون میں متوقع فیصلے سے قبل ریڈ الرٹ جاری کردیا گیا تھا جہاں تقریبا 1500 پولیس، رینجرز، اور فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے اہلکار علاقے کی سیکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے تعینات تھے۔پولیس حکام سمیت خصوصی برانچ کے حکام بھی خفیہ اطلاعات اکھٹا کرنے اور بروقت احکامات جاری کرنے لیے سپریم کورٹ کے آس پاس موجود تھے۔ریڈ زون میں داخلے کے تمام پوائنٹس پر سخت چیکنگ کے انتظامات تھے جبکہ ان داخلی مقامات سے صرف متعلقہ افراد، حکومتی حکام اور علاقہ مکینوں کو داخلے کی اجازت دی جاتی رہی ۔داخلی مقامات پر تعینات اہلکاروں کو لوگوں کی چیکنگ اور شناخت کی تصدیق کے ساتھ علاقے میں داخل ہونے کی وجہ اور جس مقام تک وہ جانا چاہتے ہیں، اس کی تفصیلات اکھٹا کرنے کا حکم بھی دیا گیا ۔دوسری جانب عدالت کے احاطے میں داخلہ پاس کے بغیر ممکن نہیںتھا، عمومی طور پر روزانہ کی بنیادوں پر سپریم کورٹ میں 60 سے 70 رپورٹرز موجود ہوتے ہیں تاہم پاناما پیپرز لیکس کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کے خلاف کیس کے تاریخی فیصلے کے موقع پر عدالت کی عمارت میں سیکڑوں صحافیوں کی تعداد موجود رہی ۔
 مریم نواز کی جانب سے اپنے والد وزیراعظم نواز شریف کے 'پریشان نہ' ہونے کے دعوے کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) نے بدھ کو پورا دن بدستور پریشانی میں گزارا جہاں پارٹی کے سرکردہ رہنما پاناما کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے ممکنہ فیصلے کا جائزہ لیتے رہے۔قانونی مشیروں سے لے کر اراکین اسمبلی سمیت حکمراں جماعت سے منسلک تمام افراد وزیراعظم کے حوالے سے فیصلے پر پریشان اور غیریقینی کا شکار تھے کہ ان کے قائد کو عدالت کی جانب سے کلین چٹ ملے گی یا نہیں۔ان میں سے چند افراد نے اعتراف کیا کہ 'انجانا خوف' ہے کیونکہ جس طرح یہ کیس ختم ہوا اس کو دیکھتے ہوئے عدالت کا حکم اور فیصلہ کیا ہوگا، کوئی پیش گوئی کرنا آسان نہیں ہے۔پاکستان مسلم لیگ نواز نے گزشتہ روز اپنے مقامی نمائندوں کو تازہ دم کرنے کے لیے لاہور میں ایک خاص تقریب کا انتظام کیا تھا،ٹان ہال میں موجود بڑی تعداد میں مقامی نمائندوں اور پاکستان مسلم لیگ کے صوبائی اسمبلی کے چند اراکین نے بڑی اسکرین پر وزیراعظم نواز شریف کی شیخوپورہ میں بھکی پاورپلانٹ کی افتتاحی تقریب کو براہ راست دیکھا اور اپنے قائد کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے انھوں نے 'نواز شریف تیرے جاں نثار بے شمار' کے نعرے بھی لگائے۔مریم نواز نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ 'لوگ نواز شریف سے پیار کرتے ہیں اور ان کا بیانیہ ترقی اور خوش حالی ہے، دنیا والو! نظریں پرعزم ہیں، بھرپور توجہ ہے اور دل تیار ہے! 
انھوں نے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ' جب تمھارے تمام حربے بری طرح ناکام ہوئے اور مستقبل تاریک نظرآنے لگا تو تمھاری نظر عدالت کے فیصلے پر ہے'۔پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) 'خاموش تماشائی' کی طرح ہے جبکہ  پی پی پی کے سینئر رہنما نوید چوہدری نے کہا کہ 'ماضی کو دیکھتے ہوئے کہ پی پی پی کو کبھی بھی سازگارعدالت نہیں ملی اورہم حد سے زیادہ پرجوش نہیں ہیں'۔ان کا کہنا تھا کہ 'اس مرتبہ شاید 'تاریخی فیصلہ' پاناما کیس میں آجائے'۔  سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کا ممکنہ فیصلہ سنائے جانے سے ایک روز قبل پاکستان کی 3 اہم سیاسی جماعتوں  پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی آٹی آئی) کے علیحدہ علیحدہ اجلاس منعقد ہوئے جس میں پاناما اسکینڈل کیس کے فیصلے سے قبل اور بعد کا لائحہ عمل ترتیب دیا گیا۔وزیراعظم نوازشریف نے وزیراعظم ہاوس میں پارٹی اجلاس کی صدارت کی اس دوران وہ بے فکر نظر آئے۔
اس حوالے سے ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ 'میں نے اپنے والد اور خاندان کے دیگر اراکین کو ایک مرتبہ بھی فکرمند یا تشویش میں مبتلا نہیں پایا، ایسا اس وقت ہوتا ہے جب آپ اپنے معاملات اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں'۔دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اس امید کا اظہار کیا کہ فیصلے میں وزیراعظم کو 'کلین چٹ' نہیں دی جائے گی جبکہ انھیں اور شریف خاندان کو آف شور اثاثے چھپانے پر کسی صورت میں بھی جرمانہ عائد کیا جائے گا۔پی ٹی آئی کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پریڈ گرانڈ میں عوامی اجتماع کا اعلان بھی کیا گیا ۔ادھر پی پی پی کی قیادت نے وفاقی دارالحکومت میں ملاقات کی جس میں پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرادری کا کہنا تھا کہ ان کو فیصلے سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں ہیں۔پی پی پی کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے فیصلہ کرے گی۔
وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے کسی بھی قسم کے حادثے سے بچنے کیلئے پارٹی کے کارکنوں کو جمعرات کے روز سپریم کورٹ جانے سے روک دیا تھا۔اس سے قبل اپنے پارٹی رہنماوں سے ملاقات کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے پی پی پی کی سندھ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور پارٹی کے کارکنوں پر زور دیا کہ وہ وہاں اپنی سیاسی سرگرمیاں بڑھائیں۔ان کا کہنا تھا کہ 'اگر کوئی سندھ میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کررہا تو انھیں نتائج کیلئے تیار رہنا چاہیے، پنجاب میں ہمارے مخالفین کو بھی ایسا ہی کرنے کا حق ہے'۔وہ پرامید تھے کہ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) سندھ میں بہتر نتائج لے کر آئے گی۔پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے عمران خان نے اعلان کیا کہ پاناما لیکس کیس کے فیصلے کے بعد پریڈ گرانڈ میں عوامی اجتماع کا انعقاد کیا جائے گا لیکن پارٹی کے کارکنوں کو فیصلے کے وقت سپریم کورٹ جانے سے روک دیا۔انھوں نے پارٹی کے کارکنوں کو ملک میں کرپشن کے خلاف مستقل کوششیں کرنے اور سپریم کورٹ میں کیس کی پیروی کرنے پر مبارکباد پیش کی۔ان کا کہنا تھا کہ 'سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آج اور کل کے پاکستان میں ایک واضح فرق محسوس کیا جائے گا'۔عمران خان کا کہنا تھا کہ لوگ اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ ملک میں کرپشن مسائل کی اصل جڑ ہے اور انھیں اس سے نجات حاصل کرنی ہے، 'پاکستان کا مستقبل پی ٹی آئی کا منتظر ہے'۔پی ٹی آئی کے چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اگر پاناما لیکس کا معاملہ ان کی جماعت کی جانب سے اس طرح عوامی سطح پر سامنے نہ لایا جاتا تو اس معاملے کو کب کا دفن کیا جاچکا ہوتا۔انھوں نے کہا کہ 'ہم نظام کو ڈی ریل نہیں کرنا چاہتے لیکن تمام لوگوں کا احتساب چاہتے ہیں'۔ پی ٹی آئی کے رہنما عارف علوی کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت پر اعتماد ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو کلین چٹ نہیں ملے گی، 'اب یہ دیکھا جانا ہے کہ وزیراعظم کو جھاڑو سے مار پڑتی ہے یا لاٹھی سے'۔پاناما کیس کے فیصلے کے حوالے سے اسد کھرل نے ٹوئٹ کیا کہ 'اصغر خان کیس کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے، کیا ہوا؟ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟'یاد رہے کہ اسد کھرل کی کتاب کو پاناما کیس میں ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔اے پی ایس