اخبارات کے خلاف بدمعاش قوانین پر تشویش: چودھری احسن پریمی


کسی سچے ناقابل یقین حق سے نمٹنے  کے لئے دوسرے غیر قانونی حق کی ضرورت نہیں ہے۔ اخلاقیات پر قانون سازی حکومتوں کے ایسے حربے رہے ہیں کہ بظاہر بطور فیشن ایسا تاثر ملتا ہے کہ حکومت شہریوں کی مدد کرنا چاہتی ہے تاہم اس کی جانچ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حکومت  بالآخر  آپ کو پھانسی دینے  کے لئے ایسے قوانین کا استعمال کرتی ہے۔انسانی نوعیت ایک ایسا مسئلہ نہیں ہے جو قوانین اور قواعد و ضوابط کی طرف سے طے کیا جا سکتا ہے. موجودہ مسائل کا حل تمام حل پر مبنی ہونا لازمی ہے کہ لوگ کس طرح سلوک کریں، لیکن حکومتیں اس بات پر غور نہیں کرتی کہ وہ لوگوں سے کیسے سلوک کرتی ہیں. پبلشرز اور اخبارات کے حقوق کی حفاظت کی ضرورت ہے، لیکن حکومت کی طرف سے کچھ دریافتی علاج جو تجویز کے گئے ہیں وہ حل کرنے سے کہیں زیادہ مسائل پیدا کریں گے. ایک جمہوری معاشرے میں آزاد پریس کی اہمیت کے بارے میں کوئی بھی ہمیں بتانا ضروری نہیں ہے یا اس کے بارے ایک اخبار اپنی کمیونٹی میں لازمی کردار ادا کرسکتا ہے. تاہمایک آزاد پریس کو معزز پریس ہونے کی ضرورت ہے.ایک آزاد پریس جمہوریت کی بنیاد ہے. اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں ہے.
پاکستان کی صحافتی کمیونٹی نے ایک کالے بدمعاش مجوزہ قانونی مسودے پر شدید خدشات کا اظہار کیا تھا جس کا بظاہر مقصد پرنٹ میڈیا کی زبان بندی تھی اس ضمن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس سمیت نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے صدر شکیل انجم کا کہنا تھا کہ صحافتی کمیونٹی ایسی کسی بھی کوشش کی مزاحمت کرے گی۔انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس سروس،اے پی ایس نیوز ایجنسی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)آرڈیننس 2017کے مجوزہ مسودے کی تشہیر پر شدید تشویش ہوئی ہے۔ اس قانونی مسودے میں پابندیوں اور سزائوں کے اطلاق کا مطالبہ کیا گیا ہے جن میں اشاعتی لائسنس کی ہر سال تجدید کی شرط اور حکام کو کسی بھی اخبار کے اعلامیے کو منسوخ کرنے کے اختیارات دینے کا مطالبہ بھی شامل ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ مسودے' جس کاپرنٹ میڈیا ریگولیٹر، پریس کونسل پاکستان نے جائزہ لینا تھا، نے سول سوسائٹی اور اظہار رائے کی آزادی کے حامیوں کو صدمے سے دوچار کیاتاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ چند غیر جمہوری ذہن کی اس ناپاک کوشش کوناکام بنا دیا گیا۔شکیل انجم نے کہا کہ اس صدمے کی وجہ نہ صرف مسودے کے مندرجات ہیں بلکہ ایک عجیب طریقے سے اس کا منظر عام پر آنا اور اس عمل میں متعلقہ فریقین کو اعتماد میں نہ لینا بھی اس کی وجوہ ہیں۔''وفاقی وزیراطلاعات نے کہا ہے کہ ان کا مجوزہ قانونی مسودے سے کوئی تعلق نہیں اور اراکین پارلیمان کوبھی اس سے لاعلم رکھا گیا ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ مسودہ کہاں سے اور کس کے ایماء پر اچانک نمودار ہوا ہے۔ذرائع ابلاغ کی آزادی اور عام طور پر اظہار رائے کی آزادی انتہائی اہم معاملات ہیں جن کے لیے صحافیوں اور سول سوسائٹی کے جانباز کارکنوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔ اس معاملے کو زیر بحث لانے کی یہی ایک وجہ ہی کافی ہے تاکہ تمام فریقین اس عمل کا حصہ بن سکیں۔''پرامید ہیں کہ وزیراطلاعات نے اس حوالے سے جو انکوائری کروانے کا عہد کیا ہے، وہ فوری طور پرکروائی جائے گی اور اس کے نتائج بغیر کسی تاخیر کے منظرعام پر لائے جائیں گے۔پی ایف یو جے اور نیشنل پریس کلب کی قیادت نے اپنے مشترکہ عزم میں اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹنے کی تمام کوششوں کی شدید مذمت کی ہے اور زور دے کرکہا کہ اس قسم کے کوئی بھی اقدام باشعور شہریوں کے غم وغصہ کا موجب بنیں گے۔نیشنل پریس کلب اسلام آباد جمہوری معاشرے کی اساس سمجھی جانے والی اِن بنیادی آزادیوں کے دفاع، تحفظ اور توسیع کی حالیہ جدوجہد میں صحافیوں اور تمام شہریوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔جبکہ  اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی ایف یو جے کی کوششوں سے متنازعہ پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2017ء کا ڈراپ سین ہو گیا، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے اس متنازعہ آرڈیننس کو پریس کونسل بھیجنے والے افسروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا اور رپورٹ طلب کر لی۔ تینوں تنظیموں نے اعلان کیا ہے کہ آزادی صحافت پر کسی قسم کی قدغن کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور اگر کوئی ایسی سازش کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار اے پی این ایس کے قاضی اسد عابد، سی پی این ای کے عامر محمود، انور ساجدی اور پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ، ناصر زیدی، خورشید تنویر، سول سوسائٹی کے نمائندوں ماریہ اقبال ترانہ، شاہ جہان خان نے پریس کونسل آف پاکستان کے اجلاس کے بعد نیشنل پریس کلب میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ اے پی این ایس کے قاضی اسد عابد نے کہا کہ پریس کونسل آف پاکستان کے آج ہونے والے اجلاس کے ایجنڈے میں متنازعہ پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2017ء کا معاملہ شامل تھا۔ اجلاس میں تینوں بڑی صحافتی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اس متنازعہ اور کالے آرڈیننس کو مشترکہ طور پر مسترد کر دیا۔ قاضی اسد عابد نے بتایا کہ اے پی این ایس کی طرف سے مجیب الرحمن شامی نے وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ متنازعہ آرڈیننس کا معاملہ اٹھایا جس پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے واضح طور پر اس آرڈیننس سے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ان کی حکومت کی پالیسی نہیں ہے اور مسلم لیگ ن کی حکومت ایسی کسی بھی قانون سازی کا سوچ بھی نہیں سکتی جس سے آزادی صحافت پر کوئی زد پڑتی ہو۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آزاد صحافت اور میڈیا ہماری پالیسی ہے اور صحافتی تنظیموں کے تمام تحفظات دور کئے جائیں گے۔ قاضی اسد عابد نے مزید بتایا کہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ نے وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب سے بھی ملاقات کی اور ان سے متنازعہ پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2017ء کا معاملہ اٹھایا۔ اس موقع پر وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے حیرت انگیز انکشاف کیا کہ وہ اس متنازعہ آرڈیننس کے سارے معاملے سے لاعلم ہیں انہوں نے نہ تو اس آرڈیننس کا مسودہ دیکھا ہے اور نہ ہی اس کی مجھ سے منظوری لی گئی ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات نے بتایا کہ میں نے اس سلسلے میں سیکرٹری اطلاعات سے بھی بات کی ہے وہ بھی اس سارے معاملے سے لاعلم ہیں۔ صدر پی ایف یو جے افضل بٹ کی طرف سے یہ معاملہ اٹھائے جانے پر اس معاملے کی فوری تحقیقات کا حکم دے دیا اور ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنا دی ہے اور اس متنازعہ آرڈیننس کو پریس کونسل کو بھجوانے پر متعلقہ افسر کو او ایس ڈی بھی بنانے کا حکم دے دیا جس پر بعدازاں عملدرآمد بھی ہو گیا۔ اس موقع پر سی پی این ای کے نمائندے عامر محمود نے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا یادگار دن ہے جب میڈیا کے تینوں بڑے سٹیک ہولڈرز آزادی صحافت کیلئے ایک صفحے پر ہیں اور ہم نے یہ عہد کر لیا ہے کہ آزادی صحافت حاصل کرنے کیلئے دی جانے والی بے پناہ قربانیوں کو کسی صورت ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اس موقع پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے صدر افضل بٹ نے کہا کہ گزشتہ 48 گھنٹوں سے جب سے متنازعہ پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2017ء کی خبر آئی ہے پورے ملک کے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کیلئے کرب کے لمحات تھے اور پوری کمیونٹی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔ افضل بٹ نے کہا کہ سازش کے تحت متعارف کرائے گئے متنازعہ آرڈیننس کے مسودے نے ڈکیٹیروں کے کالے قوانین کو بھی مات دے دی ہے جسے پی ایف یو جے دیکھتے ہی مسترد کر دیا تھا۔ صدر پی ایف یو جے افضل بٹ نے اے پی این ایس اور سی پی این ای کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس متازعہ آرڈیننس کے خلاف پی ایف یو جے کا ساتھ دیا۔ پی ایف یو جے کے نمائندہ ناصر زیدی نے کہا کہ آج ہم نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے ایسے عناصر کو واضح پیغام دے دیا ہے جو میڈیا پر پابندیوں کے لئے کالے قوانین لانے کا سوچ رہے ہیں کہ میڈیا کے تمام سٹیک ہولڈرز آزادی صحافت کیلئے اکٹھے ہیں۔ انہوں نے اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی ایف یو جے کے عہدیداروں کا   شکریہ ادا کیا کہ
 انہوں نے اس کالے آرڈیننس کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کیا۔پاکستان پرنٹ میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی آرڈیننس 2017 ایک بدمعاش قانون تھا جس کی ہر گز اجازت نہیں دینی چاہیے کیونکہ یہ ایک غیر قانونی قانون ہے جو پریس اور عوام کے حق کا حق ریاست کے لئے خطرات کے طور پر تھا۔آپکی کامیابی مثبت کارروائی میں مثبت سوچ کے نتائج کے ساتھ مل کر ہے. جبکہ کاروائی ایک ترجیحات کا اظہار کرتی ہے. کیونکہ کامیابی کا راستہ بڑے پیمانے پر، طے شدہ کارروائی کرنا ہے.اس ضمن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی بروقت کاروائی نے ملک گیر آزادی صحافت کے خلاف ہونے والے ہتھکنڈوں کو ناکام بنادیا ہے۔اے پی ایس