جمہور، جمہوریت اور پاناما کا فیصلہ:تحریر: سابق سینیٹرمحمد اکرم ذکی



عدالت عظمیٰ نے پاناما کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے فیصلے کے بعد اپنے ابتدائی ردعمل میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے جبکہ خیر خواہوںکی جانب سے انہیں مبارکبادیں موصول ہورہی ہیں، جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شائد یہ فیصلہ حکومت کے حق میں ہے۔ قوم ایک سال سے پاناما کے ہنگامے میں الجھی ہوئی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں حکومت کے خلاف الزامات کی مزید تحقیقات کیلئے ایک مشترکہ تحقیقاتی کمیشن بنانے کا حکم دیا ہے۔ جس میں تمام تحقیقاتی اداروں کے نمائندے شامل ہوں گے ۔ پاناماکیس کی شروعات میں ہی وزیراعظم نے خود مشترکہ تحقیقاتی کمیشن بنانے کی پیش کش کی تھی، اس وقت بھی یہی فیصلہ حکومت کیلئے بخوشی قابل قبول ہوتا۔ سپریم کورٹ کا موجود ہ فیصلہ پانچ رکنی بینچ نے دو اور تین کی اکثریت سے کیا ہے۔ جس میں سے دو ججز جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیراعظم کو نااہل قرار دیا ہے اور اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں جبکہ قطری شہزادے کے خط کو بھی مسترد کردیا ہے ۔ بنچ کے باقی تین ججز جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس اعجاز الحسن نے بھی وزیراعظم اور ان کے خاندان کو الزامات سے بری الذمہ قرار نہیں دیا بلکہ موجود شہادتوں اور ثبوتوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے مزید تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ جس کیلئے سات دن میں مشترکہ تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے جو کہ دو ماہ میں اسی بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔چنانچہ پاناما کے جس ہنگامے نے ملکی سیاست کے ماحول کو ایک سال تک کشیدہ اور غیر مستحکم بنائے رکھا ، ابھی وہ ختم نہیں ہوا اور کم از کم مزید ٦٧دن تک غیریقینی کے بادل سیاسی افق پر یونہی منڈلاتے رہیں گے۔ جس کے بعد بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ کوئی تبدیلی وقوع پذیر ہوگی یا حکومت کیلئے راوی مزید چین ہی چین لکھے گا۔
بلاشبہ وطن عزیز کے ہر شعبے و ادارے میں رشوت، بدعنوانی، اقربا پروری ''اوپر سے نیچے تک''سرایت کرچکی ہے۔ اس ناسور کا علاج ملک و قوم کیلئے وقت کی اہم ضرورت ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت خلوص نیت سے اس ناسور کے خاتمے کیلئے سنجیدہ نہیں ۔ حکومت اور حزب اختلاف (اول تو عملی طور پر حزب اختلاف دیکھائی ہی نہیں دیتی، کیونکہ ہر بڑی سیاسی جماعت کہیں نہ کہیں حکومت کا حصہ ہے)۔ کوئی جماعت وفاق اور پنجاب سنبھالے ہوئے ہے تو کوئی سندھ پہ راج کی دعویدار ہے ۔ پاکستان کے معاشی حب کی مسند شاہی پہ ایم کیو ایم براجمان ہے تو خیبر پختونخوا میں کسی اور جماعت کی حکومت ہے۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے اور بلحاظ آبادی سب سے چھوٹے صوبے بلوچستان میں بھی متعدد جماعتوں کی شراکت داری ہے۔ کسی ایک صوبے میں جو جماعت ، دوسری جماعت کی حلیف ہے تو وہی جماعت دوسرے صوبے یا وفاق میں اپنی ہی حلیف جماعت کی حریف ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتی منظرنامے میں سیاسی جماعتوں کا یہ جوڑ توڑ بنیادی طور پر اس امر کی نشاندہی ہے کہ مقصد یا ہدف ملکی و عوامی تعمیر و ترقی نہیں بلکہ مفادات کا حصول ہے۔ جس میں حصہ بقدر جثہ کی اصطلاع کے تحت مستفید ہورہے ہیں، رہا سوال جمہور ، جمہوریت یا جمہوری ملک سے اخلاص کا تو اس کے دعویدار سبھی ہیںمگرعمل سے نہیں، فقط زبان سے ۔۔
بڑی سیاسی جماعتیں (جو کہ کہیں نہ کہیں حکومت کا حصہ ہیں) اپنے کاموں کا ڈھنڈورا پیٹنے کیلئے ذرائع ابلاغ میں اشتہارات کے ذریعے رشوت بانٹتے ہیں، جس کے صلے میں روزانہ کی بنیاد پر غیر ضروری معاملات (نان ایشوز) پر بحث و تمحیص سے عوام بالخصوص نوجوانوں کا وقت اور سرمایہ ضائع کرتے ہیں۔ یہی ذرائع ابلاغ عوام کے بنیادی مسائل کو نہ صرف نظرانداز کرتے ہیں بلکہ تعلیم ، صحت، خوراک، روزگار، عوام کی بنیادی ضروریات کی دستیابی کے فقدان پہ بات نہیں کرتے ۔ غیراہم ایشوز پہ طویل مذاکرے اور تحقیقاتی رپورٹس کا اجراء کرتے ہیں مگر مہنگائی، وسائل و خرچ میں عدم توازن ، روٹی، کپڑا،مکان، تعلیم،بجلی ،پانی ،گیس کی عدم دستیابی پہ بات نہیں کرتے۔ عوامی روزگار و کاروبار کی پسماندگی کو نمایاں نہیں کرتے۔ وسائل کی عدم دستیابی کے باعث ٹیلنٹ کے ضیائع کا ذکر نہیں کرتے۔ باالفاظ دیگر جمہوری رہنماء جتنا جمہور سے دور ہیں، ذرائع ابلاغ اتنا ہی اس خلاء کو بڑھاوا دے رہے ہیں، جو کہ مستقبل میں اہلیان اقتدار کیلئے خطرناک ہے۔
دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کیلئے پاک فوج، رینجرز، ایف سی ، پولیس و دیگر اداروں کے جوان سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور ملک دشمنوں کا پہلا  اور آسان ہدف ہیں۔ دہشتگردوں کے خلاف اس ہراول دستے کو اختیارات دینے یا نہ دینے پر وہی سیاست گر مصروف تکرار ہیں کہ جو ہر سانحہ کے شہیدوں کی وراثت کی دعویداری کرتے ہیں۔ انتہاپسندتحریکیں جو مذہب کی غلط تعبیر کی تشہیر کرکے لوگوں کو گمراہ کررہی ہیں اور انتہا پسندی سے دہشت گردانہ ماحول تیار کررہی ہیں ان انتہاپسند تحریکون کو بالواسطہ یا بلاواسطہ سیاسی آشیرباد حاصل ہے۔ داخلی انتشار کو فروغ دینے والی تنظیموں کی سرپرستی باہر سے بھی جاری ہے۔ وطن عزیز کے گردونواع میں خطے کے حالات تغیر پذیر ہیں۔ بھارت میں انتہاپسندی، پاکستان دشمنی اور مسلم کشی وبا کی صورت مسلسل پھیل رہی ہے۔ افغانستان میں بھارت کا اثررسوخ مسلسل بڑھ رہاہے ، جو کہ پاکستان میں دہشتگردوں کی معاونت اور دہشتگردی و انتہاپسندی کی معاونت کررہا ہے۔ان نازک حالات میں تمام حقیقی مسائل و درپیش چیلنجز سے بے پروا پاناما کے ہنگامے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، مسلسل بول رہا ہے۔ اہل اقتدار (سیاست گر) جمہور کیساتھ یہ جمہوری کھیل (اپنا حق سمجھ کے) ضرور کھیلیں مگر خدارا وطن عزیز پاکستان کی سلامتی ، اقتصادی استحکام اور عوامی فلاح و بہبود کو بھی اپنے اہداف و مقاصد میں شامل فرمائیں۔ شائد اس طرح وہ طویل عرصے تک کھیلنے کے قابل رہیں، ویسے بھی حکومت کو مزید ٦٧دن کے پیلنٹی سٹروکس ملے ہیں، دیکھیں مزید کیا گول کرتے ہیں۔ اے پی ایس