مسترد کرتے ہیں۔ چودھری احسن پریمی



 حکومت کی نیک نامی پاناما کی شکل میں آسمان سے گری اور کھجور میں اٹک گئی ہے جسے پاکستان تحریک انصاف نے  آڑھے ہاتھوں لیا۔ اس ضمن میں تحریک انصاف کا سربراہ ملک کی نوخیز جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کوششوں کو پریشان نہیں کررہا بلکہ ایک طرح سے اپنے آپ کو منظم کرنے کیلے حکمرانوں کا محاصرہ کررہا ہے۔
قانون کی حکمرانی کسی بھی جمہوریت کے لئے بنیاد ہے. اور قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت میں صرف افراتفری ہے. جبکہ یہ سچ ہے کہ محب وطن کہیں اور سے زیادہ. اپنی ہی ملک میں ناانصافی سے نفرت کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ایسے جرائم پیشہ گروپ جنہوں نے جمہوری لبادہ پہنا ہوا ہے یا فوجی گروپ جو عدم اتفاق کی وجہ سے اقتدار چھین لینے کے عادی ہوں ان سب کو قانون کی حکمرانی کا احترام سیکھنے کی ضرورت ہے۔
 پاک فوج کی جانب سے ڈان اخبار کی خبر کے معاملے پر حکومت کے جاری کردہ اعلامیے پر سامنے آنے والے ردعمل کے بعد گزشتہ اتوار کو جاتی عمرہ میں پاکستان مسلم لیگ نکی اعلی قیادت نے گذشتہ روز ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں رائے ونڈ میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ہونے والے اس مشاورتی اجلاس میں شرکت کے لیے وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار اور وزیر داخلہ چوہدری نثار نے لاہور کا رخ کیا۔2 گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف، ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد بھی شریک تھے۔اجلاس کے بعد نہ ہی کوئی سرکاری بیان سامنے آیا اور نہ ہی شرکا نے وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر منتظر صحافیوں اور میڈیا نمائندگان سے گفتگو کی۔تاہم ذرائع اور میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آرکی ٹوئیٹ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
خیال رہے کہ ہفتہ ((29 اپریل کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ڈان کی خبر کے حوالے سے جاری ہونے والا اعلامیہ نامکمل اور انکوائری بورڈ کی سفارشات سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہیں۔جس کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ 'اداروں کو ایک دوسرے کو ٹوئٹر پر مخاطب نہیں کرنا چاہیئے'۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اسحق ڈار اور چوہدری نثار کو فوج سے رابطہ کرنے اور انکوائری کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں لیے گئے ایکشن پر ان کے تحفظات کو دور کرنے کا ٹاسک سونپا ہے جبکہ وزیراعلی شہباز شریف بھی اس کام میں ان دونوں وزرا کی مدد کریں گے۔
ذرائع کے مطابق، اس معاملے پر سول اور عسکری قیادت کے درمیان آئندہ 24 گھنٹوں میں ملاقات بھی متوقع ہے۔خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ چوہدری نثار اور وزیراعلی پنجاب فوجی حلقوں میں اچھا میل جول رکھتے ہیں اور متعدد مواقع پر سول-عسکری قیادت کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کے لیے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔تاہم وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں ایسی تمام خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی ٹاسک کسی کو نہیں دیا گیا۔ان کا اپنے پیغام میں کہنا تھا کہ مشاورتی اجلاس کے بعد نواز شریف سے منسوب کیے جانے والے تمام بیانات غلط ہیں اور وزیراعظم نے کسی کو بھی کوئی کام نہیں سونپا۔دوسری جانب ذرائع یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ اجلاس کے کچھ شرکا اس بات پر رضامندی کا اظہار کرچکے ہیں کہ منگل دومئی کو تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے نیا نوٹیفکیشن جاری کردیا جائے۔اس اجلاس کے حوالے سے کئی ٹیلی ویژن چینلز کا کہنا تھا کہ اجلاس میں گذشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے وزیراعظم پر 10 ارب روپے کی رشوت کے الزام پر قانونی چارہ جوئی کے پہلوں پر بھی غور کیا گیا۔
وزیراعظم کے نام سے سامنے آنے والے ان بیانات کے مطابق انہوں نے یہ کہا کہ وہ ہمیشہ سیاست میں محاذ آرائی سے گریز کرتے رہے ہیں اور ایسا ہی کریں گے جبکہ ان کی حکومت نے ہمیشہ قومی مفاد اور جمہوریت کو ہر چیز پر ترجیح دی ہے۔گذشتہ روز ہونے والے اس اجلاس کے فورا بعد اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے بھی نواز شریف سے رابطہ کیا اور موجودہ سیاسی بحران میں پارلیمنٹ کے کردار پر تبادلہ خیال کیا۔ تاہم پاکستان مسلم لیگ ن کے بعض اراکین پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ کہ حکومت کو ڈان کی خبر کے معاملے کو حل کرنے کے لیے ایک ٹھوس موقف قائم کرنا ہوگا۔تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ لیگی حلقوں کی توجہ کا مرکز یہ معاملہ نہیں بلکہ آنے والے انتخابات ہیں۔ایک اور عہدیدار کے مطابق پارٹی، آئی ایس پی آر کی ٹوئیٹ سامنے آنے کے بعد سول سوسائٹی کا ردعمل دیکھنے میں مصروف ہے تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ اس حوالے سے عوام کی کیا رائے ہے۔
 جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی حکومت سے مسلسل مطالبہ کررہی ہے کہ انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کو عوام کے سامنے لایا جائے اور اس حوالے سے 'شکوک و شبہات' کو دور کرنے کے لیے پارلیمانی اجلاس طلب کیا جائے۔سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی اور پرنسپل انفارمیشن آفیسر را تحسین کی 'نامناسب انداز میں برطرفی' اور آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (اے پی این ایس کو دی جانے والی تجویز نے اس بات کو 'انتہائی ضروری' بنادیا ہے کہ رپورٹ کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایس پی آر کی ٹوئیٹ نے معاملے کو مزید گمبھیر کردیا ہے۔
فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 'وزیر داخلہ چوہدری نثار کا یہ بیان کہ ان کی وزارت سے کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جبکہ وزیراعظم کا دفتر اس حوالے سے احکامات جاری کرچکا تھا، نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے'۔واضح رہے کہ پی پی پی کا یہ بیان اس سے قومی اسمبلی کی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی جانب سے سامنے آنے والے ابتدائی بیان سے متضاد ہے جنہوں نے فوج کے ردعمل کی حمایت کرتے ہوئے انکوائری رپورٹ کو مسترد کردیا تھا۔اس حوالے سے پارٹی ذرائع نے بتایا کہ قیادت خورشید شاہ کو پیغام دے چکی ہے کہ وہ سول عسکری تعلقات کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے احتیاط کریں۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کے معاملے میں مبینہ طور پر کردار ادا کرنے پر وزیراعظم نواز شریف کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ طارق فاطمی کو عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔دوسری جانب پرنسپل انفارمیشن آفیسر را وتحسین علی خان کے خلاف بھی ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن (ای اینڈ ڈی) رولز 1973 کے تحت کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔ پرنسپل انفارمیشن آفیسر را وتحسین علی خان  اپنی پیشہ وارانہ کارکردگی اورقابلیت کے حوالے سے دوسروں سے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔
وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کے دستخط سے جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے ڈان اخبار کی خبر کے معاملے پر بنائی گئی انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی منظوری دے دی جبکہ ان ہی کی روشنی میں یہ اقدامات اٹھائے گئے۔علاوہ ازیں یہ معاملہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کو ارسال کردیا گیا۔اعلامیے میں اے پی این ایس کو ایک ضابطہ اخلاق مرتب کرنے کو کہا گیا ہے، جو خاص طور پر پرنٹ میڈیا کے لیے ملکی سلامتی کے معاملات پر رپورٹنگ کے حوالے سے قواعد و ضوابط کا تعین کرے گا اور ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ قومی اہمیت اور سیکیورٹی سے متعلق معاملات پر خبریں صحافت کے بنیادی اور ادارتی اصولوں کے خلاف شائع نہ ہوں۔مزید کہا گیا کہ اس سلسلے میں متعلقہ وزارتیں اور ڈویژنز مزید کارروائی کرسکتی ہیں۔اعلامیے میں استعمال کی گئی زبان سے ظاہر ہوتا ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کی یہ سفارشات، انکوائری رپورٹ کے پیراگراف 18 میں کی گئی ہیں، جسے اب تک عوام کے سامنے نہیں لایا گیا ہے۔
دوسری جانب پاک فوج نے ڈان کی خبر کے معاملے پر حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے کو نامکمل قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں کہا کہ ڈان کی خبر کے حوالے سے جاری ہونے والا اعلامیہ نامکمل اور انکوائری بورڈ کی سفارشات سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے نوٹیفکیشن کو مسترد کرتے ہیں۔واضح رہے کہ 6 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کی تحقیقات کے لیے حکومت نے نومبر 2016 میں جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا خان کی سربراہی میں 7 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔مذکورہ خبر سول ملٹری تعلقات میں تنا وکا سبب بنی تھی، جس کے بعد وزیر اعظم ہاوس کی جانب سے 3 دفعہ اس کی تردید بھی جاری کی گئی تھی۔اس سے قبل اہم خبر کے حوالے سے کوتاہی برتنے پر وزیراعظم نوازشریف نے اکتوبر 2016 میں ہی پرویز رشید سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا قلم دان واپس لے لیا تھا۔سرکاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اخبار میں چھپنے والی خبر قومی سلامتی کے منافی تھی اور تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پرویز رشید نے کوتاہی برتی، یہی وجہ ہے کہ انہیں آزادانہ تحقیقات کے لیے وزارت چھوڑنے کی ہدایت کی گئی۔دوسری جانب خبر رپورٹ کرنے والے صحافی سرل المیڈا کا نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا، جسے بعدازاں خارج کردیا گیا۔اپنے اداریے میں ڈان نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ خبر تصدیق شدہ تھی جس میں موجود حقائق کو مختلف ذرائع سے جانچا گیا تھا۔واضح رہے کہ ڈان اخبار کی خبر کے معاملے پر انکوائری کمیٹی کی سفارشات رواں ہفتے ہی وزیراعظم نواز شریف کو ارسال کی گئی تھیں۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ جس چیز کو سول ملٹری تعلقات میں تنا کے ایک دور کا خاتمہ ہونا چاہیے تھا، وہ خاتمے کے بجائے ایک تازہ اور غیر ضروری بحران میں بدل گئی ہے۔سیاست کی دھندلی دنیا میں اداروں کے درمیان تعلقات کے بارے میں حقائق جاننا ویسے تو بہت مشکل ہے، لیکن پھر بھی آگے بڑھنے کا راستہ تقریبا تلاش کر لیا گیا تھا۔ ڈان اخبار میں ایک خبر کی اشاعت کے تقریبا آٹھ ماہ بعد ایک انکوائری کمیٹی، جس میں فوج اور سویلین دونوں ہی کے نمائندے شامل تھے، نے ایک متفقہ رپورٹ اور سفارشات تیار کیں جنہیں وزیرِ اعظم نواز شریف کو پیش کیا گیا۔حکومت نے عوامی سطح پر وعدہ کیا تھا کہ وہ انکوائری کمیٹی کی سفارشات قبول بھی کرے گی اور نافذ بھی کرے گی۔ معلوم ہونے لگا تھا کہ معاملہ اب اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ مگر پریشان کن طور پر حکومت نے کمیٹی کی سفارشات کے اعلان کو غلط طریقے سے ہینڈل کیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے ۔اگرچہ بعض حلقوں کو بہت تکلیف ہوئی ہے کہ فوج نے اس معاملے پر حکومت کو عوامی سطح پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔تاہم  انہیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا وہ فرمان بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بانی پاکستان نے افسر شاہی سے خطاب میں کہا تھا کہ حکمرانوں کے غلط حکامات ماننے سے انکار کردیں۔وزیرِ اعظم نواز شریف اور نئے آرمی چیف جنرل باجوہ پانچ ماہ قبل قیادت سنبھالنے سے اب تک اس قومی سطح کے مسئلے میں مرکزی کردار کے طور پر تھے۔
 دونوں فریقوں کو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے یہ یقینی بنانا چاہیے کہ یہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔حکومت کی جانب سے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ اور سفارشات کو عوام میں لانے سے اس پر چھائے شکوک اور بدگمانی کے بادل ہٹ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ ایک دوسرے سے متصادم پیغامات مزید عدم استحکام یا اس سے بھی خطرناک صورتحال کا سبب بن سکتے ہیں۔یہاں تک کہ جب بحران پیدا ہوا تو وزیرِ داخلہ نثار علی خان کی پریس کانفرنس نے صرف شش و پنج میں اضافہ کیا۔ ایک موقع پر تو یہ بھی محسوس ہوا کہ شاید وزیرِ داخلہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ان کی وزارت انتظامی طور پر وزیرِ اعظم کے دفتر سے بالاتر ہے۔ تکنیکی باتیں جو کچھ بھی ہوں، لیکن اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ معاملے کو سلجھایا جائے، نہ کہ مزید الجھن پیدا کی جائے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے انکوائری کمیٹی کی سفارشات ہینڈل کرنے میں جو بھی خامیاں رہی  ہیں وہ سب پر عیاں ہیں۔اے پی ایس