نواز شریف کی بے وقار رخصتی ۔چودھری احسن پریمی



 پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ جس نئے پاکستان کا خواب وہ دیکھتے تھے اس کی بنیاد سپریم کورٹ نے رکھ دی ہے۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار تحریک انصاف کی جانب سے سلام آباد میں سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے کی خوشی میں پریڈ گرانڈ میں یوم تشکر منانے کے دوران کیا۔تاہم مذکورہ عدالتی فیصلے پر بعض قومی اخبارات کے اداریے فل کورٹ بنچ کی تشکیل پر زور دیتے ہوئے چیف جسٹس سے نظرثانی کی درخواست کررہے ہیں اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ پاناما فیصلے آنے کے بعد، سپریم کورٹ کا احترام قائم رکھنے کی خاطر اور معاملہ پر جلد بازی یا قبل ازوقت کوئی ایسا رد عمل دینے، جو کسی قسم کے تکرار کا باعث بن سکتا ہو، سے بچتے ہوئے بڑے محتاط انداز میں، معقول اور ذمہ دار حلقوں نے اپنے ابتدائی رد عمل میں عدالتی فیصلے پر فوری طور پر سیاسی اور قانونی قبولیت کی ضرورت پر زور دیا۔اب جبکہ مختصر مگر آخری فیصلے پر قانونی برادری، سیاسی طبقہ اور عام لوگ مفصل جائزہ لے چکے ہیں، لہذا اس کے پاکستانی سیاست میں اس کی اہمیت کے بارے میں کھل کر بات ہونی چاہیے۔ماہر اور آزاد حلقوں کی رضامندی دو حصوں پر مشتمل اور واضح ہے: نواز شریف کو بہت ہی معمولی قانونی جواز پیش کرتے ہوئے وزارت عظمی چھینی گئی ہے اور یہ عدالتی حکم نامہ ملک میں جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی غیرمطلوب قوت کا حامل ہے۔اس صورتحال میں، چیف جسٹس ثاقب نثار کو، ایک مناسب پٹیشن قبول کرتے ہوئے، پاناما پیپرز کیس پر پانچ رکنی بینچ کے آخری فیصلے پر نظر ثانی کے لیے فل کورٹ کا اجلاس بلانا چاہیے۔اگر جمہوری سلسلے کو قائم و دائم اور مستحکم رکھنا ہے تو نظام کے تمام اصولوں کو واضح، غیر جانبدار اور شفاف ہونا چاہیے۔ ایسی امید کی جا رہی تھی کہ سپریم کورٹ ٹھوس دلائل اور ٹھوس منطق کا حامل فیصلہ سنائے گی جو کہ ایک خاطر خواہ اور آسانی سے قابل عمل قانونی مثال قائم کرے گا۔ اس کے بجائے، اس فیصلے نے اب منتخب افسران کی نااہلی کے لیے درخواستوں میں ایک ٹھوس مثال کے طور پر اسانیاں پیدا کر دی ہیں جو کہ پارلیمانی شعبے میں بدنظمی کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔جبکہ بعض اداریوں میں جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ کے سپرد ہونے کے بعد نواز شریف صاحب کو عارضی طور پر استعفی دینے کے لیے کہا گیاتھا اور بار بار اس بات کا اظہار ہوتا رہا کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو پاناما معاملے میں خود کو پہلے احتساب کے لیے پیش کیا جانا چاہیے۔ مگر نواز شریف، بطور ایک شہری اور ایک قانونی طور پر منتخب ہونے والے وزیر اعظم کی حیثیت سے، کو قابل جواز طور پر غیر جانبدارانہ اور متناسب انصاف کی توقع تھی۔ جو کہ پانچ رکنی بینچ کے آخری فیصلے میں ہوتا دکھائی نہیں دیتا جبکہ یہ وزارت عظمی کے عہدے اور خود پارلیمنٹ کے مستقبل پر سنگین نتائج مرتب کرسکتا ہے۔فیصلے پر خود سپریم کورٹ بھی نظر ثانی کا معیار مرتب کر سکتی ہے مگر چند سوالات جن کا جواب مطلوب ہے، وہ بالکل واضح ہیں۔ مثلا، کیا قانون کے تحت، فیصلے میں دی گئی قابل وصول کی تعریف کے، صرف ایک ہی مفہوم کی گنجائش ہے؟ آرٹیکل 62 (1) (ف) کا معیار کیا ہے اور کیا بینچ نے اس کا مناسب انداز میں تعین کیا ہے؟ واضح کیا جائے کہ امیدواروں کے نامزدگی درخواستوں میں وہ کون سی چیزیں ہیں جو اثاثے ظاہر نہ کرنے کے ذمرے میں آتی ہیں اور وہ نااہلی کا سبب بن سکتی ہیں؟۔سنائے جانے والے فیصلے کے بعد یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہوگا کہ تمام پارلیمانی اراکین کو سرکاری عہدے کے لیے اپنی قانونی اہلیت پر کہیں نہ کہیں تھوڑی بہت غیر یقینی کا سامنا ہے۔ کئی پارلیمانی اراکین کی جانب سے کم مالی اثاثے ظاہر کرنے پر جو بھی جائز خدشات ہوں، لیکن ایک صورتحال جس میں 100 فیصد منتخب نمائندگان نااہلی کے مرتکب ٹھہرتے ہوں تو یہ صورتحال جمہوری تسلسل کے لیے ایک بہت ہی عدم استحکام کی صورتحال پیدا کر سکتی ہے۔سپریم کورٹ کے فل کورٹ کو فوری طور پر آگے آنا ہوگا اور ضروری وضاحت فراہم کرنے ہوگی۔
تاہم مذکورہ تحفظات کے جواب میں ایک طرف یہ بھی دلیل دی گئی ہے کہ پاناما کیس میں عدالت کو کیا خدشہ تھا؟اس ضمن میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ نے لکھا ہے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ ایسا فیصلہ دیں جسے بنیاد بنا کر دوسرے ادارے اور ماتحت عدلیہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا شروع کر دیں۔سپریم کورٹ سے درخواستگزاروں نے، جن میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق اور عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید شامل تھے، استدعا کی تھی کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو کرپشن کے الزامات میں آئین کی شق 62 اور 63 کے تحت نا اہل قرار دیا جائے۔پانچ رکنی بینچ نے اپنے دونوں فیصلوں، پہلے خصوصی تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) کے ذریعے تحقیقات کا حکم دینے والے فیصلے اور پھر 28 جولائی کے فیصلے، میں کئی بار اس سوال کا جائزہ لیا کہ کیا وہ خود آئین میں دیے گئے خصوصی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف لگائے گئے کرپشن کے الزامات پر حتمی فیصلہ دیتے ہوئے انہیں نا اہل قرار دے سکتے ہیں یا نہیں۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے 28 جولائی کے فیصلے میں لکھا کہ اب تک عدالت کے سامنے جو مواد پیش کیا گیا ہے اس کے بغور جائزے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بادی النظر میں اب سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی بیٹی مریم نواز شریف، بیٹوں حسن اور حسین نواز شریف کے خلاف 16 اثاثوں سے متعلق مقدمہ چلنا چاہیے۔ عدالت نے سابق وزیر اعظم کے سمدھی اسحاق ڈار کے بارے میں بھی یہی بات کی، جن کی جائیداد میں، عدالت نے نوٹ کیا بہت ہی کم وقت میں 91 فیصد (نو اعشاریہ گیارہ ملین سے آٹھ سو اکتیس اعشاریہ ستر ملین) اضافہ ہوا۔
ایسی صورت میں کیا کیا جائے اس بات کا جواب عدالت نے کہا کہ وہ اپنے 20 اپریل والے فیصلے میں دے چکی ہے۔عدالت نے اس پرانے نوٹ کا حوالہ دیا جس میں اس نے لکھا تھا کہ 'کسی سرکاری عہدہ رکھنے والے شخص کے خلاف اس قانون کے تحت الزامات کی صورت میں تفتیش اور شواہد کا اکٹھا کرنا ضروری ہو جاتا ہے جن سے ثابت ہو کہ اس کے اہل خانہ یا بینامی داروں کی ملکیت، قبضے میں ایسے اثاثے ہیں یا انہوں نے حاصل کر لیے ہیں جو اس شخص کی آمدن کے معلوم ذرائع سے زیادہ ہیں۔ اس تفتیش کے بعد ان الزامات کی حقیقیت معلوم کرنے کے لیے احتساب عدالت میں مکمل ٹرائل کیا جانا چاہیے۔''لیکن' عدالت نے 20 اپریل کے فیصلے میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے لکھا 'جہاں نہ ہی کسی تفتیشی ایجنسی نے تفتیش کی ہو، نہ ہی کسی احتساب عدالت میں گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے ہوں اور نہ ہی ان پر جرح کی گئی ہو، نہ ہی مقدمے کی دستاویزات قانون شہادت کے تقاضوں کے مطابق پیش اور ثابت کی گئی ہوں اور نہ ہی کسی زبانی گواہی اور دستاویزات کی چھانٹی کی گئی ہو۔''ایسی صورت میں' سپریم کورٹ نے لکھا کہ 'یہ عدالت آئین کی شق ایک سو چوراسی (تین) کے تحت ایسے ریکارڈ کی بنیاد پر کسی سرکاری عہدہ رکھنے والے شخص کو نا اہل قرار نہیں دے سکتی'۔جسٹس اعجاز افضل خان، جنہوں نے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی طرف سے 28 جولائی کا فیصلہ تحریر کیا، لکھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو تفتیش، ٹرائل اور اپیل کے تمام مراحل سے گزرنا چاہیے اور ایسا نہ کرنا آئین کی ان شقوں کی خلاف ورزی ہو گی جس کے تحت ہر شہری کو یہ ضمانت حاصل ہے کہ اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔جسٹس اعجاز افضل خان نے لکھا کہ بینچ کے دیگر ارکان جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالحسن نے اپنے اپنے نوٹ میں ایسی ہی رائے دی تھی۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اٹھائیس جولائی کو متفقہ طور پر سابق وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے والے فیصلے میں لکھا کہ 'طے شدہ طریقہ کار سے ہٹنا افراتفری کا پیش خیمہ ہو گا۔' عدالت سے بارہا درخواست کی گئی کہ وہ اپنے سامنے پیش کیے گئے شواہد کی بنیاد پر مدعہ الیہان کے خلاف الزامات کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ سنا دے جبکہ دوسری طرف سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ٹرائل کرنا سپریم کورٹ کا کام نہیں اور یہ کام اسے ٹرائل کورٹ کے ذمے سونپنا چاہیے۔عدالت نے لکھا کہ اگر وہ اپنی حدود سے تجاوز کریں تو کل کو 'احتساب عدالت بھی آئین کی شق ایک سو چوراسی کے اختیارات استعمال کر سکتی ہے اور کوئی بے صبر تفتیشی افسر خود ہی یہ سوچتے ہوئے کہ ٹرائل سے تو فیصلے میں تاخیر یا ناانصافی بھی ہو سکتی ہے، کسی کے مجرم ہونے کا فیصلہ کر کے اس کی جان لے سکتا ہے۔'سپریم کورٹ نے لکھا تھا کہ اگر عدالتیں طے شدہ طریق کار سے انحراف کریں اور قیاس آرائیوں اور مفروضوں کی بنیاد پر فیصلہ دیں، چاہے وہ کتنا ہی نیک نیتی پر مبنی کیوں نہ ہو، تو وہ معاشرے کے لیے تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔عدالت نے لکھا کہ مسئلے کا حل آسان راستہ تلاش کرنا نہیں بلکہ آئین کی شق ایک سو نوے کا استعمال کرتے ہوئے اداروں کو متحرک کرنا ہے۔جسٹس عظمت سعید نے 20 اپریل کے اپنے فیصلے میں ایک جگہ لکھا تھا کہ ہم صرف اس لیے معمول سے ہٹتے ہوئے قانون کے طے شدہ طریق کار سے انحراف نہیں کر سکتے اور نہ ہی نئے ضوابط بنا سکتے ہیں کہ مدعہ علیہ وزیر اعظم کا عہدہ رکھتے ہیں۔ 'آخری بار جب ہم نے اپنی قانونی تاریخ میں ایسا کیا تھا، اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے تھے۔'یاد رہے کہ عدالت نے کرپشن کے معاملات میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے خیال میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف مقدمہ چلنا چاہیے، جس کے بعد عدالت نے نیب کی عدالت میں مختلف ریفرینس دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی کیسے ہوئی؟
عدالت نے 28 جولائی کو اپنے متفقہ فیصلے میں لکھا کہ 'میاں محمد نواز شریف عوامی نمائندگی کے قانون (روپا) کے سیکشن ننانوے ایف اور انیس سو تہتر کے آئین کی شق باسٹھ (ایک) (ف) کے تحت صادق نہیں اس لیے انہیں مجلس شوری کی رکنیت سے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔'نواز شریف پر الزام تھا کہ کپیٹلل ایف زیڈ ای کے چیئرمین کی حیثیت سے ان کی تنخواہ مقرر ہوئی تھی جس کا انہوں نے سنہ 2013 کے انتخابات کے وقت کاغدات نامزدگی میں ذکر نہیں کیا۔ نواز شریف کی طرف سے جواب دیا گیا کہ انہوں نے وہ تنخواہ کبھی وصول نہیں کی تھی اس لیے اس کا اثاثوں میں ذکر نہیں کیا گیا۔ عدالت اس جواب سے مطمئن نہیں ہوئی اور انہیں ناہل قرار دے دیا گیا۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی بے وقار رخصتی سے شاید ملک کی سب سے طاقتور سیاسی خاندانی سلسلے کے لیے کسی سنگین دھچکے سے کم نہیں۔ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ نے اپنے غیر معمولی حکم نامے میں نہ صرف سابق وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا ہے بلکہ تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے، اقتدار میں رہتے ہوئے اور اقتدار سے باہر رہتے ہوئے، ملک کے سیاسی منظر نامے پر غالب تقریبا تمام شریفوں کو بھی ملزم ٹھہرایا ہے۔ لیکن ابھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آیا اس فیصلے کے بعد شریف خاندان کی سیاسی روایت کا خاتمہ ہو جائے گا یا نہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ قیادت کی چھڑی اب شہباز شریف کے ہاتھوں میں تھما دی جائے گئی، تا کہ کم از کم موجودہ حالات میں اقتدار پر خاندانی سلسلے کو قائم و دائم رکھا جا سکے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلاشبہ، موجودہ وزیر اعظم کے خلاف بے مثال عدالتی کارروائی ملک کی جمہوری ارتقا کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور ملک میں قانون کی بالادستی کے قیام کی جانب ایک بڑے قدم کے طور پیش کیا گیا ہے۔ اگرچہ فیصلے پر اٹھائے جانے والے شکوک شبہات کو خلاف دستور عمل کہا گیا، لیکن اہم بات یہ ہے کہ تمام کارروائی نظام کے اندر رہتے ہوئے کی گئی اور کچھ بھی آئینی ڈھانچے سے ہٹ کر نہیں ہوا۔ یہ بات ملک میں انتظامیہ کے ماتحت عدلیہ کے بجائے ایک آزاد عدلیہ کی تشکیل کی جانب بھی ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، لہذا فیصلے کے بعد محسوس ہو رہی تکلیف سے اختلاف رائے رکھی جا سکتی ہے۔
بلاشبہ، ایسا ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اس حکم نامے نے ایک ہنگامے اور سیاسی غیر یقینی کے دور کو جنم دیا ہے جب کسی مضبوط خاندانی سیاسی سلسلہ کو ہلا کر رکھ دیا جائے تو ایسا ہونا لازم ہے۔ ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس حکم نامے نے ملک میں سیاسی انتشار کو مزید بڑھا دیا ہے۔ مگر بلاشبہ اس سے جمہوری سیاسی عمل کو کوئی ایسا خطرہ نہیں جس کے خدشات نواز شریف کے حامی ظاہر کر رہے ہیں۔بلکہ اس سے تو خاندانی سیاست کو ٹھیس پہنچی ہے جو کہ ملک میں جمہوری اداروں اور اقدار کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ پاناما کیس کے فیصلے نے اس سوچ کا بھی خاتمہ کیا کہ چونکہ نواز شریف پنجابی ہیں اس لیے ان کا کوئی بال بھی بیگا نہیں کر سکتا جبکہ سندھ اور دیگر چھوٹے صوبوں کے رہنماں سے بڑی آسانی سے ہٹا جا سکتا ہے۔
اس لیے شریف کی سبکدوشی پر واویلا کرنا اور مقدمے کے معاملات کو جمہوریت کے لیے دھچکا تصور کرنا، سمجھ سے بالا تر ہے۔ نواز شریف کے خلاف مقدمہ ایک پورے قانونی عمل سے گزرا اور اسے سازش کا ایک حصہ یا ایک عدالتی بغاوت بالکل نہیں کہا جا سکتا۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ، جس میں نواز شریف اور ان کے خاندان پر الزامات عائد کیے گئے تھے، کے آنے کے بعد یہ بالکل واضح ہو گیا تھا کہ وزیر اعظم بڑے مشکل حالات سے دوچار ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ شریف خاندان لندن جائیداد کی منی ٹریل فراہم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ان پر جھوٹا بیان دینے اور چند غیر ملکی اثاثے چھپانے کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ لیکن ایک پورے خاندان کے خلاف اتنی سخت کارروائی اور اتفاقی فیصلے نے نہ صرف حکومت بلکہ حکومت سے باہر بیٹھے لوگوں کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے۔
بلاشبہ، خاندان کے دیگر افراد پر الزامات اور ان کے خلاف مقدمات نیب کو بھیجنے سے خاندانی تسلسل کا منصوبہ مشکل میں پڑ گیا ہے۔ جہاں جعلی کاغذات کے الزام کے بعد، عدالتی فیصلہ مریم نواز کے خلاف آنے کی تو توقع تھی وہاں اس فہرست میں شہباز شریف کا نام شامل ہونا خلاف توقع ہے۔ جس نے مسلم لیگ ن کی قیادت کو بد سے بدتر حالات سے دوچار کر دیا ہے۔مگر پارٹی میں موجود کئی لوگ پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں کہ جونیئر شریف نیب میں الزامات کا سامنا کرتے ہوئے بھی پارٹی کو قیادت سنبھال سکتے ہیں۔ ہاں مسلم لیگ ن کے پاس اب بھی مظلومیت کا کارڈ اور سبکدوش وزیر اعظم کو سیاسی شہید کے طور پر پیش کرنی کی چال باقی ہے۔ مگر کوئی نہیں جانتا کہ موجود حالات میں یہ چال کام آئے گی بھی یا نہیں۔ نواز شریف کی اخلاقی اور سیاسی حیثیت کمزور پڑنے سے ان کا پارٹی پر اثر رسوخ بھی محدود ہو چکا ہے۔اسٹیبلشمنٹ سے جنم لینے والے نواز شریف کو 1980 کی دہائی کے اوائل میں ایک منصوبے کے تحت ضیا الحق کی فوجی حکومت کی سرپرستی میں سیاست میں اتارا گیا تا کہ بے نظیر بھٹو کو چیلنچ دینے کے لیے سیاسی میدان میں کوئی دوسرا لیڈر موجود ہو۔1990 کی دہائی میں پنجاب کے وزیر اعلی سے وزیر اعظم تک کے سفر میں انہیں فوج اور پنجاب کی طاقتور سول اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی رہی۔ اسی سیاسی طاقت کی بدولت شریف خاندان کو کاروبار میں بھی زبردست ترقی نصیب ہوئی۔ اس مالی اسکینڈل نے نواز شریف کے پورے سیاسی کریئر میں، خاص طور پر ملک کی سب سے بڑے عہدے پر فائز ہونے کے بعد، پیچھا نہیں چھوڑا۔ بالآخر پاناما پیپرز میں ان کے خاندان کا نام آنے کے بعد اسکینڈل کھل کر سامنے آیا اور ان کے زوال کی وجہ بھی بنا۔سیاسی طاقت کے عروج تک پہنچنے کے بعد نواز شریف نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ کو توڑنے کی بھی کوشش کی، جس کے باعث وہ اپنی گزشتہ حکومتوں کی میعاد پوری نہیں کر پائے تھے۔ کبھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے زیر سرپرست رہنے والا شخص اب خود ان کے لیے زہر قاتل بن گیا تھا۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ ان کا تیسرا دور بھی فوجی قیادت کے ساتھ مسلسل تنازع کی زد میں رہا۔اگرچہ مسلم لیگ ن کی ماضی میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کافی قربت رہی ہے مگر نواز شریف نے اسے ایک عوامی جماعت بنانے کی کوشش کی، لیکن لگتا ہے کہ وہ اپنے اس مقصد میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو پائے ہیں۔
مگر پھر بھی نواز شریف برسا برس، حالات کے اتار چڑھا وکے باوجود عوام میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے، جس کی بنا پر وہ تیسری بار منتخب ہو کر وزیر اعظم بنے۔ پنجاب پر ان کے خاندان کی گرفت مضبوط بنانے کی خاطر طاقتور پنجابی سول اسٹیبلشمنٹ، بشمول بیوروکریسی اور عدلیہ کے کچھ حلقوں کو مدد کرتے دیکھا گیا ہے۔ایک اہم سوال یہ ابھرتا ہے کہ آیا رسوا نواز شریف پارٹی کو متحد رکھ پائیں گے یا نہیں۔ سب سے زیادہ ضروری یہ کہ، کیا پنجاب اسٹیبلشمنٹ شریف خاندان پر الزامات عائد ہونے کے بعد چھوٹے میاں کی قیادت میں مسلم لیگ ن کی حمایت جاری رکھے گی؟ کیونکہ اس سے قبل ہمیں برے حالات میں میں ٹوٹ پھوٹ کی مثالیں ملتی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال مشرف کی بغاوت کے بعد پاکستان مسلم لیگ ق کے قیام کی صورت میں موجود ہے۔ جب حیران کن طور پر، وفاداریاں بدلنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نہ صرف حکومتی بینچوں بلکہ کابینہ میں بھی واپس شامل ہو گئی تھی۔شریف خاندان کے لیے ایسی صورتحال سے بچنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ پارٹی اتحاد کا انحصار پی پی پی اور پی ٹی آئی کی مسلم لیگ ن کے گڑھ پنجاب میں اپنی جگہ بنانے کی صلاحیت پر بھی ہے، جو کہ مرکزی سیاسی میدان بھی رہا ہے۔ جبکہ نواز شریف کے زوال سے دیگر صوبوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔اے پی ایس