فرد واحدکا سیاسی مستقبل اور مجموعی جمہوریت: چودھری احسن پریمی



مبصرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی عدالتی برطرفی کے بعد مسلم لیگ ن اپنی نئی سیاسی حکمت عملی تیار کر چکی ہے اور وہ یہ ہے کہ تا حد نگاہ بلکہ اس سے بھی آگے تک بس شریف خاندان کی ہی حکمرانی رائج ہو۔ یا جس طرح سعد رفیق نے بڑے فخریہ انداز میں کہا تھا کہ ایک شریف کو ہٹا گے تو ہم دوسرا لائیں گے، دوسرے کو ہٹا گے تو ہم تیسرا پھر چوتھا شریف لائیں گے۔ شریف خاندان اقتدار گھر میں ہی کیوں رکھنا چاہتا ہے؟ ان کے نزدیک ایک قانون کا حکمنامہ ہوتا ہے اور ایک اچھی سیاست ہوتی ہے۔ ایک قانونی دھچکے سے نکلنے کی راہ ہوتی ہے اور ایک غلطیوں کو دہرانا ہوتا ہے۔ ایک شریف خاندان ہے، اور ایک سوجھ بوجھ ہوتی ہے۔ایک سیاسی پارٹی اپنا رہنما چننے کا جواز رکھتی ہے اور نواز شریف کی برطرفی سے پیدا ہونے والے متنازع حالات میں یہ بات تو ناگزیر تھی کہ دوسرے نام کے لیے سبکدوش وزیر اعظم کی ترجیحات ہی زیادہ باوزن ہوں گی۔ لیکن شریف خاندان کی شدید تنگ نظری خطرناک ہے اور سیاسی طور پر پریشان کن بھی۔نواز شریف کی برطرفی کے بعد مسلم لیگ ن کو تین فیصلے کرنے تھے لیکن ان میں سے ایک بھی فیصلہ اہم یا معقول ثابت نہیں ہوا ہے۔ پہلا تو شاہد خاقان عباسی کو عبوری وزیر اعظم بنانا۔ عبوری کیوں؟ عباسی اور سابق کابینہ میں شامل ان کے کئی دیگر ساتھی اگلے سال منعقد ہونے والے عام انتخابات تک حکومت چلانے کے لیے ہر طرح سے باصلاحیت ہیں۔ویسے تو مسلم لیگ ن اپنے دور کے کارناموں اور تجربہ کار ٹیم کے گن گاتے نہیں تھکتی۔ لیکن خاقان عباسی اور ان کے دیگر ساتھی ضرورت سے ایک دن بھی زیادہ وزیرِ اعظم رہنے کے لیے نااہل اس لیے ہیں کیوں کہ ان کے ناموں کے آگے شریف نہیں لگا۔ملک کی تشکیل کے 70 ویں سال میں ایک پارٹی جو محمد علی جناح کی پارٹی کے نام پر قابض ہو وہ شرمناک حد تک اقربا پرور ہے۔ چھوٹے میاں صاحب کو بلاتاخیر پنجاب سے نکال کر مرکز میں لانے کا فیصلہ بھی سیاسی طور پر مسائل سے بھرپور ہے۔شہباز شریف کی وفاقی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کی خواہش سے تو سیاسی حلقے کئی برسوں سے آشنا ہیں۔ لیکن انہیں مایوسی نصیب ہوئی  اور انہیں وفاقی انتظامی تجربہ دینے بھی انکار کر دیا جو کہ آج مفید ثابت ہوتا کیونکہ ان کے بھائی ہی وزارت عظمی کے عہدے پر فائز رہنا چاہتے تھے اور وفاقی دارالحکومت کے اندر اپنی ہم پلہ طاقتور شخصیت کی موجودگی سے متاثر ہونا نہیں چاہتے تھے۔1990 میں وہ رکنِ قومی اسمبلی رہ چکے ہیں لیکن اب سے دو ماہ بعد ایک بار پھر حلف اٹھائیں گے تو اس وقت ایک بڑی حد تک مختلف پارلیمنٹ ہوگی اور اسلام آباد کا انتظامی ڈھانچہ بھی مختلف ہوگا۔ درحقیقت، شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانا ایک سیاسی تجربہ ہے جس کا نتیجہ کافی بدتر نکل سکتا ہے۔
بالآخر، اب حمزہ شریف کے بھی قومی اسمبلی کی رکنیت چھوڑ کر پنجاب اسمبلی میں اپنے والد کی جگہ لینے کے امکانات کافی روشن نظر آ رہے ہیں۔ ٹھیک آلِ سعود کی طرح آلِ شریف بھی طاقت کو صرف اپنی نسل تک محدود رکھنے کی تیاری کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔شاید واحد عارضی اچھائی یہ ہوئی ہے کہ مریم نواز وزارت عظمی کے عہدے کے منصوبوں کا حصہ نہیں ہیں، ورنہ منظرنامہ مختلف ہوتا۔ سچ ہے کہ شریف خاندان نے موروثی سیاست میں کسی حد تک بھٹو خاندان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی میں نتائج کے اعلان کے بعد اپنے پہلے خطاب میں کہا ہے کہ ان کی اولین ترجیح معشیت،زراعت،ٹیکس اور سرمایہ کاری ہوگی۔ان کا کہنا تھا کہ وہ آئے تو 45 دن کے لیے ہیں لیکن وہ کام 45 مہینوں کا کریں گے۔
 قومی اسمبلی میں نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے ووٹنگ ہوئی تو حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے امیدوار شاہد خاقان عباسی نے 221، پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے 47 جبکہ عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے 33 ووٹ حاصل کیے۔سپیکر کی جانب سے نتائج کے اعلان کے بعد جب شاہد خاقان عباسی سے خطاب کرنے کو کہا گیا تو اس وقت اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے تقریبا تمام ارکان سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تصاویر لیے موجود تھے۔اس موقع پر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں 'عوام کے وزیراعظم نواز شریف کا شکرگزار ہوں جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو ہمیں روز تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔نومنتخب وزیر اعظم نے کہا کہ '30 سال سے نواز شریف کے ساتھ ہوں، گواہی دیتا ہوں نواز شریف نے کبھی کرپشن کا نہیں کہا جبکہ ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔'اپنے خطاب کے دوران جب وہ سابق وزیر اعظم کے ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے ایل این جی پر بات کرنے لگے تو ایوان میں کہیں سے ان کے خلاف ایل این جی کے معاہدے میں بے ضابطگیوں کے بارے میں قومی احتساب بیورو میں ایک انکوائری کا حوالہ دیا گیا جس پر انھوں نے ہنستے ہوئے کہا: بیٹا اس پر بات کرنے کے لیے میں ہر وقت حاضر ہوں۔شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ 'پارلیمانی ارکان کی ٹیکس ڈائریکٹری دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے، ٹیکس دینا قانونی ذمہ داری ہے، ہم نے ٹیکس نہ دینے والوں کے پیچھے جانا ہے، جو ٹیکس نہیں دیتے ان کو ٹیکس دینا پڑے گا اور ہر ایک کو اپنے طرز زندگی کی وضاحت کرنی ہوگی۔اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ سکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے، دنیا میں کسی شخص کو خودکار اسلحے کا لائسنس نہیں دیا جاتا، ہم بھی خودکار اسلحے کا لائسنس ختم کریں گے۔'نو منتخب وزیراعظم کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے سید نوید قمر کو خطاب کرنے کی دعوت دی تو ساتھ میں ان سے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے اور شاہد خاقان عباسی کے یونیورسٹی دور کے بارے میں بھی ضرور بتائیں۔جس پر سید نوید قمر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے یونیورسٹی دور کا ذکر تو کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ سٹوڈنٹ یونین کا صدر میں تھا اور شاہد خاقان عباسی جنرل سیکریٹری تھے۔پی ٹی آئی کی جانب سے وزیراعظم کی سیٹ کے لیے حمایت حاصل کرنے والے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید جو 33 ووٹ حاصل کر سکے نے بھی ایوان میں گفتگو کی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر نو منتخب وزیراعظم خارجہ پالیسی پر بھی بات کرتے تو اچھا ہوتا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئے وزیراعظم ملک کو اسلحے سے پاک کرنا چاہتے ہیں تاہم یہ اتنا آسان نہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی نے ملک کے نئے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد صدر پاکستان ممنون حسین کی موجودگی میں وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔اس سے قبل قومی اسمبلی میں ہونے والے اجلاس کے دوران ہونے والی ووٹنگ میں انھوں نے 221 ووٹ حاصل کیے تھے۔ان کے قریب ترین حریف پیپلز پارٹی کے نوید قمر رہے جنھوں نے 47 ووٹ لیے۔تحریکِ انصاف کے امیدوار شیخ رشید نے 33 ووٹ حاصل کیے جب کہ جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ طارق اللہ نے چار ووٹ لیے۔اس سے قبل جب اجلاس شروع ہوا تو سپیکر نے اراکین سے اپنی پسند کے امیدوار کے لیے مقرر کردہ لابی میں جمع ہونے کو کہا۔
خیال رہے کہ اجلاس سے قبل حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں ایم کیو ایم نے مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کرنے پر اتفاق کیا تھا جبکہ دوسری جانب حزب مخالف کی جماعتیں اپنا متفقہ امیدوار لانے میں ناکام رہی تھی۔واضح رہے کہ کسی بھی امیدوار کو کامیابی کے لیے342کے ایوان میں کم سے کم 172ووٹ حاصل کرنا تھا جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعتوں کے پاس اپنے امیدوار کو منتخب کرانے کی لیے پہلے ہی واضح برتری حاصل تھی۔اس سے قبل گذشتہ روز ابتدائی طور پر جن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے تھے ان میں حکمراں جماعت کے شاہد خاقان عباسی، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ، پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید نوید قمر، متحدہ قومی مومومنٹ کی کشور زہرہ، جماعت اسلامی کے رہنما حافظ طارق اللہ اور ایک ہی نشست رکھنے والی جماعت عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید بھی شامل تھے۔تاہم بعد میں پیپلز پارٹی کے امیدوار سید خورشید شاہ نے سید نوید قمر کے حق میں اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے تھے جبکہ حکمران جماعت کی حمایت کا اعلان کرنے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کی کشور زہرہ بھی شاہد خاقان عباسی کے حق میں دستبردار ہو گئی تھیں۔پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عوامی مسلم لیگ
 کے سروراہ شیخ رشید کو امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اس وقت قومی اسمبلی میں 187نشستیں ہیں جبکہ حکمراں اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں بھی شاہد خاقان عباسی کو ہی ووٹ دیں گے۔ حکمراں اتحاد میں جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ قابل ذکر ہے۔حکمراں جماعت کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا انتخاب جیتنے کے بعد ان کی جماعت کی توجہ ان منصوبوں پر ہو گی جو ابھی مکمل نہیں ہوئے۔اس کے علاوہ ان کی جانب سے اس عزم کا بھی اعادہ کیا گیا ہے کہ انہی پالیسیوں پر عمل درآمد کیا جائے گا جو پالیسیاں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور سے چلی آرہی ہیں۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اپنے دھیمے مزاج اور صلح جو طبیعت کی وجہ سے وفاقی کابینہ کے ان گنے چنے ارکان میں شامل رہے ہیں جو ہمیشہ تحمل اور غیر جذباتیت کے داعی رہے ہیں۔صوبہ پنجاب کے مشہور سیاحتی مقام مری سے تعلق رکھنے والے شاہد خاقان عباسی کے والد خاقان عباسی ضیا الحق کے قریبی ساتھیوں میں تھے۔1988 میں اپنے والد کی راولپنڈی اوجڑی کیمپ حادثے میں ہلاکت کے بعدشاہد خاقان عباسی پارلیمانی سیاست میں داخل ہوئے اور اسی سال ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخاب میں کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد سے وہ چھ مرتبہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ انہیں صرف 2002 کے انتخاب میں شکست کا سامنا ہوا۔نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں وہ قومی ہوائی کمپنی پی آئی اے کے چیئرمین بنے اور 12 اکتوبر 1999 کی فوجی بغاوت کے موقع پر فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کا طیارہ اغوا کرنے کی کوشش کے جرم میں نواز شریف کے ساتھ گرفتار ہوئے۔نواز شریف پرویز مشرف کے ساتھ ایک معاہدے کے بعد اہل خانہ کے ہمراہ سعودی عرب روانہ ہوئے لیکن شاہد خاقان عباسی کو جیل ہی میں چھوڑ گئے۔قریبا دو برس جیل میں گزارنے کے بعد جب وہ رہا ہوئے تو انھوں نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر اپنے حلقے سے الیکشن تو لڑا لیکن ان کے حلقے کے لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ الیکشن بے دلی سے لڑا اس لیے ہارے۔اس کے بعد کچھ سال کے لیے ان کی ساری توجہ کا مرکز نجی فضائی کمپنی ائیر بلیو رہی جس کے وہ بانی سربراہ ہیں۔ اس دوران وہ عملی سیاست سے ذرا فاصلے پر رہے۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے اس وقت کی حکمران جماعت کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے قریبی مراسم رہے جن سے انہوں نے اپنی ایئر لائن کے لیے فائدے بھی لیے۔لیکن جب نواز شریف ملک اور عملی سیاست میں واپس آئے تو شاہد خاقان عباسی ایک بار پھر ان کے ساتھ کھڑے تھے۔یہ بھی قیاس ہے کہ اس وقت شاہد خاقان عباسی کا شمار ان مسلم لیگی رہنماں میں ہوتا تھا جن کے فوج سے روابط تھے۔ ان روابط اور رشتہ داریوں کو انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کس طرح استعمال کیا اس کے کوئی شواہد نہیں ملتے لیکن انہوں نے بعض جنرلز کے نام کسی حد تک استعمال ضرور کیے۔شاہد خاقان عباسی رکن قومی اسمبلی اور ان کی بہن سعدیہ عباسی ایڈووکیٹ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹر بنیں لیکن اپنی مدت ختم ہونے کے بعد جب انہیں سینیٹ کے لیے دوبارہ ٹکٹ نہیں ملا تو وہ مسلم لیگ سے تلخی کے بعد علیحدہ ہو گئیں۔نواز شریف نے تیسری مرتبہ وزارت عظمی سنبھالنے کے بعد شاہد خاقان کو اہم وزارت پٹرولیم اور قدرتی وسائل سونپی۔انہیں خواجہ آصف، شہباز شریف اور اسحق ڈار کے ساتھ ملک کر ملک سے توانائی کا بحران ختم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی یوں وہ گذشتہ چند سالوں سے نواز اور شہباز شریف کے بہت قریب رہنے والے وزرا میں شامل رہے۔وہ صرف توانائی کے معاملات ہی نہیں بلکہ سیاسی مشاورت میں بھی ہمیشہ شامل رہے اور بعض مسلم لیگی ذرائع کے مطابق بیشتر مواقع پر ان کی اور شہباز شریف کی رائے میں خاصی مماثلت پائی جاتی تھی، یعنی دونوں ہی تصادم کے بجائے مفاہمت کی بات کرتے دکھائی دیتے۔
شاہد خاقان عباسی کی ایک خوبی بہت حد تک غیر متنازع ہونا بھی ہے۔ وہ پاکستان میں سب سے زیادہ 'نفع بخش' سمجھی جانے والی وزارت کے سربراہ رہے ہیں اس کے باوجود کسی بڑے سیاسی یا مالیاتی تنازعے کی زد میں نہیں آئے۔وہ اپنے ساتھی ارکان اسمبلی میں بھی اچھی شہرت رکھتے ہیں اور صلح جو مزاج کے باعث مقبول بھی ہیں۔ حال ہی میں جب وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وزیراعظم سے ناراضی کا اظہار کیا تو جن لوگوں کو انہیں منانے کی ذمہ داری سونپی گئی ان میں شاہد خاقان عباسی بھی شامل تھے۔مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک مختصر، تاکیدی اور متفقہ فیصلے میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کو وزیراعظم کے عہدے سے نیچے اتار دیا، احتساب کو دھکا دیا اور سیاسی منظرنامے کو یکسر تبدیل کردیا۔ فیصلے کے مکمل قانونی اثرات آنے والے چند دنوں میں سامنے آئیں گے اور عدالت کی جانب سے نواز شریف کی پارلیمان سے نااہلی کے لیے پیش کی جانے والی وجہ پر زبردست بحث ہورہی ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہے: نواز شریف نے 2013 میں کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ اثاثوں کی نامکمل تفصیلات جمع کروا کر خود عدالتی سزا کے لیے راہ ہموار کی۔
شاید سابق وزیرِ اعظم انتخابی افسران سے یہ چھپانا چاہتے تھے کہ وہ دبئی کی کمپنی کیپیٹل ایف زیڈ ای کے چیئرمین ہیں یا شاید امیدواروں کے عمومی لاپرواہ رویے کی طرح انہوں نے ایسا کیا، لیکن ملک بھر میں یہ سخت پیغام جاچکا ہے کہ: سب کچھ مکمل اور شفافیت سے ظاہر کرو ورنہ حتمی سزا کے خطرے کے لیے تیار رہو۔ یہ سخت تشریح ایک نعمت بھی 
ہوسکتی ہے  اگر اس کا شفاف اور یکساں اطلاق کیا جائے۔ سپریم
 کورٹ کے کندھوں پر بھاری بوجھ ہے اور پرامید ملک نئے معیار کی منصفانہ اور یکساں عملدرآمد کا انتظار کرے گا۔سیاسی لحاظ سے نواز شریف اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے معزز راستہ اختیار کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کو فوری طور پر تسلیم کرلیا، باوجود اس کے کہ پارٹی رہنماں نے فیصلے پر سخت تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ نواز شریف کی عدالتی قسمت جو بھی ہو یہ ہمیشہ واضح رہا ہے کہ مجموعی جمہوریت کا داو پر لگنا ایک شخص کے سیاسی مستقبل سے بڑھ کر ہے  توجہ جمہوری عمل کو آگے بڑھانے پر مرکوز رہنی چاہیے۔ اس لیے ضروری تھا کہ پاکستان مسلم لیگ نواز جلد از جلد نیا وزیرِ اعظم نامزد کرکے قومی اسمبلی سے اگلا وزیراعظم منتخب کروائے۔اس ضمن میں یہ خوش آئند بات ہے کہ اس نے ایسا ہی کیا اور شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم منتخب کرلیا۔اس کام میں التوا پاکستان مسلم لیگ نواز کے مفاد میں نہیںتھا اور یقینی طور پر ملکی مفاد میں بھی نہیں۔ پارلیمان میں اکثریت رکھنے والی جماعت، 342 نمائندگان کی اسمبلی، کے لیے متبادل وزیراعظم تلاش کرنا آسان عمل تھا، ملک کو اس نقصان دہ سیاسی قحط سے نکلنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اورپاکستان مسلم لیگ نوازنے  معزز انداز میں کام کرتے ہوئے مجموعی جمہوری عمل کو محفوظ کیا۔
جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ایک اہم فتح حاصل ہوگئی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکمت عملی کے ساتھ جو بھی اختلافات ہوں لیکن سیاسی سچائی کو سراہا جائے: اگر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی پارٹی کی جانب سے بنا فائدہ حاصل کیے جاری رہنے والی مہم نہ ہوتی تو منتخب نمائندوں کا احتساب قومی سیاسی گفتگو کا مرکز نہیں ہوتا۔ پاناما پیپرز کیس کو عمران خان نے قانونی اور سیاسی حلقوں میں تقریبا اکیلے ہی اپنی کوششوں سے زندہ رکھا۔ حالانکہ پی ٹی آئی کے سربراہ نے غیر مستحکم سیاست کی لیکن ان کی غیرجانبداری کی وجہ سے ایسا احتساب سامنے آیا جس کے بارے میں چند ماہ قبل کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔اب یہاں سے پی ٹی آئی کا مقصد احتساب کے عمل کو مزید بڑھانے پر ہونا چاہیے جسے بڑھا کر پارلیمنٹ کے منتخب نمائندگان تک نہیں بلکہ ریاست کے دیگر اداروں تک پہنچانا ہے۔ مشکلات کے باوجود، عمران خان اور ان کی جماعت نے پاکستان میں شفاف سیاسی عمل کی بنیاد رکھنے کے لیے مدد فراہم کی۔ عمران خان اور ان کی جماعت کو بھی اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو احتساب کے سخت عمل کے لیے پیش کرنا چاہیے جس میں نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا۔بالآخر سیاسی منظرنامے میں ایک اہم بھونچال آگیا اور نگاہیں پاکستان میں سیاسی استحکام پر موجود ہیں جہاں ایک اور وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری ہونے سے قبل گھر بھیج دیا گیا۔ سیاسی تاریخ میں ایک مرتبہ پھر ملک کو ایسی نازک صورتحال میں دھکیلنے کے لیے سازشوں کی تلاش ممکن ہے یا پھر قربانی    کے بکروں کو موردِ الزم ٹھہرایا جائے۔تاہم جمہوریت کے محافظ
 ہونے کی حیثیت سے حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کو اہم ذمہ داری قبول کر لینی چاہیے تھی۔ نواز شریف استعفی دے کر ملک کو ایک مزید سیاسی افراتفری سے بچا سکتے تھے یا پھر نواز شریف سپریم کورٹ میں منی ٹریل دے سکتے تھے جس کے لیے بنیادی طور پر عدالت نے انہیں بلایا تھا لیکن نواز شریف نے دونوں کام نہیں کیے۔لیکن اب نواز شریف اور ان کی جماعت کو اپنے کاندھوں پر آنے والی نئی ذمہ داری کو قبول کرنا چاہیے: ملک کو جمہوری راستے پر لانے میں مدد کریں یا پھر جمہوریت کو خطرے سے دوچار کردیں۔ لیکن اگر نواز شریف عدالتی مینڈیٹ سے حاصل ہونے والے سیاسی مستقبل کو تسلیم کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں تو طاقت کے دیگر مراکز کو پاکستان مسلم لیگ نواز اور دیگر مقبول سیاسی جماعتوں کو آگے بڑھنے کے جمہوری راستے کے تعین کا موقع فراہم کرنا ہوگا۔
جن سخت حدود میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا ان سے باہر ملک میں اختیار کی سیاسی حقیقت ہے۔ جمہوری عمل کسی بھی صورتحال میں ڈی ریل نہیں ہونا چاہیے۔وزیراعظم کی نااہلی کا دن پاکستان میں عدالت اور سیاست کے لیے ایک تاریخی دن تھا۔ اس سے پہلے بھی وزرائے اعظم کو ہٹایا گیا ہے، اور وزرائے اعظم بچ نکلے ہیں، مگر کسی کے بارے میں ایسی عوامی اور زیادہ تر شفاف تحقیقات نہیں ہوئی ہیں جیسی کہ وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے بارے میں ہوئی ہیں۔چاہے نواز شریف کو عوامی عہدے کے لیے غیر موزوں قرار دیا جائے، ان کا مقدمہ احتساب عدالت میں بھیجا جائے، یا پھر سپریم کورٹ کوئی اور راستہ اختیار کرے، مگر یہ بات طے ہے کہ بلاشبہ ایک خوش آئند مثال قائم کی جا چکی ہے: ایک وزیرِ اعظم اور ان کے خاندان سے ان کی آمدن اور دولت کے ذرائع کی وضاحت طلب کی گئی ہے۔ایک ایسے ملک میں جہاں منتخب و غیر منتخب عوامی عہدیدار معمولا اور کھلے عام اپنے قانونی ذرائع آمدن اور ڈکلیئر شدہ دولت سے زیادہ شان و شوکت سے زندگی گزارتے ہیں، وہاں پاناما پیپز کیس یہ سب باتیں عوام کے سامنے لانے اور احتساب کے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستانی عوام تمام ریاستی اداروں میں ایک بہتر، زیادہ شفاف اور مزید قابلِ احتساب قیادت کے مستحق ہیں۔جب سیاسی بازی پر بہت کچھ لگا ہو، وہاں یہ لازم ہے کہ آج کسی نہ کسی کیمپ میں مایوسی ضرور ہوگی۔ اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کیا جائے اور اس کے احکامات کو فورا بجا لایا جائے۔آج سے بہت عرصے بعد، اور جب میاں نواز شریف سیاسی میدان کا حصہ نہیں رہے ہوں گے، تو جمہوری نظام کو آئین اور قانون کے دائرے میں رکھنے کے لیے ایک آزاد عدلیہ کی ضرورت ہوگی۔ وقتا فوقتا پاناما پیپرز کیس میں درخواست گزاروں اور مدعا علیہان دونوں نے عدالت کو تقریبا سیاست کی نذر اور جمہوری اداروں کی ساکھ کو متاثر کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے اس سیاسی تماشے کو، جو اسے ہی نگل جانے کے قریب تھا، کے بارے میں غیر ضروری برداشت کا مظاہرہ کیا ہے، مگر عدالت کے پاس احتساب کے مقصد کو آگے بڑھانے اور جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لیے موقع ہے۔ عدالت ایسا ایک معقول اور ٹھوس دلائل پر مبنی فیصلہ جاری کر کے کر سکتی ہے۔ اس طرح کرنے سے یہ ساری ذمہ داری پاکستان کی سیاسی قیادت پر ڈال دے گی کہ وہ جمہوری بلوغت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فیصلے کو جمہوری نظام کی مضبوطی کے مرحلے میں ایک قدم سمجھتے ہوئے اسے تسلیم کریں۔ ملک کے سیاستدانوں کو اس فیصلے کے بعد اپنا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔ سیاسی مقابلے بازی جمہوریت کے لیے اہم ہے، مگر مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریکِ انصاف کی رسہ کشی سے ملک پیچھے رہتا جا رہا ہے۔ ملک میں اب وہی 1990 کی دہائی کا منظرنامہ دکھائی دیتا ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ مسلم لیگ ن کے چاہے جو بھی ہو جائے حکومت میں رہنے کے عزم، اور پاکستان تحریکِ انصاف کے چاہے جو بھی ہوجائے اقتدار میں آنے کے عزم سے جمہوری نظام کو ہی نقصان ہو جائے۔جمہوریت کو صرف نواز شریف کے جانے سے نہ کوئی خطرہ ہوگا، اور نہ ہی یہ عمران خان کے اقتدار میں آنے سے خود بخود مضبوط ہو جائے گی۔دونوں رہنماں کو فورا اس عاجزی کا مظاہرہ کرنا چاہیے جو اب تک دونوں میں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔اے پی ایس