قوم کی سوچ کا مظہر۔ چودھری احسن پریمی



گزشتہ روز صدر ممنون حسین نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران جمہوری پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی جمہوریت نے بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں ۔ ہماری جمہوریت آزمائش کی گھاٹیوں سے بھی گزری ہے اور قوم کے عزم کی بدولت اس نے بڑے بڑے معرکے بھی سر کیے ہیں جس کے نتیجے میں ہماری پارلیمان کا اپنے حقیقی مقاصد کے حصول کی طرف کامیابی سے سفر جاری ہے۔یہ عہد اس اعتبار سے بہت معنی خیز ہے کہ بے شمار مشکلات کے باوجود پارلیمنٹ نے اپنی فیصلہ کن حیثیت نہ صرف برقرار رکھی بلکہ انتہائی شدید سیاسی اختلافات کے باوجود قومی اتحاد کی سب سے بڑی علامت بن کربھی ابھری ، تاریخ میں اس کا یہ کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سیاسی و مالی ریشہ دوانی کے معاملات  سمیت قومی سلامتی کے بارے میں شکوک و شبہات یا پیچیدہ نوعیت کے دیگر مسائل، ان سب کی بنیاد ماضی کے حالات، غلط فیصلے اور وقتی مقاصد کے لیے اختیار کی گئی پالیسیاں رہی ہیں ۔عمومی رویہ یہ ہے کہ اس طرح کے مسائل کی تمام ترذمہ داری مخالفین پر عائد کر کے انھیں زیر کرنے کی کوشش کی جائے۔ہمارے بیشتر سیاسی مسائل کی بنیادی وجہ یہی رہی ہے۔اس طرح کا طرزِ عمل قوموں کو آگے بڑھنے سے روکتاہے۔اس لیے ضروری ہے کہ قوم کی ترقی و خوشحالی کے عظیم مقاصد کے پیشِ نظر سیاسی عمل کو انفرادی و گروہی مفادات سے آزاد کر دیا جائے اور دلوں میں وسعت پیدا کی جائے، سور حشر میں فرمایاگیا:  جو لوگ دل کی تنگی سے بچا لیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔ 
صدر ممنون حسین کا کہنا تھا کہ مجھے اللہ تعالی کی ذات سے پوری امید ہے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ اختیار کیے گئے اس طرزِ عمل میں برکت پیدا فرمائے گا اور ہم مسائل کی گرفت سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں گے۔تاریخ کے مختلف ادوار میں بعض عناصر نے کوتا ہ نظری سے کام لیتے ہوئے قوم کے مختلف طبقات کے درمیان فرق کیا جس کے نتیجے میں فرد اورریاست کے درمیان رشتہ کمزور ہوا،کوئی فرد یا گروہِ انسانی جب یہ محسوس کرنے لگے کہ اس کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کیا جا رہا تو مایوسی کے عالم میں وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ناپسندیدہ راستے ضرور اختیار کرتا ہے۔اس طرح کی صورت حال میں قیادت ہی ہوتی ہے جو اپنی وسیع النظری اور عملی اقدامات سے عام آدمی کو احساسِ تحفظ فراہم کرتی ہے ۔یہی فکر مندی تھی جس کے پیش نظرگزشتہ کچھ عرصے سے یہ احساس قوی ہو رہا ہے کہ پیچھے رہ جانے والے طبقات کو ترقی کی دوڑ میں شریک کرنے کے لیے فراخدلی سے کچھ اقدامات ضروری ہیں۔میری نظر میں بلوچستان اور فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے اقدامات اسی عمل کا حصہ ہیں۔میں توقع کرتا ہوں کہ معاشرے کا ہر طبقہ اپنے مفادات سے بلند ہو کر اسی جذبے کے ساتھ قومی تعمیرِ نو کے کام میں مصروف رہے گا۔
اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ اجلاس کے موقع پر حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا منصوبہ بنا رکھا تھا، یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی صدر کا خطاب شروع ہوا، اپوزیشن نے 'گو نواز گو' کے نعرے لگائے اور بعدازاں واک آوٹ کیا۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب کے 'مشترکہ بائیکاٹ' کا فیصلہ کیا۔پارلیمنٹ کے باہر دیگر اپوزیشن رہنماں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سید خورشید شاہ نے کہا کہ صدر ممنون حسین کو پارلیمنٹ میں جن معاملات پر بات کرنی چاہیئے تھی ان پر انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔خورشید شاہ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنے مسئلوں کو سڑکوں پر نہیں پارلیمنٹ میں حل کرنا چاہتے تھے جبکہ حکومت چاہتی ہے کہ ہم پارلیمنٹ کے بجائے ان مسئلوں کو سڑکوں پر لے جائیں۔
خورشید شاہ نے کہا کہ پاکستان میں کرپشن، دہشت گردی، نیشنل کمیشن کے مسائل جو پارلیمنٹ اور صدر سے تعلق رکھتے ہیں، موجود ہیں جن پر صدر نے ایک مرتبہ بھی توجہ نہیں دلائی۔فاٹا کے مسئلے (فاٹا اصلاحات) پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے میں خود حکومت نے ایک کمیٹی بنائی اور یہ مسئلہ صدر کی اجازت سے پارلیمنٹ میں آیا جس کے بعد پارلیمنٹ نے اسے ختم کردیا جو فاٹا کے عوام کے ساتھ بہت بڑا مذاق ہے جس پر صدر نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔اس موقع پر امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت بھی نہیں چاہتی تھی کہ اپوزیشن اطمینان سے صدر کا خطاب سنے'۔ان کا کہنا تھا کہ 'صدر نے کرپشن کے خلاف حکومت کو نہ ہی کسی قسم کی نصیحت کی، نہ تنبیہ کی اور نہ ہی اس کا نوٹس لیا۔امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ حکومت نے فاٹا کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی جبکہ فاٹا کے عام صوبائی اسمبلی میں نمائندگی اور خیبر پختونخواہ کے ساتھ انضمام بھی چاہتے ہیں۔اس موقع پر پی پی پی کے رہنما اعتزاز احسن نے نہال ہاشمی کے واقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا اسے جو لائن ملی تھیں اس نے ویسا ہی بیان کیا تاہم جوش خطابق میں کچھ زیادہ ہی بول گئے۔پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ منظور نظر افراد کو جے آئی ٹی میں نامزد کیا گیا اور یہ الزام رجسٹرار پر نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے ججز پر ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نواز شریف کی سازش ہے کہ جے آئی ٹی کو متنازعہ بنایا جائے اور سپریم کورٹ کو دبا میں لیا جائے۔
اعتزاز احسن کہا کہ نواز شریف اور ان کے بچوں کے پاس لندن میں خریدی گئی جائیداد کے کوئی شواہد نہیں ہیں کیونکہ اگر شواہد ہوتے تو سپریم کورٹ کو پہلے ہی فراہم کر دیئے جاتے۔گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران بے سمت پالیسیوں اور تدبر سے محروم طرزِ عمل کی وجہ سے قیمتی وسائل بے دردی سے ضائع کردیے گئے۔مقامِ شکر ہے کہ اب احساسِ زیاں بھی موجود ہے اور کچھ کرنے کا جذبہ بھی۔ ریاست کی کاروبار اور سرمایہ کار دوست پالیسیاں، مختلف براعظموں کو باہم ملا کر ایک نئی دنیا کی تخلیق کا ذریعہ بننے والی پاک چین اقتصادی راہداری اور توانائی کے بحران سے نکلنے کے لیے بجلی کی پیداوار کے منصوبے اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ترقیاتی عمل اور وسائل پر حق کے سلسلے میں قوم کے مختلف طبقات کے درمیان اختلافِ رائے کا پیدا ہو جانا غیر فطری نہیں بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ایسے معاملات میں اختلافِ رائے خیرو برکت کا ذریعہ بنتا ہے اور غلطیوں کی اصلاح کا راستہ ہموار ہو جاتاہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اختلافِ رائے کو انتشار میں بدلنے کا راستہ پوری حکمت کے ساتھ بند کر دیا جائے تاکہ قومی ترقی کے عمل کو متنازع بنانے کی ہر کوشش کو ناکام بنایا جا سکے۔ صدر ممنون حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کا ویژن  میری نظر سے گزرا ہے جس میں معیشت کے استحکام اور عوام کی بہبود کے لیے کئی پر کشش پروگرام شامل کیے گئے ہیں جن میں قومی پیدا وار اور فی کس آمدنی کی شرح میں اضافے کے بعد دنیا کی پچیس بڑی معیشتوں میں شمولیت کا عزم بھی شامل ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ حکومت ، حزبِ اختلاف اور وطنِ عزیز کی تمام سیاسی جماعتیں اتفاق رائے سے اسے ایک متفقہ قومی منصوبے کی حیثیت دے دیں تاکہ حکومت کسی بھی جماعت کی ہو ، عوامی بہبود کے کاموں میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو سکے۔ اس کے ساتھ ہی بڑھتی ہوئی آبادی کی منصوبہ بندی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وسائل کا درست استعمال یقینی بنایا جاسکے۔ 
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک اور بین الاقوامی اقتصادی اداروں کے جائزوں کے مطابق معیشت کے اشاریے صحت مند ہیں، شرح نمو گزشتہ دس سال میں سب سے بلند سطح پررہی ہے۔زرِ مبادلہ کے ذخائر  بلین ڈالر کی بلند ترین سطح کو چھو چکے ہیں اور افرا طِ زر کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے جس کی بنیاد پر معیشت کا غیر جا نبداری سے جائزہ لینے والے عالمی ادارے موڈی (MOODY) نے بتایا ہے کہ ماضی میں ہماری معیشت کے اشاریے منفی تھے لیکن اب استحکام کی طرف گامزن ہیں، ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیا کی بہترین کارکردگی والی معیشتوں میں شامل ہوچکا ہے ۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی کارکردگی میں بھی مسلسل بہتری دیکھی جارہی ہے جبکہ اسٹیٹ بینک اور سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن نے بھی مالیاتی نظم و نسق کے حوالے سے فعال کردار ادا کیا ہے۔یہ جائزے باعثِ اطمینان ہیں لیکن یہ کامیابیاں حقیقی خوشی کا ذریعہ اسی صورت میں بن سکیں گی، اگر یہ خلقِ خدا کی زندگی میں آسودگی کے رنگ بکھیر سکیں ۔گزشتہ برس پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا رجحان رہاہے جس کا فائدہ براہِ راست عوام کو منتقل ہوا ہے اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ترقیاتی اخراجات میں تین گنا اضافہ کر دیا گیا، میر ی نظر میںیہ عوامی مسائل میں کمی کی ہی تدبیر ہے ۔ تاہم صحت اور تعلیم سمیت دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی کے معاملات پر ہمیں مز ید توجہ دینی ہو گی۔ مستقبل پر نظر رکھنے والی قومیں دیرپا ترقی کے لیے انسانی وسائل اور انفراسٹرکچر پر کھلے دل سے سرمایہ کاری کرتی ہیں تاکہ نوجوانوں کو بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں سے عہدہ برا ہونے کے لیے تیار کیا جاسکے۔یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستانی آبادی کی غالب اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے ،ان کی بہتر تربیت کے لیے مختلف اسکالر شپ پروگرام ، اعلی تعلیم کے لیے ٹیکنالوجی ڈیویلپمنٹ فنڈاور تعلیمی اداروں کے معیار کی بحالی خوش آئند ہے۔میں توقع کرتا ہوں کہ نئی نسل کی اچھی تربیت اور ان کے لیے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنے کے لیے مزید پروگرام بھی شروع کیے جائیں گے۔ہماری برآمدات کچھ عرصے سے مشکلات کا شکار ہیں،اس کا سبب عالمی منڈیوں میں قیمتوں میں کمی ہے۔میں چاہتا ہوں کہ وزارتِ تجارت متعلقہ ماہرین کے تعاون سے اس مسئلے کا مثر اور دیرپا حل تلاش کر ے۔برآمدات کے ضمن میں دفاعی پیداوار کے شعبے کی کارکردگی نمایاں طور پر بہتر رہی ہے۔ ہماری دفاعی مصنوعات نہ صرف معیاری بلکہ کم قیمت بھی ہیں جو مارکیٹ کو آسانی کے ساتھ متوجہ کرسکتی ہیں،ہمیں اپنی اس صلاحیت سے مزید فائدہ اٹھانے کے لیے مارکیٹنگ کی جدید تیکنیک اختیار کرنی چاہئے۔ غربت کے خاتمے کے لیے قومی سطح پرسخت محنت کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میںBISP کے زیرِ اہتمام سنجیدگی سے کام ہوا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس کے بجٹ میں بھی تین گنا اضافہ کیا گیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانے کی کوششوں کے ساتھ تربیت کے ذریعے ان کی صلاحیتیوں میں اضافے کے لیے بھی منصوبہ بندی کی جائے۔ گزشتہ برس ہیلتھ انشورنس اسکیم جاری کی گئی ۔ علاج معالجے کی سہولتیں عام کرنے کے ضمن میں یہ ایک مفید منصوبہ ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آبادی میں تیز رفتار اضافے اور محدود وسائل کی وجہ سے ملک میں طبی سہولتوں کی صورت حال قابلِ رشک نہیں۔دوردرازاور پسماندہ مقامات پر دواخانوں اور اسپتالوں کی موجودگی کے باوجود بعض لوگوں کی نااہلی کی وجہ سے طبی سہولتیں آسانی سے میسر نہیں آتیں،اس لیے ضروری ہے کہ طبی نظم و نسق بہتر بنایا جائے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید اسپتال اور ہیلتھ یونٹس قائم کیے جائیں ۔ نئی شاہراہوں کی تعمیر اور آمدورفت کے بہتر ذرائع کے میسر آجانے کی وجہ سے سفری سہولتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شہروں کے اندر ماس ٹرانزٹ سسٹم کی بہتری کے لیے میٹرو،گرین لائن اور ٹرین سروس اہمیت کی حامل ہے ۔مجھے خوشی ہے کہ ان منصوبوں کی توسیع کراچی تک ہو چکی ہے۔
آزاد جموں و کشمیر، فاٹا اور گلگت بلتستا ن کے پسماندہ علاقوں کو ملک کے دیگر حصوں کے برابر لانے کے لیے حکومت نے خطیر رقوم مختص کی ہیں جو خوش آئند ہے تاکہ وطنِ عزیز کے تمام علاقے یکساں طور پر ترقی کرسکیں ۔ زراعت معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ اس شعبے کی ترقی اور کسانوں کی حالت زار میں بہتری کے لیے مسلسل اقدامات کیے جائیں، کھاد سمیت دیگر ضروری اشیا کی کم قیمت پر فراہمی کی کوششیں اطمینان بخش ہیں لیکن اس شعبے کو سب سے بڑا چیلنج موسمیاتی تبدیلیوں سے ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک مشترکہ حکمت عملی کے تحت کام کریں۔یہ مسئلہ چونکہ عالم گیر حیثیت اختیار کر چکا ہے، لہذا اس پر قابو پانے کے لیے دنیا بھر میں کیے جانے والے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی کی جائے۔ہماری معیشت کو ایک بڑا ضعف توانائی کے بحران سے بھی پہنچا ہے جس پر ماضی میں توجہ نہیں دی گئی۔ حال ہی میں بجلی کی پیداوار کے کئی بڑے منصوبے مکمل ہوئے ہیں جبکہ چند اہم منصوبوں پر کام جاری ہے جن کی تکمیل کے بعد بجلی کی پیداوار شروع ہوجانے سے ہمارا یہ مسئلہ مکمل طور پر حل ہو جائے گا، انشا اللہ۔ پیداوار میں اضافہ اورنئے منصوبوں پر پیش رفت ایک بڑی کامیابی ہے لیکن بجلی کی تقسیم کی مینجمنٹ پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کی صور تِ حال آئندہ کبھی پیدا نہ ہو سکے جس کے مظاہر حالیہ موسمِ گرما میں دیکھنے کو ملے ہیں۔ گزشتہ برس میں نے تجویز پیش کی تھی کہ بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لیے گلگت بلتستان کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اس علاقے کو نیشنل گرڈ سے منسلک کر دیا جائے۔مجھے خوشی ہے کہ اس سلسلے میں با معنی پیش رفت ہوئی ہے اور علاقائی گرڈ کی تعمیر کے لیے خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ میری خواہش ہے کہ اس کے پہلو بہ پہلو نیشنل گرڈ کے سلسلے میں بھی ابتدائی کام ابھی سے شروع کر دیا جائے تاکہ جب دیامر بھاشا، داسو اور بونجی ڈیموں کی تکمیل کے بعد بجلی کی پیداوار شروع ہو جائے تو اس کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ 
صدر نے کہا کہ اللہ تعالی نے پاکستان کو بے پناہ قدرتی حسن سے نوازا ہے جن میں قدرتی مناظر ، دنیا کے قدیم ترین تہذیبی آثار اور مذہبی سیاحت کے عظیم الشان مقامات شامل ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ شعبہ توجہ سے محروم رہا ہے ،حالانکہ سیاحت کے اداروں کو متحرک کرکے معیشت کو مضبوط بنایاجاسکتا ہے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ حکومت اس معاملے پر فوری توجہ دے گی کیونکہ امن و امان کی بہترہوتی ہوئی صورتِ حال کے بعد دنیا بھر سے سیاحوں کی بڑے پیمانے پر آمد متوقع ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ وطنِ عزیز کے سیاحتی مقامات پر سہولیات میں مرحلہ وار اضافہ کیا جائے۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اقوامِ عالم اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے دوستی، امن ، غیر جانبداری اورمحروم لوگوں کی اخلاقی مددکے اصولوں پر استوار ہو گی اور دنیا کے کسی بھی ملک کے خلاف ہمارے جارحانہ عزائم نہیں ہوں گے۔پاکستان کے اس عزم کااظہار اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں ہمارے بے مثال عملی کردار سے بھی ہوتا ہے۔ پاکستان روزِ اول سے اسی پالیسی پر گامزن ہے اور عالمی امن واستحکام اور ترقی کے لیے اقوامِ عالم، خاص طور پر ہمسایہ ممالک کو دعوت دیتا ہے کہ وہ معاشی تعاون کے زریں اصول پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں تاکہ علاقائی کشیدگی کا خاتمہ کر کے اقتصادی تعاون کو فروغ دیا جاسکے ۔خارجہ تعلقات کی دنیا میں پاک چین دوستی ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ دونوں ملک زندگی کے مختلف شعبوں میں تعاون میں مسلسل اضافہ کرتے جارہے ہیں۔ اقتصادی راہداری جس کی ایک شاندار مثال ہے ۔یہ منصوبہ نہ صرف پاکستان اور چین، بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ترقی وخوشحالی کا ذریعہ بنے گا۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں اوبور(One Belt, One Road) فورم میں ہماری شرکت بہت مفید ثابت ہوئی ہے جس کے نتائج دور رس ہوں گے۔ 
ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیے جائیں لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس سلسلے میں ہماری پر خلوص پیش کش کا جواب اسی جذبے سے نہیں دیا گیا بلکہ خطے میں جاسوسی اور تخریب کاری جیسی ناپسندیدہ سرگرمیوں کو فروغ دے کر حالات خراب کیے گئے جس کا ثبوت پاک سر زمین پر بھارتی جاسوس کی گرفتاری اور اس کے اعترافی بیان سے ملتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی اختلاف جموں و کشمیر کا مسئلہ ہے جو تقسیم برصغیر کا نا مکمل ایجنڈا ہے۔ ہمارے کشمیر ی بھائی بہن اور بیٹے بیٹیاں اپنے اس پیدائشی حق کے لیے سراپا احتجا ج ہیں جن پر وحشیانہ مظالم جار ی ہیں۔ اپنے اس طرز عمل کی وجہ سے بھار ت خطے کے امن و استحکام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت استصوابِ رائے کا انعقاد ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی حمایت ہمیشہ جاری رکھیں گے۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر مسلسل جارحیت کا مظاہرہ کر رہا ہے جس سے بے گناہ کشمیریوں کے جانی و مالی نقصان کا بڑے پیمانے پر سلسلہ جاری ہے ۔ ہم بھارت کے اس جارحانہ طرزِ عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ افغانستان میں گزشتہ روز دہشت گردی کا جو اندوہناک واقعہ ہوا ہے، اس پر میں اپنی، حکومت پاکستان اور پاکستان کے عوام کی طرف سے افغان حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی اور دہشت گردی کے اس واقعے کی سختی سے مذمت کرتا ہوں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امن کے بغیر خطے میں استحکام پیدا نہیں ہوسکتا، کہ اس مقصد کے لیے پاکستان نے مری مذاکرات کو ممکن بنایااورہارٹ آف ایشیا پراسس میں خوشدلی سے حصہ لیا۔دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے ہم افغان قیادت کو دعوت دیتے ہیں کہ باہمی تعاون سے سرحدی نظم و نسق بہتر بنایا جائے۔ہمیں اندازہ ہے کہ سال ہاسال کی خانہ جنگی اور عدم استحکام کی وجہ سے ہمارے اس برادر ملک نے بے پناہ نقصان اٹھایا ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں پاکستان افغانستان کے ہمیشہ شانہ بشانہ کھڑا رہاہے۔اپنے افغان بھائیوں کے لیے گزشتہ چند برسوں کے دوران خطیر مالی امداد اور تین ہزار افغان طلبہ کو تعلیمی وظائف کی فراہمی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔پاکستان کی طرف سے اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ محبت کا یہ سلسلہ اس توقع کے ساتھ ہمیشہ برقرار رہے گا کہ 
آپ دیکھیں تو سہی ربطِ محبت کیا ہے
اپنا افسانہ ملا کر میرے افسانے سے 
وسط ایشیائی ممالک قریب ترین پڑوسی اور عقیدے و ثقافت کے اعتبار سے ہمارے دل سے قریب ہیں ۔ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے تاپی(TAPI)گیس پائپ لائن اور کاسا(CASA1000) کے منصوبوں سے ہمیں بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان منصوبوں کی بروقت تکمیل اورخطے کے تمام ممالک سے باہمی تعاون میں اضافے کے لیے تندہی سے کام کیا جائے۔ 
پاکستان روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے اور چاہتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان معیشت، ثقافت اور دفاع سمیت دیگرتمام شعبوں میں تعاون بڑھایا جائے۔پاکستان اور ترکی محبت اور احترام کے انتہائی گہرے رشتے میں منسلک ہیں۔ بیشتر عالمی مسائل پر دونوں ملکوں کے خیالات میں یکسانیت ہے جس کی بنا پر ہمارے دوستانہ تعلقات اسٹریٹیجک پارٹنرشپ میں بدل چکے ہیں۔خوشی ہے کہ پاک ترک تعلقات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ گرم جوشی بڑھتی جارہی ہے ۔پاکستان نے اسلامی دنیا کے مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ مخلصانہ کردار کیاہے۔اسی طرح سرزمینِ حرمین شریفین کی حیثیت سے ہر پاکستانی کے دل میں سعودی عرب کا بے پناہ احترام ہے جبکہ اسلامی دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ ہم اخلاص اور محبت کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔گزشتہ سات دہائیوں کے دوران ان تعلقات میں بہت سے نشیب وفرازآئے ہیں۔اس پس منظر میں حال ہی میں نئی امریکی انتظامیہ سے ہمارے تازہ رابطے ہوئے ہیں جو باہمی تعلقات میں وسعت کے ضمن میں معاون ثابت ہوں گے ۔ سیاسی اور اقتصادی تعاون کے نقط نظر سے یورپ کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت اہم ہیں۔یورپی برادری نے کچھ عرصہ قبل پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا جو ہماری برآمدات میں اضافے کا ذریعہ بنا۔اس خطے کے ساتھ تعلقات میں مزید گہرائی پیدا کرنے کے لیے مسلسل کام کرتے رہناچاہئے۔جنوب مشرقی ایشیا،جنوبی امریکا اور افریقی ممالک خطے میں ابھرتی ہوئی معیشت ہیں جن کے ساتھ ہمارے تاریخی روابط رہے ہیں۔ ہم ان ممالک کے ساتھ اپنے رشتوں کی مزیدمضبوطی کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ پارلیمانی سال کے دوران کئی اہم سفارتی کامیابیاں حاصل کیں جن میں سے ایک اقتصادی تعاون تنظیم کے دوروزہ سربراہ اجلاس کا پاکستان میں انعقاد ہے ۔اس سے قبل انسداد دہشت گردی وبین الاقوامی جرائم اور منشیات کے پھیلا کے خلاف کام کرنے والی شنگھائی تعاون تنظیم نے پاکستا ن کو مستقل رکنیت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔خارجہ تعلقات کے ضمن میں یہ کامیابیاں خوش آئندہیں۔پاکستان ایٹمی اسلحہ کے عدم پھیلا پریقین رکھتا ہے ،ہمارے ایٹمی اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں،اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کا بجا طور پر حق دار ہے،میں سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں جلد اچھی پیش رفت ہوگی۔
یہ بدقسمتی ہے کہ گزشتہ برس بھارت کے منفی طرزِ عمل کی وجہ سے اسلام آبادمیں سارک سربراہ کانفرنس منعقد نہ ہو سکی جس سے سارک ممالک کے درمیان ترقی اور خوش حالی کے لیے باہمی تعاون میں رکاوٹ پیدا ہوئی ۔پاکستان سمجھتا ہے کہ اقوام متحدہ کو مزید مثر اور مفید بنانے کے لیے سلامتی کونسل میں اصلاحا ت ضروری ہیں تاکہ تمام رکن اور خاص طور پر چھوٹے ممالک کی نمائندگی بھی اس ادارے میں ہوسکے۔اس سلسلے میں ہمیں اپنی پیش رفت مسلسل جاری رکھنی چاہئے۔دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طویل جنگ میں ہم نے غیر معمولی قربانیاں دی ہیں ۔ اس جنگ کے دوران ہمارے ہزاروں ہم وطنوں اور محافظوں نے جان و مال کی قربانی دی ، ہمیں ان جان باز سپاہیوں اور شہریوں پر فخر ہے ۔میں توقع کرتا ہوں کہ ضربِ عضب کی طرح آپریشن ردالفساد بھی جلد اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوگا اور ملک امن و امان کا گہوارہ بنے گا۔ اب ہم اس مرحلے پر آپہنچے ہیں کہ انتہا پسندی کے بچے کھچے اثرات کے خاتمے کے لیے قومی بیانیہ پوری قوت سے پیش کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے حکومت، پارلیمنٹیرینز ، سیاسی جماعتوں اور علمی و تحقیقی اداروں کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔انتہا پسندی کے خاتمے کے سلسلے میں تعلیم کا کردار بہت اہم ہے،ہم یہ مقصد طبقاتی فرق میں بتدریج کمی اور اعلی و معیاری تعلیم کے دروازے معاشرے کے ہر فرد پر کھول کر حاصل کرسکتے ہیں تاکہ ہمارے نوجوان برابری اور ذہنی ہم آہنگی کے ساتھ اپنے گردو پیش کا تجزیہ کر کے نئی دنیا کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔مجھے خوشی ہے کہ ہمارے علمی و ادبی ادارے احیائے نو کے بعد قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کی قیادت میں انتہائی مفید کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح شاعروں ، ادیبوں اور فنکاروں کے مسائل کے حل کے لیے خطیر رقم پر مشتمل ایک انڈامنٹ فنڈبھی قائم کر دیا گیا ہے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ ان سرگرمیوں میں مزید وسعت آئے گی اور ہم علمی قدروں کو فروغ دے کر منفی رجحانات کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے ہمارے جواں ہمت کارکنوں نے اپنی محنت اور جانفشانی سے مردم شماری کا عمل مکمل کر دیا ہے اس دوران چند نا خوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے جن میں کئی افراد شہید ہو گئے۔ قوم اپنے ان جانبازوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے جنھوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے یہ قومی ذمہ داری انجام دی۔ قوموں کی تہذیب اور تنظیم میں ذرائع ابلاغ کا کردار بہت اہم ہے ۔ ہمارے ذرائع ابلاغ نے جمہوریت کی بحالی اور معاشرتی مسائل کے حل کے لیے قابلِ قدر کردار ادا کیا ہے لیکن حال ہی میں ذرائع ابلاغ کے درمیان مسابقت کی دوڑکے نتیجے میں کچھ ایسے مسائل سامنے آئے ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کش مکش کے اثرات سے ملک سیاسی اور تہذیبی طور پر متاثر ہو رہا ہے، یہ طرزِ عمل اصلاح کا متقاضی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ذرائع ابلاغ کی انجمنیں، ادارے ،ریگولیٹری باڈیز اور معاشرے کے متحرک طبقات کی شرکت سے یہ مسئلہ آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے ۔قوم کیا سوچتی ہے؟ اس کا مظہر پارلیمنٹ ہے، قوم کو کیا سوچنا چاہیے؟ اس کی رہنمائی پارلیمنٹ سے ملتی ہے۔ قومی زندگی کے مسائل سے کس طرح نمٹنا ہے؟ یہ فیصلے بھی پارلیمنٹ کرتی ہے۔قوم کا ہر فرد اپنے ا س معتبر ترین ادارے میں کیے جانے والے فیصلوں میں خود کو شریک سمجھتا ہے اور انھیں خود پر نافذ کرنے کا آرزو مند ہے ۔ اگر ہم اس خواہش کو حقیقت میں بدلنے کا ماحول پیدا کر دیں تو قومی وسائل زیادہ بہتر طریقے سے عوام کی فلاح و بہبود پر استعمال کیے جا سکیں گے۔ آئیے! ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اس ادارے کو قومی مقاصد کی تکمیل کاذریعہ بنا دیں کیونکہ ہمارا نصب العین ایک ایسی پارلیمنٹ ہے جس کا خواب ہمارے بزرگوں اور خاص طور پر مصور پاکستان علامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا ۔اے پی ایس