حالیہ سعودی قطر کشیدگی۔ چودھری احسن پریمی



  حالیہ سعودی قطر کشیدگی دوحہ میں قائم براڈکاسٹر الجزیرہ میں شفافیت کے فقدان سے ابھرا ہے۔اس ضمن میں صحافتی دیانت داری اور شفافیت کو الجزیرہ کی بیان کردہ وابستگی کے بارے میں جواب دینے کے لئے کچھ سنگین سوالات باقی ہیں۔ جس میں سب سے اہم مذکورہ براڈ کاسٹر نیٹ ورک  پر 2011 سے لے کر مصر کی اس کی کوریج میں ایک جانبدار ایجنڈے کی پیروی کا الزام ہے۔ مخالف حلقوں کا کہنا ہے کہ الجزیرہ، قطر کی نام نہاد نرم طاقت کی حکمت عملی کا ایک اہم جزو ہے، جو اس کے ہمسایہ ممالک، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور بحرین کے ساتھ شدید کشیدہ تعلقات ہیں جو اب ایک اہم تنازع میں دوحہ  کودھکیل دیا ہے ۔قطری سرپرستی میں الجزیرہ قائم کرنے کے فیصلے پر کئی سیاسی اور اسٹریٹجک عوامل کا نتیجہ تھا. ابتدائی طور پر، الجزیرہ ایک غیر آمرانہ عرب بیانیہ اظہار اور تمام اجزا کے احترام پر مبنی ایک جمہوری، بین الاقوامی عرب عوامی زندگی کو فروغ دیا. اس کے بعد سے، تاہم، قطر کی خارجہ پالیسی آوٹ لک، خاص طور پر طاقتور پڑوسی سعودی عرب کے ساتھ پیچیدہ تعلقات، سنجیدگی سے الجزیرہ کے نظریات، صحافتی انتخاب، اور عام سمت بندی کو متاثر کیا.
جبکہ سعودی عرب سمیت 6 اسلامی ممالک کی جانب سے قطر کا بائیکاٹ کرنے کے معاملے پر ارکان قومی اسمبلی نے حکومت سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کا اجلاس بلانے کی بھی تجویز دے دی ہے۔اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع ہوتے ہی نکتہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ خطے میں سنگین بحران جنم لے رہا ہے لیکن ہماری وزارت خارجہ کنفیوز دکھائی دے رہی ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ قطر کا 6 اسلامی ممالک نے بائیکاٹ کر دیا ہے جبکہ پاکستان کے کئی عمرہ زائرین قطر میں پھنس گئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم نہیں چاہتے کہ کسی ملک سے ہمارے تعلقات متاثر ہوں، ہم سعودی عرب اور ایران سے تعلقات خراب نہیں کر سکتے۔
 جبکہ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے قطر میں پھنسے پاکستانی شہریوں کی واپسی کے لیے خصوصی پروازیں چلانے کی تیاری کر رہی ہے۔سعودی عرب سمیت چھ عرب ممالک کی طرف سے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات اور فضائی رابطے منقطع کرنے کے بعد سیکڑوں پاکستانی دوحا ایئرپورٹ پر پھنسے ہوئے ہیں۔اطلاعات کے مطابق قطر ایئرویز کے ذریعے  پانچ سو سے زیادہ پاکستانی شہری عمرے کی ادائیگی کے لیے براستہ دوحا سعودی عرب جا رہے تھے، لیکن سفارتی تعلقات منقطع ہونے کے بعد سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور بحرین سمیت چھ ممالک نے قطر کے ساتھ اپنے تمام زمینی، فضائی اور بحری راستے بند کر دیے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی مسافروں کی ایک بڑی تعداد دوحا میں پھنس گئی۔
پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کے ترجمان مشہود تاجور نے کہا ہے کہ مسافروں کے درست اعداد و شمار اکٹھے کیے جا رہے ہیں کہ کتنے پاکستانی مسافر قطر میں موجود ہیں اور اس بارے میں بھی مشاورت
 جاری ہے کہ انھیں سعودی عرب پہنچایا جائے یا براہ راست وطن واپس لایا جائے۔پی آئی اے اس بارے میں قطر کے مقامی حکام کے علاوہ دوحا میں پاکستانی سفارت خانے سے بھی رابطے میں ہے۔
سعودی عرب اور دیگر پانچ ممالک کی طرف سے قطر پر دہشت گردی کی معاونت کے الزامات لگائے گئے ہیں، جس کی قطر نے تردید کی ہے۔سعودی عرب اور دیگر عرب ملکوں کی طرف سے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کیے جانے کے بارے میں تاحال پاکستان کی طرف سے کسی باضابطہ ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔پاکستان کے سعودی عرب اور قطر دونوں ہی سے قریبی تعلقات ہیں۔
  تاہم سعودی عرب میں ہونے والی حالیہ عرب-امریکا-اسلامی کانفرنس میں بھی پاکستان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلے پہل کہا گیا کہ اتحاد دہشت گردی کے خلاف بنایا جا رہا ہے، پہلے ایران کو اتحاد سے الگ رکھا گیا اور اب قطر کو دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام لگا کر الگ کر دیا گیا، جبکہ دفتر خارجہ کی جانب سے تاحال پوزیشن واضح نہیں کی گئی، اس معاملے کے تناظر میں پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوتا نظر آ رہا ہے۔ خطے کے حالات خراب ہوں گے تو پاکستان بھی متاثر ہو گا۔ دشمن ہر وقت نقصان پہنچانے کی کوشش میں ہے اور مسلم امہ انتشار کا شکار ہوتی جا رہی ہے، کیا پاکستان او آئی سی کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ نہیں کر سکتا؟
یاد رہے کہ گذشتہ دنوں سعودی عرب، مصر، بحرین، یمن، متحدہ عرب امارات اور مالدیپ نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات عائد کرتے ہوئے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
اس کے علاوہ لیبیا کی مشرقی حکومت کے وزیر خارجہ محمد دیری نے بھی اپنے ایک بیان میں قطر سے تعلقات کے خاتمے کا اعلان کیا، تاہم انھوں نے فوری طور پر اس اقدام کی کوئی وضاحت نہیں کی تھی۔
سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کی جانب سے قطر سے سفارتی تعلقات ختم کیے جانے کے بعد پاکستان نے دوحہ سے تعلقات بحال رکھنے کا عندیا دیا تھا۔دوسری جانب قطر نے دہشت گردی کی مبینہ حمایت کرنے پر سعودیہ سمیت دیگر اسلامی ممالک کی جانب سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔قطر کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں ان دعوں اور الزامات کو بلاجواز اور بے بنیاد قرار دیا گیا تھا، قطر کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے کا عام شہریوں کی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
  جبکہ قطر اور خطے کی دیگر خلیجی ریاستوں اور عرب ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے سفارتی تنازع کے حل کے لیے کویت نے رابطے شروع کردیے ہیں۔قطر کے وزیرِ خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے عرب نیوز چینل 'الجزیرہ' کو ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی حالیہ تنازع کے بعد قوم سے خطاب کرنے والے تھے جسے کویت کے امیر کی درخواست پر روک دیا گیا ہے۔قطری وزیرِ خارجہ نے بتایا کہ امیرِ کویت نے اپنے قطری ہم منصب کو فون کرکے مجوزہ خطاب منسوخ کرنے کا کہا تھا تاکہ انہیں تنازع کے حل کے لیے مزید وقت مل سکے۔امیرِ کویت شیخ صباح الاحمد الجابر الصباح نے شیخ تمیم پر زور دیا ہے کہ وہ "تحمل کا مظاہرہ کریں اور ایسے اقدامات سے گریز کریں جس سے صورتِ حال مزید خراب ہو۔"
اطلاعات ہیں کہ سعودی شاہی خاندان کے ایک اہم فرد سعودی فرمانروا شاہ سلمان کا پیغام لے کر کویت پہنچے ہیں۔ دوسری جانب سلطنتِ عمان کے ایک اعلی سفارت کار بھی تنازع کے حل کی کوششوں کے سلسلے میں قطر میں موجود ہیں۔اطلاعات تھیں کہ قطر کے امیر اپنے خطاب میں عرب ممالک کی جانب سے قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانے والے تھے۔گزشتہ روز فیصلہ سامنے آنے کے بعد قطری وزارتِ خارجہ نیاپنے ابتدائی ردِ عمل میں کہا تھا کہ یہ ممالک قطر کو اپنی "باج گزار ریاست" بنانا چاہتے ہیں۔'الجزیرہ' سے گفتگو میں قطری وزیرِ خارجہ نے بھی قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے والے عرب ملکوں کا موقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ممالک "قطر کے داخلی معاملات میں مداخلت کرکے اس پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔"
گزشتہ دنوںمصر اور چھ رکنی خلیج تعاون کونسل کے تین ارکان  سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین  نے قطر کی حکومت پر اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت اور دہشت گردوں کی مدد کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحا حکومت کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے اور تمام زمینی، فضائی اور سمندری رابطے معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں خانہ جنگی کا شکار یمن کی بین الاقوامی حمایت یافتہ حکومت، لیبیا کے مشرقی علاقے میں قائم حکومت، مالدیپ اور ماریشس نے بھی قطر کیبائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔قطر تین جانب سے سمندر میں گھرا ہوا ہے اور اس کی زمینی سرحد صرف سعودی عرب سے ملتی ہے جسے سعودی حکومت نے بند کردیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سعودی علاقے میں سرحد کی بندش کے باعث اشیائے خور و نوش اور دیگر سامان قطر لے جانے والے ٹرکوں کی قطار لگ گئی ہے۔قطر کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سعودی حکومت نے کہا تھا کہ وہ یہ قدم قطر کی جانب سے مختلف دہشت گرد اور فرقہ وارانہ تنظیم کی مدد کرنے پر اٹھا رہی ہے جو خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر رہے ہیں۔مبصرین کے مطابق عرب ممالک قطر کی حکومت کے ایران اور اسلامی تحریک اخوان المسلمون کے ساتھ قریبی تعلقات پر برہم ہیں جسے بیشتر عرب ملکوں کے حکمران اپنے اقتدار کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے 2014 میں بھی انہی الزامات کی بنیاد پر قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلیے تھے۔تاہم خلیج تعاون کونسل کے دیگر دو ارکان کویت اور عمان نے اس وقت بھی قطر کے ساتھ اپنے تعلقات بحال رکھے تھے اور اب بھی حالیہ تنازع کا حصہ نہیں بنے ہیں۔امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن نے گزشتہ روز قطر اور تنازع کے دیگر فریقین پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے اختلافات بات چیت سے حل کریں۔ انہوں نے پیش کش کی تھی کہ امریکہ ان ملکوں کے درمیان مصالحت کرانے کے لیے بھی تیار ہے۔تاہم مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ سب کچھ رقص شمشیر کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ استعماری قوتوں کا یہ حربہ رہا ہے کہ دولت لوٹنے کیلئے وہ   لوگوں کو تقسیم کرنے کے علاوہ نفرت اور جہالت پھیلاتی رہی ہیں۔ ٹرمپ آئے، بدنظمی پھیلائی اور چلے گئے۔ جبکہ دنیا کے لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ کھیل کیا ہے اور جھوٹ کیا تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ قطر کا مکمل بائیکاٹ بین الاقوامی قوانین کی رو سے اعلان جنگ ہے ؟۔ یا ایران کے خلاف وسیع جنگ کا پہلا قدم ہے؟۔ اے پی ایس