نواز شریف کا مستعفی ہونے سے انکار۔ چودھری احسن پریمی




ایک جمہوری نظام ضروری ہے ۔قانون شکن مداخلت مستقل طور پر بند ہونا لازمی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سول قیادت ایک منتخب آمریت میں بدل جائے۔ جبکہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد پہلے کابینہ اجلاس میں مستعفی ہونے سے انکار کردیا ہے۔اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے دوران وزیر اعظم نواز شریف نے وفاقی کابینہ کو پاناما اور جے آئی ٹی کی رپورٹ پر اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ الزامات، بہتان اور مفروضوں کا مجموعہ ہے۔انھوں نے استعفے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ نواز نے انتخابات میں ان تمام جماعتوں کے مجموعی ووٹوں سے زیادہ ووٹ لیے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ سازشی ٹولے کے کہنے پر استعفی نہیں دیں گے کیونکہ انھیں پاکستان کی عوام نے منتخب کیا ہے اور عوام ہی انھیں عہدے سے ہٹا سکتی ہے۔کابینہ اجلاس میں وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ وہ کسی کے کہنے پر مستعفی نہیں ہوں گے۔ کابینہ نے ان کے مستعفی نہ ہونے کے فیصلے کی توثیق کی۔وزیر اعظم نے مزید کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں جتنے بھی الزامات لگائے گئے ہیں وہ ان کے خاندانی کاروبار سے متعلق ہیں اور ان کے خاندان نے سیاست میں آنے کے بعد کچھ نہیں کمایا بلکہ کھویا بہت کچھ ہے۔انہوں نے دہرایا کہ ملک میں اربوں اور کھربوں کے منصوبے چلا رہے ہیں مگر کسی میں بھی کرپشن سامنے نہیں آئی۔
جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ قانون کچھ بھی اجازت دیتا ہو مگر وزیرِ اعظم نواز شریف کو جمہوریت کی خاطر درست فیصلہ کرتے ہوئے بھلے ہی عارضی طور پر سہی، مگر عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کا اب ماہرین، سیاستدانوں اور شہریوں، سب نے اچھی طرح مطالعہ کر لیا ہے۔ یہ رپورٹ 'کامل' تو نہیں ہے اور پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی اس پر اہم اعتراضات اٹھا دیے ہیں جن پر سپریم کورٹ کو بالآخر توجہ دینی پڑے گی۔مگر جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف کافی سنگین اور براہِ راست الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ کسی بھی جمہوری نظام میں اس قدر شکوک و شبہات کی زد میں موجود شخص کو وزارتِ عظمی پر نہیں ہونا چاہیے۔مسلم لیگ ن شاید نواز شریف کو عہدے پر رہنے کے لیے مجبور کرے، اور نواز شریف شاید لڑائی جاری رکھنے کو ترجیح دیں، مگر اس کا جمہوریت کو بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔ وزیرِ اعظم کے پاس ایک واضح متبادل آپشن موجود ہے: عہدہ چھوڑ دیں، اپنے خلاف یا اپنے بچوں کے خلاف عدالت میں تمام الزامات کو غلط ثابت کریں، اور اگر انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا جاتا ہے، تو وہ قانون کے مطابق عہدے پر واپس آ جائیں۔یہ بات بھی اہم ہے کہ عہدہ چھوڑ دینے کا مطلب خود کو مجرم تسلیم کرنا نہیں ہوگا۔ اس کے بجائے یہ جمہوری نظام کے تحفظ اور اس کی مضبوطی کے لیے ایک ضروری قربانی ہوگی۔ ایسا وزیرِ اعظم، جو کہ عدالتوں میں کرپشن کے مقدمات میں الجھا ہوا ہو، اس کی نہ تو ملک کو ضرورت ہے، اور نہ ہی ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ، اب چوں کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ عوام میں جاری کی جا چکی ہے، تو مسلم لیگ ن کے اس بنیادی الزام، کہ پاناما پیپرز صرف ان کے خلاف سازش ہے، میں زیادہ دم نہیں رہا ہے۔ غیر جمہوری قوتیں اب بھی ملک میں ہوں گی، اور شاید وہ نواز شریف کا برا چاہتی ہوں، مگر کسی نے بھی نواز شریف اور ان کے خاندان کو اپنے دفاع میں جے آئی ٹی کے سامنے ثبوت پیش کرنے سے نہیں روکا۔جے آئی ٹی نے اپنی تمام تحقیقات اس وقت کیں جب سیاسی بساط شریف خاندان اور ملک کے سامنے پوری طرح واضح تھی۔ شریف خاندان کو تحقیقات کی معقولیت کو یقینی بنانے کے لیے ثبوت اور وضاحتیں پیش کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تھی۔ مگر جیسا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں لکھا گیا ہے، شریف خاندان ایسا نہیں کر سکا ہے۔
وزیرِ اعظم کے لیے ایک دوسرا آپشن قبل از وقت انتخابات کا ہے۔ اگر وزیرِ اعظم کا مقدمہ قومی احتساب بیورو نیب میں بھیجا جاتا ہے، تو نگراں حکومت کی موجودگی نیب پر سیاسی دبا کے تاثر کو زائل کر دے گی۔ اور ایک شفاف مگر تیز تر احتساب وزیرِ اعظم نواز شریف کو اپنے اور اپنے بچوں پر چھائے ہوئے شکوک و شبہات کے کالے بادلوں کے بغیر اگلے انتخابات لڑنے کا موقع دے گا۔وزیرِ اعظم نواز شریف چاہے جس بھی آپشن کا انتخاب کریں، یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ چیزوں کا ایسے ہی چلتے رہنا کوئی آپشن نہیں ہے۔ دنیا کا کوئی بھی جمہوری نظام کرپشن کے مقدمات میں مصروف وزیرِ اعظم کا مستحق اور متحمل نہیں ہو سکتا۔نواز شریف کو نظام کی شفافیت پر شکوک ہوں گے، مگر نظام کو بھی ان پر شکوک ہیں۔ اور نظام کو شخصیت پر فوقیت ہونی چاہیے۔
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی زیر اقتدار وزیر اعظم کے لیے اب سے زیادہ بدتر الزامات اور کیا ہوں گے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ نے شریف خاندان پر جھوٹے بیانات اور جعلی دستاویزات سے لے کر اپنی ذرائع آمدنی اور مالی وسائل چھپانے اور اپنے وسائل سے بڑھ کر طرز زندگی گزارنے تک کئی الزامات عائد کیے ہیں۔متوقع طور پر، نواز شریف جھکنے کو تیار نظر نہیں آتے اور آخری دم تک لڑنے کے لیے پر عزم ہیں۔ اب یہ تو سپریم کورٹ پر ہے کہ وہ ان کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتی ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ اس کیس کو ختم ہونے میں ابھی اور کتنا وقت لگے گا۔ لیکن یہ بات تو یقینی ہے کہ اس کا انجام کافی مشکلوں سے بھرپور ہوگا. ممکن ہے کہ تیسری بار وزیر اعظم بننے والے کو عدالت اقتدار سے ہٹا کر ان کے خلاف فوجداری مقدمہ چلائے۔ ملک میں جنم لینے والی قانونی کشمکش شاید کافی عرصہ اور چلے جو ملک میں موجود سیاسی تقسیم کو مزید تقسیم کرنے کا باعث بھی بنے گی۔ اس تاریخی عدالتی کارروائی کا نتیجہ سیاسی منظرنامے کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دے گا اور ہوسکتا ہے کہ یہ شریف دور کے اختتام کی شروعات بھی ہو۔نواز شریف کو دوسرا جھٹکا یہ لگا ہے کہ جے آئی ٹی نے ان کی بیٹی مریم نواز، جو بظاہر کافی عرصے سے ان کی جانشین کے طور پر نظر آ رہی ہیں، پر جھوٹی دستاویزات جمع کروانے کا الزام عائد کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یوں اقتدار کو دوسری نسل میں منتقل کرنے کا شریف خاندان کا منصوبہ بھی ناکام ہو گیا ہو۔ یہ تو ظاہر نظر آ رہا ہے کہ شریف خاندان کے بیرونی اثاثوں پر ایسی مفصل تحقیقات نے خود وزیر اعظم کو اچنبھے میں ڈال دیا ہے۔
اگرچہ حکومت بالآخر تحقیقات کی سنجیدگی بھانپ چکی ہے مگر پھر بھی پراعتماد دکھائی دیتی ہے کہ وزیر اعظم اس مشکل صورتحال سے جیسے تیسے نکل ہی آئیں گے۔ 10 جولائی کو جے آئی ٹی رپورٹ کی سپریم کورٹ کو سپردگی سے چند گھنٹے قبل ایک قومی اخبار نے خبر شائع کی، جس کی شہہ سرخی تھی کہ تحقیقات میں وزیر اعظم مجرم قرار نہیں پائے گئے، دراصل انہوں نے حکومت کے غلط اندازوں کو پیش کیا تھا۔ حکومت قطعی طور پر اس قدر سنجیدہ الزامات کی توقع نہیں کر رہی تھی، جن کی وجہ سے ملک کے سب سے طاقتور سیاسی رہنما کو سیاسی اور اخلاقی طور پر نقصان پہنچا ہے۔مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے ممبران، جن میں کئی ممبران کے پاس وائٹ کالر جرائم کی تحقیقات کا کوئی خاص تجربہ بھی نہیں تھا، پر مشتمل ایک چھوٹی ٹیم کا قریب تین دہائیوں میں ہونے والے پیچیدہ مالی معاہدوں کی صرف 60 دنوں میں ایسی جامع تحقیقات کرنا کافی متاثر کن ہے۔ حکومت کے ماتحت مالی اداروں سے موجودہ وزیر اعظم کے خلاف معلومات جمع کرنا اور ان کی تصدیق کرنا، وہ بھی ایسے ملک میں جہاں امیر اور طاقتور قانون سے بری ہو جاتے ہیں، ہر لحاظ سے ایک نہایت ہی کٹھن کام ہے۔یقینا ملک کی اعلی عدلیہ کی سرپرستی نے بھی ایک اہم کردار کیا ہوگا۔ مگر اس قسم کی تحقیقات فوجی انٹیلیجنس اداروں کے جے آئی ٹی میں شامل نمائندوں کے اثر کے بغیر ممکن نہ ہو پاتیں۔ قابل فہم طور پر ان کی شمولیت نے کئی لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں سازشی نظریات بھی پیش کیے جانے لگے کہ پاناما اسکینڈل کی تحقیقات کے پیچھے فوجی اسٹیبلشمنٹ سرگرم ہو کر کام کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ ایف آئی اے شریف خاندان کی کمپنیوں کے ریکارڈز میں ہیرا پھیری کرنے پر پاکستان کے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے چیئرمین کو پکڑنے کی بھی جرات پیدا کر سکی۔ہمارے تحقیقاتی
اداروں کی اہلیت اور مہارت کے پست معیار کو دیکھیں تو جس طرح جے آئی ٹی کا ایک بڑا حصہ شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کے ذریعے پیسوں کی برسوں تک بیرون ملک منتقلی کے حوالے سے تحقیقات میں مصروف عمل رہا وہ واقعی ایک غیر معمولی بات ہے۔ یقینا، اس معاملے پر قریب دو دہائیوں قبل ایف آئی اے کی تحقیقات نے چند اہم سراغ فراہم کیے مگر جے آئی ٹی کی تحقیقات تمام اہم نکات کو چند ٹھوس شواہد کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
یہ کام باہمی قانونی تعاون کے معاہدے کے تحت چند ممالک، بشمول برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کے موثر تعاون کی وجہ سے ہی ممکن ہو پایا۔ جس کے تحت تحقیق کاروں کو اہم معلومات تک رسائی حاصل کرنے میں مدد ملی جس نے یہ ثابت کیا کہ آف شور کمپنیاں مریم نواز کی ملکیت ہیں، حالانکہ شریف خاندان بارہا اس بات کی تردید کر چکا ہے۔
بلاشبہ، آف شور کمپنیوں، غیر ملکی بینکوں، اور شریف خاندان کے درمیان رابطوں کے ریکارڈ کی مدد سے اہم نکات حاصل ہوئے ہیں۔ اس تعاون کی تفصیلات بظاہر جے آئی ٹی رپورٹ کے دسویں والیوم میں درج ہیں جسے عوامی سطح پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ جے آئی ٹی نے دستاویزات کے اصلی یا نقلی ہونے کی فارینسک تصدیق کے لیے چند غیر ملکی تحقیقاتی اداروں کی خدمات بھی حاصل کیں۔ ایسی ماہرانہ سہولت ہمارے وطن میں میسر ہی نہ تھی۔
جے آئی ٹی کے ٹھوس شواہد کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے لیے اس مشکل صورتحال سے نکلنا کافی مشکل ہوگا۔ شاید وہ یہ امید باندھے بیٹھے ہوں کہ ایک طویل قانونی اور سیاسی جنگ سے
صورتحال پر قابو پا لیا جائے گا۔ وزیر اعظم کا رضا کارانہ طور پر اقتدار سے دستبرداری کا کوئی اندیشہ نہیں، جس وجہ سے ملک کے اندر سیاسی غیر یقینی بھی بڑھ گئی ہے۔سو پاناما پیپرز کی وجہ سے شروع ہونے والے اس بحران کو ایک برس گزر جانے کے بعد بھی اس کے جلد اختتام کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ اگر حکومت معاملے کی پارلیمانی تحقیقات کرنے پر راضی ہو جاتی تو یہ معاملہ کب کا حل ہو گیا ہوتا۔ ان کے غرور و تکبر کی وجہ سے بالآخر اعلی عدالت کو مداخلت کرنی پڑی۔
رواں سال اپریل میں پانچ رکنی بینچ کے حکم نامے کے بعد سے نواز شریف کی قسمت کا فیصلہ بیچ میں اٹکا ہوا ہے۔ اگرچہ وہ نااہل ہوتے ہوتے بچ گئے تھے مگر جے آئی ٹی کی تشکیل نے واضح کر دیا کہ ان پر سے خطرہ ابھی ٹلا نہیں۔ دلچسپ طور پر، کئی سیاسی رہنماں کی جانب سے دائر کردہ پٹیشنز سے بھی بڑھ کر جے آئی ٹی کو تحقیقات کے اختیارات دیے گئے۔اگرچہ وہ نافرمان ثابت ہو رہے ہیں، مگر نواز شریف کے پاس اب آپشنز بھی بہت کم بچے ہیں۔ وہ عدالت کے حکم سنانے تک وزیر اعظم کے عہدے پر تو فائز رہ سکتے ہیں مگر وہ سیاسی اور اخلاقی اختیار بہت پہلے ہی گنوا چکے ہیں۔ کسی قسم کا تنازع نہ صرف حکومت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا بلکہ یہ سیاسی عمل کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا۔ سنگین داخلی اور خارجی مسائل سے نبردآزما ہمارا ملک سیاسی عدم اعتماد اور عدم استحکام کی بگڑتی صورتحال اب مزید برداشت نہیں کر سکتا۔
مسلم لیگ ن ایک نیا رہنما چن کر اب بھی اپنا اقتدار قائم رکھ سکتی ہے اور اپنے پانچ سال مکمل کر سکتی ہے جبکہ چند ماہ دور اگلے انتخابات کی تیاری شروع کر دے۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کی مدد سے سیاسی عدم اعتماد کی فضا ختم کی جاسکتی ہے۔
جمہوریت ذاتی طاقت کا نام نہیں ہے بلکہ سب سے زیادہ اہم جمہوری عمل کا تسلسل قائم رکھنا ہے۔ ایک داغدار رہنما ملک میں نہ تو استحکام پیدا کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنی پارٹی کو انتخابات میں کامیابی دلوا سکتا ہے۔
فیصلے میں تاخیر سے وہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے اقتدار میں لوٹنے کے مواقع کھو دیں گے۔ وزیر اعظم کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اب ایک بند گلی میں کھڑے ہیں۔
پارلیمنٹ میں موجود حزب مخالف کی دو بڑی جماعتوں نے پاناما لیکس سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد وزیراعظم نواز شریف سے جمہوریت کے تسلسل کے لیے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ مطالبہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور حزب مخالف کی دوسری جماعت پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی کی طرف سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران کیا گیا ہے۔
سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو میاں نواز شریف سے خطرہ ہے۔ ریاستیں اداروں سے چلتی ہیں شخصیات سے نہیں۔انھوں نے مختلف وزرا کی طرف سے ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح سے دنیا بھر میں ملک کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ سید خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ان کے کانوں میں آج بھی میاں نواز شریف کے وہ الفاظ گونج رہے ہیں جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر اس معاملے کی تحقیقات میں ان پر الزام ثابت ہوا تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔دوسری جانب شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ان کی جماعت کے خدشات درست ثابت ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس رپورٹ کے بعد میاں نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے پر رہنے کا اپنا اخلاقی اور سیاسی حق کھو چکے ہیں لہذا انھیں فوری طور پر مستعفی ہو جانا چاہیے۔شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی کے سپیکر سے مطالبہ کیا کہ وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد میاں نواز شریف کی نااہلی کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجیں۔انھوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف حزب مخالف کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت کو ٹف ٹائم دے گی۔ادھر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے سینیٹ کا اجلاس طلب کرنے کے بعد درخواست سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کروادی ہے جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کے لیے جلد ہی درخواست قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروائی جائے گی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا یہی کہنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ نے وزیر اعظم نواز شریف کے لیے قومی اسمبلی میں ان کی جماعت کی اکثریت اور پنجاب میں حکومت کے باوجود وزارت عظمی کے عہدے پر فائز رہنے کے لیے پوزیشن کمزور کردی ہے اور ان کے آپشنز مسلسل محدود ہوتے جارہے ہیں۔نواز شریف کے پاس اب یہی آپشنز ہیں کہ وہ یا تو وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑ کر چارجز کا سامنا کریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں۔
جے آئی ٹی کے نقصان دہ الزام نے نواز شریف کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ ان کا انکار بحران کو مزید بڑھائے گا اور جیسا کہ ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں، اس سے پورا سیاسی نظام بھی پٹڑی سے اتر سکتا ہے۔وہ اپنی جگہ کسی اور کو وزیر اعظم مقرر کرکے اب بھی اپنی پارٹی کی حکومت کو بچا سکتے ہیں۔ اس طرح موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرلے گی اور آئندہ سال عام انتخابات میں حصہ لے گی۔اس طرح موجودہ حکومت کے لیے آئندہ انتخابات میں دوبارہ منتخب ہونے کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔ ان کی جماعت اب بھی ملک کی سب سے بڑی اور پنجاب کی طاقتور پارٹی ہے اور نئی قیادت کے تحت، جو ممکنہ طور پر ان کے بھائی شہباز شریف بھی ہوسکتے ہیں، آئندہ انتخابات میں دوبارہ حکومت میں آسکتی ہے۔ لیکن تنازعات کی سیاست ان کی پارٹی کو تباہ کر سکتی ہے اور آئندہ انتخابات میں اس کی کامیابی کے امکانات بھی معدوم ہوسکتے ہیں۔جبکہ ایک یہ بھی رائے ہے کہ نواز شریف رسی سے جھول رہے ہیں۔ ان کے آپشنز سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے میں سامنے آئیں گے۔ اگر سپریم کورٹ انہیں نااہل قرار دے دیتی ہے تو انہیں فوری طور پر پارٹی کے اندر سے اپنا جانشین تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی اور پھر وہ اپنا کیس عوام کی عدالت میں لے جائیں۔
اگر سپریم کورٹ نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیتی ہے تو نواز شریف استعفی نہیں دیں گے اور کیس کو ممکنہ طور پر آئندہ انتخابات تک طول دینے کی کوشش کریں گے۔ جو لوگ انہیں جانتے ہیں وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ ضدی ہیں اور لڑیں گے کیونکہ بیرون ملک جانا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔تاہم ان کی بیٹی مریم نواز ان کی کمزوری ثابت ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ جے آئی ٹی کہہ رہی ہے کہ مریم نواز نے سپریم کورٹ میں جھوٹے اور جعلی دستاویزات جمع کرائیں جس پر انہیں کرمنل چارجز کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسی صورت میں ان لوگوں کو جو مریم نواز کا اخراج چاہ رہے ہیں انہیں اس کا فائدہ ہوگا۔اے پی ایس