جمہوریت کے خلاف جرائم۔چودھری احسن پریمی


سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتے ہوئے یہ پیغام دیا ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اگرچہ انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن آئین میں یہ کہیں بھی درج نہیں کہ اگر وزیراعظم کوئی جرم کرے گا تو وہ قانون سے بالاتر ہے۔اگرچہ نواز شریف سولین بالادستی کی درست بات کرتے ہیں لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل جتنے بھی وزراء اعظم کو رخصت ہوئے یہی نواز شریف ان کے خلاف رخصت کرنے والوں کے حمائتی رہے تاہم اب ذاتی مفادات پر ضرب پڑی ہے تو سارے کا سارا نظام ظالم نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔
ہمارے قومی پرچم کو ان لوگوں کا اعزاز ملتا ہے جو اس کی حفاظت کے لئے لڑے ہیں، اور ہمارے ملک کے بانیوں اور ہیروز کی قربانی کی یاد دہانی ہے.عظیم دماغ دوسروں کو بہت اچھا بنانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ خود کے لئے انہیں فیصلہ کرنے میں مدد مل سکے ان کا مقصد کثرت کو توڑنا یا روحانی استبداد قائم کرنا نہیں بلکہ دانشورانہ بحالی ہوتا ہے۔ایک چیز واضح ہے: بانی پاکستان کبھی ایسے ملک کا ارادہ نہیں رکھتے تھے جہاں ہر شہری اپنی حکومت میں ہر چیز کا تقریبا نصف ادا کرے گا.ستر سال بعد بھی بانی پاکستان مسٹر محمد علی جناح کی بصیرت اور سمت کا ابھی تک احساس نہیں ہوا۔ بانی پاکستان مسٹر محمد علی جناح نے خبردار کیا تھا کہ "حکومت کا پہلا فرض قانون اور نظم برقرار رکھنے کے لئے ہے. یقینا، جس طرح قائد اعظم نے اپنی 11 اگست کی تقریر میں زور دیا تھا، ملک کے اپنے بنیادی نظریات سے ہٹ جانے اور ہنگامہ خیزی کی ذمہ داری سیاسی طبقے پر بھی عائد ہوتی ہے۔ رشوت خوری اور بدعنوانی، کالا دھندا، اقربا پروری اور بے ایمانی  وہ تمام برائیاں ہیں جنہیں قائد اعظم نے سویلین اختیار کے زیر انتظام جمہوری، مساوی اور منصفانہ معاشرے کی راہ میں بنیادی رکاوٹیں قرار دیا تھا۔ بنیادی سماجی عدم مساوات کو ختم نہ کرنے میں ناکامی جمہوریت کے خلاف جرائم کے برابر ہے جس کا سامنا اس ملک نے کیا ہے۔ شاید ملک کو قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہشات کے مطابق قائم ہونے میں ابھی مزید کئی دہائیاں لگیں۔جمہوریت صرف انفرادی خواہشات اور تقاضوں کو ضائع کرنے کے لئے لائسنس نہیں ہے۔ امن، افراتفری  اور کرپشن  کے حوالے سے یہ بھی کچھ معقول حد تک ذمہ دار ہے۔  
 تاہم چیئرمین سینیٹ رضاربانی کا کہنا ہے کہ ریاست کے ساتھ مختلف کھیل کھیلے جا رہے ہیں،اب وقت آگیا ہے کہ تاریخ    سے سبق لیتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ آج وفاق اندرونی
 اور بیرونی طور پر ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں بنیادی فیصلے کرنے ہیں، بہت وقت گذر گیا، بہت تجربے ہوگئے، اب فیصلے کا وقت آگیا ہے۔ ملک میں جمہوری نظام کو مضبوط نہیں ہونے دیا گیا اور 18 وزرائے اعظم کو ہٹایا گیا جوایک ریاستی منصوبہ تھا اور یہ تمام چیزیں سوچی سمجھی سوچ کے تحت تھا۔
 یوسف رضا گیلانی اور اب نواز شریف کو ہٹایا گیا لیکن ان کی جگہ نئے وزیراعظم آگئے اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی قدریں جڑ پکڑ رہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تصور کو تبدیل کر دیا گیا، پاکستان کو ویلفیئر اسٹیٹ سے نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل کیا گیا جس کے باعث تمام تر ترجیحات تبدیل ہوگئیں۔ عوام کا بڑا واضح فیصلہ ایک جمہوری وفاقی اور پارلیمانی پاکستان کا ہے اس لیے اب پاکستان کے ادارے آپس میں تصادم کے متحمل نہیں، ہر ادارہ اپنے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے۔چیئرمین سینیٹ نے اداروں کے درمیان ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چپقلش کی وجہ سے پاکستان آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے اس لیے ڈائیلاگ سے ادارے اپنے مسائل اور تحفظات دور کر سکیں گے۔ علاقائی صورت حال کے خطرات بڑے سنگین ہیں جبکہ پاکستان کے عام شہریوں کو حقوق نہیں مل رہے جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔عوام کو اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت یا پاکستان کی اشرافیہ صحیح سمت میں نہیں جا رہی تو عوام کو اٹھ کھڑا ہونا ہوگا۔سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد وزارت عظمی سے سبکدوش ہونے والے نواز شریف قافلے کی شکل میں اپنی منزل لاہور کی جانب گامزن ہیں۔جبکہ جی ٹی روڈ ریلی کے پہلے دن  یہ قافلہ سست روی سے سفر کرتا ہوا دن بھر میں 15 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے رات کو راولپنڈی پہنچا جہاں کارکنوں سے پہلے خطاب کے بعد نواز شریف نے راولپنڈی کے پنجاب ہاوس میں قیام کیا۔بعد ازاں یہ ریلی راولپنڈی کے پنجاب ہاوس سے روانہ ہوئی، پہلے روز کی نسبت دوسرے دن ریلی نے تیزی سے سفر کیا جبکہ اس دوران سابق وزیراعظم نے دینہ، سوہاوہ اور جہلم میں کارکنوں سے خطابات کیے اور بعدازاں جہلم کے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔دریائے جہلم کے کنارے قائم ایک ہوٹل میں رات بھر قیام کے بعد جمعہ کو سابق وزیراعظم نے سفر کا دوبارہ آغاز کیا، جب یہ قافلہ کھاریاں پہنچا تو وہاں 2 سے 3 ہزار کے قریب لوگ استقبال کے لیے موجود تھے،  اس موقع پر کھاریاں کنٹونمنٹ میں نواز مخالف نعروں کی گونج بھی سنائی دی۔بعد ازاں لالہ موسی سے ہوتے ہوئے سابق وزیراعظم کا قافلہ گجرات پہنچا، جہاں نواز شریف نے ریلی کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرے پیغام کا انتظار کرو، میں نہیں کہہ رہا آپ دوبارہ مجھے وزیراعظم بنائیں لیکن آپ میرا ساتھ دیں میں آپ کا ساتھ دوں گا، اللہ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو۔ان کا کہنا تھا کہ اس ملک و قوم کو بدلنا ہوگا، عوام سے ساتھ دینے کی توقع کرتا ہوں، ہم اس نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے، میں آپ کو ناامید نہیں ہونے دوں گا۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ آپ کے ووٹ کا کوئی احترام نہیں کیا گیا، کوئی وقعت نہیں دی گئی، آپ کے ووٹوں کو پیروں تلے روندا گیا، آپ جس کو منتخب کرتے ہیں اس کو خدمت کا موقع بھی ملنا چاہیے یہ 20 کروڑ عوام کی عزت کا معاملہ ہے۔انہوں نے دعوی کیا کہ کل میرا روٹ تبدیل کرادیا گیا اور ساتھ ہی کہا کہ وہ پیچھے والوں سے معافی چاہتے ہیں جو ان کا انتظار کرتے رہے اور وہ ان سے ملاقات نہ کرسکے۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے باہر نہ نکالا جاتا تو اگلے 2 سے 3 سال میں ملک میں سب کو روزگار ملتا اور ساتھ ہی کسی کا نام لیے بغیر سوال کیا میں نے کونسی کرپشن کی تھی جس پر نکالا گیا ہوں؟انہوں نے دہرایا کہ مجھ پر کرپشن کا کوئی دھبہ نہیں ہے، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نکالا گیا، کیا کوئی باپ بیٹے سے تنخواہ لیتا ہے؟۔ان کا کہنا تھا کہ میری اپیل عوام کی عدالت میں ہے اور سوال کیا کہ کیا آپ نے اس عدالت کا فیصلہ منظور کیا ہے؟انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی دیکھ رہا ہے جو کچھ میرے ساتھ ہورہا ہے، الزام تراشی مخالفین کی فطرت میں ہے۔نواز شریف نے عوام سے خطاب کے دوران اپنے دور میں حکومت کی کارکردگی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لوڈشیڈنگ ملک میں ختم ہورہی ہے، انہوں نے دن رات ایک کرکے لوڈشیڈنگ کو ختم کرانے کے لیے کردار ادا کیا اور ساتھ ہی ایک مرتبہ پھر دعوی کیا کہ اگلے سال تک ملک سے لوڈشیڈنگ ختم ہوجائے گی۔نواز شریف گجرات میں مختصر خطاب کرنے کے بعد اپنی اگلی منزل گجرانوالہ کی جانب روانہ ہوئے اور رات 8 بجے کے لگ بھگ اپنی اگلی منزل پر پہنچے۔گجرانوالہ میں لیگی کارکنان نے نواز شریف کے خطاب کے لیے اسٹیج اور سانڈ سسٹم سمیت دیگر انتظامات کر رکھے تھے۔
گجرانوالہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ پرتپاک استقبال کرنے پر عوام کا شکر گزار ہوں، فقید المثال استقبال زندگی بھر یاد رکھوں گا، خوش نصیب ہوں کہ گجرانوالہ کے عوام مجھ سے اتنا پیار کرتے ہیں، جبکہ گھر جاتے ہوئے عوام کا پیار مجھے نصیب ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ عوام نے مجھے منتخب کر کے وزیر اعظم بنایا، دوسروں نے نکال دیا، مجھے اقتدار سے تو نکال دیا گیا لیکن عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکے، پاکستان کے مالک 20 کروڑ عوام ہیں، کل پھر مجھے لوگ وزیر اعظم بنا دیں گے لیکن میرا مقصد وزیر اعظم بننا نہیں۔نواز شریف نے کارکنوں سے سوال کیا کہ مجھے کیوں نکالا گیا؟ مجھے اس لیے نکالا گیا
 کہ پاکستان کے اندھیرے ختم ہو رہے تھے؟ پاکستان کی روشنیاں واپس آرہی تھیں، لوڈشیڈنگ ختم ہو رہی تھی، ملک ترقی کر رہا تھا، دنیا تسلیم کر رہی تھی کہ پاکستان پرامن ہو رہا تھا، کارخانے چلنے لگے تھے اور بیروزگاری ختم ہو رہی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ترقی بعض لوگوں کو راس نہ آئی اور سازشیں شروع ہوگئیں، مخالفین کو ڈر تھا کہ نواز شریف کامیاب ہوگیا تو اگلی باری پھر اس کی ہوگی، میرے خلاف پچھلے ساڑھے 3 سال سے سازشیں ہو رہی ہیں، تمام سازشوں کے باوجود ملکی ترقی کا پہیہ تیز کیا، لیکن اس کے باوجود مجھے عدالت عظمی سے رسوائی کے ساتھ نکالا گیا، مجھے نکالنے والے بھی مانتے ہیں کہ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ جب سے پیدا ہوا ہوں پاکستان کا وفادار ہوں، دو بار میری حکومت توڑی گئی، تیسری بار مدت پوری نہیں کرنے دی گئی، پچھلے 70 سال سے پاکستان کی یہی تاریخ رہی ہے، جو بھی وزیر اعظم آیا اسے ذلیل و رسوا کرکے نکالا گیا، کیا وزیر اعظم کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوتا رہے گا؟ اب عوام کو حساب لینا ہوگا، عوام عہد کریں کہ پاکستان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں ہونے دیں گے۔سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 20 کروڑ عوام کے ووٹ کی کوئی عزت ہے یا نہیں؟ لوگوں نے سمجھا تھا کہ میں گھر بیٹھ جاوں گا لیکن یہ ان کی غلط فہمی تھی، میں گھر بیٹھنے والا نہیں، مجھے اقتدار سے تو نکال دیا گیا لیکن عوام کے دلوں سے نہیں نکالا جاسکتا، فیصلہ دینے والے عوام کا فیصلہ بھی دیکھ لیں، عوام نے فیصلہ تسلیم نہیں کیا جبکہ قوم ایسے ہتھکنڈوں کو معاف نہیں کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے لیے نہیں ملک کی عزت اور وقار بحال کرانے کے لیے آیا ہوں، پاکستان کی عزت کے لیے آپ کو جگانے آیا ہوں، نوجوانوں کو روزگار دلوانے تک چین سے نہیں بیٹھوں گا، لوگ گھبرائیں نہیں، ہم کہیں نہیں گئے یہیں موجود ہیں۔نواز شریف نے گجرات میں ریلی میں شامل ایلیٹ فورس کی تیز رفتار گاڑی کی ٹکر سے پندرہ سالہ بچے کے جاں بحق ہونے کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے اس کارکن کے گھر تعزیت کرنے خود جاں گا اور ہم سے اس کے خاندان کی جو مدد ہوسکی کریں گے۔جہلم میں کارکنوں سے خطاب کے دوران نواز شریف نے پاناما کیس کے فیصلے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ 5 ججز نے کروڑوں عوام کے منتخب وزیراعظم کو ایک منٹ میں فارغ کردیا، کروڑوں عوام کے ووٹوں کی توہین کی گئی'۔ان کا کہنا تھا کہ میرا دامن صاف ہے، مجھ پر کرپشن کا ایک بھی دھبہ نہیں، ججز نے بھی تسلیم کیا کہ میں نے کوئی کرپشن نہیں کی۔ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ 'مجھے کیوں نکالا گیا، کیا اس لیے کہ ملک ترقی کی منازل طے کر رہا تھا؟ کیا یہ سلوک آپ کو برداشت ہے؟سابق وزیراعظم نے کہا کہ 2013 میں جب میں جہلم آیا تھا تو پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی، ملک اندھیرے میں ڈوبا ہوا اور بدحالی کا شکار تھا، بے روزگاری عروج پر تھی، میں نے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان کو ترقی کی طرف لے کر جائیں گے اور آج وہ وعدہ پورا ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے دن رات کام کر کے ملک کے حالات کو سنبھالا، آج لوڈشیڈنگ بڑی حد تک ختم ہوچکی ہے آئندہ سال مکمل طور پر ختم ہوجائے گی، ملک میں امن قائم ہوچکا ہے اور کراچی کی روشیاں واپس آچکی ہے، ہم نے بلوچستان میں امن کے لیے مخلوط حکومت بنائی اور کئی پارٹیوں کو قومی دھارے میں لائے، جبکہ آج ملک میں کراچی سے پشاور تک موٹرویز بن رہی ہیں۔9 اگست کی شب راولپنڈی کے کمیٹی چوک آمد پر کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ 'کروڑوں لوگ وزیراعظم منتخب کرتے ہیں اور چند لوگ ختم کردیتے ہیں، مجھے تیسری بار حکومت سے نکالا گیا، میں سوال کرتا ہوں کہ کیا نواز شریف نے قومی خزانہ لوٹا، اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر مجھے فارغ کر دیا گیا، ہمیں کس بات کی سزا دی جارہی ہے؟ کیا یہ آپ کے ووٹ کی توہین نہیں؟ عوام نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ قبول نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ کیا ملک میں کبھی ووٹوں کی عزت کی جائے گی؟ نواز شریف نے کبھی کک بیک اور کمیشن نہیں لیا لیکن اس کے باوجود پہلی بار گھر بھیجا گیا اور دوسری مرتبہ ہتھکڑی لگادی گئیں، ملک میں 70 برسوں سے کسی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی، مجھے حکومت کا لالچ نہیں لیکن عوام کی مینڈیٹ کی توہین نہیں ہونے دینی۔واضح رہے کہ سابق وزیراعظم کی ریلی کے پیش نظر گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔
ریلی کی حفاظت کے لیے پولیس کی بھاری نفری مختلف مقامات پر تعینات ہے۔ہنگامی صورتحال میں ریلی کے شرکا کو طبی امداد فراہم کرنے کے لیے محکمہ صحت پنجاب کا موبائل ہیلتھ یونٹ بھی خصوصی طور پر قائم کیا گیا ہے، جہاں ڈاکٹروں کی ٹیم موجود ہے۔یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دے دیا تھا۔نااہلی کے فیصلے کے بعد نواز شریف وزارت عظمی کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے اور بعدازاں وزیراعظم ہاوس خالی کرکے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ 30 جولائی کو سیاحتی مقام مری روانہ ہوگئے تھے۔مری میں ایک ہفتہ قیام کے بعد وہ 6 اگست کو اسلام آباد پہنچے جہاں سے اب وہ ریلی کی صورت لاہور کی جانب رواں دواں ہوئے جبکہ یہ امکان ہے کہ اب وہ لاہور کے بعد جنوبی پنجاب کا بھی سفر کریں۔  جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے پہلے پاکستان مسلم لیگ نون یا نواز شریف کا نہیں بلکہ جمہوریت کا ساتھ دیا، لیکن اب ان کی نظر میں جمہوری نظام کو نہیں بلکہ نواز شریف کو خطرہ ہوسکتا ہے۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے وضاحت کی کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پاناما پیپرز نوازشریف کے خلاف سازش ہے اور نہ ہی اس میں ملٹری اور عدلیہ کا کوئی کردار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے تاحال ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا، اوراگر وہ رابطہ بھی کریں گے تو وہ ان سے بات نہیں کریں گے۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میاں صاحب کی کوئی آئیڈیولاجی نہیں، جب انہیں ہٹایا جاتا ہے توانہیں سب کچھ یاد آجاتا ہے، جب وہ حکومت میں ہوتے ہیں تو میثاق جمہوریت بھول جاتے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری کے مطابق ملٹری اورجوڈیشری کا پاناما میں کوئی کردار نہیں، یہ عالمی سطح کا معاملہ تھا، جسے میڈیا نے اٹھایا، جب کہ ملک میں پیپلزپارٹی نے سب سے پہلے پاناما ایشو اٹھایا۔ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تھا کہ پارلیمنٹ میں ملٹری یا جوڈیشری کا کوئی رول نہیں ہونا چاہیے۔مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کے معاملے پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ وہ گالی گلوچ کی نہیں بلکہ نظریاتی سیاست کریں گے۔بلاول بھٹو نے بتایا کہ نواز شریف عدالت سے سزا پانے کے بعد پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کو تسلیم کرکے ذوالفقار علی بھٹو کی مظلومیت کے پیچھے چھپنا چاہتے ہیں، مگر وہ یہ نہیں ہونے دیں گے۔ 
جمہوریت، کو بھی معنی خیز انداز میں قبول کرنا باقی ہے، اس کے ساتھ ان منتخب حکومتوں کو بھی جو ہمیشہ غیر جمہوری دبا اور حملے کی زد میں رہتی ہیں۔ آج اگر قائد اعظم ایک دوسرے سبکدوش وزیر اعظم کو ایک بار پھر سیاسی منظر نامے میں پیدا ہونے والی سیاسی غیر یقینی اور افراتفری کی فضا کے درمیان جی ٹی روڈ پر رواں دواں دیکھتے تو کیا سوچتے؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔اے پی ایس