ملکی خود مختاری کو درپیش چیلنجز: چودھری احسن پریمی


ملکی خود مختاری کو اس وقت خطرہ لاحق ہوتا ہے جب اس کے عوام جاہل اور حکمران بدعنوان بن جاتے ہیں وہ ملکی سالمیت و خود مختاری کو تحفظ دینے میں ناکام ہوجاتے ہیں ایسے میں جب کسی دوسری سپر پاور کی طرف سے کسی ملک کی قوم کو چوٹ  پہنچتی ہے تو اس کو رد عمل دینے  کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ کیونکہ  انصاف کے اصولوں پر عمل کرنے کے لئے ملکی سالمیت و خود مختاری کا تحفظ ہی پہلا  فرض سمجھا جاتا ہے۔
پوری تاریخ میں سفیروں نے ہمیشہ اپنی قوموں کی حاکمیت اور رہنماں کی عظمت کی علامتی تشہیر کی ہے. لیکن ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں دنیا بھر میں ہمارے سفیر ملکی وقار کے منافی معلوم نہیں کونسے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں تاہم ان کے مقابلے میں دشمن ملک بھارت کے سفارت کار دنیا بھر میں لابنگ کر کے بھارت سمیت مقبوضہ کشمیر میں کے جانے والے بھارتی مظالم پر پردہ ڈال رہے ہیں
جبکہ افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے کہا ہے کہ ٹرمپ حکومت کی افغانستان سے متعلق نئی پالیسی یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ خطے میں طویل عرصے تک سرگرم رہے گا۔کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل نکلسن نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں ناکام نہیں ہوگا کیوں کہ اس کی قومی سلامتی کا دارومدار بھی افغان جنگ کے نتیجے پر ہے۔ طالبان امریکہ سے میدانِ جنگ میں نہیں جیت سکتے اور اب وقت آگیا ہے کہ وہ امن عمل کا حصہ بن جائیں۔ناقدین اور خود ڈونلڈٹرمپ بھی صدر منتخب ہونے سے قبل امریکہ کی افغان پالیسی کو یہ کہہ کر کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں کہ اربوں ڈالر کے اصراف اور 16 سال تک امریکی فوج اور اس کے اتحادیوں کی کارروائیوں کے باوجود افغانستان میں قیامِ امن کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔رواں سال فروری میں جنرل نکلسن نے کانگریس کی ایک کمیٹی میں سماعت کے دوران کہا تھا کہ انہیں افغانستان کی صورتِ حال میں پیش رفت کے لیے مزید چند ہزار امریکی فوجی درکار ہوں گے۔گو کہ صدر ٹرمپ افغانستان میں تعینات امریکی فوجی دستوں میں اضافے کی منظور دے چکے ہیں لیکن تاحال انہوں نے اور نہ ہی ان کے فوجی مشیران نے یہ بتایا ہے کہ مزید کتنے فوجی کتنے عرصے کے لیے افغانستان بھیجے جائیں گے۔افغانستان میں اس وقت لگ بھگ 8400 امریکی فوجی موجود ہیں جن کی بنیادی ذمہ داری افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت اور کارروائیوں میں معاونت فراہم کرنا ہے۔ جنرل نکلسن نے کہا کہ مزید امریکی اور نیٹو فوجی دستوں کی افغانستان آمد سے افغان فوج کے تربیتی پروگرام کا دائرہ بڑھانا اور افغان ایئر فورس اور اسپیشل فورسز کے لیے تربیتی مراکز میں اضافہ کرنا ممکن ہوسکے گا۔امریکی کمانڈر نے صدر ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں حکومت کی جانب سے مزید ڈیڈلائنز نہ دینے اور اس کا اختیار مقامی کمانڈرز کو سونپنے کے فیصلے کو بھی سراہا۔
 جبکہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا کر افغانستان کو مستحکم بنانے میں مدد نہیں ملے گی۔
 وزیر خارجہ خواجہ آصف کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ پاکستان کے دوست ممالک کا دورہ کر کے موجودہ حالات میں اپنے ملک کی حمایت حاصل کر سکیں۔واضح رہے کہ پاکستان کا ایک قریبی دوست ملک چین پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کوششوں کو سراہا جانا چاہیئے۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہونے والے اس اجلاس میں جنرل قمرجاوید باجوہ سمیت مسلح افواج کے سربراہان، انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی ڈائریکٹر جنرل اور اہم وفاقی وزرا نے شرکت کی۔واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے پالیسی بیان میں کہا تھا کہ امریکہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانوں پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا اور انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ تنظیمیں جو امریکی شہریوں کو قتل کرتی رہی ہیں، پاکستان ان کو اپنی سر زمین پر پناہ دیتا آیا ہے۔قومی سلامتی کمیٹی کے ہونے والے اجلاس کا مقصد صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے جنوبی ایشیا کے بارے میں اعلان کردہ پالیسی میں پاکستان سے متعلق بیان کا جائزہ لینا اور باضابطہ ردعمل کا اظہار کرنا تھا۔ بطور ہمسائے کے پاکستان، افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے۔قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد کہا گیا کہ افغانستان میں طویل جنگ کے اثرات کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑا اور پڑوسی ملک سے لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے۔ افغانستان کے اندرونی پیچیدہ مسائل سے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے اور بین الاقوامی برادری کو بھی سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ برسوں سے پاکستان، امریکہ اور افغانستان کے ساتھ مل کر پڑوسی ملک میں سیاسی مذاکرات کے ذریعے امن کے فروغ کے لیے کام کرتا رہا ہے۔سیاسی اور عسکری قیادت کے اجلاس میں کہا گیا کہ پاکستان اب بھی یہ ہی سمجھتا ہے کہ جنگ سے تباہ حال ملک میں امن و استحکام کا بہترین حل بات چیت ہی سے ممکن ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستان ہر ممکن تعاون کو تیار ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغان سر زمین پر موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں، خاص طور پر ان شدت پسندوں کے خلاف امریکہ فوری اور موثر کارروائی کرے جو پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں۔ افغان جنگ پاکستان میں نہیں لڑی جا سکتی۔اجلاس میں ایک مرتبہ پھر حکومت کے اس موقف کو دہرایا گیا کہ پاکستان نے تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی ہے اور دہشت گردوں کی کمین گاہوں کو ختم کیے بغیر ملک میں سلامتی کی صورت حال میں بہتری نہ آتی۔جب کہ دہشت گردی کے مشترکہ دشمن کے خلاف امریکہ کے ساتھ کامیاب تعاون اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان اس لعنت کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔پاکستانی قیادت کے اجلاس میں کہا گیا کہ مالی اور مادی اعانت کی بجائے امریکہ کو پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیئے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 120 ارب ڈالر کا اقتصادی نقصان اٹھانا پڑا۔قومی سلامتی کمیٹی کا کہنا تھا کہ پاکستانی کسی بھی دوسرے ملک کے شہریوں کی جانوں کو پاکستانیوں ہی کی طرح قیمتی سمجھتا ہے اور وہ اپنے ملک کی سر زمین کسی دوسرے خلاف تشدد کے لیے استعمال نا کرنے دینے کے عزم پر قائم ہے۔ پاکستان کو اور اربوں ڈالر بطور امداد دینے کا دعوی درست نہیں اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ 2001 سے افغانستان میں امریکی آپریشن کے لیے پاکستان کی زمینی سہولتوں اور فضائی راہداری کے استعمال کی مدد میں امریکہ کی طرف سے رقم ادا کی جاتی رہی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف اندرون ملک کامیاب آپریشن کے سبب صورت حال بدل گئی ہے اور اس بارے میں پاکستان افغانستان اور امریکہ سے اپنے تجربے کے تبادلے کرنے کو تیار ہے۔ بھارت جس کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ تنازعات ہیں اور ان حالات میں وہ جنوبی ایشیا میں امن کو یقینی بنانے والا ملک کیسے بن سکتا ہے۔کمیٹی کی طرف سے پاکستانی سرزمین اور جغرافیائی خود مختاری کے تحفظ کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ افغانستان اور سرحدی علاقوں میں امن و استحکام کے مشترکہ مقاصد کے لیے حصول کے لیے پاکستان بین الاقوامی برادری کے ساتھ ہر ممکن تعاون جاری رکھے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں طالبان اور دیگر شدت پسندوں کو شکست دینے کے لیے جس نئی پالیسی کا اعلان کیا گیا اس کی اہم تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔امریکی صدر کے بقول افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجے جائیں گے تاہم انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کتنی تعداد میں فوجی افغانستان جائیں گے اور ان کی تعیناتی کی میعاد کیا ہوگی۔امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اعلی امریکی حکام نے بتایا ہے کہ تقریبا 3900 مزید امریکی فوجی افغانستان بھیجے جا رہے ہیں۔صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی خصوصا پاکستان پر لگائے جانے والے سنگین الزامات اور تنقید امریکی ذرائع ابلاغ میں زیرِ بحث ہیں۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کے منفی نتائج برآمد ہو ں گے۔ایسے الزامات پاکستان کی فوج اور انٹیلیجنس ایجنسوں کو دوبارہ ان جنگجو گروہوں کے قریب لانے کا باعث بنیں گے جن کی پاکستان ماضی میں حمایت کرتا رہا ہے۔ماہرین کے بقول ٹرمپ کی تنقید پاکستان اور چین کے تعلقات مزید مستحکم کرنے کا باعث بھی بنے گی کیونکہ دونوں ممالک انڈیا کو خطے میں اپنا مخالف سمجھتے ہیں۔نیویارک ٹائمز کے مطابق ایک بین الاقوامی پالیسی ساز ادارے سے وابستہ افغان ماہر سیتھ جونز کا کہنا ہے کہ افغانستان میں انڈیا اور پاکستان کے مابین پراکسی جنگ جاری ہے اور ایک کی کامیابی دوسرے کے لیے بڑا نقصان تصور کیا جاتا ہے۔صدر ٹرمپ نے انڈیا کو افغانستان میں مزید کردار ادا کرنے کی دعوت بھی دی ہے جس پر حکومتِ پاکستان یقینا ناخوش ہوگی۔ پاکستان کا درینہ موقف رہا ہے کہ انڈیا کی انٹیلیجنس ایجنسی را افغانستان کی سرزمین کو بلو چستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کروانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔نیویارک ٹائمز کے مطابق صدر ٹرمپ کی جانب سے انڈیا کو افغانستان میں مزید کردار ادا کرنے کی دعوت پر پاکستان کو شدید تحفظات ہو ں گے۔ اخبار کے مطابق ڈیموکیٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہاوس انٹیلیجنس کمیٹی کے ممبر ایڈم بی شیف کا کہنا ہے کہ  انڈیا کو افغانستان میں اپنا کردار بڑھانے کی دعوت کے باعث پاکستان سے تعاون کی امید مزید کم ہو جائے گی۔امریکی افواج کی افغانستان میںموجودگی کے دوران پاکستان کو ناراض کرنا ایک دانشمندانہ قدم نہیں ہوگا۔اگرچہ امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کو بہت سخت الفاظ میں دھمکی دی گئی ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اسے حوالے سے ایک مخصوص حد تک ہی پاکستان پر دبا ڈال سکتا ہے۔امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران پاکستان کو ناراض کرنا ایک دانشمندانہ قدم نہیں ہوگا۔صدر اوباما کی حکومت میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ رہنے والے نیوریارک یونیورسٹی کے پروفیسر بانٹ روبن کے بقول پیٹاگون کو افغانستان میں موجود امریکی افواج تک رسد پہنچانے کے لیے پاکستان کی ضرورت رہے گی۔روبن اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کا امریکی امداد خصوصا فوجی امداد پر انحصار بہت کم ہوا ہے۔ جس کی وجہ چین سے دفاعی شعبے میں بڑھتا ہوا تعاون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پالیسی سازوں کے سامنے مزید راستے بھی کھلے ہیں۔نیویارک ٹائمز کے مطابق پاکستان امریکی دباو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، چین کی جانب سے ملک میں کی جانے والی بڑی سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوا ہے، اور امریکی افواج کے بڑی پیمانے پر انخلا کے باوجود پاکستان کی افواج ملک کے سرحد علاقوں پر گرفت کمزور نہیں ہوئی ہے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر الزامات لگانے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی چین کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو بھرپور انداز میں سراہا گیا ہے۔ پاکستان کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کی جانب سے ایک سخت ردعمل جانا چاہیے تاکہ دنیا میں یہ پیغام جائے کہ پاکستان کو کوئی کمبوڈیا یا ویت نام نہ سمجھا جائے ۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو ان غلطیوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے جس کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں۔  پاکستان گزشتہ 70سات سے امریکہ کا ساتھ دے رہا ہے لیکن انھوں نے کبھی بھی پاکستان کے ساتھ دوستی نہیں نبھائی۔ ملکی خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اپنی سرحدوں کی نگرانی مزید سخت کرنا ہوگی۔ افغانستان سمیت دینا کے مختلف ممالک سے بہت سے ایسے لوگ پاکستان میں موجود ہیں جو ملک کے لیے خرابیاں پیدا کر رہے ہیں۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے محض بھارت کو خوش کرنے کے لیے اس طرح کا بیان دیا ہے۔ حالانکہ افغانستان میں بھارت کے کردار کو بڑھانے سے وہاں پر امن نہیں بلکہ انتشار پیدا ہوگا۔موجودہ حکومت کو امریکی صدر کے بیان کو سنجیدگی سے لینا ہوگا ۔ اور ایسی پالیسوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔اے پی ایس