اقوام عالم کے سامنے پاکستان کا مقدمہ: چودھری احسن پریمی


شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ امریکہ کو بتا دیا گیا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں اور افغان قیادت میں مصالحتی عمل وہاں قیامِ امن کا واحد راستہ ہے۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس کے دوران اقوام عالم کے سامنے پاکستان کا مقدمہ بہترین انداز میں پیش کیا ہے جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ افغانستان کی جنگ ہم پاکستان کی سرزمین پر نہیں لڑ سکتے جبکہ اقوام متحدہ کو جموں و کشمیر پر اپنی قراردادوں کا عزم پورا کرنا چاہئے۔ تاہم وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کئی بار امریکی میڈیا اور تِھنک ٹینکس سے گفتگو کی، جس میں انہیں چند مشکل سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔جس کی تفصیل آگے قارئین کی نذر ہے۔
  وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان، افغانستان کی جنگ اپنی سرزمین پر نہیں لڑے گا۔انھوں نے دعوی کیا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں جہاں سے وہ پاکستان پر دہشت گرد حملے کرتے ہیں۔ نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے اور افغانستان کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔ وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر اپنی حکومت کا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ پڑوسی ملک میں امن، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت سے ہی قائم ہو سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے 70 ہزار جانیں قربان کیں اور اپنے علاقوں سے دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کا خاتمہ کیا۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں پاکستانی معیشت کو 120 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا۔انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کی ضرورت سب سے زیادہ پاکستان کو ہے کیونکہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے جڑا ہے۔وزیر اعظم عباسی نے ہمسایہ ملک بھارت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیریوں کو طاقت کے زور پر دبا رہا ہے اور کشمیریوں کو اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔انھوں نے الزام عائد کیا کہ بھارت کشمیر میں جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے اور ان کے بقول اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ وہاں اپنا مشن بھیجے جو جنگی جرائم کا جائزہ لے کر مرتکب افراد کو سزا دے۔ وزیراعظم نے اقوامِ متحدہ سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی قرار داد پر عمل درآمد کے لیے ایک خصوصی مندوب یا ایلچی بھی مقرر کرے۔
شاہد خاقان عباسی نے عالمی برادری پر بھی زور دیا کہ اسے بھی کشمیر میں سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ پاکستان بھارت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن ان کے بقول اس کے لیے بھارت کو "پاکستان میں شدت پسند کارروائیوں کی مدد یا معاونت بند کرنی ہو گی۔"واضح رہے کہ بھارت پاکستان میں ایسی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے جب کہ خود نئی دہلی، اسلام آباد پر ایسے ہی الزامات عائد کرتا رہا ہے۔وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں پاکستان کی جوہری طاقت ہونے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان کو یہ قدم اپنے پڑوسی کی جانب سے اس سمت میں پہل کرنے کی وجہ سے اور اپنے تحفظ کے لیے اٹھانا پڑا۔وزیر اعظم خاقان عباسی نے فلسطین کے مسئلے کو بھی موضوع بنایا اور اس کے حل پر زور دیا۔انھوں نے دہشت گردی کے عالمی مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطی کے کئی ملکوں کو داعش ، القاعدہ اور دہشت گرد گروہوں کے خطرے کا سامنا ہے ۔ ان کے بقول دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے اور عالمی برداری کو مل کر اس چیلنج کا جواب دینا چاہیے۔وزیراعظم نے آب و ہوا کی تبدیلی کے چیلنج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پیرس معاہدے پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
   فارن ریلیشنز کونسل تھنک ٹینک کے اجلاس کے دوران ہیومن رائٹس واچ کے کین روتھ نے شاہد خاقان عباسی سے سوال کیا کہ کیا وہ بطور وزیر اعظم ملک میں توہین مذہب کے قانون کے خلاف کچھ کہیں گے، جس کے تحت حالیہ دنوں میں ایک مسیحی شخص کو واٹس ایپ پر گستاخانہ سمجھی جانے والی نظم بھیجنے پر سزا موت سنائی گئی۔شاہد خاقان عباسی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملکی قوانین بلکل واضح ہیں اور صرف پارلیمنٹ ان میں ترامیم کرسکتی ہے، حکومت کا کام یہ ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ قوانین کا غلط استعمال نہیں کیا جارہا اور بے گناہوں کو سزائیں نہ ملیں۔جب سیشن کے نگراں کی جانب سے وزیر اعظم پر زور دیا گیا کہ وہ اس معاملے پر مزید بات کر سکتے ہیں تو شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ ملک میں قانون موجود اور رائج ہے، قانون پر عدالتیں تبصرہ کرسکتی ہیں، لیکن جب تک قانون موجود ہے وہ رائج رہے گا اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قانون پر عملدرآمد کرائے۔
وزیر اعظم سے سوال کیا گیا کہ وہ ایئربلو نجی ایئرلائن کے بانی کے طور پر پاکستان کی معیشت سے متعلق کیا اسباق سیکھنے میں کامیاب ہوئے۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ میرے خیال سے یہ اب تک بہت اچھا چل رہا ہے، بنیادی طور پر یہ ایک ڈائنامک بزنس ہے، تو فیصلہ سازی کی قوت سے آپ کو مدد ملتی ہے۔ اس لیے میرے خیال میں چند حوالوں سے یہ سیاست کی اچھی ٹریننگ ہے، اگرچہ میرے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ایئرلائن نے اچھی کارکردگی نہیں دکھائی (قہقہے گونجے) اس لیے ہم اس سے واقعی میں سیکھ سکتے ہیں (پھر قہقہے لگے۔
سی ایف آر کے اجلاس میں حاضرین میں موجود ایک شخص نے شاہد خاقان عباسی سے پوچھا کہ ان کے خیال میں افغانستان میں بھارت کا کیا کردار ہونا چاہیے۔وزیر اعظم نے کہا کہ صفر(قہقہے لگے)، ہم بھارت کے لیے افغانستان میں کوئی سیاسی یا فوجی کردار نہیں دیکھتے، میرے خیال میں اس سے صرف صورتحال پیچیدہ ہوگی اور کوئی معاملہ حل نہیں ہوگا۔نیویارک ٹائمز کے صحافی ڈیوڈ سینگر نے شاہد خاقان عباسی سے سوال کیا کہ لاہور میں این اے 120 میں ہونے والے حالیہ ضمنی انتخاب کی مہم میں ایک آزاد امیدوار کو حافظ سعید کی تصویر والے پوسٹرز استعمال کرنے کی کیسے اجازت دی گئی۔
وزیر اعظم نے جواب دیا کہ ہم نے اس امیدوار کے خلاف کارروائی کی ہے اور وہ اس وقت نظر بند ہے، امیدوار نے انتخابی مہم کے دوران حافظ سعید کی تصویر والے پوسٹرز استعمال کیے جو غیر قانونی ہے اور الیکشن کمیشن بھی ان کے خلاف کارروائی کرے گا، لیکن انہوں نے انتخاب میں 4 فیصد ووٹ حاصل کیے اس لیے ہم اس طرح کی سرگرمی کو درگزر نہیں کرسکتے اور جہاں ضرورت ہوئی ہم کارروائی کریں گے۔ ہم نے ماضی میں بھی کارروائی کی ہے اور اب وہ دو سے تین سال کے لیے حراست میں ہیں۔
پاکستان میں سوشل میڈیا پر کئی افراد نے اس بات کی نشاندہی کی کہ شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں حتی کہ امریکی نائب صدر مائیک پینس سے ملاقات کے دوران بھی ٹائی نہیں لگائی اور ان کے اس عمل کو غیر رسمی اور غیر پیشہ ورانہ قرار دیا۔تاہم وزیر اعظم نے اس کی وجہ سی ایف آر کے سیشن کے آخر میں بیان کی۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ میں ٹائی سے متعلق صرف مختصر بات کروں گا۔ میں نے کیلیفورنیا کے اسکول میں تعلیم حاصل کی، کیلیفورنیا میں کہا جاتا ہے کہ آپ ٹائی صرف اس دن لگاتے ہیں جس دن آپ کی شادی ہو یا اس دن جب آپ کی وفات ہو(قہقہے گونجے)، اور یہ ان میں سے کوئی موقع نہیں تھا (پھر قہقہے لگے)۔وزیر اعظم سے صحافی ڈیوڈ سینگر نے ایک اور سوال کیا کہ کیا پاکستان اس وقت کسی امریکی فوجی اڈے یا اپنی حدود میں کسی آپریشن کی میزبانی کر رہا ہے۔شاہد خاقان عباسی نے جواب دیا نہیں، بلکل نہیں، پاکستان کسی بیس کی میزبانی نہیں کر رہا۔اے پی ایس