امریکہ بھارت گٹھ جوڑ اور نئی پراکسی وار۔ چودھری احسن پریمی



امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کی نئی افغان پالیسی پر پاکستانی اراکین پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی پاکستان کے ساتھ ناانصافی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے۔ بھارت کی طرح امریکہ بھی اپنی ناکامیوں کا سارا بوجھ پاکستان پر ڈالنے کی کوششیں کررہا ہے۔ دہائیوں سے نافذ کی گئی ناقص اور ناکام افغان پالیسی حقیقت میں امریکی مایوسی کا سبب ہے،جبکہ حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون کے جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ امریکہ کی ہر خواہش کو پورا نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان اور امریکہ کے اپنے اپنے قومی مفاد ہیں۔متحدہ قومی موومنٹ کی ثمن جعفری نے کہا آج اتنی جانوں کی قربانی کے بعد ہمیں ڈو مور سننے کو مل رہا ہے اسکا مطلب یہ ہے یا انکے کچھ اور مقاصد ہیں یا ہماری خارجہ پالیسی اتنی کلیر ہی نہیں۔مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ کہ نئی امریکی پالیسی میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نئی امریکی پالیسی پرانی شراب پرانی بوتل میں ہے، امریکہ بھارت کو ملوث کرکے افغانستان کو نئی پراکسی وار میں دھکیل رہا ہے۔عوامی نیشنل پارٹی کے شاہی سید نے کہا کہ ہم خود مختار ملک، ہیں امریکا ہم پر اپنی پالیسی مسلط نہ کرے، ہم اپنے مفاد کو دیکھتے ہوئے فیصلے کریں گے۔بیشتر ارکان نے امریکی پالیسی پر تو تنقید کی ہے لیکن اپنے دفترخارجہ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور امریکی سخت پیغام کو اپنی کمزور خارجہ پالیسی کے مرہون منت قرار دیا۔جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی پالیسی پر پاکستان نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیتا اور امریکا غلط دعوے کے بجائے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا ساتھ دے۔امریکی صدر کی افغان پالیسی پروفاقی کابینہ کے اجلاس میں تفصیلی غور کیا گیا، جبکہ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا ہے جس کے بعد حکومت پاکستان کا تفصیلی ردعمل سامنے آئے گا۔ دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امریکی صدر کے بیان کا نوٹس لے لیا ہے، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں جن کا اعتراف عالمی سطح پر بھی کیا جا چکا ہے، پاکستان اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیتا، محفوظ پناہ گاہوں کے غلط دعوے کے بجائے امریکا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا ساتھ دے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے ظلم کو سب سے زیادہ برداشت کیا، یہ مایوس کن ہے کہ امریکی پالیسی میں پاکستان کی قربانیوں کو نظرانداز کیا گیا، دہشت گردی کا خطرہ ہم سب کو یکساں ہے، پاکستان عالمی برادری کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیا میں قیام امن اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے تاہم جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہوجاتا خطے کے امن و استحکام کو خطرہ لاحق رہے گا۔پاکستان کے مطابق افغانستان کے مسئلے کا حل فوجی نہیں ہے، افغانستان میں 17 سالہ فوجی ایکشن بھی ملک کو پرامن نہیں بنا پائے، مستقبل میں بھی فوجی ایکشن افغانستان میں امن نہیں لا پائے گا اور صرف افغانیوں کی قیادت میں سیاسی مذاکرات ہی افغانستان میں دیرپا امن لاسکتے ہیں۔واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بحیثیت کمانڈر اِن چیف امریکی قوم سے اپنے پہلے رسمی خطاب میں افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ 'اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔'فورٹ میئر آرلنگٹن میں تقریبا آدھے گھنٹے تک کی گئی تقریر میں صدر ٹرمپ نے پاکستان، افغانستان اور انڈیا کے بارے میں اپنی انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو۔ 'ہماری پوری کوشش ہے کہ جوہری ہتھیار یا ان کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگے۔پاکستان کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ سے شراکت داری پاکستان کے لیے بہت سود مند ثابت ہوگی ماضی میں پاکستان ہمارا بہت اہم اتحادی رہا ہے اور ہماری فوجوں نے مل کر ہمارے مشترکہ دشمن کے خلاف لڑائی کی ہے۔ پاکستان کی عوام نے دہشت گردی کی اس جنگ میں بہت نقصان اٹھایا ہے اور ہم ان کی قربانیوں اور خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے۔صدر ٹرمپ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے ملک سے ان تمام شر انگیزوں کا خاتمہ کرے جو وہاں پناہ لیتے ہیں اور امریکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں لیکن وہ دوسری جانب انھی دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں جو ہمارے دشمن ہیں۔افغانستان کے بارے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جلد بازی میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے باعث افغانستان میں دہشت گردوں کو دوبارہ جگہ مل جائے گی اور اس بارے میں وہ زمینی حقائق پر مبنی فیصلے کریں گے جس میں ڈیڈ لائن نہیں ہوں گی۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کا پہلے ارادہ تھا کہ وہ افغانستان سے فوجیں جلد واپس بلا لیں گے لیکن وہ عراق میں کرنے والی غلطیاں نہیں دہرائیں گے اور اس وقت تک ملک میں موجود رہیں گے جب تک جیت نے مل جائے۔امریکہ افغان حکومت کے ساتھ تب تک مل کر کام کرے گا جب تک ملک ترقی کے راستے پر گامزن نہ ہو جائے۔لیکن انھوں نے اس بارے میں وضاحت نہیں دی کہ امریکہ کتنے اور فوجی افغانستان بھیجے گا۔'ہم اب اپنے فوجیوں کی تعداد اور اپنے منصوبے کے بارے میں گفتگو نہیں کریں گے۔'صدر ٹرمپ نے افغانستان کی ترقی میں انڈیا کے کردار کی بھی تعریف کی اور ان پر زور دیا کہ وہ اقتصادی اور مالی طور پر بھی افغانستان کی مدد کریں۔صدر ٹرمپ کی تقریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اس نئی پالیسی کے بارے میں اتحادیوں کی حمایت کی توقع کرتا ہے۔یاد رہے کہ امریکی فوج نے افغانستان میں براہ راست فوجی کاروائی 2014 سے ختم کر دی ہے اور اس وقت ملک میں 8400 موجود ہیں جو کہ افغان فوج کی مدد کر رہے ہیں۔2001 میں ستمبر 11 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے بعد سے امریکہ کی فوج افغانستان میں موجود ہے اور ماضی میں صدر ٹرمپ فوج کے انخلا کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
 جبکہ مغربی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ خطاب کو دیکھا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ سولہ برس گزر جانے کے بعد بھی امریکہ کی طویل ترین جنگ، یعنی افغانستان کی لڑائی، مزید طویل ہونے جا رہی ہے۔صدر ٹرمپ کا افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے ٹائم ٹیبل کی پالیسی کو ترک کرنا اور حالات کی بنیاد پر بنائی جانے والی حکمت عملی کی جانب پیش قدمی کا عندیہ دینے کا صاف مطلب یہی ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے واپس جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی نئی پالیسی کو منظر عام پر آنے میں بہت تاخیر ہوئی، لیکن حیلے بہانوں کے بعد سابق امریکی صدور کی طرح، مسٹر ٹرمپ بھی وہی کرنے جا رہے ہیں جو ان کے جرنیل انھیں بتا رہے ہیں۔اگرچہ اپنے خطاب میں مسٹر ٹرمپ نے افغانستان میں ممکنہ اضافی امریکی فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا لیکن لگتا ہے کہ وہ اپنے جرنیلوں کے اس مشورے پر عمل کرنے جا رہے ہیں کہ افغانستان میں مزید تین ہزار آٹھ سو افراد بھیجنے پڑیں گے۔ ان میں فوجی تربیت دینے کے ماہرین اور وہ مشیر شامل ہوں گے جو افغان حکومت اور فوج کو مشورے دیں گے۔اگرچہ صدر ٹرمپ نے طالبان کے خلاف افغان فوج کے سب سے موثر ہتھیار، یعنی امریکہ کی فضائی مدد، کے حوالے سے بھی کسی قسم کی لب کشائی نہیں کی، لیکن امکان یہی ہے کہ وہ فضائی مدد میں بھی اضافہ کریں گے۔افعانستان سے امریکی فوجوں کے مکمل انخلا اور افغانستان میں تمام معالات کسی نجی کپمنی کے حوالے کرنے جیسی غیر مقبول تجاویز کو رد کر کے صدر ٹرمپ نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ افغانستان کے معاملات عملی طور پر انھوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے یہ تسلیم کیا کہ ذاتی طور پر وہ بھی افغانستان سے امریکہ کا مکمل فوجی انخلا چاہتے تھے۔ دکھائی دیتا ہے کہ براک اوباما کی طرح ان کے دل میں بھی یہ کشمکش جاری رہی کی تمام فوجی واپس بلا لیں یا نہیں، اور آخر کار انھوں نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ طالبان کا مقابلہ کرنے کے لیے افغان فورسز کو تربیت اور مدد فراہم کرتا رہے گا۔ظاہر ہے کہ صدر ٹرمپ اس حکمت عملی کو اپنی بنائی ہوئی نئی پالیسی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن قصہ مختصر یہ ہے کہ حالات پر مبنی پالیسی کا منتقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ امریکہ افغانستان سے جا نہیں رہا۔جہاں تک افغانستان کی اندرونی صورتِ حال کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کا تقریبا نصف حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے ۔ ماسوائے افغان فوج کے ایلیٹ دستوں کے، باقی فوج کی حالت زیادہ اچھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ سوچنے سے پہلے کہ افغان فوجیں کب طالبان پر حملے کریں گی، افغانستان میں صرف استحکام پیدا کرنے کے لیے بہت سے اقدامات ضروری ہیں۔جہاں تک صدر ٹرمپ کے خطاب کا تعلق ہے تو اس میں انھوں نے حسب دستور فتح جیسے الفاظ کا سہارا لیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ افغانستان میں جاری جنگ کا مقصد افغانستان کی تعمیر نہیں بلکہ دہشتگردوں کو ختم کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسٹر ٹرمپ کے ان الفاظ کا مقصد اپنے حامیوں کو یقین دلانا تھا کہ ان کی طرح وہ خود بھی دیگر ممالک میں فوجی دخل اندازی کے خلاف ہیں، لیکن وہ مجبور ہیں۔مغربی تجزیہ کاروں کے نزدیک مسٹر ٹرمپ نے جو تجاویز پیش کی ہیں وہ دراصل ایک ہمہ جہت حکمت عملی ہے جس میں فوجی، سیاسی اور سفارتی مدد، تینوں شامل ہیں۔ اس موقع پر انھوں نے پاکستان کے حوالے سے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان دہشتگردوں کو پناہ دیتا رہا تو اسے بہت نقصان ہوگا۔ مسٹر ٹرمپ کے بقول یہ صورتِ حال تبدیل ہو کر رہے گی اور فوری تبدیل ہو گی۔لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ پاکستان پر کس قدر دبا ڈال سکتے ہیں؟۔مسٹر ٹرمپ کو معلوم ہے کہ جلد یا بدیر، وہ جب بھی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہیں گے، پاکستان کا کردار اہم ہوگا۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے امریکہ اور انڈیا کے تعلقات میں اضافے اور افغانستان کی معاشی ترقی میں انڈیا کے ممکنہ کردار پر زور دینے کا مقصد نہ صرف خطے کی وسیع تر علاقائی پالیسی کو قدرے تلپٹ کرنا تھا بلکہ اس کا مقصد پاکستان میں بھی خطرے کی گھنٹی بجانا تھا۔پاکستان کے علاوہ صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں افغان حکام کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ گروہی مفادات اور بدعنوانی سے عبارت افغان حکومت جمہوری اقدار کی تصویر تو ہونے سے رہی۔ مسٹر ٹرمپ کے بقول افغانوں کو یہ بتانا کہ ان کی حکومت کو کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں، یہ امریکہ کا کام نہیں۔ لیکن ایک ہی سانس میں مسٹر ٹرمپ نے یہ بھی کہہ دیا کہ امریکہ افغان حکومت کے نام ایسے چیک نہیں لکھتا رہے گا جن پر وہ جتنی رقم چاہے لکھ لے۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری مدد لامحدود نہیں ہے اور امریکہ توقع کرتا ہے کہ افغانستان میں حقیقی اصلاحات، حقیقی ترقی اور حقیقی نتائج حاصل کیے جائیں گے۔ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی افغان پالیسی کے خدوخال کیا ہوں گے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پالیسی کی تفصیلات کیا ہیں؟۔ تجزیہ کاروں کاخیال ہے کہ یہ تفصیلات وقت آنے پر ہی معلوم ہوں گی۔ جہاں تک آج کا تعلق ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ مقابلہ مسٹر ٹرمپ کے تقریری انداز اور افغانستان کے اصل حقائق کے درمیان تھا، جس میں زمینی حقائق کو فتح حاصل ہوئی ہے۔اب افغانستان کی جنگ صدر ٹرمپ کی جنگ بن چکی ہے۔ انھیں بھی ان ہی مسائل کا سامنا ہے جو ان سے پہلے کے صدور کو تھا اور صدر ٹرمپ جو الفاظ چاہیں استعمال کریں، لگتا یہی ہے کہ وہ بھی وہی راستہ اپنائیں گے جو ان کے پیشرو کر چکے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ مسٹر ٹرمپ کا اصرار ہے کہ وہ کوئی عذر تسلیم نہیں کریں گے اور مطلوبہ نتائج حاصل کر کے رہیں گے۔ جبکہ پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل نے وزیر خارجہ خواجہ آصف کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنوبی ایشیا پالیسی کے اعلان کے دوران پاکستان سے متعلق بیان پر بریفنگ دی ہے۔ اپنی بریفنگ کے دوران ڈیوڈ ہیل نے خواجہ آصف کو بتایا کہ امریکی سیکریٹری خارجہ ریکس ٹِلرسن آئندہ چند روز میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات اور امریکا کی جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی پر تفصیل سے بات چیت کریں گے۔ وزیر خارجہ نے افغانستان میں امن کے قیام کے لیے پاکستان کے عزم کو دہراتے ہوئے امریکی سفیر کو بتایا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے ریکس ٹلرسن کی جانب سے امریکا کے دورے کی دعوت قبول کرلی ہے اور وہ آئندہ چند روز میں امریکی وزیر خارجہ سے واشنگٹن میں ملاقات کریں گے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے پاکستان عالمی برادری کے ساتھ کام کرتا رہے گا۔جبکہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کے سخت لہجے کے باوجود امریکہ پاکستان کے خلاف کوئی اتنہائی اقدام کرے گا نہ پاکستان کسی انتہائی ردعمل کی طرف جائے گا اور ان کے الفاظ میںمعمول کے مطابق کاروبار چلتا رہے گا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور الزامات لگانے کے بعد چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے پاکستان کی بھر پورحمایت کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ پاکستانی سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے دورہ چین کے دوران وانگ ای سے ملاقات کی، جس میں دونوں ممالک نے افغانستان میں امن و استحکام کے لیے قریبی تعاون جاری رکھنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ ملاقات میں افغانستان کے علاوہ کشمیر، عالمی امور اور خطے کی سیکیورٹی کی صورتحال پر بھی بات چیت کی گئی۔چین کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عظیم قربانیاں دی ہیں اور عالمی برداری پاکستان کی ان کوششوں کو مکمل طور پر تسلیم کرے۔انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی ہر آزمائش پر پورا اترنے والی اسٹریٹجک دوستی کو مزید مستحکم بنائیں گے۔اس موقع پر تہمینہ جنجوعہ نے کہا کہ پاکستان، چین کے ساتھ تمام باہمی دلچسپی کے امور پر کھڑا رہے گا۔ملاقات میں وزرائے خارجہ کی سطح پر پاکستان، چین اور افغانستان پر مشتمل سہ فریقی مذاکرات کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا۔قبل ازیں چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے امریکی صدر کے بیان پر پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے زور دے کر کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان صف اول میں کھڑا ہے اور امن دشمنوں سے جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا عالمی برادری کو اعتراف کرنا چاہیے۔ترجمان چینی وزارت خارجہ نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان نے علاقائی اور عالمی سلامتی اور استحکام کے لیے عظیم قربانیاں دیں جبکہ جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے پاکستانی کردار کا ادراک کیا جانا چاہیے۔اے پی ایس