جمہوریت اور قانون کی حکمرانی۔ چودھری احسن پریمی


جمہوریت بارے بعض کا خیال ہے کہ جمہوریت انفرادی جہالت کی اجتماعی حکمت میں ایک دلکش عقیدہ ہے.جمہوریت آزادی نہیں ہے۔ بلکہ جمہوریت دو بھیڑیوں اور ایک میمنی کا انتخاب ہے جو دوپہر کا کھانا  کھانے کیلئے ہے۔تاہم آزادی کچھ حقوق کو تسلیم کرنے سے آتی ہے یہ وہ چیز نہیں جو ٩٩ فیصد ووٹ کے ذریعے، نہیں لی جا سکتی ہے جبکہ جمہوریت بارے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جمہوریت قانون کے حکمرانی کے بغیر ایک افراتفری ہے ۔جمہوریت کو استحکام دینے کیلئے ضروری ہے  کہ ہمیں قانون کی حکمرانی کا احترام  سیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اگرچہ، جمہوریت کے خلاف سب سے بہترین دلیل اوسط ووٹر کے ساتھ پانچ منٹ کی بات چیت ہے. تاہم، اگر ہم امن کا ایک معاشرہ چاہتے ہیں، تو ہم تشدد کے ذریعے ایسے معاشرے کو حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔اگر ہم کسی امتیازی سلوک کے بغیر معاشرے کی خواہش رکھتے ہیں، تو ہمیں اس معاشرے کی تعمیر کے عمل میں کسی کے خلاف متضاد نہیں ہونا چاہئے اگر ہم ایک ایسے معاشرے کی خواہش رکھتے ہیں جو جمہوری ہے تو پھر جمہوریت کو ایک ذریعہ بننا چاہیے۔جمہوریت کو کھلے معاشروں کا ذریعہ بنایا جانا چاہئے جو معلومات کا اشتراک کریں. جب معلومات موجود ہے، تو روشنی ہے. جب بحث ہوتی ہے، وہاں حل ہوتے ہیں. جب اقتدار کا کوئی حصہ نہیں ہے، کوئی احتساب یاقانون کا کوئی قاعدہ نہیں، وہاں بدعنوان، فساد، ذلت اور غصہ ہے. جمہوریت صرف آئین اور قانون سازی کا نام نہیں ہے؛ بلکہ یہ ایک ثقافت اور عمل ہے اور قانون کی تعمیل اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کا احترام کرنے کا نام بھی ہے
 جبکہ سینیٹ میں بھی پاناما کیس پر سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے سینیٹرز نے ایک بار پھر وزیرِاعظم نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔ سینیٹ میں سینیٹر تاج حیدر نے پاناما کیس پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ اور قومی اداروں بشمول سپریم کورٹ آف پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا اور بد نیتی پر مبنی حملے کی تحاریک پیش کیں۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مسلم لیگ ن کے سینٹرز کو مخاطب کر کے کہا کہ 'میں اپنی ذاتی حیثیت میں مشورہ دے رہا ہوں کہ وزیرِ اعظم نواز شریف پر سنگین الزامات لگ گئے ہیں اور وہ اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ 'آپ کے استعفی دینے سے جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔جواب میں ن لیگ کے سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا کہ 'ڈاکٹر عاصم کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی نے کہا کہ 443 ارب روپے کا فراڈ کیا گیا ہے لیکن آپ نے ان سے استعفے کا مطالبہ کرنے کی بجائے انھیں کراچی میں جماعت کا صدر مقرر کردیا۔انھوں نے کہا کہ 'پاناما پیپرز میں وزیرِاعظم نواز شریف کا نام نہیں ہے لیکن پیپلز پارٹی کے ارکان کا نام شامل ہے۔سینیٹر غوث محمد خان نیازی نے اس موقع پر کہا کہ 'جو لوگ وزیرِ اعظم نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کررہے ہیں ان کے قول و فعل میں تضاد ہے کیونکہ جب آصف علی زرداری پر الزامات تھے تو انھیں صدارت چھوڑنے کا مشورہ نہیں دیا گیا۔ایوان میں جہاں حزبِ اختلاف کے بیشتر اراکین نے پاناما کیس پر جے آئی ٹی کی خدمات کو سراہا وہیں مسلم لیگ ن کے سینیٹرز کا مقف تھا کہ جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔مسلم لیگ ن سے ساجد میر نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو ٹارگٹڈ آپریشن قرار دیتے ہوئے کہا کہ'جے آئی ٹی میں بعض دستاویزات غیر تصدیق شدہ اور بعض نتائج شواہد کے بغیر پیش کئے گئے۔انھوں نے سوال کیا کہ کیا یہ لوگ اتنے ذہین و عقل مند تھے یا انھیں بنی بنائی رپورٹس مل گئیں۔ وہ رپورٹس جو مشرف دور میں تیار کی گئیں تھیں؟
اس کے جواب میں سینٹ میں حزبِ اختلاف کے رہنما اعتزاز احسن نے کہا کہ'تحقیقات کے لیے 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے 13 سوال دیے تھے۔ کیا وہ بھی 10 سال پہلے بنائے گئے تھے؟'
تاہم سینیٹر مشاہد اللہ نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو 80 فیصد ذرائع پر مبنی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ 'جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا نے دستاویزات نکلوانے کے لیے لندن میں اپنے کزن کی کمپنی کی مدد لی اور انھیں 49 ہزار پاونڈز ادا کیے۔ اس سے بڑی کرپشن کیا ہوسکتی ہے۔
سینیٹر پرویز رشید نے جذباتی انداز میں خطاب کرتے ہوئے ایوان سے سوال کیا کہ 'پاکستان میں ون یونٹ کا قیام زیادہ تباہی کا سبب بنی یا کسی سیاست دان کی بدعنوانی؟'
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ'وزیرِ اعظم نے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا تھا کہ میرا احتساب کریں۔ پھر کیوں نہ ہوا؟ جو کام پارلیمان نے کرنا تھا وہ ہم نہ کرواسکے۔'سیاست دان ایک دوسرے کو ذلیل کررہے ہیں اور لگتا ہے کہ کوئی طاقت ایسی ہے جو چاہتی ہے کہ ایسا ہو تاکہ عوام کا اعتبار سیاست دانوں سے اٹھ جائے۔ جبکہ پاناما لیکس کے مقدمے کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا ہے کہ اگر نواز شریف کے بچے لندن فلیٹس خریدنے کے ذرائع ثابت کردیں تو بچے اور باقی سب بری الذمہ ہو جائیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو اس کا اثر عوامی عہدہ رکھنے والوں پر بھی ہوگا۔جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا کہ عدالت اپنے بنیادی سوال پر ہے کہ ان فلیٹوں کی خریداری کے لیے پیسہ کہاں سے آیا تھا۔ وزیر اعظم کے بچوں جن میں مریم نواز، حسین نواز اور حسن نواز شامل ہیں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے موکلین نے ایسا کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔انھوں نے کہا کہ ان کے موکل حسین نواز نے یہ فلیٹس 2006 میں خریدے تھے۔ اس پر بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے بچوں پر الزام ہے کہ جب لندن میں یہ فلیٹس خریدے گئے تو اس وقت ان کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں تھی۔ انھوں نے کہا کہ درخواست گزار کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم سے پوچھا جائے کہ پیسہ کہاں سے آیا ہے۔بینچ میں موجود جسٹس عظمت سعید نے وزیر اعظم نواز شریف کا نام لیے بغیر کہا کہ 'لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم پر الزام کیا ہے'۔ انھوں نے کہا کہ ہر کوئی اپنے مطلب کی بات نکالتا ہے۔سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی تحقیقات غیر جانبداری سے نہیں کیں اور اس میں تعصب کا عنصر پایا جاتا ہے لہذا اس معاملے کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ اس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا وہ یہ معاملہ ٹرائل کورٹ میں بھیجنا چاہتے ہیں جس پر وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل نے کہا کہ ان کا کہنے کا مقصد جامع تحقیقات ہیں۔جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کے بچوں کی طرف سے جو ٹرسٹ ڈیڈ پیش کی گئی اس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق جو کیلبری فونٹ استعمال ہوا وہ جعلی ہے اور قانون کے مطابق کاغذات میں ردوبدل کی سزا سات سال قید ہے۔عدالت نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ قطری شہزادے کو جو ان کا سٹار گواہ تھا، جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیوں نہیں کیا گیا جس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ حمد بن جاسم نے جے آئی ٹی کے ارکان کو قطر آنے کی دعوت دی تھی۔ انھوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کا انٹرویو کرنے کی بجائے خود ہی نتیجہ اخذ کرلیا۔بینچ میں موجود جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قطری شہزادے کو پیش کرنا شریف فیملی کی ذمہ داری تھی۔جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بعض غیر ملکیوں کو پاکستان کا ویزہ حاصل کرنے میں استثنی ہے اور وہ صرف تلور کے شکار کے لیے پاکستان آجاتے ہیں لیکن جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہوتے۔سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اور ان کے بچوں نے کوئی 'رانگ ڈوئنگ' نہیں کی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 'رائٹ ڈوئنگ' کے ثبوت تو فراہم نہیں کیے گئے۔عدالت کے پوچھنے پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وزیر اعظم دبئی میں قائم ایف زیڈ ای کمپنی کے چیئرمین تھے لیکن انھوں نے کوئی تنخواہ وصول نہیں کی۔ اس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر تنخواہ نہیں بھی لی تو پھر بھی انھیں اثاثوں میں تو ظاہر کرنا ضروری ہوتا ہے۔
 جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو نواز شریف کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں چند دن یا چند ہفتے لگ سکتے ہیں، مگر پاناما پیپرز اسکینڈل پر ہونے والی اس طویل، قانونی جنگ نے ملک میں جمہوری سیاست کے ارتقا پر واضح نقوش چھوڑے ہیں۔اس کے علاوہ اس نے ایک جمہوری سیاست کی نشونما میں موجود مشکلات کو بھی آشکار کر دیا ہے۔ایسے وقت میں جب حکمراں جماعت اور حزبِ اختلاف کمرہِ عدالت کے اندر اور باہر اور ٹی وی ٹاک شوز میں آپس میں الجھے ہوئے نظر آتے ہیں، تو اس دوران پارلیمنٹ بالکل غیر ضروری محسوس ہو رہی ہے۔
یقینی طور پر، اگر قائدِ ایوان نواز شریف کے گرد گھومنے والے مسائل کے حل کے لیے قانون سازوں نے اپنا کردار ادا کیا ہوتا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکمراں اشرافیہ کے اثر و رسوخ کے بغیر آزادانہ طور پر کام کرنے دیا گیا ہوتا تو اعلی عدلیہ کو اس معاملے میں مداخلت کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔مقدمے میں اختلافی فیصلے کی وجہ سے ججوں کو وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف مالی بدعنوانی کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جے آئی ٹی کی تشکیل کی ضرورت محسوس ہوئی۔ ہمارے ملک کی قانونی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ جس میں سپریم کورٹ ملک کے سب سے بڑے سیاستدان کے خلاف اس طرح کا ایکشن لے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کئی حلقوں نے اسے ایک مثبت قدم قرار دیا کہ احتساب سے بالاتر لوگوں کو احتساب کے کٹہرے میں لایا گیا، مگر حکومتی وفاداروں کے نزدیک ان کے محبوب رہنما کے خلاف 'قوم کی بے لوث خدمت' کرنے پر 'عالمی سازش' کی جا رہی ہے۔ کابینہ ارکان بار بار یہ جملہ دہراتے ہیں کہ 'پہلے ان کی حکومت کو ایٹمی دھماکے کرنے پر ختم کر دیا گیا، اور اب انہیں سی پیک شروع کرنے پر سزا دی جا رہی ہے۔' اور اب جب سپریم کورٹ اس کیس کو انجام تک پہنچانے کے قریب ہے، تو چیزیں مزید پریشان کن ہوتی جا رہی ہیں۔
بعض کی جانب سے ایک اور سازشی مفروضہ یہ پیش کیا گیا کہ عدالتی اقدامات ملکی جمہوری نظام کو ڈی ریل کرنے کی سازش ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ جج صاحبان اور فوج کے درمیان اتحاد ہے۔ اس مفروضے کی حمایت میں ماضی سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، مگر ایسا کرتے ہوئے یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ وہ تمام مثالیں فوجی دورِ حکومت کی ہیں۔ان لوگوں کے مطابق سیکیورٹی ادارے جج صاحبان کو 'ڈکٹیشن' دے رہے ہیں۔ 'جمہوریت خطرے میں ہے' کی گردان، چیزوں کو چلتے رہنے دینے کے لیے اکثر کام آتی ہے۔ کچھ لوگوں کو تو جلد ہی شارعِ دستور پر ٹینک چلتے ہوئے بھی نظر آ رہے ہیں۔مگر یہ کہنا کہ عدالت نے فوج کے کہنے پر ایکشن لیا ہے، اس سازشی مفروضے کو خوامخواہ بہت دور تک دھکیلنے والی بات ہے۔ یہ مفروضہ پیش کرنے والے لوگ اس سوال کو گول کر جاتے ہیں کہ پاناما لیکس پر انکوائری تک بات کیوں نہیں پہنچنی چاہیے تھی۔ ملک کے اعلی ترین عوامی عہدے پر فائز شخص کو کسی بھی شخص سے زیادہ قابلِ احتساب ہونا چاہیے۔ نواز شریف کے پاس اس مسئلے پر پارلیمنٹ سے کلین چٹ حاصل کرنے کا موقع تھا، مگر ان کے خاندان اور ان کے بیانات میں تضادات کی وجہ سے وہ اس صورتحال تک پہنچے۔
مگر پھر بھی نواز شریف کے پاس پانچ رکنی بینچ اور پھر جے آئی ٹی میں خود کے دفاع کا موقع تھا۔ اب کیس واپس تین رکنی بینچ کے سامنے ہے اور ان کے پاس ایک اور لائف لائن موجود ہے۔ اس لیے ایک طاقتور وزیرِ اعظم کے خلاف سازش اور انہیں پھنسانے کا الزام کافی مضحکہ خیز ہے۔ مظلومیت کا کارڈ شریف خاندان کو کچھ ہمدردی دلوا سکتا ہے مگر عدالت کے سامنے یہ کارڈ نواز شریف کے کچھ کام نہیں آئے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں احتساب کو سیاسی مخالفین کو پھنسانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ فوجی حکمرانوں نے احتساب کا نعرہ لگا کر منتخب سیاسی حکومتوں کو گرایا اور سیاسی رہنماں کو اطاعت پر مجبور کیا۔سب نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کس طرح نیب قوانین کو جنرل مشرف کی حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ جن لوگوں پر کرپشن کے سنگین الزامات عائد تھے، انہیں حکومت کے ساتھ وفاداری کا اعلان کرنے پر کابینہ میں لے لیا گیا۔ چنانچہ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ احتساب ایک خراب لفظ بن گیا۔مگر وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف جاری پاناما لیکس کی حالیہ تحقیقات کو ماضی کے ہتھکنڈوں کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ درحقیقت عدالت تو سیاسی قیادت کو احتساب کا مرحلہ مزید شفاف اور معقول بنانے، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اختیار دے کر تحقیقات مضبوط کرنے کا موقع دے رہی ہے۔ جمہوری نظام قانون کی حکمرانی کے بغیر کمزور ہی رہے گا، اور قانون کی حکمرانی کو اب وزیرِ اعظم کے عدالت کے سامنے پیش ہونے سے شروع ہونا چاہیے۔مگر عام طور پر یہ نکتہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ صرف سویلین رہنماں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، جبکہ جنرل احتساب کے دائرہِ کار میں نہیں آتے۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ قانون سے بالاتر کسی کو بھی نہیں ہونا چاہیے۔ سابق جرنیلوں اور دیگر طاقتور گروہوں کو حاصل استثنی پر سوال جائز ہے۔ مگر اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ یا سب کا احتساب ہو یا کسی کا نا ہو۔احتساب ایک مرحلہ ہے، اور اسے ایک دفعہ کے اقدام، یا سویلین سیاسی رہنماں کے خلاف مہم نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس ملک کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تحقیقاتی اداروں کو مکمل طور پر غیر موثر کر دیا گیا ہے اور وہ آزادانہ طور پر اپنا کام نہیں کر سکتے۔ یہی حال دیگر سرکاری اداروں کا بھی ہے۔ہمارے سیاسی اور عدالتی نظام میں موجود دراڑیں پاناما کیس کی وجہ سے مزید واضح ہو گئی ہیں۔ شریف خاندان کے خلاف زیادہ تر مقدمات کو سرد خانے کی نذر کر دیا گیا تھا جہاں سے انہیں باہر نکالنے کی ہمت کوئی ادارہ نہ کرتا۔ دیگر سیاسی رہنما بھی قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔اس بات کا تو یقین نہیں کہ وزیرِ اعظم کے عدالت کے سامنے پیش ہونے سے چیزیں تبدیل ہوں گی۔ مگر اس بے مثال اقدام سے نظام میں اصلاحات اور احتساب کو مضبوط کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔جج صاحبان کے آزادانہ طور پر اپنا کام کرنے سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، بلکہ اگر عدالتیں اور دیگر ادارے اپنا کام نہ کریں، تو جمہوری نظام نہیں چل سکتا۔
ہمیں نسبتا برابر سماج پر یقین رکھنا چاہیے سب کیلئے یکساں انصاف سب کی طرف سے ہونا چاہیے۔ان اداروں کی حمایت کرنا چاہیے جو دولت اور غربت کے خاتمے کو محدود کرتے ہیں۔اس ضمن میںہمیں جمہوریت، شہری آزادی اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنا ہوگا جو ہمیں روشن خیال دیانت دار اور ایمان دار بناتے ہیںاور تمام پاکستانیوں کو اس بات پر فخر ہونا چاہیے۔اے پی ایس