ریمنڈ ڈیوس کا آخری شو۔ چودھری احسن پریمی



ریمنڈ ڈیوس نے اپنی نئی کتاب میں راز ظاہر کیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں نے میری رہائی میں امریکہ کو خوش کرنے کے لے اپنا اپنا حصہ ڈالنے کی بھر پور کوشش کی۔ 'دا کنٹریکٹر' کے مطالعے سے پاکستانی تاریخ کے ایک شدید نفرت آمیز موڑ کے مختلف پہلوں پر اس کے مرکزی کردار کے نقط نظر سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس نے اپنی حالیہ کتاب میں کچھ اشارے کر کے پاکستانی سیاسی جماعتوں، سیاسی قیادت اور اس وقت کی ملٹری اسٹیبشلمنٹ کے خلاف عوامی نفرت پیدا کرنے کی ایک کوشش کی ہے تاہم ملکی پالیسیاں حالات کے تابع ہوتی ہیں کیونکہ پاکستان اپنی نااہل اور کرپٹ قیادت کی وجہ سے عالمی سطح پر ہمیشہ سے ایک کمزور پوزیشن پر کھڑا رہا ہے اگر ریمنڈ ڈیوس کے مقدمات کے دور میں کوئی بھی سیاسی یا ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہوتی وہ بھی ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں یہی کچھ کرتی۔ اگرچہ ریمنڈ ڈیوس کے انکشافات سے قبل بھِی یہی امکانات تھے جو اس نے کتاب میں شائع کر کے لوگوں کو حیران اور نفرت پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے تاہم یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آیا ہے جب پاکستان میں الیکشن قریب ہیں اور سیاسی قیادت اورملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوامی نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گی ہے جو کہ ریمنڈ ڈیوس کے پس پردہ کرداروں کی بد نیتی پر مبنی ہے بعض حلقے یہ بھی تاثر دے رہے ہیں کہ اس کتاب کے پیچھے حسین حقانی ہیں تاہم حسین حقانی کی طرف سے ابھی تک کوی وضاحت نہیں آی۔ تاہم بعض ناقدین اس کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے رہے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ مخالف ہر وقت کوی پروپیگنڈہ یا جھوٹ بولیں اگر ایسا کچھ ہے تو ہمیں ایک تلخ حقیقت کو ایک کوڑا گھونٹ سمجھ کر پی لینا چاہیے۔ بہرحال اللہ تعالی ہمیں ثابت قدمی سے اپنی ملکی سالمیت اور حاکمیت کو برقرار رکھنے کی ہمت دے۔
امریکی شہری اور سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کے اہل کار، ریمنڈ ڈیوس جنھوں نے 2011 میں پاکستانی سفارتی حلقوں میں بھونچال پیدا کیا تھا، اپنی سوانح عمری شائع کی ہے، جس میں انھوں نے پاکستانی جیل سے رہائی میں مدد دینے والے کرداروں کا انکشاف کیا ہے۔ان کی کتاب کا عنوان ہے: دِی کانٹریکٹر: ہا آئی لینڈیڈ اِن اے پاستانی پریزن اینڈ اگنائٹڈ اے ڈیپلومیٹک کرائسس۔
ڈیوس ریمنڈ نے 2011 میں لاہور میں ہونے والے واقعے کا تفصیلی ذکر کیا ہے، جس کے بعد انھیں قید کیا گیا، پھر سفارتی سطح پر ایک طوفان برپہ ہوا، جب کہ ان کی رہائی کے لیے مذاکرات کی میز پر دونوں اطراف سے لے دے ہوئی، اور بالآخر وہ رہا ہوئے۔ستائیس جنوری، 2011 میں لاہور کے لیٹن روڈ پولیس تھانے میں ان کے خلاف قطبہ چوک پر دو پاکستانی شہریوں فیضان اور فہیم، کو قتل کرنے کے الزام پر پرچی کٹی۔چلتی گاڑی سے گولیاں چلائی گئیں، جس پر دو ٹریفک اہل کاروں نے مشتبہ شخص کا پیچھا کیا۔اپنی استدعا میں ریمنڈ ڈیوس نے کہا تھا کہ موٹر سائیکل سواروں نے انھیں لوٹنے کی کوشش کی، جس پر ان کا استدلال تھا کہ انھوں نے اپنے دفاع میں گولیاں چلائیں۔قتل کے معاملے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات سخت کشیدہ ہوئے۔
سی آئی اے کے جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے کہا ہے کہ اس کی رہائی میں اس وقت کے جنرل پاشا، امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی اور امریکی فارن ریلیشنز کمیٹی کے اس وقت کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ جان کیری نے اہم کردار ادا کیا تھا تاہم اس میں چند مزید لوگوں نے بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا جن میں سی آئی اے کے اس وقت کے ڈاریکٹر ، امریکی سفیر منٹر اور اس وقت کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور نواز شریف بھی شامل تھے۔دا کانٹریکٹر: میں پاکستانی جیل میں کیسے پہنچا اور کس طرح ایک سفارتی بحران برپا ہو گیا کے عنوان سے اپنی حالیہ کتاب میں ریمنڈ ڈیوس نے بہت سے حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں اور 49 دن کی قید سے رہائی تک کی داستان بیان کرتے ہوئے ان تما م پاکستانی اور امریکی بااثر افراد کے بارے میں تفصیل سے ذکر کیا ہے جنہوں نے ان کی رہائی میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔ کتاب میں ریمنڈ نے بتایا ہے کہ ان کی رہائی ایک اجتماعی کوشش کا نتیجہ تھی۔
اس کتاب میں دیگر باتوں کے علاوہ تجربہ کار امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح انہیں سیاسی شطرنج کے ایک مہرے کی طرح استعمال کیا گیا جس میں خطرات اپنی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر امریکی فوج نے پاکستان کی سرزمین پر اسامہ بن لاڈن کو مارنے کا منصوبہ نہ بنایا ہوتا تو وہ شاید اب بھی پاکستانی جیل میں سڑ رہے ہوتے۔ریمنڈ ڈیوس نے اپنے شریک مصنف سٹامز ریبیک کے ساتھ مل کر لاہور میں پیش آنے والے واقعے اور ان کی رہائی تک کے واقعات کی نہایت ڈرامائی انداز میں منظر کشی کی ہے۔ واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ وہ اپنی گاڑی میں ٹریفک میں پھنس کر رہ گئے تھے جب موٹر سائیکل پر سوار دو افراد نے گاڑی کے باہر سے ان پر پستول تان لی تھی۔ لہذا انہوں نے اپنے دفاع میں ان پر گولی چلا دی جس سے وہ دونوں افراد محمد فہیم اور فیضان حیدر موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ ریمنڈ ڈیوس کو اسی دن گرفتار کر کے ان پر 302 کا مقدمہ قائم کیا گیا۔ انہیں پہلے فوجی چھانی لیجایا گیا اور بعد میں کوٹ لکھ پت جیل منتقل کر دیا گیا۔ریمنڈ لکھتے ہیں کہ انہی دنوں ایبٹ آباد میں مقیم اسامہ بن لادن کو مارنے کا منصوبہ تیار کیا گیا اور امریکی حکام کو خدشہ تھا کہ اس واقعے کے بعد اگر ریمنڈ ڈیوس پاکستانی حراست میں رہے تو رد عمل کے طور پر انہیں ہلاک کر دیا جائے گا۔ لہذا امریکی حکومت نے ان کی رہائی کیلئے کوششیں تیز کر دیں۔ اس مقصد کیلئے امریکہ میں اس وقت کے فارن ریلیشنز کمیٹی کے چیئرمین جان کیری کو یہ ذمہ داری سونپی گئی جو امریکہ میں اس وقت کے پاکستانی سفیر حسین حقانی کے ہمراہ پاکستان پہنچے جہاں ان دونوں نے لاہور میں موجودہ وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف سے ملاقات کی جس میں حسین حقانی اور جان کیری نے ریمنڈ کی رہائی کا منصوبہ تیار کیا۔ اس سلسلے میں اس وقت کے پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور جنرل پاشا نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ یوں پاکستان کی سول اور فوجی اشرافیہ مکمل طور پر رہائی کی ان کوششوں میں شریک تھی۔اس دوران امریکی صدر اوباما نے سی آئی اے کے سربراہ کو طلب کر کے پوچھا کہ ریمنڈ کی رہائی کا کیس دو ماہ سے کیوں لٹکا ہوا ہے؟ اس کے بعد سی آئی اے کے سربراہ جارج ٹینٹ نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا کو امریکہ بلایا اورسی آئی اے کے صدر دفتر میں ملاقات کے دوران ان سے کہا، اگر ریمنڈ کو کچھ ہوا تو ہم آپ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔پاکستان واپسی کے بعد جنرل پاشا اپنی ٹیم کے ہمراہ دونوں مقتولین کے گھر گئے اور انہیں یہ کیس رفع دفع کرنے کیلئے 23 کرور روپے کی پیشکش کی۔ کہا جاتا ہے ابتدائی طور پر دونوں مقتولین کے اہل خانہ نے یہ رقم قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن ان پر شدید دبا ڈالا گیا اور بالآخر وہ قصاص اور دیت کے قانون کے تحت یہ رقم وصول کر کے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی پر آمادہ ہو گئے۔ انہیں یہ رقم فوری طور پر ادا کر دی گئی۔ یہ رقم سیکورٹی ادارے نے ادا کی تھی جسے بعد میں امریکہ نے کسی اور مد میں لوٹا دیا تھا۔اپنی رہائی کے دن کمرہ عدالت کی منظر کشی کرتے ہوئے ریمنڈ ڈیوس نے لکھا ہے کہ انہیں آخری لمحوں تک اپنی رہائی کی امید نہیں تھی اور ایک تجربہ کار جاسوس ہونے کے ناطے وہ ذہنی طور پر اس بات کیلئے تیار تھے کہ انہیں ہلاک کر دیا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ایک پنجرے میں بند کر کے کمرہ عدالت میں پہنچایا گیا اور جج کے سامنے بٹھایا گیا۔ جب وہ کمرہ عدالت میں موجود تھے تو دونوں مقتولین کے ورثا وقتا فوقتا ان کے قریب آ کر اردو میں کچھ بولتے ، جو وہ سمجھ نہیں پائے تھے۔ تاہم یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ مرد وں کا رویہ کچھ نرم تھا اور وہ انہیں معاف کرنے کے حق میں تھے جبکہ عورتیں بہت غصے میں تھیں۔کمرہ عدالت میں جنرل پاشا بھی موجود تھے جو عدالت کی تمام کارروائی کے بارے میں امریکی سفیر منٹر کو مسلسل ٹیکسٹ کر کے بتاتے رہے۔ جب جج نے کہا کہ وہ آزاد ہیں تو ریمنڈ کو یقین نہ آیا۔ پھرسیکورٹی ادارے کی ایک گاڑی میں ریمنڈ کو
جان کیری، حسین حقانی اور امریکی سفیر منٹر کے ہمراہ براہ راست ہوائی اڈے لیجایا گیا اور جہاز میں سوار کرا دیا گیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ تمام لوگ اس وقت تک شدید گھبراہٹ میں مبتلا تھے جب تک کہ جہاز پاکستانی حدود سے باہر نہیں نکل گیا۔اسی وقت سفیر منٹر نے اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کو فون کر کے حالات سے آگاہ کیا۔ ہلری کلنٹن نے خود ریمنڈ ڈیوس سے بات کرتے ہوئے کہا ، ریمنڈ! ہمیں آپ پر فخر ہے۔بعد ازاںامریکی سی آئی اے کے نجی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے دو پاکستانیوں میں سے ایک کی بیوہ اور ساس لاہور میں قتل کر دیا گیا تھا۔بظاہر اس دوہرے قتل کی وجہ وہ خطیر رقم ہو سکتی ہے جو فیضان حیدر کے امریکی قاتل کو معاف کرنے کے بدلے میں اس کی بیوہ زہرہ حیدر نے وصول کی تھی۔مقامی پولیس افسر اطہر وحید کا کہنا تھا کہ انھیں شبہ تھا کہ زہرہ اور اس کی ماں کو قتل کرنے میں اس کے باپ، شہزاد بٹ، کا ہاتھ ہے۔اس پولیس افسر کے بقول زہرہ حیدر دوبارہ شادی کرنا چاہتی تھی اور اس سلسلے میں اسے اپنی ماں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ لیکن اس کے باپ کو خدشہ تھا کہ دوسری شادی کرنے کی صورت میں بیٹی تمام دولت اپنے ساتھ لے جاتی۔شہزاد بٹ مبینہ طور پر اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ اس معاملے پر تلخ کلامی کے بعد انھیں گولیاں مار کر وہاں سے فرار ہو گیا تھا۔لاہور کی ایک عدالت نے دوہرے قتل کے الزام میں گرفتار امریکی سی آئی اے کے ساتھ کام کرنے والے ایک کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کو جب رہا کیا تھا تو اس وقت پاکستان میں امریکی سفیر کے مطابق ڈیوس کے خلاف امریکی محمکمہ انصاف نے تحقیقات کا آغاز کردیا تھا۔اس وقت امریکی سفیر کیمرون منٹرنے سفارت خانے سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا تھاکہ ریمنڈ ڈیوس کو مقتولین کے ورثا نے معاف کردیا ہے جسکے نتیجے میں ریمنڈ ڈیوس کو رہا کردیا گیا ہے۔ انہوں نے اس اقدام ہر ورثا کو شکریہ ادا کیا اور کہا کہ امریکی محمکمہ انصاف نے اس کیس سے متعلق تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں لاہور کے واقعے پر اپنے گہرے افسوس کا اظہار کیا تھا۔اس وقت صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ کو بتایا تھا کہ کوٹ لکھ پت جیل میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران ریمنڈ ڈیوس پر باضابطہ طور پر فردجرم عائد کی گئی، تاہم مقتولین کے ورثا نے عدالت کو مطلع کیا کہ انھوں نے قصاص و دیت کے تحت خون بہا وصول کر لیا ہے جس کے بعد سیشن کورٹ کے جج نے اس امریکی اہلکار کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔
ان کا کہنا تھامقتولین کے ورثا کو شرعا اور قانونا یہ حق حاصل ہے کہ وہ دیت وصول کرکے ملزم کو معاف کردیں، اس میں حکومت یا پراسی کیوٹر رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ صوبائی وزیر قانو ن نے ان اطلاعات پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا کہ رہائی پانے کے بعد ریمنڈ ڈیوس کو فوری طور پر پاکستان سے باہر بھیج دیا گیا ہے۔تاہم جیل حکام نے تصدیق کی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس رہائی پانے کے بعد امریکی قونصل خانے کے افسران کے ساتھ جیل سے جا چکا ہے۔36 سالہ ریمنڈ ڈیوس کو پولیس نے 27 جنوری کو لاہور میں اس وقت گرفتار کیا تھا جب موٹر سائیکل پر سوار دو پاکستانیوں کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے بعد وہ جائے وقوعہ سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔تحقیقات کے دوران سی آئی اے کے کنٹریکٹر ڈیوس کا کہنا تھا کہ اس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی تھی کیوں کہ مقتول مسلح تھے اور اسے لوٹنا چاہتے تھے۔ لیکن پاکستانی پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے بعد ڈیوس کے اس موقف کو مسترد کر کے ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا تھا۔امریکہ پہنچنے کے بعد ریمنڈ نے یہ جانا کہ دونوں مقتولین کے خاندانوں میں ان کی جان بخشی کیلئے بھاری رقم وصول کرنے پر بہت جھگڑا ہوا اور اس میں دو تین افراد قتل بھی ہوئے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔یاد رہے کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت اور اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی یہ کہتے آئے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔
ریمنڈ ڈیوس کا دعوی ہے کہ جنرل ریٹائرڈ شجاع پاشا ان کی رہائی کی ڈیل کامیاب بنانے میں 'واضح طور پر مصروف عمل تھے۔اپنی کتاب میں ڈیوس لکھتے ہیں کہ اصل وکیل استغاثہ اسد منظور بٹ کو تبدیل کرنے کے ذمہ دار بھی شجاع پاشا ہی تھے۔واضح رہے کہ اسد منظور بٹ یہ مقدمہ بلامعاوضہ لڑ رہے تھے۔ریمنڈ ڈیوس وضاحت کرتے ہیں کہ خون بہا کے عوض ان کی رہائی کا منصوبہ متاثرین کے اہل خانہ کے 18 افراد کی خاموشی پر منحصر تھا اور سیکورٹی ادارے کے ایجنٹس نے لواحقین پر دیت وصول کرنے کے لیے جس قدر دبا ڈالنا ضروری تھا ڈالا'۔کتاب میں مزید بیان کیا گیا ہے کہ 'پہلے وکیل استغاثہ کی مدد سے کچھ لواحقین نے اس منصوبے کی مخالفت کی کوشش کی جن میں سے ایک مقتول محمد فہیم شمشاد کا بھائی وسیم شمشاد تھا جو بعد ازاں 'کئی ہفتوں تک نظر نہیں آیا'۔اختلاف رائے کرنے والے دوسرے شخص برطانیہ سے تعلیم حاصل کرنے والے وکیل مشہود الرحمن تھے جن کا بھائی اس گاڑی کی زد میں آ کر ہلاک ہوا تھا جو ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لیے آئی تھی۔ریمنڈ ڈیوس کے مطابق مقتولین کے اہل خانہ کو بنیاد پرست اسلام پرستوں اور سخت گیر اسلامی ایجنڈے کی حمایت کرنے والے وکیل سے علیحدہ کرنے کے لیے 14 مارچ 2011 کو سیکورٹی ادارے کے کارندوں نے مداخلت کی اور تمام 18 اہل خانہ کو حراست میں لے لیا گیا۔
امریکی جاسوس نے اپنی کتاب میں مزید لکھا کہ 16 مارچ کے ٹرائل، جس میں میری قسمت کا فیصلہ ہونا تھا، سے دو روز قبل وکیل اسد منظور بٹ تمام لوحقین سے رابطہ قائم کرنے میں ناکام ہوگئے، جبکہ ان افراد کے ہمسایوں نے بھی ان کے غائب ہوجانے کی تصدیق کی۔اس ڈیل کی مخالفت کرنے والے مقتول فیضان حیدر کے کزن اعجاز احمد نے شکایت کی کہ ان کے دروازوں کو قفل لگادیئے گئے ہیں جبکہ ان افراد کے تمام فونز بھی بند کیے جاچکے ہیں۔ریمنڈ ڈیوس کا دعوی ہے کہ 16 مارچ کی کارروائی سے قبل رات کے اوقات میں سیکورٹی ادارے کے ایجنٹس متاثرین کے اہل خانہ کو کوٹ لکھپت جیل لے گئے جہاں انہیں معاہدے پر منظوری کے لیے رضامند کرنے کی کوشش کی گئی، ان افراد کو کہا گیا کہ اگر وہ ریمنڈ ڈیوس کو معاف کردیتے ہیں تو بدلے میں انہیں بھاری رقم ادا کی جائے گی۔کتاب میں لکھا ہے کہ 'اگر اہل خانہ ایسا نہیں کرتے تو عدالتی کارروائی کے دوران ان لواحقین کو عدالت کے باہر گن پوائنٹ پر رکھا گیا اور خبردار کیا گیا کہ وہ میڈیا کے سامنے زبان نہ کھولیں'۔ریمنڈ ڈیوس کے مطابق 'اگلے روز جب وکیل اسد منظوربٹ جیل آئے تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی برتا کیا گیا، اسد منظور بٹ اپنے مکلین کو نہ ہی دیکھ سکے اور نہ ان سے بات چیت کرسکے'۔امریکی جاسوس کے مطابق 'مقتولین کے عزیزوں کو جب 16 مارچ کو عدالت میں لایا گیا اس وقت ان کے چہروں پر اپنے وکیل تک رسائی حاصل نہ کرسکنے کا صدمہ اور زبردستی معاہدے کو منظور کرائے جانے کا دبا واضح تھا'۔لاہور میں اس وقت کی امریکی کونسل جنرل کارمیلا کونرے جن کا نام کتاب میں شامل کیا گیا ہے، نے محسوس کیا کہ 'خواتین اس ڈیل کو بہت مشکل سے قبول کر پائی تھیں، چند خواتین کی آنکھوں میں آنسو تھے، کچھ سسکیاں بھرتی دکھائی دے رہی تھیں'۔نئے وکیل استغاثہ راجا ارشاد نے جج کے سامنے وہ دستخط شدہ دستاویز رکھی جس کے مطابق دونوں متاثرین کے 18 قانونی ورثا کم از کم کاغذ پر ریمنڈ ڈیوس کو معاف کرنے کے لیے رضامند ہوگئے تھے۔ریمنڈ ڈیوس نے مزید لکھا ہے کہ 'اس کے بعد جج نے ورثا کو اپنی شناخت ثابت کرنے کا کہا اور ان سب کو 1 لاکھ 30 ہزار ڈالر ادا کرتے گئے جو پاکستان میں خون بہا کی مد میں دی جانے والی سب سے بھاری رقم تھی'۔تمام لواحقین کی جانب سے کاغذات پر دستخط کے بعد جج نے ان سے سوال کیا کہ کیا انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا کیا گیا، جس پر سب کا جواب نہ میں تھا۔جج نے وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی دونوں کو یاددہانی کرائی کہ وہ اختلاف کا حق محفوظ رکھتے ہیں تاہم دونوں نے ایسا نہیں کیا۔ریمنڈ ڈیوس اپنی شناخت سی آئی اے کنٹریکٹر کے بجائے ملٹری کنٹریکٹر کے طور کرتے ہیں جس نے امریکا اور اس کے آئین کے تحفظ کا عہد کر رکھا تھا۔ریمنڈ کے مطابق پاکستان آنے سے قبل وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے پہلی انتخابی مہم کے دوران سابق افغان صدر حامد کرزئی کو سیکیورٹی فراہم کی۔ایک مقام پر ریمنڈ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جن دو افراد کو انہوں نے گولی ماری وہ ڈکیٹ تھے اور مختلف الزامات میں 50 دفعہ گرفتار ہوچکے تھے جبکہ قتل کے وقت بھی ان کے پاس چوری شدہ موبائل فونز اور غیرلائسنس شدہ گنز موجود تھیں۔امریکی جاسوس کے مطابق 27 جنوری 2011 کے روز، جب انہوں نے ان دو افراد کو قتل کیا، وہ کسی مخصوص مشن پر نہیں تھے بلکہ وہ اپنے کمپاونڈ سے سفید گاڑی میں اس راستے کا سروے کرنے نکلے تھے جس پر تین دن بعد انہیں سفر کرنا تھا، ان کی اصل نوکری شہر میں موجود امریکی سیاحوں کو تحفظ فراہم کرنا اور لاہور قونصل خانے کے سفرا اور امریکی حکام کو سیکیورٹی فراہم کرنا تھی۔ڈیوس کا یہ بھی کہنا تھا کہ تین روز بعد جن افراد کو انہیں سیکیورٹی فراہم کرنا تھی وہ ایک خفیہ مشن پر تھے اور تفتیش کے دوران بھی انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ ان افراد کے نام یا لاہور آنے کا مقصد بیان نہ کریں۔اے پی ایس