بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ۔ چودھری احسن پریمی


اپوزیشن جماعتوں نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے پیش کیے گئے آئندہ مالی سال کے بجٹ کو اعداد و شمار کا گورکھ دھندا قرار دے دیا۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ بجٹ میں غریب کے لیے کچھ نہیں ہے، 15 ہزار کی رقم سے تو اب بکری نہیں پلتی اور یہ انسانوں کے ساتھ یہ سلوک کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار تو آئی ایم ایف میں بھی کاغذات تبدیل کرتے ہوئے پائے گئے اور وہ اعداد و شمار کی اس ہیر پھیر کے برصغیر کے نامور فراڈ ہیں۔ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے سیلز ٹیکس کو 9 فیصد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس بجٹ کے بعد عوام مرنے مارنے پر نہ اتر آئیں۔پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی کے رہنما رحمان ملک نے حکومت سے بجٹ پر نظرثانی کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس ابھی بھی وقت ہے کہ وہ صرف غریب کا سوچے، حکومت نے ہر شعبے پر ٹیکس لگا دیا، ہر کام جو غریب کرتا ہے اس پر ٹیکس کیوں لگایا گیا۔جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف کے امیر مولانا فضل الرحمان نے بجٹ کو متوازن قرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال کے بجٹ کا جو جائزہ پیش کیا گیا اس میں کافی پیشرفت ہوئی ہے، جبکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے بھی ملکی معیشت کو سراہا ہے۔مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری نے بجٹ کو آئیڈیل بتاتے ہوئے دعوی کیا کہ ن لیگ نے وہ تمام اہداف حاصل کیے جو پچھلی حکومتیں حاصل نہ کرسکیں۔واضح رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 18-2017 کا 47 کھرب 50 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کردیا۔بجٹ تقریر کے دوران ان کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال جی ڈی پی میں اضافے کی شرح 5.3 فیصد رہی جو پچھلے 10 سال میں ترقی کی بلند ترین شرح ہے۔انہوں نے کہا کہ آج پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور پاکستان 2030 تک دنیا کی 20 بڑی اقتصادی طاقتوں میں شامل ہوجائے گا۔
وزیر خزانہ اسحق ڈار نے پارلیمان میں پانچواں اور ممکنہ طور پر آخری بجٹ پیش کیا جس میں گذشتہ چار بجٹ کی طرح اس بار بھی زیادہ توجہ مواصلات کے نظام اور توانائی کے شعبے پر مرکوز دکھائی دیتی ہے۔اسحق ڈار کے پیش کردہ پانچواں بجٹ میں بھی ماضی کے چار بجٹ کی طرح کسانوں کے لیے مراعاتی پیکج اور غریب لوگوں کی مالی مدد کے لیے رقوم مختص کی گئی ہیں۔پاکستان کے ٹیکس نظام میں بہتری یا مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے اس بار بھی بجٹ میں کوئی نمایاں اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔حکومت نے 1001 ارب روپے ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کیے ہیں جن کا ایک بڑا حصہ یعنی 401 ارب روپے توانائی کے شعبے کے لیے رکھے گئے ہیں جن میں بڑا حصہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لیے خرچ کیا جائے گا۔اس رقم کو خرچ کر کے حکومت کا خیال ہے کہ وہ اگلے سال تک بجلی کی پیداوار میں 10 ہزار میگا واٹ تک کا اضافہ کر سکے گی۔ اس کے علاوہ 320 ارب روپے شاہراہوں اور پلوں کی تعمیر پر خرچ ہوں گے۔ ان میں سی پیک کے تحت بننے والی شاہراہیں بھی شامل ہیں۔
حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن اس کا اثر اس سے کہیں زیادہ ہوگا کیونکہ حکومت نے 2009 اور 2010 میں سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں دیے جانے والے ایڈہاک ریلیف الانس بنیادی تنخواہ میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس اضافہ شدہ تنخواہ کے دس فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی دس فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔اس کے علاوہ فوجی افسروں اور جوانوں کی خدمات کے پیش نظر ان کی تنخواہوں میں مزید دس فیصد کا عبوری الانس شامل کیا گیا ہے۔حکومت نے دفاعی بجٹ میں قریبا 9 فیصد اضافہ کر کے اسے 920 ارب روپے کرنے کی تجویز دی ہے۔ پچھلے سال یہ اضافہ 11 فیصد تک تھا۔ حکومت کئی برس سے ملکی دفاعی بجٹ میں افراط زر کے تناسب سے اضافہ کرتی رہی ہے اور اس بار بھی یہ روایت برقرار رکھی گئی ہے۔زرعی شعبے کی ترقی کے لیے وفاقی حکومت نے تین برس قبل جو کسان پیکج دیا تھا حالیہ بجٹ میں اسی پیکج کو آگے بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ نئے اقدامات میں ساڑھے بارہ ایکڑ زمین کے مالک کسانوں کے لیے 50 ہزار روپے تک کے قرضوں کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ وزیر خزانہ نے کسانوں کو یقین دلایا کہ اس سال کے دوران کھاد کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر میں ٹیکس نظام میں اصلاحات یا نئے لوگوں کو ٹیکس نظام میں لانے کے لیے اقدمات کا ذکر نہیں ہے لیکن انھوں نے موبائل فونز پر ٹیکسوں میں کمی اور سگریٹ میں ٹیکسوں میں اضافے کا اعلان کیا۔اس کے علاوہ انھوں نے بعض اقدامات کا اعلان کیا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت سٹاک مارکیٹ سے مزید آمدن کی توقع کر رہی ہے۔ جو لوگ ٹیکس گوشوارے جمیع نہیں کرواتے ان کے لیے بلواسطہ ٹیکسوں کی شرح میں بھی اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ ان کی جگہ شاہ محمود قریشی اپنی جماعت کی قیادت کر رہے تھے لیکن ان کی قیادت میں ایوان کے اندر پی ٹی آئی زیادہ متحرک دکھائی نہیں دیتی تھی۔ڈاکٹر شریں مزاری گو نواز گو کے نعرے لگاتی رہیں لیکن ان کی جماعت سمیت حزب مخالف کی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کوئی بھی رکن اس نعرے میں ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کے تین ارکان نے شاہ محمود قریشی کی بات کو نظر انداذ کرتے ہوئے اسمبلی کی کارروائی کا بایئکاٹ نہیں کیا۔بائیکاٹ کے معاملے پر حزب مخالف کی جماعتیں منقسم نظر آئیں سب سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ نے ایوان سے واک آوٹ کیا اس کے کچھ دیر کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی ۔ حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت کو باہر جاتا ہوئے دیکھ کر پاکستان تحریک انصاف کے ارکان بھی ایوان سے چلے گئے۔بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بائیکاٹ کے بعد ارکان کی لابی میں حزب مخالف کی جماعتیں کوئی لائحہ عمل تیار کرنے میں ناکام رہیں اور بائیکاٹ کے ٹھیک دو منٹ کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں ایم کیو ایم ایوان میں واپس آگئی۔
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے وزیر اعظم سے کچھ بات کرنے کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کے پاس گئے اور انھوں نے ایم کیو ایم کے رہنما کے ساتھ کچھ باتیں کی اور پھر دوبارہ اپنی نشست پر آگئے۔
ایم کیو ایم کے احتجاج ختم کرنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی بھی ایوان میں واپس آگئی جبکہ اس کے کچھ دیر کے بعد پی ٹی آئی کے ارکان بھی پارلیمنٹ کی بالادستی کو سامنے رکھنتے ہوئے واپس آگئے۔حزب مخالف کی جماعتوں کے ارکان احتجاج ختم کرنے کے بعد ایسے خاموشی سے آکر اپنی نشستوں پر آگئے جیسے ان کی جماعت کا کوئی رکن وفاقی بجٹ پیش کر رہا ہو۔اسحاق ڈار جب بجٹ پیش کر رہے تھے تو ایوان کی اکثریت نے ان دستاویز کو کھول کر پڑھنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی اور اجلاس ختم ہونے کے بعد دس کلو سے زائد وزنی کتابیں بھی اپنے ساتھ لے گئے۔پاکستان کی حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں وزیر خزانہ کی جانب سے آئندہ مالی سال کے لیے پیش کی جانے والی بجٹ تجویز کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے حکمران جماعت کی ناکام پالیسیوں کا سلسلہ قرار دیا ہے۔حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے ابتدائی ردعمل میں کہا گیا کہ یہ بجٹ عوام دوست نہیں ہے۔
بجٹ تجاویز پیش کرنے سے کچھ گھنٹے قبل ہی جمعہ کی صبح کسانوں نے پارلیمنٹ سے کچھ فاصلے پر احتجاج کیا، جنہیں منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس اور تیز دھار پانی کا استعمال کیا۔جب کہ احتجاج میں شامل بعض افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔کسان مظاہرین کے خلاف پولیس کی طرف سے طاقت کے استعمال پر حزب مخالف کی جماعتوں نے بجٹ اجلاس سے واک آٹ کیا۔اے پی ایس