نیا سماجی معاہدہ،جمہوریت اور قانون کی حکمرانی۔ چودھری احسن پریمی



جہاں آپ غلط یا عدم مساوات یا نا انصافی کو دیکھتے ہیں، بولتے ہیں، کیونکہ یہ تمہارا ملک ہے. یہ تمہاری جمہوریت ہے. اسے بناو. حفاظت کرو. اسے آگے بڑھائیں.اگرچہ جمہوریت کے خلاف سب سے بہترین دلیل اوسط ووٹر کے ساتھ پانچ منٹ کی بات چیت ہے.تاہم دنیا اس بات پر متفق ہے کہ دنیا میں حکمرانی کا بہترین نظام جمہوریت ہے۔ ملک کو چلانے کا طریقہ کار ہوتا ہے، ملک کو چلانے کے لیے آئین ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں آئین کی تاریخ بہت بری رہی ہے، لمبے عرصے تک بننے ہی نہیں نہیں دیا گیا۔ آخر بنا تو اس کو بار بار توڑا گیا۔بلاشبہ جمہوری استحکام کے لیے سیاسی نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ جس کے لیے ہمیں بین الادارتی مذاکرات درکار نہیں بلکہ ایک نئے سماجی معاہدے کی ضرورت ہے جو قانون کی بالادستی کی ضمانت دے اور جس کے تحت تمام ریاستی ادارے آئین کی سختی کے ساتھ پیروی کریں۔اگر ہم امن کا ایک معاشرہ چاہتے ہیں، تو ہم تشدد کے ذریعے ایسے معاشرے کو حاصل نہیں کرسکتے ہیں. اگر ہم امتیاز کے بغیر کسی معاشرے کی خواہش رکھتے ہیں تو ہم اس معاشرے کی تعمیر کے عمل میں کسی کے خلاف متصادم نہیں ہونا چاہئے. اگر ہم ایسے سماج کی خواہش رکھتے ہیں جو جمہوری ہے تو پھر جمہوریت کو ایک ذریعہ بننا چاہیے.
  جبکہ سابق وزیراطلاعات سینیٹر پرویز رشید نے اپنے استعفے کو جمہوریت بچانے کے لیے قربانی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال کی سازش کے پیچھے پرویز مشرف کی بدروح ہے۔ایک نجی
 ٹی وی کوایک انٹرویو میں پرویز رشید نے کہا کہ 'پاکستان میں ایک روح ہے جو پھرتی رہتی ہے بلکہ بد روح ہے جس کو میں پرویز مشرف کہتا ہوں جو سیاسی جماعتوں، سیاسی ذہنوں میں اور کہیں نہ کہیں دوسرے اداروں میں موجود ہے، ادارے کا نام نہیں لے رہا بلکہ افراد میں موجود ہے'۔سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 'اس سے پہلے وزرا اعظم جب نکالے جاتے تھے تو اپنے گھروں کو جاتے تھے دو چار مہینوں میں لوگوں کو ان کا نام بھی یاد نہیں رہتا تھا اس مرتبہ لوگوں نے فوری ردعمل دیا ہے'۔سازش کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 'جو سوچ ہے اس سوچ کے نتیجے میں یہ سب کچھ ہورہا ہے اور پاکستان تحریک انصاف نیجوکچھ کیا وہ مہرے کا کردار ہی تھا، اور اس سوچ کو تبدیل بھی کرنا پڑے گا، اس کا راستہ بھی روکنا ہوگا اور اس کا مقابلہ بھی کرنا ہوگا'۔سابق صدرپرویز مشرف کی بیرون ملک روانگی پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'ان کے بھیجنے میں ہمارا کردار نہیں تھا لیکن ہم روک نہیں سکے، اس لیے روکنے کاکام ہم اکیلے نہیں کرسکتے تھیاس کے لیے پوری ریاست کے تمام اداروں کی مدد چاہیے تھی جو ہمیں میسر نہیں ہوسکی جبکہ وہ خود اپنی زبان سیکہہ چکے ہیں انھیں بھیجنے میں کسی اور نے مدد کی تھی'۔ان کا کہنا تھا کہ 'وزارت داخلہ ہوتے ہوئے ہمارے خلاف فیصلے بھی ہوئے ہیں، وزارت داخلہ ہوتے ہوئے جے آئی ٹی بھی بنی ہے اور وٹس ایپ بھی ہوئے ہیں'۔یاد رہے کہ اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے ڈان خبر کے معاملے پر کوتاہی برتنے پر پرویز رشید سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا قلم دان واپس لے لیا تھا۔وزارت سے استعفے پر بات کرتے ہوئے پرویز رشید نے کہا کہ 'یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے میں ایک سیاسی کارکن ہوں اور سیاسی کارکن کے طور پر پہلے بھی کردار ادا کرتا تھا اب بھی کرتا جارہاہوں، بہت سے سچ اپنے وقت پر ثابت ہوتے ہیں اور جمہوریت ابھی ناتواں ہے اور لڑکھڑاتی ہے، دھکے کھا جاتی ہے اس کو بچانے کے لیے اگرمیری ذات کی قربانی دینی پڑتی ہے تو میں نے خوشی سے اس قبول کیا'۔پرویز رشید نے کہا کہ 'میرے وزیراعظم بھی اس فلسفے پر یقین رکھتے ہیں اس لیے صبر سے کام لیتے ہیں'۔
دوسری جانب سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار کے ترجمان نے پرویز رشید کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'معلوم نہیں کہ کچھ لوگ اپنی ناکامیوں پر وزارت داخلہ پر الزام کیوں دیتے ہیں'۔چوہدری نثار کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ڈان خبرمعاملے پر 6 رکنی کمیٹی کے ارکان میں سے صرف ایک رکن وزارت داخلہ سے تھا اور اگر اخلاقی جرات ہے تو پرویز رشید ڈان خبرمعاملے کی رپورٹ عام کرنے کامطالبہ کریں۔
خیال رہے کہ پرویزرشید کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان مسلم لیگ نواز اورسابق وزیراعظم نواز شریف اپنی نااہلی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کررہے ہیں اور اس مبینہ طور پر سازش قرار دیتے ہوئے ووٹ کے تقدس کے لیے تحریک چلانے کا اعلان کررہے ہیں۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ سابق وزیر اعظم کے خلاف فیصلے سے نہیں بلکہ عدلیہ پر بے رحمانہ حملوں سے ہے۔ جج صاحبان پر جمہوریت کو پٹڑی سے اتارنے کی سازش کرنے کے الزامات انصاف کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔سینیٹ نے ایک بے مثال قدم اٹھاتے ہوئے، ریاستی اداروں کے درمیان تصادم سے بچنے کے لیے بین الادارتی مذاکرات کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے چیئرمین سینیٹ آرمی چیف اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے ممبران کے ساتھ تبادلہ خیال کے لیے مدعو کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سینیٹ چیئرمین رضا ربانی کی پرخلوص کوششوں اور ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے نکالنے اور جمہوری عمل کے استحکام کی خواہش پر کسی کو کوئی شک نہیں، لیکن جمہوری بحران کو حل کرنے کے لیے یہ بالکل بھی کوئی ٹھوس تجویز نہیں ہے۔آرمی چیف اور چیف جسٹس کو پارلیمنٹ میں بلا کر سینیٹ چیئرمین کیا حاصل کرنے کی توقع کر رہے ہیں؟ کیا وہ یہ سوچتے ہیں کہ اس قسم کے بین الادارتی مذاکرات سے اداروں کے درمیان تنا کی اصل جڑ کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اداروں کے درمیان طاقت کا موجودہ عدم توازن درحقیقت طاقت کے نظام میں بگاڑ کی وجہ نہیں، بلکہ بگاڑ کی ظاہری علامت ہے۔ایک انتہائی تجربہ کار پارلیمانی ممبر، جو ایسے محترم عہدے پر بھی فائز ہیں، ان سے ایسے بھولے پن کی توقع تو نہیں تھی۔ جہاں تمام تر گفتگو کا محور آئین کی ایک متنازع شق کے تحت نواز شریف کی نااہلی پر ہے، وہاں سیاسی نظام اور جمہوری عمل کو ٹھیس پہنچانے والے اصل مسائل مکمل طور پر نظر انداز ہو چکے ہیں۔کوئی نہیں جانتا کہ یہ اقدام حقیقی طور پر سویلین بالادستی کے قیام کے لیے ہے بھی یا نہیں۔ بلاشبہ، پارلیمنٹ کو ایسی کوئی بھی آئینی شق ختم کر دینی چاہیے جو نامناسب لگتی ہو، لیکن صرف ایک شخص کو بچانے کی خاطر نہیں۔
 یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم ہی تھے جنہوں نے تصادم کا راستہ اپنایا ہے۔ تو چیف جسٹس سے اب پارلیمنٹ میں کیا کہنے کی توقع ہے؟ کیا وہ پارلیمنٹ کو یہ یقین دلائیں کہ منتخب رہنما سزا سے مستثنی ہوں گے بھلے ہی وہ قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہوں یا جھوٹ بول رہے ہیں؟بلاشبہ آئین میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، عدلیہ کا نہیں۔ قانونی برادری سے تعلق ہونے کے ناطے معزز چیئرمین سینیٹ کو اس بات کا بھی علم ہونا چاہیے کہ عدلیہ ریاست کی ایک الگ شاخ ہے اور یہ انتظامیہ یا پارلیمنٹ کے آگے جوابدہ نہیں ہے۔ کیا دنیا میں کوئی ایسی مثال ملتی ہے جس میں ایک چیف جسٹس کو پارلیمنٹ بلایا گیا ہو؟۔سینیٹر رضا ربانی کی بات درست ہے کہ تمام ریاستی اداروں کو آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے اپنا کام کرنا چاہیے۔ لیکن انہیں اس بات احساس بھی ہونا چاہیے کہ ایک تقریبا غیر فعال پارلیمنٹ اور ادارتی فیصلہ سازی کے عمل کی غیر موجودگی کے باعث طاقت کا عدم توازن بڑھا ہے۔جب سیاسی رہنما اپنے ایسے مسائل بھی اعلی عدلیہ لے کر پہنچتے ہیں جو پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں، تو ایسے میں عدلیہ پر الزام عائد کرنا انتہائی غیر مناسب ہے۔ پاناما گیٹ کیس بھی اس کی ہی ایک مثال ہے۔ چیف جسٹس کو طلب کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کو اپنی کوتاہیاں ختم کرنے پر دھیان مرکوز کرنا چاہیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سول ملٹری تعلقات ملک میں جمہوری عمل کو متاثر کرنے والے مسائل کی ایک بڑی وجہ رہے ہیں۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ ایک جمہوری نظام میں سویلین بالادستی نہایت ضروری ہے۔ بلاشبہ طاقت کا موجودہ توازن فوج کے حق میں ہونا ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجوہات میں سے ایک ہے۔لیکن انتظامیہ اور پارلیمنٹ کو مثر بنانے کے لیے سیاسی نظام کے اندر چند بنیادی اصلاحات کے بغیر صورتحال کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہ مسئلہ آرمی چیف اور پارلیمنٹ کے درمیان مذاکرات کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ افسوس کی بات ہے کہ موجودہ بحران پر اس کے تمام پہلوں کے ساتھ نظر ثانی کرنے کے بجائے صرف نااہلی سے جڑے معاملات پر دھیان دیا جا رہا ہے۔کوئی حیرانی نہیں ہوئی جب سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم نے بلاتاخیر سینیٹ چیئرمین کے ارادے کا خیر مقدم کیا، مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ آیا وہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ اس اقدام سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوں پائیں گے۔ نواز شریف اب خود کو ایک انقلابی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے آئین کو بدلنے کا بھی عہد کیا ہے۔
لیکن کسی کو پتہ نہیں کہ وہ کس قسم کے انقلاب کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ وہ اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ پانچ ججوں نے لوگوں کے مینڈیٹ کی توہین کی ہے۔ مکمل طور پر سرکاری پروٹوکول کے ساتھ جی ٹی روڈ پر اپنی سیاسی طاقت کے مظاہرے کو انہوں نے اپنے خلاف عدالتی فیصلے کی مستردی کے طور پر پیش کیا۔ نواز شریف کے عدلیہ پر وار 1997 کے اس واقعے کی یاد دلاتے ہیں جب ان ہی کی پارٹی کے لوگوں نے سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا تھا۔یہ دیکھ کر کافی حیرت ہوئی کہ سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم کو اس بات کا افسوس ہے کہ ملک کی 70 سالہ تاریخ میں کسی بھی وزیر اعظم کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ لیکن ایک بات وہ لوگوں کو نہیں بتا رہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران وہ خود بھی چند وزرائے اعظم کو عہدے سے ہٹانے میں پیش پیش رہے تھے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی منتخب رہنما نے سویلین اداروں کو اتنی ٹھیس نہیں پہنچائی ہوگی جتنی نواز شریف نے اپنے تین ادوار میں پہنچائی ہے۔ وہ یہ بات بھی قبول کرنے کو تیار نظر نہیں آتے کہ صرف انہیں ہی عہدے سے فارغ کیا گیا ہے، جبکہ ان کی پارٹی اب بھی اقتدار میں ہے اور نئے وزیر اعظم کے ماتحت کام کر رہی ہے۔یہ تو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ پارلیمنٹ اپنے پانچ سال مکمل کرے گی۔ آئین پارلیمنٹ کی مدت تو متعین کرتا ہے لیکن وزیر اعظم کی نہیں۔ یہ بھی واضح نظر آ رہا ہے کہ وہ صرف ذاتی سیاسی بقا کی خاطر جمہوریت اور سویلین بالادستی کی بات کر رہے ہیں۔
  سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ جمہوریت کو خاندانی حکمرانی کا تسلسل قائم رکھنے کا ذریعہ نہیں بنا لینا چاہیے۔ عوام کا مینڈیٹ منتخب رہنماں کو قانون سے بالاتر نہیں کر دیتا۔ جب سیاسی جماعتیں اور ان کے سربراہان بھی رائے دہندگان کے اعتماد کا پاس رکھتے ہیں صرف تب ہی جمہوریت زندہ رہ پاتی ہے۔ آئین کی پاسداری ہر شخص پر لازم ہے۔ آئین سب کے لیے لازمی طور پر محترم ہونا چاہیے۔'بانی پاکستان محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر بڑی واضح ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اب ہمیں ماضی کو بھول جانا چاہیے، ہمیں ہر انسان کے عقیدے کا احترام کرنا ہوگا۔ ہر شخص جو پاکستان کا شہری ہے وہ قانون کی نظر میں برابر ہے۔پاکستان کو چلانے اور اس کو اچھا مقام دلانے کے لیے ضروری ہے کہ یہ ایک شفاف وفاقی جمہوریت ہو۔اے پی ایس