کیا نواز شریف بچ نکلے گا؟ چودھری احسن پریمی



بیٹے سے سخت تحقیقات کے بعد اب وزیر اعظم خود اس جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوگئے ہیں جو شریف خاندان کے بیرون ملک اثاثہ جات کی منی ٹریل کی تحقیقات میں مصروف ہے۔اس ملک میں یہ ایک غیر معمولی موقع ہوتھا کہ جب ملک کا سب سے بڑا رہنما تحقیقات کے لیے خود پیش ہوا اگرچہ اس سے پہلے بھی کئی ایک وزراء اعظم عدالتوں میں پیش ہوچکے ہیں البتہ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ ان غیر معمولی تحقیقات کا نتیجہ کیا نکلے گا۔؟ تا ہم بعض مبصرین کے خیال میں جو باتیں شکوک شبہات کو پختہ کرتی ہیں، ان میں چند سرکاری محکموں کی جانب سے دستاویزات سے چھیڑ چھاڑ کے الزامات اور تحقیقات کو متنازع بنانے کی ایک منظم مہم شامل ہیں۔ حکمران جماعت کے ممبران کے اشتعال انگیز بیانات، تحقیقاتی کمیٹی کے ممبران اور تحقیقات کے نگران جج صاحبان کو ڈرانے دھمکانے کی حکمت عملی کا حصہ لگتے ہیں۔جہاں سینیٹر نہال ہاشمی کی منی ٹریل کے تحقیق کارں کو وارننگ اس قدر اشتعال انگیز اور واضح تھی کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، وہاں عدلیہ کو ہدف بنانے والی مسلم لیگ ن کے دیگر رہنماں کی مسلسل دھواں دھار تقاریر کسی خطرے سے کم نہیں لگتیں۔ایسے تبصروں پر جج صاحبان کے شدید غصے کا اندازہ جسٹس عظمت سعید کے اس ریمارکس سے لگایا جاسکتا ہے: "ایسا تو دہشتگرد اور مافیا کرتے ہیں۔" انہوں نے حکومت کو سیسیلیئن مافیا سے تشبیہہ بھی دی۔ کسی قسم کے سیاسی رد عمل سے بچنے کے لیے، پارٹی نے سینیٹر کو پارٹی سے نکال دیا، لیکن عدلیہ کو ہدف بنانے والے دیگر ممبران کو روکنے کی ابھی کسی قسم کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔
جے آئی ٹی میں پیشی اور تقریبا 3 گھنٹوں کی پوچھ گچھ کے بعد جوڈیشل اکیڈمی کے باہر حسین نواز اور حمزہ شہباز کے ہمراہ میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 'میں جے آئی ٹی کے سامنے اپنا مقف پیش کرکے آیا ہوں، میرے تمام اثاثوں کی تفصیلات متعلقہ اداروں کے پاس پہلے سے موجود ہیں، میں نے آج پھر تمام دستاویزات جے آئی ٹی کو دے دی ہیں'۔ان کا کہنا تھا کہ 'آج کا دن آئین اور قانون کی سربلندی کے حوالے سے سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے'۔وزیراعظم نے مزید کہا 'میں اور میرا پورا خاندان اس جے آئی ٹی اور عدالت میں سرخرو ہوں گے'، ساتھ ہی انھوں نے سوال کیا کہ 'ملک میں کوئی ایسا خاندان ہے جس کی تین نسلوں کا حساب ہوا ہو؟'ان کا کہنا تھا کہ اگر پاناما پیپرز کا معاملہ سامنے آنے کے بعد قومی اسمبلی میں گذشتہ سال کی میری دی گئی تجویز پر عمل کرلیا جاتا تو پاناما کیس کا معاملہ یہاں تک نہ پہنچتا۔وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ شریف خاندان کا احتساب ہوا ہو، اس سے قبل احتساب کا سلسلہ 1966 سے شروع ہوا، میرا پہلا احتساب 1972 میں ہوا تھا، ہمارا احتساب مشرف کی آمرانہ حکومت نے بھی کیا، الزامات میں صداقت ہوتی تو مشرف کوجھوٹے الزام کا سہارا نہ لینا پڑتا'۔
وزیراعظم نواز شریف نے دعوی کیا کہ' ہمارے دامن پر نہ پہلے کبھی کرپشن کا داغ تھا اور نہ اب ایسا ہوگا'، انھوں نے کہا کہ 'میں پنجاب کا وزیراعلی بھی رہا ہوں، مجھے 20 کروڑ عوام نے تیسری مرتبہ ملک کا وزیراعظم منتخب کیا ہے اور میرے حالیہ دور میں اتنی سرمایہ کاری ہوئی جتنی گزشتہ 65 سال میں بھی نہیں ہوئی، مجھ پر بدعنوانی یا کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے'۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں بھی ہم پر کرپشن کا الزام نہیں ہے بلکہ ہمارے خاندان اور ذاتی کاروبار پر الزامات لگائے جارہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ چند دن میں جے آئی ٹی کی رپورٹ اور عدالتی فیصلہ بھی آجائے گا، اس کے بعد 20 کروڑ عوام کی جے آئی ٹی بھی لگنے والی ہے، ایک بڑی جے آئی ٹی عوام کی عدالت میں بھی لگنے والی ہے جس میں ہم سب کو پیش ہونا ہے، وقت آگیا ہے کہ حق اور سچ کا علم بلند ہو۔وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ میں آج صرف اس لیے جوڈیشل کمیشن میں پیش ہوا ہوں کہ ہم سب عدالت کے سامنے جوابدہ ہیں، عوام 2013 سے زیادہ 2018 میں ہمارے حق میں فیصلہ کریں گے۔
پاناما جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر وزیراعظم کے ہمراہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف، وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز بھی موجود تھے تاہم انہیں وزیراعظم کے ہمراہ اکیڈمی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی، جس کے بعد اسحق ڈار، خواجہ آصف اور عابد شیر علی واپس لوٹ گئے۔یاد رہے کہ وزیراعظم کو جاری کیے گئے نوٹس کے مطابق انہیں ملزم کی حیثیت سے نہیں بلکہ بطور گواہ طلب کیا گیا۔جوڈیشل اکیڈمی میں پیشی سے قبل وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف، سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید سمیت دیگر وزرا اور پارٹی رہنماں نے وزیراعظم ہاس میں نواز شریف سے ملاقات کی۔ وزیر اعظم نواز شریف سپریم کورٹ کے حکم پر پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی چھ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیشی کے لیے اسلام آباد میں واقع جوڈیشل اکیڈمی پیش ہوگے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ ان کے بیٹے حسین نواز، وزیراعلی پنجاب شہباز شریف، ان کے بیٹے اور رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز، وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف بھی آئے۔ یہ افراد وزیراعظم کے ہمراہ اکیڈمی کے اندر تو گئے ہیں تاہم انھیں پیشی کے وقت الگ کمرے میں بٹھایا گیا۔خیال رہے کہ وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز پانچ مرتبہ جبکہ حسن نواز دو مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔خود شہباز شریف بھی 17 جون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے والے ہیں جبکہ وزیراعظم کے داماد اور رکنِ قومی اسمبلی کیپٹن ریٹائرڈصفدر کی پیشی 24 جون کو ہے۔جے آئی ٹی کی جانب سے بھیجے گئے نوٹس میں وزیر اعظم نواز شریف کو دستاویزات اور ریکارڈ ہمراہ لانے کا کہا گیا تھا جو ان کے ہمراہ تھا۔
وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے ٹوئٹر پر نواز شریف کی روانگی کی تصاویر شیئر کی اور اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آج ایک تاریخ ساز دن ہے اور ایک ایسی خوش آئند مثال قائم ہو رہی ہے جس کی دوسروں کو بھی پیروی کرنی چاہیے۔وزیر اعظم کی جے آئی ٹی میں پیشی کے پیش نظر سکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے۔ اسلام آباد پولیس کے مطابق تقریبا ڈھائی ہزار اہلکار اس موقع پر حفاظتی فرائض سرانجام دے رہے تھے۔فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کو جانے والے تمام راستوں پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ۔ اکیڈمی میں غیر متعلقہ افراد کا داخلہ مکمل طور پر بند تھا جبکہ شہریوں کے لیے متبادل راستوں کا انتظام کیا گیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے وقت پارٹی رہنماوں اور کارکنوں کو وفاقی جوڈیشل اکیڈمی کے باہر جمع نہ ہونے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم نواز شریف سے محبت کرنے والے بہت سارے کارکن بھی نظر آئے۔ وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس معاملے پر ردِ عمل دیتے ہوے بتایا تھا کہ وزیراعظم کے جے آئی ٹی میں جانے کے فیصلے سے پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی ہے۔واضح رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو پاکستان کی عدالت عظمی نے پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے اعلی افسر کی سربراہی میں چھ رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کا حکم دیا تھا۔اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے تین جج صاحبان نے کمیٹی کو 60 دن کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا وقت دیا تھا۔اس کے علاوہ ٹیم کے لیے وضع کیے گئے ضوابط کمیٹی کو ہر 15 دن کے اندر اپنی رپورٹ تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔22 مئی کو وزیر اعظم اور ان کے دو بیٹوں کے خلاف پاناما لیکس سے متعلق تحقیقات کرنے والی ٹیم کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے 60 روز سے زیادہ کی مہلت نہیں دی جا سکتی۔یقینا جے آئی ٹی سب سے بہترین آپشن نہیں تھی لیکن سپریم کورٹ کے پاس بھی کوی چارہ نہیں تھا کہ انہیں کھلا چھوڑ دیا جاتا کیونکہ تمام ملزمان کا برسراقتدار ہونے کی وجہ سے ہماری تفتیشی ایجنسیوں کی ناکامی آپ سب کے سامنے ہے۔ وزیر اعظم کی جے آئی ٹی میں پیشی سے ملک میں جمہوری عمل کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوگا۔گذشتہ جمعرات کو وزیر اعظم کا جے آئی ٹی میں پیش ہونے پر حکمران جماعت کا اچھاو برتا رہا کیونکہ یہی دیکھنا باقی تھا۔مسلم لیگ ن کو سپریم کورٹ پر ایک شرمناک دھاوا سے سبق سیکھنے، تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے اور کسی بھی منفی حربہ استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے. بے شک، پاناما اسکینڈل میں انتہائی اہم تحقیقات کے عزم کو رکاوٹوں کی طرف سے متاثر نہ ہونے کو یقینی بنانے کی ذمہ داری اعلی عدلیہ کی ہے۔ یہ یقینا تمام فریقوں کو مطمئن کرنے کے لئے آسان نہیں ہے. لیکن ایک منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات یقینی طور پر اس ملک میں احتساب کے عمل کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔کوئی شک نہیں، جے آئی ٹی میں ملٹری انٹیلی جینس ایجنسیوں کا خاص طور پر شامل کئے جانے پر کچھ اعتراض کئے گے لیکن یہ تحقیقات میں رکاوٹ کے لئے عذر کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے. حکمران جماعت سمیت بعض حکومتی حلقوں کی جانب سے جے آئی ٹی متنازعہ بنانے کوشش کی گی لیکن اپوزیشن جماعتوں، خاص طور پر پی ٹی آئی کی طرف سے سپریم کورٹ پر دبا ڈالنے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے. حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے سپریم کورٹ کے باہر روزانہ فن نمائش بالکل شرمناک ہے اور اس سارے گھناونے کیس کی تحقیقات میں سیاسی کھلاڑیوں اور کچھ سرکاری محکموں کے مبینہ تفتیش کاروں کے عدم تعاون نے کام کو انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔
بے شک، یہ تیسری شریف حکومت کو 1997 کے بعد دوبارہ واقعہ دہرانے کے لئے آسان نہیں ہو گا، لیکن حکمران جماعت کے ارکان کی طرف سے شروع کی گی دھمکیوں کو کورٹ کے 1997 کے دھاوا سے موازنہ کیا جا سکتا ہے. ملک کی سب سے طاقتور حکمران خاندان کے خلاف کارروائی سے عدالت کو روکنے کے لئے: مقصد ایک ہی ہے. ایک 'سسلی مافیا' ثابت کرنے میں شریف حکومت کی طرف سے خطرناک برتاو سے ظاہر ہو سکتا ہے لیکن حکومتی پارٹی کے دھمکی آمیز طریقے شرمناک ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ وزیر اعظم کو عدالت یا کسی تحقیقاتی ٹیم نے تحقیقات یا کسی مقدمے کی سماعت کے دوران طلب کیا گیا ہو۔ اپنے پہلے دور حکومت میں بھی نواز شریف عدالت سے رجوع کر چکے ہیں تاہم اس بار وہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہو رہے ہیں جو اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گی۔ میڈیا میں دستیاب رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آج سے پہلے کون کون سے وزیراعظم عدالت میں پیش ہوئے ان پر مختصر روشنی ڈالتے ہیں۔پانچ جولائی 1977 کو ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے الٹ دیا تھا اور ملک میں مارشل لا کا نفاذ کرتے ہوئے 11 سال تک برسرِ اقتدار رہے تھے۔ستمبر 1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خاں کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ 18 مارچ 1978 کو لاہور ہائی کورٹ نے انھیں سزائے موت کا حکم سنایا۔ چھ فروری 1979 کو سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی جس کے بعد چار اپریل کو انھیں راولپنڈی جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ اکتوبر 1990 کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کی کامیابی کے بعد محمد نواز شریف ملک کے 12 ویں وزیراعظم کے طور پر پہلی بار اقتدار میں آئے۔ تین برس بعد ہی صدر غلام اسحاق خان نے آرٹیکل 58-2بی کا نفاذ کرتے ہوئے اپریل 1993 میں ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے نواز شریف کو بطور وزیراعظم بحال کر دیا تھا۔
بلخ شیر مزاری 18 اپریل سے مئی 1993 تک ملک کے وزیراعظم رہے تاہم سپریم کورٹ نے صدارتی حکم نامہ معطل کرتے ہوئے نواز شریف کو بحال کر دیا تھا۔نواز شریف اس سیاسی بحران سے بچ نکلنے میں کامیاب رہے تاہم محض دو ماہ بعد 18 جولائی 1993 کو صدر کے استعفے کے ساتھ انھیں بھی مستعفی ہونا پڑا تھا۔یہی نہیں سنہ 1997 میں اپنے دوسرے دورِ حکومت کے دوران نواز شریف کو توہین عدالت کے مقدمے کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ فروری 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی ایک بار پھر برسراقتدار آئی اور بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد سید یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمی کا قلمدان سونپا گیا تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان نے انھیں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ شروع کرنے کے لیے سوئس حکام کو عدالتی حکم کے مطابق خط نہ لکھنے پر اپریل 2012 میں توہین عدالت کے جرم میں سزا سنائی جس کے بعد انھیں قومی اسمبلی کی نشست سے ہاتھ دھونا پڑے۔یوسف رضا گیلانی ملک کے پہلے وزیراعظم تھے جنھیں عدالت میں پیشی پر توہینِ عدالت کے مقدمے میں سزا سنائی گئی۔
پیپلز پارٹی نے سید یوسف رضا گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف کو وزارت عظمی کو قلمدان سونپا۔ راجہ پرویز اشرف بھی اسی معاملے میں عدالت عظمی میں پیش ہوئے تاہم ان کی جان اس وقت چھوٹی جب انھوں نے عدالت کو یقین دھانی کروائی کہ عداکتی احکامات کی روشنی میں سوئس حکام کو خط لکھا جائے گا۔سپریم کورٹ نے کرائے کے بجلی گھروں کی تنصیب کے بارے میں از خود نوٹس لیا اور جنوری 2013 میں کرائے کے بجلی گھروں کے بارے میں ہونے والے معاہدوں کے مقدمے میں راجہ پرویز اشرف سمیت 16 افراد کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔اس سے پہلے سنہ 2012 میں وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد قومی مفاہمتی آرڈیننس یعنی این آر او عمل درآمد کیس میں بھی راجہ پرویز اشرف کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری ہوا تھا اور وہ عدالت میں پیش بھی ہوئے تھِے۔
ماضی میں شریف حکومت نے سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو منقسم کرتے ہوئے ایک سرگرم عمل چیف جسٹس کو ہٹانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ ایک الگ طویل اور غلیظ کہانی ہے۔ سب سے زیادہ بدحواس کر دینے والی بات تو عدلیہ کے چند سینئر ممبران کی ہے جنہوں نے اعلی عدالت کے تقدس کو پامال کرنے والے اس حیران کن واقعے کو دفن کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔عدالت پر دھاوا بولنے کا یہ واقعہ نواز شریف کی دوسری حکومت کے غرور کا نتیجہ تھا جو بھاری اکثیرت کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی۔ صوبائی سطح پر پارٹی کنٹرول نے پارٹی کی سیاسی گرفت مزید مستحکم کر دی تھی۔ ایک کمزور اپوزیشن کے لیے اس دیو قامت طاقت سے مزاحمت کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ سپریم کورٹ پر حملے نے انتظامیہ کی طاقت پر عدلیہ کے تمام ضابطوں کو ختم کر دیا یوں نواز شریف، بااختیار امیر المومنین بننے کے اپنے مقصد کے بہت قریب پہنچ گئے۔ تاہم 1999 کی فوجی بغاوت نے ان کے اس خواب کو حقیقت ہونے نہیں دیا۔بلاشبہ، 1997 کا قصہ دہرانا نواز شریف کی تیسری حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا، لیکن حکمران جماعت کے ممبران کی جانب سے جاری ڈرانے اور دھمکانے کی اس مہم کو 1997 میں عدالت پر دھاوا بولنے کے واقعے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مقصد اب بھی وہی ہے: عدالت کو ملک کے سب سے طاقتور حکمران خاندان کے خلاف جاری قانونی کارروائی کو روکنا۔ شریف حکومت کی 'سیسیلیئن مافیا' سے تعبیر کی بات بھلے ہی حد سے زیادہ تنقیدی محسوس ہوئی ہو مگر حکومت کے ہنگامہ خیز طریقے بہت شرم ناک ہیں۔بلاشبہ، جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے چند اعتراض، خاص طور پر عسکری انٹیلیجنس اداروں کی شمولیت، جائز مانے جاسکتے ہیں مگر اسے تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ایک بہانے کے طور پر ہر گز استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔چند اپوزیشن پارٹیاں، خاص طور پر پی ٹی آئی، بھی جے آئی ٹی کو متنازع بنانے اور سپریم کورٹ پر دبا ڈالنے میں اپنا حصہ ڈال چکی ہیں۔ عدالت کے باہر سرکس لگا کر حکمران اور اپوزیشن ممبران کا ایک دوسرے کو گالیاں دینے کا عمل انتہائی شرم ناک ہے۔ اس جاری سیاسی محاذ آرائی اور چند حکومتی محکموں کے مبینہ عدم تعاون نے تحقیقات کاروں کے کام انتہائی مشکل بنا دیا ہے۔
بلاشبہ، پاناما گیٹ اسکینڈل کے حوالے سے اس انتہائی غیر معمولی تحقیقات کو ایسی تمام رکاوٹوں سے متاثر ہونے سے بچانے کا ذمہ اعلی عدالت کا ہے۔ یقینا، ہر کسی کو مطمئن کرنا آسان نہیں۔ لیکن اس ملک میں ایک منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات یقینا احتساب کے عمل کو تقویت بخشیں گی۔یہ بات شاید سچ ہو کہ پاناما پیپرز اسکینڈل نے معاملات کو سب کے سامنے کھول کر پیش کر دیا ہے، لیکن شریف خاندان پر لندن
میں مہنگی جائیدادوں کی خریداری کے الزامات نئے نہیں ہیں۔ پہلی بار ایسا معاملہ قریب دو دہائیوں پہلے ایک ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آیا جس میں مے فیئر اپارٹمنٹس کی ملکیت کے بارے میں تفصیلات فراہم کی گئی تھیں۔پرویز مشرف کی فوجی حکومت میں قید کے دوران اسحاق ڈار نے مبینہ طور پر پیسوں کی منتقلی کے بارے میں اہم معلومات فراہم کی تھیں۔ اگرچہ وزیر خزانہ کے دعوی کے مطابق وہ بیان زبردستی دلوایا گیا تھا، مگر اب بھی معاملے کی تہہ تک تحقیقات کی جانے ضرورت ہے۔ سچ سامنے لانے کا واحد طریقہ اس اسکینڈل کی غیر جانبدار تحقیقات ہے، جس کے باعث پورے سیاسی نظام پر عوام کا اعتمادا وپر لگا ہوا ہے۔وزیر اعظم کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے ملک میں جمہوری عمل کمزور نہیں بلکہ مضبوط ہوگا۔قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت ایک افراتفری کا نام ہے اور قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور نہیں اس ضمن میں ہم سب کو قانون کی حکمرانی کا احترام سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اے پی ایس