بھارت امریکہ گٹھ جوڑ۔ چودھری احسن پریمی



امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین دیگر ممالک پر حملوں کے لیے دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے دے۔امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں ملاقات کے دوران امریکی صدر اور بھارتی وزیر اعظم نے دونوں ممالک کے دفاعی تعاون، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اور افغانستان میں جاری جنگ کے خلاف مل کر کام کرنے کا عزم کیا ہے۔امریکی وائٹ ہاوس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی نے ملاقات کے دوران پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے دے اور اس کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کرے۔جبکہ دونوں رہنماوں نے اقوام عالم پر زور دیا کہ وہ اپنے تمام علاقائی اور سمندری تنازعات کو عالمی قوانین کے تحت پر امن طریقے سے حل کریں۔دوطرفہ ملاقات کے بعد وائٹ ہاوس کے باہر مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر کا کہنا تھا کہ بھارت اور امریکا دہشت گردی کی برائی اور اسے چلانے والے انتہا پسند نظریات سے متاثر ہوئے ہیں۔اب تک دونوں ممالک کی جانب سے اہم اعلانات سامنے نہیں آئے ہیں تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت کے ساتھ 36 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے 20 ڈرون طیاروں اور ایک مسافر طیارے کی فروخت کے معاہدے کی تصدیق کر دی۔امریکا بھارت کو 2008 سے اب تک فوجی سامان فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ 9 برسوں میں 15 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے ہو چکے ہیں۔اس موقع پر امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا اور بھارت کے تعلقات کبھی بھی بہتر اور مضوبط تر نہیں رہے۔انہوں نے بھارتی وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا بھارت کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے اور دو طرفہ شفاف تجارتی تعلقات کی تعمیر کرنا چاہتا ہے جس سے دونوں ممالک کے لوگوں کو ملازمتوں کے مواقع میسر آسکیں اور ساتھ ہی دونوں ممالک کی معیشتیں بھی مضبوط ہوں گی۔ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ اب امریکی اشیا کی بھارتی منڈیوں تک رسائی کی رکاوٹیں ختم ہو گئیں جس کی مدد سے امریکا کا مالی خسارہ کم ہوجائے گا۔نریندر مودی نے بھارت کو امریکی کمپنیوں کے لیے بہترین منڈی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اب امریکی سرمایہ کاروں کے لیے ایک محفوظ ملک کی حیثیت اختیار کر رہا ہے۔بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امریکا بھارت کے لیے سماجی و اقتصادی تبدیلی میں اہم شراکت دار ہے۔اس موقع پر بھارتی وزیر اعظم نے کہا 'بھارت کی ترقی کے لیے میرے نقطہ نظر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا کو دوبارہ عظیم ملک بنانے کے نظریے کی مدد سے دونوں ممالک کے تعاون میں نئی وسعت پیدا ہوگی۔ٹرمپ مودی ملاقات کے دوران افغانستان کی صورتحال تبادلہ خیال ہوا، اس موقع پر امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ افغانستان میں تعمیر و ترقی کے عمل میں تعاون پر بھارتی عوام کے شکر گزار ہیں۔بھارتی وزیر اعظم نے بھی امریکی صدر کو یقین دلایا کہ بھارت عالمی امن و استحکام کے حصول میں امریکا کے ساتھ قریبی تعلقات قائم رکھے گا۔ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات سے قبل بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی سیکریٹری دفاع جم میٹس اور امریکی سیکریٹری اسٹیٹ ریکس ٹلرسن سے بھی ملاقات کی تھی۔امریکی محکمہ خارجہ نے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کو خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد قرار دے کر ان پر پابندیاں عائد کردی تھیں جسے ماہرین کی جانب سے دورے پر بھارت کی سب سے بڑی کامیابی سمجھا جارہا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ نے حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر سید صلاح الدین کو خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کردیں۔
محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے خلاف مسلح جدو جہد کرنے والے سب سے بڑے گروپ کے رہنما ہیں۔یہ پیشرفت بھارتی ویزر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات سے چند گھنٹے قبل سامنے آئی۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سید صلاح الدین کو ایگزیکٹو آرڈر 13224 کے سیکشن ون بی کے تحت عالمی دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے، جو امریکا اور اس کے شہریوں کی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے غیر ملکیوں پر لاگو ہوتا ہے جبکہ اس کے بعد پابندی کی زد میں آنے والے پر پابندیاں بھی عائد ہوجاتی ہیں۔پابندی کے بعد کسی امریکی کو سید صلاح الدین سے مالی لین دین کی اجازت نہیں ہوگی۔امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ سید صلاح الدین نے ستمبر 2016 میں کشمیر تنازع کے کسی پرامن حل کی راہ میں رکاوٹ بننے کا عندیہ دیا تھا، جبکہ انہوں نے وادی کشمیر کو بھارتی فورسز کا قبرستان بنانے کے لیے کشمیریوں کو خودکش بمبار کی تربیت دینے کی بھی دھمکی دی تھی۔امریکا کا کہنا ہے کہ حزب المجاہدین نے متعدد حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔
جبکہ پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے ایک مرتبہ پھر اس موقف کو دہرایا گیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے بہت زیادہ جانی و مالی قربانیاں دی ہیں، جس کی عالمی برادری بھی معترف ہے۔واضح رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان وہائٹ ہاس میں ہونے والی ملاقات کے بعد جاری ایک بیان میں امریکہ اور بھارت نے پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پاکستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہو۔وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے کہا ہے کہ ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ایک طویل عرصے سے پاکستان کا عزم واضح رہا ہے۔وہائٹ ہاس میں ہونے والی ملاقات میں بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی اور امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تعاون کو مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار بھی کیا تھا۔انھوں نے پاکستان پر یہ بھی زور دیا کہ بھارت کے شہر ممبئی میں 2008 میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے علاوہ گزشتہ سال پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر حملے میں ملوث افراد کو جلد انصاف کے کٹہرے میں لا کر سزا دلائی جائے۔
بھارت 2008 میں ممبئی ہونے والے دہشت گرد حملوں کا الزام پاکستان میں موجود کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ پر عائد کرتا ہے جب کہ پاکستان نے اپنے ہاں اس معاملے پر عدالتی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔جب کہ جنوری 2016 میں پٹھان کوٹ کے فضائی اڈے پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بارے میں بھارت کا کہنا ہے کہ اس کی منصوبہ بندی پاکستان میں موجود کالعدم شدت پسند تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر اور ان کے ساتھیوں نے کی۔بھارت کی طرف سے پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگایا جاتا رہا ہے لیکن پاکستان ہمیشہ ایسے الزامات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کرتا آیا ہے۔پاکستان بھی بھارت پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ اس کے ہاں دہشت گردی کے واقعات میں پس پردہ ملوث ہے۔تاہم پاکستان کے عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام درست نہیں کیونکہ پاکستان عملی طور پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر کے دکھا رہا ہے۔۔۔ بہت سے دہشت گرد اپنے منطقی انجام تک پہنچے جب کہ بہت سے قانون کے سامنے اس وقت بھی پیش ہیں۔۔۔ پاکستان نے دنیا کو وہ کر کے دکھایا ہے جو کہ شاید دنیا بیانات سے، قراردادوں سے یا خواہشات سے نہ کر سکی۔
پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی جاری ہے اور عسکریت پسندوں کے منظم ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا ہے۔گزشتہ ہفتے ہی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے کہا تھا کہ پاکستانی اپنی سر زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا۔ جبکہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے امریکا کی جانب سے سید صلاح الدین کو عالمی دہشت
گرد قرار دیے جانے پر ان کا ذکر کیے بغیر کہا ہے کہ یہ بات تشویشناک ہے کہ امریکی انتظامیہ ہندوستان کی زبان بولنے لگی ہے.وزیر داخلہ کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی وائٹ ہاس یاترا کے بعد امریکی حکومت کے بیان سے ظاہر ہو رہا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے نزدیک معصوم کشمیریوں کے خون کی کوئی اہمیت نہیں۔جاری بیان میں وفاقی وزیر داخلہ نے حزب المجاہدین کے کمانڈر کا نام لیے بغیر اپنے موقف میں کہا کہ ہندوستان نہ صرف کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں ملوث ہے، بلکہ وہ روز اول سے حق خود ارادیت کی جائز اور منصفانہ تحریک کو دبانے اور آزادی کی کاوشوں کو دہشت گردی کے طور پر پیش کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف ہے.واضح رہے کہ امریکا کے محکمہ خارجہ نے 26 جون کو حزب المجاہدین کے کمانڈر سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ لگتا یوں ہے کہ شاید انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی قوانین کا اطلاق کشمیر میں نہیں ہوتا، اور یہ کہ وہاں معصوموں کے خون کے ساتھ کھیلی جانے والی ہولی جیسے سنگین جرائم کو بھی فراموش کیا جا سکتا ہے۔چوہدری نثار کے مطابق بد ترین ریاستی دہشت گردی میں ملوث حکومت کے کردار کو دانستہ طور پر فراموش کرنے سے جہاں انصاف،اقدار اورعالمی اصولوں کو ٹھیس پہنچتی ہے وہاں انسانی اور جمہوری حقوق کی علمبردار طاقتوں کے دہرے معیار کی بھی قلعی کھلتی ہے۔وزیر داخلہ نے کہا کہ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قومی اتفاق، عزم، حوصلے اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں،اور کشمیریوں کو واضح پیغام دیں کہ حکومت پاکستان اور عوام کی جانب سے ان کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت میں کوئی بھی لغزش نہیں آئے گی۔چوہدری نثار نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ کشمیری عوام کے حقوق پر کسی قسم کی کوئی سودے بازی نہیں ہوگی، انصاف کے تقاضوں اور اقوام متحدہ کی قراداوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا جائز حق ملنے تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مطابق بھارتی تسلط سے آزادی اور حق خود ارادیت کشمیریوں کا مقدر ہے، اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں اس حق سے محروم نہیں کرسکتی۔انہیں عالمی دہشت گرد قرار دینے کا امریکی فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا، جب بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کرنے والے تھے۔امریکی انتظامیہ نے دونوں رہنماں کی ملاقات سے چند گھنٹے قبل سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیا، جب کہ ملاقات کے بعد جاری بیان میں بھی پاکستان پر الزام تراشیاں کی گئیں.
بھارتی وزیر اعظم نرندر مودی نے 25 اور 26 جون کو امریکہ کا دورہ کیا جس کی سب سے نمایاں بات 26 جنوری کو وایٹ ہاوس میں صدر ٹرمپ سے ان کی ملاقات تھی۔ اس ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، اس میں پاکستان سے اس بات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا کہ اس کی زمین دیگر ممالک میں دہشت گردی کی اعانت کیلئے استعمال نہیں کی جائے گی۔ مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ اپنے ملک میں بنیاد پزیر دہشت گرد گروپوں کی جانب سے ممبئی، پٹھانکوٹ اور دیگر سرحد پار حملوں کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔مودی۔ٹرمپ ملاقات سے قبل امریکہ نے کشمیری گروپ حزب المجاہدین کے لیڈر سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دیا تھا۔ بھارت نے اس اقدام کو سراہا تھا جبکہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
امریکہ بھارت گٹھ جوڑ بارے مبصرین نے بھارت۔ امریکہ سربراہ ملاقات کے نتائج کو پاکستان کیلئے پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پاکستان کو حقیقت میں دیوار سے لگانے کی ایک کوشش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کے بارے میں یہ بیان حقیقی طور پر امریکی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے تو اس کے نتائج خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس ملاقات میں بھارت کو 22 جدید ترین ڈرون فراہم کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن بھارت میں F-16 طیارے تیار کرنے کے منصوبے پر کام شروع کر دے گی۔ اس کے علاوہ سربراہ ملاقات میں امریکہ۔بھارت دفاعی تعاون بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ اقدامات پاکستان کو چین اور روس کے کیمپ میں دھکیل دیں گے جس سے پاکستان۔ امریکہ تعاون مزید کمزور ہو جائے گا۔ بھارت کو جدید ترین دفاعی سامان کی فراہمی کے باعث بھارت اور پاکستان کے درمیان روایتی ہتھیاروں کی تفریق اس قدر بڑھ جائے گی کہ پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں پر انحصار میں مسلسل اضافہ کرتا جائے۔بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سربراہ ملاقات کی سب سے اہم بات بھارتی وزیر اعظم مودی کا صدر ٹرمپ کے ساتھ ذاتی سطح پر ایک تعلق قائم کرنا تھا جس میں وہ نہایت کامیاب رہے۔ دونوں راہنما تین بار گلے ملے اور اسے امریکہ اور بھارت دونوں ممالک میں بہت اہمیت دی گئی ہے۔
امریکہ کی طرف سے 22 جدید ترین گارڈئن ڈرون طیاروں سمیت بھارت کو جدید دفاعی سامان کی فراہمی سے خطے کی صورت حال یکسر تبدیل ہو جائے گی جس سے پاکستان میں یقینا مایوسی ہو گی۔ دہشت گردی کے خلاف اقدامات کے حوالے سے امریکہ میں پاکستانی سفیر اعزاز چوہدری نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ پاکستان میں اب کوئی دہشت گرد تنظیم موجود نہیں ہے۔ اس ملاقات کے مشترکہ اعلامیے سے اس بات کی نفی ہو گئی ہے اور اب پاکستان کو یہ دیکھنا ہو گا کہ امریکہ اور بھارت کے خدشا ت دور کرنے کے حوالے سے وہ کیا کر سکتا ہے۔جبکہ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی کی جس انداز میں پزیرائی ہوئی ہے اور جس طرح ان کا استقبال کیا گیا ، یہ اس بات کا مظہر ہے کہ امریکہ بھارت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور خاتون اول ملانیا ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی کو وایٹ ہاوس کی تفصیلی سیر بھی کرائی جس سے صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم مودی کے درمیان قریبی تعلق کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ صدر ٹرمپ کی صاحبزادی ایوانکا ٹرمپ اس سال کے آخر میں عالمی سرمایہ کاری اجلاس میں امریکی وفد کی قیادت کریں گی جو بھارت میں منعقد ہو گا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہیں خوشی ہے کہ وزیر اعظم نرندر مودی نے اس اجلاس کیلئے ان کی بیٹی ایوانکا کو امریکی وفد کی سربراہی کرنے کی دعوت دی ہے
بھارتی وزیر اعظم نے اس دورے میں بڑی امریکی کمپنیوں کے سربراہان سے بھی خصوصی ملاقات کی جن میں ایپل کے سربراہ ٹم کک، وال مارٹ کے سربراہ ڈگ میک ملن، کیٹر پلر کے جم امپلیبی، گوگل کے سندر پچائی اور مائکروسوفٹ کی ستی انڈیلا شامل ہیں۔ ڈاکٹر مدن کا کہنا ہے کہ ان بڑی امریکی کمپنیوں کے مالکان نے بڑے غور سے اور دلچسپی سے بھارتی وزیر اعظم کی گفتگو سنی اور انہوں نے بھارت میں اپنی سرمایہ کاری بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔امریکہ نے بھارت کو مائع قدرتی گیس فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے اور توقع ہے کہ اگلے چند برسوں میں بھارت کو قدرتی گیس کی فراہمی 40 ارب ڈالر سے بڑھ جائے گی۔تاہم پاکستان کیلئے یہ بات قدرے باعث سکون بھی ہوگی کہ سربراہ ملاقات میں پاکستان سے جو مطالبات کئے گئے ہیں، وہ اس سے زیادہ شدید نوعیت کے بھی ہو سکتے تھے۔بھارتی وزیراعظم مودی نے امریکی دورے کے دوران امریکی آشیر آباد حاصل کرنے کے لئے چین کے ساتھ سرحدی تنازعے کی آڑ میں مزید کشیدگی کو بڑھکایا ہے۔اس کے ردعمل میں چین نے انڈیا پر الزام عائد کیا ہے کہ اس کے سرحدی محافظوں نے تبت اور سِکم کے درمیانی علاقے میں دراندازی کی ہے۔ چین نے انڈیا کو خبردار کیا ہے کہ اس سے امن کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔چین نے کہا ہے کہ انڈیا کے سرحدی محافظوں نے چینی علاقے میں معمول کی زندگی کو متاثر کیا ہے اور انڈیا سے کہا ہے کہ وہ فورا ان کے علاقے سے نکل جائے۔چین اور انڈیا کا سرحدی علاقہ نتھو درہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے ہندو اور بدھ مت یاتری تبت میں یاترا کے لیے جاتے ہیں۔انڈیا اور چین کے مابین 1967 میں اسی علاقے میں جھڑپیں ہو چکی ہیں اور اس کے علاوہ بھی وقتا فوقتا کشیدگی پیدا ہوتی رہی ہے۔ یہ حالیہ برسوں میں دونوں ملکوں کے مابین سرحد پر کشیدگی کا سنگین ترین واقع ہے۔ چین نے انڈیا پر مزید الزام عائد کیا ہے کہ وہ چین کے علاقے میں ایک سڑک کی تعمیر میں بھی رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔جبکہ بھارتی ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں کہ حالیہ ہفتوں میں چینی اور بھارتی سرحدی محافظوں کے مابین کشیدگی بڑھی ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق چینی فوجیوں نے سِکم کے علاقے میں گھس کر انڈین آرمی کے عارضی مورچوں کو تباہ کیا ہے۔جبکہ چین پہلے ہی سرحد پار سے تبت میں یاتریوں کی آمد پر پابندی عائد کر چکا ہے۔اے پی ایس