صدر ٹرمپ کا خلیجی ممالک پرامریکی طاقت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ۔ چودھری احسن پریمی


امریکہ کے لیے صدر ٹرمپ کے سعودی عرب کے دورے کی اہمیت باہمی تعاون سے زیادہ دفاعی اور اقتصادی ہے۔ واشنگٹن سعودی عرب کے ساتھ تقریبا ایک کھرب ڈالر کے اسلحے کے معاہدے کرنا چاہتا ہے جو مستقبل میں تین کھرب تک پہنچ سکتے ہیں۔ دفاعی معاہدوں کے علاوہ بجلی، تیل اور گیس اور صنعتی اور کیمیائی شعبوں میں بھی معاہدوں کی توقع کی جا رہی ہے۔امریکہ میں مختلف تنازعات میں پھنسے ہوئے امریکی صدر کے لیے یہ دورہ یقینا سکھ کا سانس ہو گا لیکن اس کی زیادہ اہمیت سعودی عرب کے لیے ہے جو خطے میں اپنے حریفوں کو بتانا چاہتا ہے کہ امریکہ اس کے ساتھ کھڑا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ بطور امریکی صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے پہلے مرحلے میں ہفتہ کو سعودی عرب پہنچے ہیں۔اس دورے کے دوران امریکہ کی خاتون اول میلانیا ٹرمپ بھی صدر کے ہمراہ ہیں۔سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ریاض کے ہوائی اڈے پر صدر ٹرمپ کا استقبال کیا۔ دونوں راہنماں نے مصافحہ کیا اور ٹرمپ نے اس موقع پر کہا کہ یہاں آناان کے لیے ایک بڑے اعزاز کی بات ہے۔صدر ٹرمپ کا طیارہ جیسے ہی ریاض پہنچا اس وقت فضا میں کئی طیاروں نے پرواز کی اور فضا میں سرخ، سیفید اور نیلے رنگ چھوڑے گئے۔صدر ٹرمپ نے سعودی عرب آمد کے فوری بعد بادشاہ سلمان سے ایک مختصر ملاقات کی اور انہوں نے ایک ترجمان کے ذریعے ائیرپورٹ کے ٹرمینل کیاندر آپس میں گفتگو کی۔اس کے بعد صدر ٹرمپ کی گاڑیوں کا قافلہ ان کے ہوٹل کی طرف روانہ ہو گیا جہاں کچھ دیر آرام کے بعد وہ اپنے دوررے کے دوران طے شدہ پروگرام کے تحت باقاعدہ ملاقاتوں کا آغاز کیا۔
سعوی عرب آمد پر صدر ٹرمپ کا شاندار استقبال کیا گیا اور ریاض شہر کی سڑکوں پر مختلف مقامات پر صدر ٹرمپ کی تصاویر کے کئی بل بورڈ آویزاں کیے گئے۔خاتون اول میلانیا ٹرمپ سیاہ لباس میں ملبوس تھیں لیکن انہوں نے اپنا سر نہیں ڈھانپا ہوا تھاجو کہ عمومی طور پر سعودی عرب کا دورہ کرنے والے غیر ملکی شخصیات کے لیے روایتی طور پر ضروری ہوتا ہے۔صدر ٹرمپ کے دورے کا مقصد خطے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مضبوط شراکت داری اور رابطوں کو قائم کرنا ہے۔صدر ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے بطور صدر اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے پہلے مرحلے کے لیے سعودی عرب یا کسی مسلمان اکثریت والے ملک کا انتخاب کیا ہے۔
صدر ٹرمپ سعودی عرب کے بعد اسرائیل اور ویٹیکن بھی جائیں گے اس کے علاوہ برسلز میں نیٹو اجلاس میں شرکت اور سسلی میں گروپ آف سیون ملکوں کے اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب کاہے جہاں انہوں نے بنیادی پرستی کے خلاف مربوط مہم چلانے کے معاملے پر بات چیت کی ہے۔اپنے بیرونی دورے کے دوران وہ مشرقی وسطی امن عمل کو شروع کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے دورے کے دوران مقدس مقامات میں بھی جائیں گے۔جب کہ وییٹی کن کے دورے کے دوران صدر ٹرمپ پوپ فرانسس سے بھی ملاقات کریں گے۔ٹرمپ نے وائٹ ہاوس کے روز گارڈن میں منعقد ہونے والی قومی دعائیہ تقریب میں کہا تھاکہ ان کے بطور صدر غیر ملکی دوروں کا آغاز سعودی عرب سے ہو گا جہاں مسلم دنیا کے راہنماوں کا اجتماع ہوگا۔
 امریکی صدر نے کہا تھا کہ سعودی عرب کا انتخاب انہوں نے اس لیے کیا ہے کیونکہ یہاں اسلام کے دو مقدس مقامات واقع ہیں اور یہاں سے ہم انتہا پسندی، دہشت گردی اور تشدد سے نمٹنے کے لیے اپنے مسلمان ممالک اتحادیوں سے تعاون اور مدد کی نئی بنیاد رکھیں گے اور نوجوان مسلمانوں کے پرامید مستقبل کے لیے مل کر کام کریں گے۔ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اعلی اہل کار نے بتایا کہ مشرق وسطی کے دورے میں، صدر کو خطے کی پیچیدہ سیاسی صورت حال سے سیاست سے براہِ راست واسطہ پڑے گا۔دورے سے اِس بات کا پتا چلتا ہے کہ وہ خطے میں امریکہ کے چوٹی کے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو تقویت دینے کے خواہاں ہیں۔جبکہ ٹرمپ کے پیش رو، صدر براک اوباما کے اسرائیل اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے تھے۔اِن دونوں ملکوں کے سربراہان خیال کرتے تھے کہ اوباما کو روایتی اتحادوں سے کوئی لینا دینا نہیں، بلکہ وہ ایران کے جوہری پروگرام پر سمجھوتا طے کرنے کے لیے مذاکرات میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔
مشرق وسطی میں امن کا حصول اور داعش سے لڑائی ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کی توجہ کا مرکز لگتا ہے۔گزشتہ ماہ ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے شکایت کی تھی کہ سعودی عرب کا امریکہ کے ساتھ رویہ مناسب نہیں ہے، جب کہ امریکہ سعودی عرب کے دفاع پر بے تحاشہ رقوم ضائع کر رہا ہے۔سعودی عرب کے طاقتور نائب ولی عہد محمد بن سلمان نے مارچ میں واشنگٹن میں ٹرمپ سے ملاقات کی تھی، جس دورے کا ایک اعلی سعودی مشیر نے خیر مقدم کرتے ہوئے، امریکہ سعودی تعلقات کے لیے تاریخی نوعیت کا ایک اہم موڑ قرار دیا تھا۔ جبکہ ٹرمپ نے فروری میں وائٹ ہاس میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو سے ملاقات کی۔ صدر نے اپنے داماد جیرد کوشنر کو اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن سمجھوتا طے کرنے کی کوششوں کی نگرانی کا کام سونپا ہے۔امریکہ سعودی عرب کی فوجی ضروریات پوری کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو اسے ایف 15 لڑاکا طیاروں سے لے کر کنٹرول اینڈ کمانڈ تک کے نظام فراہم کررہا ہے جن کی مالیت اربوں ڈالروں میں ہے۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ سعودی عرب امریکہ کے ساتھ منصفانہ برتا نہیں کر رہا جس کی وجہ سے واشنگٹن کو ان کی سلطنت کے تحفظ کے لیے بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے یہ تصدیق کی کہ ان کی انتظامیہ مئی کے دوسرے ہفتے میں سعودی عرب اور اسرائیل کے دورے کے امکانات پر بات چیت کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ سچی بات یہ ہے کہ سعودی عرب ہمارے ساتھ منصفانہ برتا نہیں کررہا کیونکہ ہم سعودی عرب کی حفاظت کے لیے بھاری رقوم صرف کر رہے ہیں۔پچھلے سال اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی وہ سعودی عرب پر یہ نکتہ چینی کرتے رہے ہیں کہ ان کی حفاظت پر امریکہ کو اپنے پاس سے بھاری رقوم خرچ کرنی پڑ رہی ہیں۔
امریکہ سعودی عرب کی فوجی ضروریات پوری کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو اسے ایف 15 لڑاکا طیاروں سے لے کر کنٹرول اینڈ کمانڈ تک کے نظام فراہم کررہا ہے جن کی مالیت اربوں ڈالروں میں ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ امریکی ٹھیکداروں کو وہاں توانائی کے شعبے میں بڑے بڑے ٹھیکے ملتے ہیں۔دنیا میں تیل برآمد کرنے والے ایک بڑے ملک اور اسے استعمال کرنے والے کے طور پر دونوں ملکوں کے درمیان عشروں سے مضبوط اقتصادی تعلقات قائم ہیں۔ 1970 کے عشرے کے بعد سے جب تیل کی پیداوار میں نمایاں اضافہ ہوا، جدید سعودی عرب کی تعمیر میں امریکی کمپنیوں نے بھرپور حصہ لیا۔
لیکن سعودی وزیر خارجہ عادل بن الجبیر نے صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران اس سے ملتے جلتے تبصروں کو مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے پچھلے سال جولائی میں امریکہ کے اپنے دورے کے موقع پر سی این این نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کے ایک اتحادی کے طورپر سعودی سلطنت کا ایک اپنا مقام ہے۔صدر ٹرمپ کی ریاض آمد سے چند گھنٹے قبل ہی سعودی عرب نے کہا کہ سعودی ایئر ڈیفنس نے یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے فائر کیے گئے راکٹ کو دارالحکومت ریاض کے جنوب میں مار گرایا۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس حملے کے بعد سعودی فضائیہ نے یمن کے دارالحکومت صنعا کے قریب حوثیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی روانگی سے قبل سعودی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکہ اور مغرب، اسلامی دنیا کے دشمن نہیں ہیں۔خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بننے کے بعد پہلا غیر ملکی دورہ کر رہے ہیں جس میں وہ سعودی عرب کے علاوہ اسرائیل اور ویٹیکن بھی جائیں گے یعنی تینوں ابراہیمی مذاہب اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے مراکزہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سعودی عرب روانگی سے قبل وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیر کا کہنا تھا کہ 'یہ اسلامی دنیا کے لیے بہت بھرپور پیغام ہے کہ امریکہ اور مغرب آپ کے دشمن نہیں ہیں۔ یہ مغرب کے لیے بھی بھرپور پیغام ہے کہ اسلام آپ کا دشمن نہیں ہے۔لیکن جس بات کا ذکر زیادہ ہو رہا ہے وہ ان کا پہلا پڑا و سعودی عرب ہے، جہاں وہ تین مختلف اجلاسوں میں سعودی اور اسلامی دنیا کے رہنماں سے ملاقات کریں گے۔صدر ٹرمپ کو حال ہی میں چھ مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے امریکہ آنے پر سفری پابندیاں لگانے کی کوششوں کی وجہ سے اسلام مخالف کہا جا رہا تھا، وہ اپنا اولین دورہ کسی مسلم ملک کا کر رہے ہیں۔سعودی وزیرِ خارجہ عادل بن احمد الجبیر کہتے ہیں: 'اس دورے سے اسلامی دنیا اور مغرب کے درمیان عموما اور امریکہ کے درمیان خصوصا مکالمہ بدل جائے گا۔ یہ شدت پسندوں کو تنہا کر دے گا، چاہے وہ ایران ہو، دولتِ اسلامیہ ہو یا القاعدہ ہو، جو کہتے ہیں کہ مغرب ہمارا دشمن ہے۔
عرب اسلامک امیریکن اجلاس میں پاکستان کے وزیرِ اعظم نواز شریف بھی ہوں گے جن کی فوج کے سابق سپہ سالار اب سعودی سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی فوج کے سپہ سالار بھی ہیں۔اس اجلاس کے سائڈ لائن پر وزیر اعظم نواز شریف کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے حوالے سے کافی چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔ تاہم پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے ہفتہ کو ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عرب اسلامک امیریکن اجلاس کا ایجنڈا کافی مصروف ہونے کے باعث سائیڈ لائن پر ملاقاتیں ہونا مشکل ہے۔دوسری جانب سوڈان کے صدر عمر البشیر نے اجلاس میں شرکت سے معذرت کر لی ہے۔ سعودی عرب نے سوڈان کے صدر کو اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو کیا تھا جس پر امریکہ نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ واضح رہے کہ صدر عمر البشیر انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کو جنگی جرائم کے الزام میں مطلوب ہیں۔
جس شخص کو حال ہی میں چھ مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے امریکہ آنے پر سفری پابندیاں لگانے کی کوششوں کی وجہ سے اسلام مخالف کہا جا رہا تھا، وہ اپنا اولین دورہ کسی مسلم ملک کا کر رہے ہیں۔
سعودی حکومت بھی ماضی کی باتوں کو بھول جانا چاہتی ہے۔ حال ہی میں سعودی اور امریکی اہلکاروں کے درمیان رابطوں کے بعد ماحول بدل گیا ہے۔ سعودی عرب امریکہ کو اپنا بڑا اور قابلِ اعتماد اتحادی سمجھتا ہے اور صدر ٹرمپ کے دورے کو ایک تاریخی دورے سے تعبیر کر رہا ہے۔
اس دورے کی راہ ہموار کرنے کے لیے جب اپریل میں امریکی وزیرِ دفاع جم میٹس سعودی عرب گئے تھے تو انھوں نے بھی اپنے ہم منصب سعودی نائب ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کے دوران ایران کے خلاف سعودی عرب کی حمایت کا عندیہ دیا تھا۔امریکی وزیرِ دفاع جم میٹس نے اس موقعے پر کہا: 'اب جب ہمیں اپنے قائدین کی رضا حاصل ہے اس لیے یہ اہم ہے کہ ہم اب کچھ کریں۔ ہمیں کچھ کرنا چاہیے کیونکہ ہم نے ایران کی شرارت کے خلاف سعودی عرب کو مضبوط بنانا ہے، اور شراکت داروں کی طرح مل کر آپ کی فوج کے ساتھ آپ کو موثر بنانا ہے۔ ہم یہ خطہ چھوڑ نہیں رہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم چاہیں گے کہ سعودی عرب کی فوج، سکیورٹی سروسز اور خفیہ سروسز مضبوط ہوں۔امریکہ کے لیے صدر ٹرمپ کے سعودی عرب کے دورے کی اہمیت باہمی تعاون سے زیادہ دفاعی اور اقتصادی ہے۔
ٹرمپ نے اس دورے سے قبل  نائب ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی اجلاس سے پہلے میڈیا رپورٹوں میں نامعلوم امریکی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا تھا کہ واشنگٹن سعودی عرب کے ساتھ تقریبا ایک کھرب ڈالر کے اسلحے کے معاہدے کرنا چاہتا ہے جو مستقبل میں تین کھرب تک پہنچ سکتے ہیں۔ دفاعی معاہدوں کے علاوہ بجلی، تیل اور گیس اور صنعتی اور کیمیائی شعبوں میں بھی معاہدوں کی توقع کی جا رہی ہے۔امریکہ میں مختلف تنازعات میں پھنسے ہوئے امریکی صدر کے لیے یہ دورہ یقینا سکھ کا سانس ہو گا لیکن اس کی زیادہ اہمیت سعودی عرب کے لیے ہے جو خطے میں اپنے حریفوں کو بتانا چاہتا ہے کہ امریکہ اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس  حوالے سے خلیج فارس سے متعلق امریکی انتظامیہ کی پالیسی میں تبدیلی کو ریکس ٹلرسن نے بس ایک دوپہر ہی میں واضح کردیا۔
 وہ امریکہ اور سعودی عرب کی مشترکہ سی ای او سربراہ کانفرنس میں دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعاون پر زور دے رہے تھے۔ یہ کانفرنس امریکی چیمبر آف کامرس نے منعقد کی اور اس میں سرمایہ کاری اور تجارت بڑھانے کے لیے کونسلر سطح پر مدد فراہم کرنے کے وعدے کیے۔
کچھ ہی گھنٹوں بعد انہوں نے ایران کا شمالی کوریا سے موازنہ کیا اور ایران کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کی "پریشان کن اور اشتعال انگیزی" کی وجہ سے یمن، عراق، شام اور لبنان میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ایران کی جانب سخت پالیسی اور سعودی عرب کی طرف جھکاو اس وقت سے بڑھ رہا تھا جب فروری میں اس وقت امریکی قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلن نے تہران کو تنبیہ کی تھی۔
سعودی عرب میں اس اہم تبدیلی پر جوش و خروش پایا گیا اور تعلقات میں بہتری کا خیر مقدم کیا گیا۔ براک اوبامہ کے دور میں سعودی مخالف شعیہ طاقت کے ساتھ جوہری معاہدے اور یمن میں جاری جنگ میں شمولیت تعلقات میں کشیدگی کی وجہ تھے۔وزیر دفاع اور ایران مخالف جیمز میٹس نے اپنے ریاض کے دورہ پر نئی پالیسی کو مزید تقویت دی اور ایک بار پھر ایسا ہی ہوا۔
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایران کی شرانگیزی کے خلاف سعودی عرب کی مزاحمت کو مضبوط کیا جائے اور اپنے سعودی میزبان کی طرح خطے میں جہاں بھی بدامنی ہے اس کے پیچھے بدخواہ ایران کا ہاتھ دیکھا۔اس سب کا مطلب کیا ہے؟
سب سے پہلے تو ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے معاہدے پر مستقبل میں عملدر آمد غیر یقینی ہوگیا ہے۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ اس معاہدے کو باقاعدہ ترک کرنے کے بجائے امریکی انتظامیہ کے تہران پر دباو اس کی ناکامی کی وجہ بنے۔ دوسری بات امریکہ کی یمن میں خانہ جنگی میں شمولیت ہے جس میں اقوام متحدہ کے مطابق دس ہزار شہری ہلاک جبکہ ایک کروڑ سات لاکھ فاقہ کشی کے شکار ہونے کے قریب ہیں۔اس وقت امریکہ سعودی اور متحدہ عرب امارات پر مبنی اتحاد کی بالواسطہ مدد کر رہا ہے جو حوثی باغیوں سے لڑ رہا ہے جنہیں ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اوبامہ انتطامیہ نے سعودی اتحاد کی بلا امتیاز فضائی بمباری کے نتیجے میں عام شہریوں کی ہلاکت کی وجہ سے سعودی اتحاد کو فراہم کی جانی والی مدد میں کمی کی تھی ۔اب ٹرمپ انتطامیہ صدر اوبامہ کی جانب سے میزائیل کی فروخت پر پابندی اٹھانے کا سوچ رہی ہے۔ ایک امریکی اہلکار نے بتایا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے خیال میں حوثی مذاکرات پر تب ہی راضی ہونگے جب ان پر فوج کی جانب سے دبا ڈالا جائے گا۔ سعودی عرب کا نظریہ بھی یہی ہے۔ در حقیقت ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی اور اماراتی نقطہ نظر کو اپنے پیشرو سے کہیں زیادہ اپنایا ہے جس کے مطابق ایران حوثی باغیوں کی پراکسی جنگ میں پشت پناہی کر رہا ہے اور انہیں ہتھیار فراہم کر رہا ہے تاکہ خلیج کے سنی ممالک پر اِن کا اثر و رسوخ بڑھے۔
پچھلی چھ دہائیوں سے امریکہ نے خطے کی طاقتوں میں جاری رسہ کشی میں کسی کو سبقت حاصل نہیں کرنے دی اور تیل کی دولت سے مالامال خلیج میں اپنی طاقت کو برقرار رکھا ہے۔ایران میں 1979 کے انقلاب کے بعد امریکہ نے تہران کو کنٹرول کرنے کے لیے سنی عرب ممالک کے ساتھ اتحاد قائم رکھا ہے۔صدر اوبامہ نے اس توازن کو اس امید پر تبدیل کرنے کی کوشش کی کہ ایران میں اعتدال پسند قوتوں کو تقویت ملے
 اور وہ خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو بحال کرسکیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے نہ صرف اس پالیسی کو رد کیا ہے بلکہ اس کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کو قابو میں لانے کے بجائے اس سے ٹکر لینے کے اشارے دیے ہیں۔ سعودی عرب کے وزیرِ تیل خالد الفلیح نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سات مسلم ممالک پر لگائے جانے والی سفری پابندی کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق ہے۔ انھوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی اور وہ علاقائی اور عالمی چیلینجز کا مل کر سامنا کریں گے۔خالد الفلیح نے مزید کہا کہ لوگ جن مشکلات کا سامنا پیش کر رہے ہیں وہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائیں گی۔جب خالد الفلیح سے پوچھا گیا کہ اگر صدر ٹرمپ اپنے وعدے کہ مطابق سعودی عرب سے تیل خریدنا بند کر دیں تو کیا ہوگا، تو وزیرِ تیل نے جواب دیا کہ یہ دھمکی حقیقت میں نہیں بدلے گی۔
صدر ٹرمپ کے اقدامات کی تعریفیں کرتے ہوئے خالد الفلیح نے کہا کہ وہ نئی امریکی انتظامیہ کا فوسل فیول کی جانب مثبت نقطہ نظر رکھنے کو سراہتے ہیں اور کہا کہ یہ سابق صدر اوباما کے غیر حقییقی پالیسیوں سے بہتر ہے اور اس کی مدد سے امریکہ اور سعودی عرب کی معاشیات کو مشترکہ فائدہ ملے گا۔واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے حالیہ اقدامات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مشرق وسطی میں وہ سعودی عرب کو اہم اتحادی تصور کرتے ہیں۔اس سے قبل جاری کیے جانے والی سفری پابندی میں سات مسلم ممالک شامل لیکن سعودی عرب، جس کے 15 شہری 11/9 واقع میں ملوث تھے، کا نام نہیں تھا۔
صدر بننے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطی میں جس مسلم سربراہ سے سب سے پہلے فون پر بات کی تھی وہ سعودی بادشاہ سلمان تھے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اتحادی ملک سعودی عرب امریکہ سے اچھے طریقے سے پیش نہیں آرہا اور امریکہ سلطنت کے دفاع کے لیے بھاری رقم کا نقصان برداشت کر رہا ہے۔ایک انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کی تصدیق کی کہ مئی میں سعودی عرب اور اسرائیل کے ممکنہ دوروں کے حوالے سے بات چیت ہو رہی ہے۔انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا 'سچ بات یہ ہے کہ سعودی عرب امریکہ سے اچھے طریقے سے پیش نہیں آرہا کیونکہ ہم سعودی سلطنت کے دفاع کے لیے بھاری رقم کا نقصان برداشت کر رہے ہیں۔'ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب سے قبل اپنی مہم کے دوران بھی اسی طرح کا بیان دیا تھا۔انھوں نے وسکونسن میں صدارتی مہم کے دوران کہا تھا 'کوئی بھی سعودی عرب سے نہیں الجھ سکتا کیونکہ ہم اس کا دفاع کر رہے ہیں، لیکن وہ ہمیں اس کی مناسب قیمت نہیں چکا رہا اور ہمیں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔'ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے حوالے سے تبصرے کے لیے سعودی حکام سے رابطہ نہیں کیا جاسکا۔
تاہم سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے اسی طرح کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'سعودی عرب بطور اتحادی اپنی ضروریات خود پوری کر رہا ہے۔'واضح رہے کہ سعودی عرب کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے والا سب سے اہم ملک امریکہ ہے جس نے گذشتہ چند سالوں کے دوران سعودی عرب کو ایف 15 لڑاکا طیاروں اور کنٹرول اینڈ کمانڈ سسٹم سمیت اربوں ڈالر کا دفاعی ساز و سامان فراہم کیا ہے۔دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کرنے والے ملک سعودی عرب اور اس تیل کے سب سے بڑے خریدار امریکہ کے درمیان اقتصادی تعلقات دہائیوں پر محیط ہیں۔سعودی عرب کے طاقتور نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے گزشتہ ماہ امریکی صدر سے ملاقات کی تھی، جسے سینئر سعودی مشیر نے دونوں ممالک کے تعلقات میں 'تاریخی اہم موڑ' قرار دیا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر اپنے پہلے دورے کے لیے سعودی عرب کا انتخاب کیا ہے جہاں وہ عرب اسلامک امیریکن اجلاس میں شرکت کریں گے۔صدر ٹرمپ کو حال ہی میں چھ مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے امریکہ آنے پر سفری پابندیاں لگانے کی کوششوں کی وجہ سے اسلام مخالف کہا جا رہا تھا، وہ اپنا اولین دورہ کسی مسلم ملک کا کر رہے ہیں۔
امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات سات دہائیوں پر محیط ہیں۔ اس 70 سالہ اتحاد کی سب سے اہم بات تیل کے بدلے سکیورٹی کی فراہمی رہی ہے۔ تاہم اس عرصے میں دونوں ممالک کے روابط میں اتار چڑھا آیا۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ایک مختصر نظر مندرجہ ذیل ہے۔سعودی عرب نے اپنی پہلی تیل مراعات کے حوالے سے معاہدہ 1933 میں امریکی کمپنی سٹینڈرڈ آیل کمپنی کے ساتھ کیا۔ پانچ سال بعد سعودی عرب کے مشرقی علاقے دمام سے تیل کے ذخائر برآمد ہوئے۔ سنہ 1944 میں عریبیئن امیریکن آئل کمپنی (ارامکو) قائم کی گئی جو 1952 تک نیو یارک میں واقع رہی۔ سعودی حکومت نے 1980 میں اس کمپنی کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں لے لیا۔امریکہ اور سعودی عرب کے سٹریٹجک روابط ماڈرن سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود کے زمانے سے ہیں جب وہ امریکی صدر فینکلن روزوولٹ سے 1945 میں امریکی بحری جنگی جہاز یو ایس ایس کوئنسی پر ملے۔ سوئز کنال میں ہونے والی اس ملاقات میں دو اہم امور پر بات ہوئی۔ ایک فلسطین میں یہودی ملک کا قیام اور دوسرا سعودی امریکی معاہدہ جس کے تحت امریکہ سعودی عرب کو سکیورٹی فراہم کرے گا اور بدلے میں سعودی تیل تک امریکہ کو رسائی دی جائے گی۔1973 کی اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان جنگ میں اوپیک نے ان ملکوں کو تیل فراہم کرنے پر پابندی عائد کر دی جنھوں نے اسرائیل کی حمایت کی۔ ان ممالک میں امریکہ بھی شامل تھا۔ اس پابندی نے امریکہ اور عالمی معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔1979 میں سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا جس کا مقابلہ کرنے کے لیے مجاہدین کی فوج تیار کی گئی۔ اس فوج کی تیاری میں امریکہ کا ساتھ دیا سعودی عرب اور پاکستان نے۔ اس فوج میں ہزاروں سنی جنگجو شریک ہوئے بشمول اسامہ بن لادن جو بعد میں القاعدہ کے سربراہ بھی بنے۔1991 میں عراق کے صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا تو کویت سے عراقی فوج کو نکالنے کے لیے امریکہ نے سعودی عرب فوج بھیجی۔ چند سخت موقف رکھنے والی سعودی مذہبی شخصیات نے سعودی عرب میں امریکی فوج کی تعیناتی کی مذمت کی۔ امریکی فوج کا سعودی عرب سے انخلا 2003 میں ہوا جب عراقی صدر صدام حسین کا تختہ الٹ دیا گیا۔ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان انسادا دہشت گردی کے حوالے سے روابط مزید مضبوط ہوئے اور سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق سعودی عرب امریکہ سے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک بن گیا۔امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات 11 ستمبر 2001 میں امریکہ پر حملے کے بعد خراب ہوئے جن میں تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ جن 19 ہائی جیکروں نے جہاز ہائی جیک کیے تھے ان میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔2003 میں سعودی عرب نے امریکہ کی جانب سے عراقی صدر صدام حسین کو ہٹانے کے فیصلے کی مخالفت کی۔ اسی لیے سعودی عرب امریکی اتحاد کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ سعودی عرب کا کہنا تھا کہ صدام حسین کو ہٹائے جانے سے عراق فرقوں میں تقسیم ہو جائے گا۔2015 میں امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے پر سعودی عرب کو ایساں ہوا کہ اس کو دھتکارا گیا ہے۔ سعودی عرب نے دیگر تیل سے مالا مال سنی عرب ملکوں کے ساتھ مل کر جارحانہ خارجہ پالیسی اپنائی۔ اس پالیسی کے نتیجے میں اس نے بحرین میں جمہوریت کے حق میں ہونے والے مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیجی، مصر میں عبدالفتح السیسی کی جانب سے حکومت الٹنے کی حمایت کی، اور یمن میں جاری خانہ جنگی میں اپنی فوج کو اتارا۔امریکی صدر براک اوباما نے اپنے ایک بیان میں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو 'پیچیدہ' قرار دیا۔ستمبر 2016 میں امریکی کانگریس نے ایک بل منظور کیا جس کے تحت ستمبر 11 کے حملوں میں ملوث ہونے پر سعودی عرب پر امریکی شہری مقدمہ دائر کر سکتے ہیں۔ اس بل کو رکوانے کے لیے وائٹ ہاس اور سعودی عرب نے بے حد کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ سعودی عرب نے یہاں تک کہا کہ اگر یہ بل منظور کیا گیا تو سعودی عرب امریکہ میں اپنی سرمایہ کاری ختم کر دے گا۔صدر ٹرمپ نے صدارت سنبھالنے کے بعد سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ ان کے نزدیک ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ایک بہت بڑی غلطی تھی۔اے پی ایس