امریکی وزیرخارجہ کا دورہ پاکستان۔ چودھری احسن پریمی



 چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلر کی جانب سے ایک روز قبل افغانستان میں پاکستان کے حوالے سے دیے گئے بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کو مسترد کردیا۔چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ 'پاکستان آنے سے پہلے ہی امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس کی ٹون اور ٹینر مناسب نہیں اور یہ بیان ناقابل قبول ہے'۔انھوں نے کہا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی وائسرائے نے ٹلرسن کو پہلے ہی بتا دیا ہو کہ آپ کو یہ بات کرنی ہے'۔رضا ربانی نے وزیر خارجہ خواجہ آصف کو سینیٹ میں طلب کرتے ہوئے کہا کہ ٹلرسن کا کابل میں دیا گیا بیان پارلیمنٹ کو قابل قبول نہیں اس لیے وزیرخارجہ پارلیمنٹ کو 'امریکی مطالبات' کے حوالے سے آگاہ کریں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے رکھے گئے شرائط کے حوالے سے پارلیمنٹ اور سینیٹ کو اندھیرے میں رکھا گیا۔رضاربانی نے تجویز دی کہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ کو پارلیمنٹ کی قراردادوں اور سفارشات کو پڑھ لینا چاہیے کیونکہ 'سفارشات کے ذریعے ان کے علم میں آجائے گا کہ پارلیمنٹ کا کیا ردعمل ہے'۔خیال رہے کہ واشنگٹن میں امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ہم خطے کے دیگر ممالک سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ خطے میں کہیں بھی دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں قائم نہ کرنے دیں جبکہ اس حوالے سے امریکا اعلی سطح پر پاکستان کے ساتھ کام کر رہا ہے'۔ایک سوال پر ریکس ٹلرسن کا کہنا تھا کہ امریکا نے پاکستان سے طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو موصول ہونے والی حمایت کے خلاف کارروائی سے متعلق مخصوص درخواستیں کی ہیں۔امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان کے چار گھنٹے کے انتہائی مختصر دورے کے بعد بھارت روانہ ہو گئے ۔24 اکتوبر بروزمنگل کی سہ پہر کو اسلام آباد پہنچے کے بعد وزیر خارجہ ٹلرسن نے ایوان وزیر اعظم میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے دوران امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان اس خطے میں امن اور سلامتی کے حوالے سے ہمارے مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے اور امریکہ اور پاکستان کے اقتصادی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کیلئے بھی بہت سے مواقع موجود ہیں۔اس کے جواب میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے پر عزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف دنیا کی سب سے بڑی جنگ لڑی ہے اور اس سلسلے میں مطلوبہ مقاصد بھی حاصل کئے ہیں ۔ انہوں نے وزیر خارجہ ٹلرسن کو یقین دلایا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بدستور امریکہ کا کلیدی اتحادی رہے گا۔اس ملاقات میں ان کے پاکستانی ہم منصب خواجہ آصف، وزیر داخلہ احسن اقبال ، وزیر دفاع غلام دستگیر خان اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹننٹ جنرل نوید مختار بھی موجود تھے۔امریکی وزیری خارجہ ٹلرسن کا راولپنڈی کے فوجی ہوائی اڈے پہنچنے پر پاکستانی وزارت خارجہ کے حکام نے ان کا استقبال کیا۔ وہ وہاں سے گاڑیوں کے قافلے میں اسلام آباد کے ڈپلومیٹک اینکلیو میں موجود امریکی سفارتخانے گئے جہاں سے وہ پاکستان کی اعلی سول اور فوجی قیادت 
    سے ملاقات کیلئے ایوان وزیر اعظم روانہ ہوئے۔

ایک روز قبل افغانستان کے بگرام فوجی اڈے پر افغان قیادت سے ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے صحافیوں سے مختصر گفتگو میں کہا تھا کہ طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان سے ملنے والی حمایت میں کمی کے لیے پاکستان سے کچھ مخصوص مطالبات کیے گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کے استحکام کے بارے میں اتنا ہی فکر مند ہے جتنا کہ کئی معاملات میں وہ افغانستان کے بارے میںفکر مند ہے۔ریکس ٹلرسن کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنے ہاں معاملات پر واضح غور کرنا ہو گا۔ریکس ٹلرسن کا بطور امریکی وزیر خارجہ پاکستان کا یہ پہلا دورہ تھا، جسے دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ستمبر کے اواخر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے موقع پر پاکستان کے وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی اور امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس کے درمیان ملاقات کے بعد دوطرفہ روابط میں اضافہ ہوا۔رواں ماہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف اور وزیرِ داخلہ احسن اقبال بھی امریکہ کے دورے کر چکے ہیں جب کہ صدر ٹرمپ کی نائب معاون اور امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کونسل میں جنوبی ایشیا سے متعلق امور کی سینئر ڈائریکٹر لیزا کرٹس کی قیادت میں امریکی حکام کا ایک وفد بھی پاکستان کا دورہ کر چکا ہے۔
 بعض مبصرین کا خیال تھا کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اس بات پر زور دیں گے کہ پاکستان کی زمین سے افغانستان کو ہدف بنانے والے دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ دوسری جانب، توقع تھی کہ پاکستانی قیادت بھی ٹلرسن پر زور دے گی کہ امریکہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات ضرورت سے زیادہ نہ بڑھائے۔
پاکستان جوہری طاقت کا حامل ملک ہے اور یہ سرد جنگ کے دوران امریکہ کا قریبی اتحادی رہا ہے۔ اس کے علاوہ 11 ستمبر، 2001 کے دہشتگرد حملوں کے بعد افغانستان میں امریکی اقدامات کے حوالے سے بھی پاکستان نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ تاہم، حالیہ برسوں میں امریکہ کا بھارت کی طرف بڑھتا ہوا جھکاو پاکستان کیلئے باعث تشویش معاملہ بنا ہوا ہے۔پاکستان اپنے سے کئی گنا بڑے ہمسایہ ملک کو اپنے وجود کیلئے حقیقی خطرہ سمجھتا ہے، اور دونوں ملکوں کے درمیان 1947 میں آزادی حاصل ہونے کے بعد سے تین جنگیں ہو چکی ہیں۔
جبکہ غیر ملکی میڈیا کا خیال ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے اپنے دورہ پاکستان میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ملک کی فوجی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین سے افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو ختم کرے۔ تاہم انہیں پاکستانی حکام نے خبردارکیا ہے کہ بھارت کو افغانستان میں کوئی بڑا کردار دینے سے علاقہ عدم استحکام کا شکار ہوگا اور اس سے افغانستان میں 16 برس سے جاری تاریخ کے سب سے طویل فوجی تنازعے کے حل میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔
 وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ایک قریبی ساتھی اور وزیر مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ بھارت کو افغانستان میں لانا آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا ریڈ لائن عبور کرنا ہوگا، کیونکہ افغانستان میں بھارت کا کوئی کردار نہیں ہے۔
بہت سے پاکستانی سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے حوالے سے بھارت کو شامل کرکے امریکہ پاکستان کے ساتھ انصاف نہیں برت رہا ہے۔ تاہم، اس طرح کی برہمی دونوں جانب پائی جاتی ہے۔جبکہ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن نے افغانستان کے دورے کے دوران کابل میں کہا تھا کہ امریکہ نے پاکستان سے کچھ ایسی خاص درخواستیں کی ہیں جن میں پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ طالبان اور دوسری عسکریت پسند تنظیموں کو پاکستان میں ملنے والی حمایت ختم کرنے کیلئے اقدامات کرے۔
اس سے پہلے امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے بھی اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ امریکہ افغانستان کے معاملے میں پاکستان کے ساتھ مزید ایک بار کام کرنے کی کوشش کرے گا اور یہ کامیاب نہ ہوئی تو پاکستان کے خلاف مزید سخت اقدامات اختیار کئے جائیں گے۔ صدر ٹرمپ نے بھی کہا تھا کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنے پیش رو سے کہیں زیادہ سخت موقف اپنائیں گے۔امریکہ نے پاکستان کیلئے فوجی امداد میں کٹوتیوں کے ساتھ ساتھ بتدریج فوجی پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ تاہم، گزشتہ دو ہفتوں کے دوران دونوں ملکوں کے تعلقات میں نرمی کے اشارے بھی ملے ہیں۔امریکی نائب صدر    ائیک پینس اور
 وزیر خارجہ ٹلرسن نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو فون کرکے امریکی اور کنیڈئن جوڑے اور ان کے تین بچوں کو طالبان کے چنگل سے چھڑانے پر پاکستانی فوج کی تعریف کرتے ہوئے، شکریہ ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ، جماعت الاحرار گروپ کے لیڈر کو امریکی ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کی کارروائی سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے آثار پیدا ہوئے تھے۔ پاکستان اسے کافی عرصے سے پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔دوسری جانب بھارت نے حالیہ برسوں میں افغانستان کی اقتصادی امداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ اسلحہ فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی تھی، جس کے باعث پاکستان میں یہ تشویش پیدا ہوگئی تھی کہ اسے دونوں جانب سے دشمنی کا سامنا ہو سکتا ہے۔پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اب بھی 35 لاکھ افغان مہاجرین کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ افغانستان میں بدامنی بڑھنے کا براہ راست نقصان پاکستان کو ہوگا۔ اس تناظر میں، پاکستان امریکہ اور افغانستان کے ساتھ زیادہ تعاون اور انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے پر زور دیتا ہے۔تاہم، بھارتی وزیر اعظم نرندر مودی کے حامی تھنک ٹینک، ویویکاناڈا انٹرنیشنل فانڈیشن کے فارن پالیسی کے مشیر، سوشانت سرین کا کہنا ہے کہ پاکستان چاہے یا نہ چاہے، افغانستان میں بھارت کا کردار بڑھتا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ پیغام بہت واضح ہے کہ افغانستان اور امریکہ کے درمیان مشترکہ پالیسیوں کے پس منظر میں بھارت کا کردار بہت اہم ہوگا۔اس پس منظر میں، تجزیہ کاروں کے مطابق، امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن کے اسلام آباد میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتوں کے نتیجے میں پاکستان امریکہ تعلقات مثبت یا منفی انداز میں ایک نیا رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن سے ملاقات کے بعدوزیر خارجہ خواجہ آصف نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا فقدان راتوں رات ختم نہیں ہو گا۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں برف اتنی جم گئی ہے اس کو پگھلنے میں وقت لگے گا۔تاہم اس وقت جو کوششیں ہو رہی ہیں اس سے ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں اور اس سے بہتر صورتحال پیدا ہو گی۔امریکہ کے پاکستان پر افغانستان کے معاملے پر پائے جانے والے خدشات کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ پرانی دوستی یاری کے نتائج پہلے سے ہی بھگت رہا ہے۔ہم نے ستر ہزار جانوں اور اربوں ڈالر کا کا نقصان اٹھا لیا ہے، ہمارا پرامن کلچر اور برداشت پر مبنی معاشرہ تھا، وہ سب برباد ہو گیا اور اس سے برے نتائج ہمیں امریکہ کیا بھگتوائے گا۔ہم نتائج بھگت رہے ہیں اور جو نتائج ہمیں امریکہ کے ساتھ دوستی میں بھگتنے پڑے ہیں ابھی صرف ان کو ٹھیک کر رہے ہیں جس میں اللہ ہماری مدد کر رہا ہے اور قوم اس پر متحد ہے۔انھوں نے کہا کہ 'یہ باتیں دھمکی کی زبان سے نہیں صلح کی زبان سے طے ہوں گی۔ ہمارا محفوظ ٹھکانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان طالبانکے پاس افغانستان میں 45 فیصد علاقہ ہے اور یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اپنے کارناموں اور کارکردگی کی وجہ سے انھیں مہیا کیا ہے۔ وہاں پر ان کی پناہ گاہیں ہیں جہاں سے وہ پاکستان میں اور افغانستان میں بھی حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔یہ امریکہ کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ بھی تھوڑا اپنے گریبان میں جھانکے کہ اس نے 16 برس میں افغانستان میں کیا کارنامے سرانجام دیے ہیں۔اے پی ایس