قانون کو چکر دینے میں ناکامی۔ چودھری احسن پریمی


ہم قانون کے حکمرانی کے بغیر ریاست کی بنیادوں کی تعمیر نہیں کرسکتے.عظیم ملکوں کو قومی سلامتی کے مقاصد کیلئے، اقتصادی مقاصد اور قانون کے مقاصد کے لئے اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے. آزاد عدلیہ کی مقبولیت کیلئے اس کے رنگ پر نہیں جانا چاہیے یہ ہمارے حقوق کی محافظ ہے۔ اور ہمیں ایسے لوگوں کو بتانا ہوگا جو اکثر یہ سننا پسند نہیں کرتے ہیں۔ ہمیں ایک مستقل ایک آزاد عدلیہ کی ضرورت ہے جو ججوں کو اڑانے والے سیاسی بادلوں سے آزاد فیصلے کرسکیں۔ہم ایک آئین کے تحت ہیں، لیکن آئین یہ ہے کہ عدلیہ آئین کے تحت ہماری جان ومال کی حفاظت کو یقینی بناتی ہے اگرچہ یہ ذمہ داری حکومتوں کی ہے۔یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان آئین کی بالادستی عدلیہ کی مضبوطی اور سیاسی مداخلت سے آزادی کیلئے کام کررہی ہے۔ہر حکومت کیلئے عدلیہ کی آزادی کا وسیع پیمانے پر احترام کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔پاکستان کے عوام نواز شریف،عمران  خان یا آصف زرداری کی حکومت میں نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے بیس کروڑ عوام قانون کی حکمرانی کے تحت ہیں۔جب قانون کی حکمرانی کا تعلق ہے، تو یہ حکومت پر ہوتا ہے، یہ سپریم کورٹ پر ہوتا ہے، یہ  ہم سب پر ہوتا ہے.
 جبکہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما لیکس کے معاملے میں اپنے متفقہ فیصلے میں وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔سپریم کورٹ نے اس معاملے پر 20 اپریل کے فیصلے کے تحت قائم کی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو جمعے کو سنایا گیا۔اس ضمن میں وزارت عظمی کے لیے ابھی تک تو کوئی نام سامنے نہیں آیا لیکن نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف کو سب سے طاقتور امیدوار دیکھا جا رہا ہے۔پاناما لیکس کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی بطور وزیراعظم نااہلی کے فیصلے کے بعد بھی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما، نواز شریف کی مزید طاقت اور حمایت کے ساتھ واپسی کے لیے پر امید ہیں۔نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے پاناما فیصلے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ایک اور منتخب وزیراعظم کو گھر واپس بھیج دیا گیا، لیکن وہ مزید طاقت اور حمایت کے ساتھ واپس آئیں گے۔
سپریم کورٹ کے بینچ نے جس میں پاناما لیکس کے معاملے پر ابتدائی مقدمہ سننے والے پانچوں جج صاحبان شامل تھے آئین پاکستان کے آرٹیکل 184 کے تحت دائر درخواستوں پر اپنے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ نواز شریف 2013 میں دائر کیے گئے کاغذات نامزدگی میں ایف زیڈ ای نامی کمپنی میں اپنے اثاثے ظاہر نہ کر کے صادق اور امین نہیں رہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ صادق اور امین نہ رہنے کی وجہ سے الیکشن کمیشن فوری طور پر بطور پارلیمان سے ان کی رکنیت کے خاتمے کا نوٹیفیکشن جاری کرے۔عدالت نے نیب کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ وہ چھ ہفتے کے اندر نواز شریف اور ان کے بچوں مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف بھی مہیا مواد کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرے اور چھ ماہ میں ان پر کارروائی مکمل کی جائے۔
عدالت نے نواز شریف اور حسن اور حسین نواز کے خلاف چار جبکہ مریم نواز، ان کے شوہر کیپٹن (ر)صفدر اور وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ایک ایک معاملے میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالتی فیصلے کے چیدہ نکات درج ذیل ہیں:
قومی احتساب بیورو سپریم کورٹ فیصلے کی تاریخ اٹھائیس جولائی 2017 سے چھ ہفتے کے اندر جے آئی ٹی، فیڈرل انویسٹیگشن اور نیب کے پاس پہلے سے موجود مواد کی بنیاد نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ریفرنس دائر کرئے۔نیب نواز شریف اور اس کے خاندان کے خلاف عدالتی کارروائی میں شیخ سعید، موسی غنی، جاوید کیانی اور سعید احمد کو بھی شامل کرے۔ نیب ان افراد کے خلاف سپلیمنٹری ریفرنس بھی دائر کر سکتا ہے اگر ان کی دولت ان کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتی۔احتساب عدالت نیب کے جانب سے ریفرنس فائل کیے جانے کی تاریخ کے چھ ماہ کے اندر ان ریفرنسز کا فیصلہ کرے۔اگر مدعا علیہان کی جانب سے عدالت میں دائر کی گئی دستاویزات جھوٹی، جعلی اور من گھڑت ثابت ہوں تو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
نواز شریف نے یو اے ای میں قائم کمپنی ایف زیڈ ای میں اپنے اثاثوں کو دو ہزار تیرہ میں اپنے کاعذات نامزدگی میں ظاہر نہ کر کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور وہ اب پیپلز ایکٹ 1976 کی سیکشن 99 کی روشنی میں ایماندار نہیں رہے لہذا وہ پیلز ایکٹ 1976 کی سیکشن 99 اور آرٹیکل 62 (اے) کی روشی میں پارلیمنٹ کے ممبر کے طور نا اہل ہیں۔الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا فوری نوٹیفکیشن جاری کرے۔صدر مملکت ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کو یقینی بنائیں۔چیف جسٹس سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ سپریم کے ایک جج کو اس عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کی نگرانی کے تعینات کیا جائے۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے وزیر اعظم ہاوس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں عدالتی فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسلم لیگ کے ساتھ ناانصافی سے تعبیر کیا گیا ہے۔مسلم لیگ ن کے ترجمان کے مطابق عدالتی فیصلے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف اپنے عہدے سے سبکدوش اور وفاقی کابینہ تحلیل ہو گئی ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی سبکدوشی کے بعد نئے وزیراعظم کی حلف برداری تک قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے وزارتِ عظمی کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔یہ پہلا موقع نہیں ہے جب نواز شریف اور ان کے خاندان کو عدالتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ماضی میں بھی نواز شریف کو اپنے سیاسی مخالفین کی جانب سے مختلف نوعیت کی عدالتی کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان میں سے دو مقدمات میں ان کو سزا بھی ہوئی تھی۔ البتہ ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ان کے خلاف عدالتی کاروائی ان کے اپنے دورِ حکومت میں شروع ہوئی ہو۔
ماضی میں وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائیوں پر نظر ڈالیں تو ان کے خلاف سب سے پہلی کارروائی 23 سال قبل بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں ہوئی جب اکتوبر 1994 میں ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف رمضان شوگر ملز کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دی گئی۔اس کیس میں شریف خاندان پر رقم کی خوردبرد اور غیر مجاز استعمال کا الزام تھا اور اس کی تفتیش سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے کی تھی تاہم 20 سال بعد یعنی سنہ 2014 میں یہ معاملہ رمضان شوگر ملز اور مدعی کے درمیان طے پا گیا۔1994 میں ہی نومبر کے مہینے میں میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے حدیبیہ پیپر ملز اور حدیبیہ انجنیئرنگ کمپنی کے خلاف خصوصی عدالت میں چالان جمع کرایا جس میں نواز شریف پر دھوکہ دہی اور رقم خورد برد کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔لیکن تین سال بعد جون 1997 میں نواز شریف نے، جو اس وقت ملک کے وزیر اعظم بن چکے تھے، لاہور ہائی کورٹ میں ان دونوں مقدموں سے متعلق رٹ پٹیشنز اس استدعا کے ساتھ جمع کروائیں کہ ایف آئی اے کے دونوں چالانوں کو خارج کر دیا جائے۔
لاہور ہائی کورٹ نے یہ درخواست منظور کر لی اور ایف آئی نے اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل دائر نہیں کی۔1997 میں جب نواز شریف نے دو تہائی اکثریت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے دوسری دفعہ وزارت عظمی سنبھالی تو لگتا تھا کہ ان کے سیاسی مخالفین اب کچھ بگاڑ نہ سکیں گے لیکن ڈھائی برس کے قلیل عرصے بعد ہی ان کے چنندہ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے اکتوبر 1999 میں ان کا تختہ الٹ دیا۔حکومت سنبھالنے کے بعد پرویز مشرف نے نواز شریف کے خلاف بدعنوانی اور دہشت گردی کے مختلف مقدمات درج کرائے۔قومی احتساب بیورو (نیب) نے 1999 اور 2000 کے اوائل میں نواز شریف کے خلاف کل 28 مقدمات شروع کیے جن میں سے 15 ناکافی شواہد کی وجہ سے اگلے چار برسوں میں خارج ہو گئے جبکہ نو مقدمات 18 سال گزر جانے کے بعد ابھی بھی زیرِ تفتیش ہیں۔نیب کی جانب سے شروع کیے جانے والے مقدمات میں سب سے اہم وہ چار ریفرینسز تھے جو احتساب عدالت کو بھیجے گئے تھے۔ان چار میں سے ہیلی کاپٹر کیس کے نام سے مشہور ہونے والا پہلا ریفرینس اٹک قلعے میں قائم احتساب عدالت میں سنا گیا اور جج فرخ لطیف نے نواز شریف کو 1993 میں خریدے جانے والے چھ لاکھ پانڈ مالیت کے ہیلی کاپٹر پر ٹیکس نہ دینے اور اثاثے ظاہر نہ کرنے کی پاداش میں 14 سال قید کی سزا اور دو کروڑ روپے جرمانہ عائد کیا۔
اب تک کے لگائے جانے والے کرپشن کے الزامات میں یہ واحد کیس ہے جس میں نواز شریف کو سزا ملی ہے۔نواز شریف نے اس سزا کے چھ ماہ جیل میں گزارے تاہم دسمبر 2000 میں اس وقت ملک کے فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کی جانب سے معافی دیے جانے پر وہ پاکستان چھوڑ کر سعودی عرب چلے گئے۔یہ وہ معاملہ ہے جس کا ذکر پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ اور پھر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی دو ماہ کی تحقیقات کے دوران بھی سنائی دیتا رہا۔حدیبیہ ملز ریفرینس دائر کرنے کی منظوری مارچ 2000 میں نیب کے اس وقت کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد نے دی تھی۔اگرچہ ابتدائی ریفرینس میں میاں نواز شریف کا نام شامل نہیں تھا تاہم جب نیب کے اگلے سربراہ خالد مقبول نے حتمی ریفرینس کی منظوری دی تو ملزمان میں میاں نواز شریف کے علاوہ ان کی والدہ شمیم اختر، دو بھائیوں شہباز اور عباس شریف، بیٹے حسین نواز، بیٹی مریم نواز، بھتیجے حمزہ شہباز اور عباس شریف کی اہلیہ صبیحہ عباس کے نام شامل تھے۔
یہ ریفرینس ملک کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار سے 25 اپریل 2000 کو لیے گئے اس بیان کی بنیاد پر دائر کیا گیا تھا جس میں انھوں نے جعلی اکاونٹس کے ذریعے شریف خاندان کے لیے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔اسحاق ڈار بعدازاں اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے تھے اور ان کا موقف تھا کہ یہ بیان انھوں نے دبا میں آ کر دیا تھا۔اس معاملے کا تعلق جاتی امرا میں 401 کنال زمین پر 1992 سے 1999 کے درمیان شریف خاندان کی رہائش گاہ اور دیگر عمارات کی تعمیر کے حوالے سے تھا اور اس میں میاں نواز شریف اور ان کی والدہ شمیم اختر ملزمان تھے۔ریفرینس میں نواز شریف پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے ان تعمیراتی سرگرمیوں کے لیے جو رقم ادا کی وہ ان کے ظاہر کردہ اثاثوں سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ان دونوں ریفرینسز کی سماعت نواز شریف کی ملک بدری کے بعد روک دی گئی اور جب 2013 میں نواز شریف تیسری مرتبہ برسرِاقتدار آئے تو ان کے اس دور میں لاہور ہائی کورٹ نے مارچ 2014 میں یہ دونوں مقدمات خارج کر دیے۔حیران کن طور پر مضبوط شواہد ہونے کے باوجود نیب کی جانب سے اس اخراج پر سپریم کورٹ میں کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی۔اس مقدمے میں نیب نے شریف خاندان پر بینکوں کے تین ارب 80 کروڑ روپے کے قرضوں کی عدم ادائیگی کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ ادائیگی سے بچنے کے لیے کمپنی نے جان بوجھ کر خود کو دیوالیہ ظاہر کیا۔اتفاق فانڈری کی فروخت سے حاصل شدہ رقم کی بینکوں کو ادائیگی کے بعد یہ مقدمہ بھی فروری 2015 میں لاہور ہائی کورٹ نے ختم کر دیا۔
کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے طیارہ سازش کیس کی سماعت کی تھی۔پرویز مشرف کے دور میں نواز شریف کے خلاف لگائے جانے والے مقدمات میں سب سے اہم کیس طیارہ سازش کیس تھا جس میں تختہ الٹنے والے جرنیل نے نواز شریف پر دہشت گردی، قتل کی سازش، ہائی جیکنگ اور اغوا کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔جنوری 2000 میں کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اس کیس کی سماعت شروع کی اور اپریل 2000 میں جج رحمت حسین جعفری نے نواز شریف کو چار میں سے دو الزامات، ہائی جیکنگ اور دہشت گردی کا مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی۔یاد رہے کہ دسمبر 2000 میں سعودی بادشاہ اور لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری کی درخواست پر پرویز مشرف نے نواز شریف اور ان کے خاندان کو دس سالہ جلاوطنی کی شرط پر معافی دے دی۔اس معافی کے بعد نواز شریف سمیت شریف خاندان کے بیشتر ارکان نومبر 2007 تک سعودی عرب میں قیام پذیر رہے۔
پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفی کا مطالبہ کیا گیا اور بعدازاں اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد رواں سال 20 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلی افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے جس کی بنیاد پر حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی تحقیقات کے بعد رواں ماہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی، 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائے گئے تھے۔
جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پانچ سماعتوں کے دوران فریقین کے دلائل سنے اور 21 جولائی کو پاناما عملدرآمد کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو جمعہ کوسنایا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس پر فیصلے کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنماوں نے اسلام آباد میں میڈیا سے بات چیت کی، اس موقع پر بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ ہمارا دامن صاف ہے، عدالت میں موقف پیش کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ فیصلے کے لیے 5 ججز کا بینچ بننا حیران کن ہے۔ جے آئی ٹی کے ارکان پر سپریم کورٹ میں تحفظات کا اظہار کیا تھا، پاکستان میں کسی بھی وزیراعظم نے 5 سال کی مدت پوری نہیں کی۔ان کاکہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے 3 الزمات لگائے تھے وہ سپریم کورٹ نے تسلیم نہیں کیے۔ جو نیب عدالت سپریم کورٹ کے جج کی نگرانی میں کام کرے گی اس سے صاف اور شفاف ٹرائل کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔اس موقع پر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ یہ ہمارے ساتھ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، اس سے قابل بھی کئی مرتبہ ایسا کیا جاچکا ہے، نواز شریف کو نشانہ بنایا گیا ہے، سب جانتے ہیں کہ اپی ایم ایل این کا اور نواز شریف کا جرم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم سیاست دان منتخب ہو کر ایوان میں آتے ہیں اور ہمیں رسوا کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے، جیل میں بھیج دیا جاتا ہے جبکہ لوگ گھروں پر آرام کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پی ایم ایل این ملک میں سول حکمرانی چاہتی ہے، انہوں نے کہا کہ ہم ملک کا خزانہ بھرتے ہیں، کراچی کا امن بحال کرتے ہیں، بلوچستان کا امن بحال کرتے ہیں اور ہمیں رسوا کر کے بھیج دیا جاتا ہے۔انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ سازشی جنہوں نے دھرنا ون اور دھرنا ٹو دیا، عمران خان تمہاری حیثیت کچھ نہیں تم ایک مہرے کے سوا کچھ نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو بیٹے کی کمپنی کے اعزازی چیئرمین ہونے کی وجہ سے نا اہل قرار دیا گیا۔سعد رفیق نے کہا کہ اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ادارے، اداروں کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے۔لیگی رہنما نے کہا کہ ہم عوام کی عدالت میں جائیں گے اور ہمیں کوئی نہیں روک سکتا، ہم نے اس ملک کے لیے جانیں دیں، ہمارے بزرگوں نے اس ملک کو بنانے میں جیلیں کاٹیں اور ہم نے آمریت کا مقابلہ کیا۔انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ عدالتوں کے تقدس کا پامال نہیں ہونے دیں گے، انہوں ںے نام لیے بغیر کہا کہ آپ کو ملک کی خوشحالی لانے اور غربت کو ختم کرنے کو ریورس گئیر نہیں لگانا چاہیے تھا۔
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ جب ایٹمی دھماکا کیا گیا اس کی بھی سزا دی گئی اور اب سی پیک پاکستان میں لانے کی سزا دی گئی۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اس فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا اور حقائق عوام کے سامنے رکھے جائیں گے، فیصلے کا دفاع کرنا ہمارا حق ہے۔انہوں نے کہاکہ بات گاڈ فادر سے شروع ہوئی اور مافیا تک جا پہنچی لیکن آخر میں کہا گیا کہ آپ نے 10 ہزار درہم نہیں لیے اس لیے نا اہل قرار دیا گیا۔
احسن اقبال نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے میرا اپنی قیادت پر بھروسہ مزید بڑھ گیا، میں دکھ کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آج پھر 1988 میں ہی کھڑے ہیں، جب محمد خان وجونیجو کو کرپشن کا الزام لگا کر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ پڑوسی ملک کے وزرا اعظم اپنے 6 سال کے دور کو پورا کر رہے ہیں لیکن پاکستان میں اس کوٹے میں کونسی خامی ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن میں اپنے کروڑوں روپے کے اثاثے ڈکلیئر کیے، مسلم لیگ کے کارکن کو اپنے لیڈر پر فخر ہونا چاہیے، جن کی اربوں روپے کے حوالے سے تلاشی لی گئی لیکن ان پر الزام لگا تو وہ بھی یہ کہ انہیں اپنے بیٹے کی کمپنی سے 2 لاکھ روپے مل سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں لیے۔احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ن لیگ کو اس فیصلے کا پہلے سے ہی خطرہ تھا لیکن پھر بھی احسن طریقے سے کارروائی میں میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، نواز شریف نے اپنے پوری خاندان کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیا اور ہر طرح کی تذلیل کو برداشت کیا تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ نواز شریف کچھ چھپا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ دنیا میں لا اسٹڈیز کے طور پر پڑھایا جائے گا کہ کیس کیا تھا اور فیصلہ کیا آیا۔ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے کابینہ کے اجلاس میں کہا ہے کہ ن لیگ اپنے مینڈیٹ کا دفاع کرے گی اور اپنی مدت پوری کرے گی۔ان سے قبل سابق وزیر اطلاعات و نشریات مریم اونگزیب نے کہا کہ اس فیصلے کے بعد بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف ایک روپے کی سرکاری کرپشن کا الزام ثابت نہیں ہوسکا ہے۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر حیران نہیں ہوں بلکہ افسوس ہوا ہے۔انہوں نے دعوی کیا کہ نواز شریف اس فیصلے کے بعد چوتھی مرتبہ بھاری مینڈیٹ سے وزیراعظم منتخب ہوں گے۔مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ملک کا وزیراعظم کوئی بھی ہو پاکستان کے عوام کے دلوں میں وزیراعظم نواز شریف ہی رہیں گے، انہوں نے کہا کہ ماضی میں جتنی مرتبہ بھی وزیراعظم نواز شریف کو زبردستی عہدے سے ہٹایا گیا اگلی مرتبہ وہ بھاری مینڈیٹ کے ساتھ پارلیمنٹ میں آئے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاناما فیصلے کی تفصیلات کو دیکھا جائے گا اور آئینی اور قانونی ماہرین سے مشاورت کرکے مستقبل کے لائحہ عمل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے اور پاکستان میں سب سے زیادہ کارکن پی ایم ایل ان کے ہیں، مسلم لیگ (ن) کے کارکن اور پاکستانی عوام جانتے ہیں کہ نواز شریف ایک حقیقت ہے اور پی ایم ایل این کے ساتھ بالخصوص 2013 کے بعد جو بھی ہوا وہ پوری قوم جانتی ہے۔دوسری جانب وزیر مملکت انوشے رحمن نے عدالتی فیصلے پر کہا کہ مسلم لیگ (ن) فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کررہی ہے۔ان سے قبل پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ پارٹی کی قیادت صرف میاں نواز شریف کے پاس ہی رہے گی اور فیصلے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر پارٹی موقف وزیراعظم ہی دیں گے، تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی اسے قبول کیا جائے گا۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کی قیادت صرف میاں نواز شریف کے پاس ہی رہے گی اور عدالتی فیصلے سے اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن پر کڑا وقت ہے، ہم اپنے سیاسی موقف، 58 ٹو بی سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ منتخب وزیر اعظم کو کسی غیر قانونی اور غیر انتخابی عمل کے ذریعے نہیں ہٹایا جاسکتا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نواز شریف کی قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 لاہورIII سے رکنیت کو ختم کردیا گیا ہے جس کا نفاذ فوری طور پر ہوگا۔نواز شریف کی رکنیت کے خاتمے کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن کے قائم مقام چیئرمین عبدالغفار سومرواور کمیشن کے تین ارکان کی منظوری کے بعد جاری کردیا گیا۔خیال رہے کہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس سرداررضاخان کیمبرج کانفرنس میں شرکت کے لیے برطانیہ میں موجود ہیں۔
جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما پیپرز کیس کے تاریخی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے 30 جولائی کو پریڈ گراںڈ میں جلسے کا اعلان کردیا۔ عمران خان نے عدالتی فیصلے پر پاکستانیوں کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'میں عدلیہ کو خراج عقیدت اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جے آئی ٹی کو مبارک پیش کرتا ہوں، جو کام انہوں نے کیا ہے کسی مغربی ملک میں بھی نہیں ہوسکتا تھا'۔پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھا، 'یہ میری اور نواز شریف کی ذاتی لڑائی نہیں تھی، میں جن سیاستدانوں کی مخالفت کرتا ہوں ان سے ذاتی لڑائی نہیں، یہ صرف ملک کے لیے ہے'۔عمران خان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوشش انسان کرتا ہے، کامیابی اللہ تعالی دیتا ہے، پاکستان عدل و انصاف کے لیے بنا تھا، آج علامہ اقبال کے خوابوں اور محمد علی جناح کی کوششوں کا پاکستان حاصل کرلیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس ملک میں طبقاتی تقسیم موجود ہے، کمزور کے لیے یہاں قانون موجود ہیں تاہم طاقت ور کے لیے علیحدہ قانون ہے۔پی ٹی آئی چیئرمین نے مزید کہا کہ ہم مقروض ہیں، قوم تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، 10 ارب ڈالر کا قرضہ لیا جاچکا ہے، سالانہ 10 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے اور ملک کی معیشت کے استحکام کے لیے قرضے لینا پڑتے ہیں۔ پاناما فیصلے سے پاکستان بھی دیگر ممالک کی طرح آگے بڑھ سکے گا۔ان کا کہنا تھا کہ بمباری سے قومیں تباہ نہیں ہوتیں، بلکہ انصاف کے ادارے ختم ہوجائیں تو قومیں تباہ ہوجاتی ہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب دوسروں کی باری بھی آئے گی۔آخر میں عمران خان نے کہا کہ طویل جدوجہد میں قربانیاں دینے والوں کو سلام پیش کرتا ہوں، جو ان 20 سالوں میں میرے ساتھ کھڑے رہے اور جو تھک کر بیٹھ گئے، ان کو اتوار (30 جولائی) کو پریڈ گرانڈ میں جلسے میں شرکت کی دعوت دیتا ہوں۔اے پی ایس