وفاقی دارلحکومت فوج کے حوالے، پولیس اہلکاروں سمیت 300 مظاہرین زخمی



  چودھری احسن پریمی
 ایسوسی ایٹڈ پریس سروس (اے پی ایس)
 سیکیورٹی فورسز کو تحریک لیبک کے زیرقبضہ فیض آباد کو خالی کرانے میں ناکامی کے سامنے کے بعد اسلام آباد میں قیام امن کے لیے فوج طلب کر لی گئی ۔ وفاقی وزارت داخلہ نے اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کر دیاہے۔اب تک کی رپورٹس کے مطابق سیکیورٹی فورسز اور مظاہریں کے درمیان جھڑپوں میں 300 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ گرفتار مظاہرین کی تعداد دو سو سے تجاوز کرگئی۔مظاہرین نے پولیس کی بارہ گاڑیاں، متعدد موٹرسائیکل نذرآتش کردی۔ متعدد ٹی وی چینلز کی گاڑیوں کو توڑ دیا گیا جبکہ سما ٹی وی کی وین کو جلا یا گیا اور صحافیوں کو تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔فیض آباد میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہوائی فائرنگ اور شیلنگ کا سلسلہ وقفے وففے سے رات بھر جاری رہا۔پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے حکومت اور مظاہرین کو تحمل کے ساتھ معاملات حل کرنے کی تجویز پیش کردی۔دھرنے کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے بعد کی صورتحال کے پیشِ نظر حکومت نے تمام پرائیویٹ ٹیلی ویژن (ٹی وی) نیوز چینلز کو عارضی طور پر بند کرردیا ہے۔سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دھرنا ختم کرانے کے لیے آپریشن ہفتہ کی صبح سات بجے شروع کیا گیا جس میں آٹھ ہزار سیکیورٹی اہلکاروں نے حصہ لیا ۔ فیض آباد اس وقت میدان جنگ بنارہا۔ ابتک جھڑپوں میں 300سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں150 سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔سیکورٹی اہلکاروں نے فیض آباد میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں چلائیں، آنسو گیس کی شیلنگ کی اور واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے پیش قدمی کی تو مظاہرین نے سامنے سے پتھرا شروع کردیا۔ تاہم پولیس کی پیش قدمی جاری رہی اور انہوں نے مظاہرین کے قریب پہنچ کر ان پر لاٹھی چارج شروع کردیا اس کے بعد راولپنڈی کے دیگر علاقوں سے مظاہرین کی ایک بڑی تعداد امڈ آئی اور سیکیورٹی فورسز کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔مشتعل مظاہرین نے سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے گھر کا گیٹ توڑ دیا ہے جبکہ وزیر داخلہ کے گھر سے نکلنے والی بکتر بند گاڑی پر پتھرا بھی کیا گیا، تاہم بکتر بند کی جانب سے کی جانے والی شیلنگ کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے ہیں۔اسلام آباد کے علاقے آئی ایٹ فور میں آپریشن کے دوران مظاہرین کے پتھرا سے ایک پولیس اہلکار شہید ہوگیا، جس کے سر پر چوٹ آئی تھی۔مظاہرین نے مری روڈ کا بڑا علاقہ قبضے میں لیا ہوا ہے جبکہ پولیس کی بارہ گاڑیاں نذرآتش جبکہ سما ٹی وی کی ڈی ایس این جی کو جلا دیا ہے۔ مظاہرین کی جانب سے صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ متعدد ٹی وی چینلز کی گاڑیوں کو نقصان بھی پہنچا ہے۔وفاقی دارلحکومت میں بارہ اہم مقامات پر مذہبی جماعت کا احتجاج جاری رہا  جس سے نظام زندگی مفلوج ہوکررہ گیا ہے۔جڑواں شہروں کے اسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ ہے۔ تمام تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز بند ہیں۔ ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی حالت نافذ ہے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ٹیلی فون کیا ہے جس میں انہوں نے اسلام آباد دھرنے کے معاملے کو پر امن انداز سے حل کرنے کی تجویز دی ہے۔آرمی چیف نے وزیراعظم سے بات چیت میں کہا کہ دونوں جانب سے تشدد سے گریز کریں کیونکہ موجودہ صورتحال قومی مفاد اور ہم آہنگی کے خلاف ہے۔سرکاری نیوز چینل پی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ مظاہرین سازش کرنے والوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں، ان کے پاس ایسی معلومات اور ایسے وسائل موجود ہیں جو ریاست کے خلاف استعمال ہو تے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مظاہرین نے بھی (پولیس پر) آنسو گیس شیل فائر کیے جبکہ دھرنے کی نگرانی کرنے والے کیمروں کی فائبر آپٹک بھی کاٹ دی۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دھرنے والے ختمِ نبوت کے قانون کا نام استعمال کر کے اپنی سیاست کر رہے ہیں جبکہ اس معاملے میں ایسا کچھ بھی موجود نہیں جس کی وجہ سے مظاہرے کیے جائیں جبکہ ختم نبوت کا قانون پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ملک میں انتشار پھیلانے میں ایک جماعت ملوث ہورہی ہے عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ ملک میں بدامنی کی سازش سے دور رہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت مذاکرات کے لیے ہر وقت تیار ہیں تاہم دھرنے کی جگہ کلیئر کرانا حکومت کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے اور حکومت اور انتظامیہ عدالتی فیصلوں کی پاسداری کرتے ہوئے آپریشن کر رہی ہے۔وفاقی وزیر داخلہ نے مظاہرین کے خلاف آپریشن کے فیصلے کے حوالے سے کہا کہ دھرنے والوں کے خلاف صبر کا مظاہرہ کیا گیا تاہم عدالتی احکامات کی روشنی میں آپریشن کا آغاز کیا گیا۔پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)نے بھی تمام نیوز چینلز کو آف ائیر کرکے نشریات بند کرنے کا حکم دیا تھا۔تاہم اب ملک کے مختلف شہروں میں فیس بک، یوٹیوب اور ٹوئٹرسمیت تمام سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس بند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔
اسلام آباد میں 20 روز سے مذہبی جماعتوں کا دھرنا جاری تھا اور مظاہرین الیکشن کے کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت سے متعلق ترمیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے تھے۔ دھرنے کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ انتظامیہ نے مظاہرین کو دھرنا ختم کرنے کے لیے ہفتہ کی صبح 7 بجے تک کی ڈیڈ لائن دی تھی جو ختم ہونے پر آپریشن کیا گیا۔اس سے قبل سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے متعدد بار دھرنا ختم کرنے کے احکامات جاری کیے تھے تاہم احتجاج ختم نہیں کیا گیا۔ دھرنا ختم کرنے کے لیے حکومت نے اس سے پہلے دو بار ڈیڈلائن دی تھی تاہم دھرنا ختم نہیں کیا گیا جس پرانتظامیہ نے ہفتہ صبح 7 بجے تک کی تیسری اور آخری وارننگ دی گئی تھی جو گزرنے پر آپریشن شروع کردیا گیا۔پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے وفاقی دارالحکومت میں مذہبی جماعت کے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی اور پھر ملک کے بعض دیگر شہروں میں صورت حال کشیدہ ہونے پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اس صورت حال سے تحمل سے نمٹنے کی تجویز دی ہے۔سخت گیر موقف رکھنے والی مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک یارسول اللہ کے ہزاروں کارکنان رواں ماہ کے اوائل سے فیض آباد کے مقام پر دھرنا دیے بیٹھے تھے ۔ عدالتی حکم پر دھرنے کے شرکا کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہفتہ کی صبح جب کارروائی شروع کی تو انھیں مظاہرین کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔فوج کے شعبہ تعلقات عامہ یعنی 'آئی ایس پی آر'کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ فوج کے سربراہ جنرل باجوہ نے وزیر اعظم عباسی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے اس معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے کی تجویز دی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ "آرمی چیف نے دونوں فریقین کو تشدد سے گریز کا مشورہ دیا کیونکہ یہ (تصادم) ملک کی یکجہتی اور مفاد میں نہیں ہے۔ "دوسری طرف بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا کوئی بھی ادارہ قومی معاملے پر مشورہ دے سکتا ہے تاہم اس مشورے کی تشہیر کرنا شاید مناسب نا ہو۔سیاسی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ "اس طرح کا مشورے کی جب تشہیر کی جاتی ہے تو اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حکومت ایسا تحمل سے نہیں کر رہی۔ حکومت تشدد کر رہی ہے جس کی وجہ سے آرمی چیف کو یہ کہنا پڑا۔ اس سے وہ لوگ جنہوں نے اسلام آباد کو مفلوج کر رکھا تھا اس سے یہ مطلب بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ جیسے ان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔"تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت تو اس معاملے کو سلجھانے کے لیے تحمل سے کام لیتی رہی ہے اور صرف ہائی کورٹ کے کہنے پر انہیں اس دھرنے کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے ختم کرنے کی کوشش کی۔ادھر وزیر مملکت برائے داخلہ امور طلال چودھری نے کہا کہ قانون کی عمل داری بحال کرنا تشدد نہیں ہے۔"تشدد ہمیشہ وہ کرتے ہیں جو قانون کی خلاف وزری کرتے ہیں۔ قانون پر عمل
 درآمد کروانا تشدد نہیں ہوتا ہے۔ یقینا جو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں کہا جا سکتا ہے انہیں یہ مشورہ دیا گیا ہو گا۔ حکومت قانون پر عمل کر رہی ہے۔"واضح رہے کہ رواں ہفتے ہی فوج کے ترجمان یہ کہہ چکے ہیں کہ فیض آباد دھرنے ختم کرنے کے لیے حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی فوج اس پر عمل کرے گی تاہم مناسب یہی ہے کہ اس معاملے کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔
 جبکہ تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ حکومت گذشتہ 19 دن سے پرامن حل کی کوشش کر رہی تھی اور اگر معاملہ بات چیت سے حل نہیں ہوتا تو کیا کیا جاتا۔انھوں نے کہا کہ جنرل باجوہ نے پرامن حل کی بات کی ہے تو وزیراعظم کو جنرل باجوہ سے یہ بھی پوچھ لینا چاہیے تھا کہ آپ بتائیں کیا کریں۔ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق حکومت تو کہہ رہی ہے کہ ہائی کورٹ کے کہنے پر فیض آباد کو خالی کرا رہے ہیں اور ہم عدالت کا کام کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس معاملے پر فوج کو دلچسپی پہلے لینی چاہیے کیونکہ آج جو کچھ ہوا ہے اس کے بعد بات چیت کی گنجائش نہیں ہے اور اگر فوج اب اس صورتحال میں مدد کرنا چاہتی ہے تو کرے اور مولویوں پر دبا ڈالے۔اگست 2014 میں اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر جب عمران خان اور طاہر القادری نے وزیراعظم ہاوس کی جانب مارچ شروع کیا تو جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا، اس پر بھی فوج نے فریقین پر زور دیا تھا کہ بات چیت کے ذریعے معاملہ حل کریں۔اورہفتہ کو بھی جب حکومت نے کارروائی شروع کی تو اس کے کئی گھنٹوں بعد فوج کی جانب سے معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے پر زور دیا گیا۔اس قسم کی صورتحال کے دوران فوج کی جانب سے بیان کے بارے میں ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہیہ گِھسے پٹے قسم کے بیان ہوتے ہیں کہ پرامن طریقے سے معاملہ حل کیا جائے، یہ تو سب ہی کہتے ہیں، حکومت 20، 21 دن سے کوشش کر رہی تھی اور آج صبح تک اس کو مذہبی رہنماوں اور بہت سارے پیروں کی مدد سے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور جب ایسا نہیں ہوا تو پھر وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم نے ہائی کورٹ کے حکم پر دھرنے کو ہٹانے کے لیے کارروائی شروع کی ہے۔
اگر ان کو اس معاملے میں اتنی ہی دلچسپی تھی تو انھیں پہلے ہی اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے کوشش کرنی چاہیے تھی اور یہ مسئلہ حل ہو سکتا تھا۔انھوں نے کہا کہ حکومت کے پاس بھی موقع تھا کہ وہ فوج کو بلا لیتی کیونکہ عام طور پر فوج کے آنے پر فسادی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔تاہم لیفٹٹینٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا اور ان کے مطابق اس بیان کو اس نظر سے دیکھا جا سکتا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ فوج نے دھرنا دینے والوں کو پہلے پیغام دے دیا ہو کہ اس معاملے کو اب پرامن طریقے سے حل کریں اور اس کا کافی اثر پڑا ہو گا اور اب اگر سول حکومت بات چیت کرتی ہے تو وہ ممکن ہے کہ لچک دکھائیں۔ایک اورتجزیہ کارکے مطابق حکومت کو مزید انتظار کرنا چایے تھا اور اگر کارروائی کرنے ہی تھی تو اس سے پہلے اداروں سے مشاورت کرتی۔انھوں نے بھی ڈاکٹر مہدی حسن سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ فوج کی جانب سے آج بیان آنے سے زیادہ اچھا یہ ہوتا کارروائی سے پہلے وزیراعظم، آرمی چیف اور دیگر افراد ایک ساتھ بیٹھ کر اس بارے میں مشترکہ حکمت عملی بناتے۔انھوں نے کہا کہ اس کے ساتھ حزب اختلاف کو بھی بلایا جاتا اور آپریشن کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں پوری قومی قیادت کے طور پر فیصلہ لیا جاتا ہے۔ اب آپریشن شروع کر دیا گیا ہے تو اس کے نتائج کو کون بھگتے گا۔انھوں نے کہا کہ پاکستان بہت ہی عجیب ملک ہے جہاں ہر سیاسی جماعت اور ادارے کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور ان مفادات کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اگست 2014 میں بھی فوج نے جھڑپوں کے واقعات کے دوران پرامن حل تجویز کیا تھاہو سکتا ہے کہ عباسی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کئی لوگوں یا کسی ادارے کا ہاتھ ہو، لیکن حکومت یہ تو کر سکتی ہے کہ سب اداروں کو ایک ساتھ بیٹھاتی اور مستقبل کے بارے میں بات کرتی جس میں اگلے انتخاب کی بات بھی ہونی چاہیے۔تاہم اس کارروائی کی سیاسی تعبیر یہ ہے کہ اگر حکومت نے اتنے دن انتظار کیا تھا تو کچھ اور کر لیتی لیکن اب یہ لگتا ہے کہ موجودہ معاملہ مزید بگڑ جائے گا اور حکومت کے لیے بڑا خطرناک ہو گا اور ہم پھر ایک نئی صورتحال کی جانب بڑھیں گے۔
سابق وزیراعظم نوازشریف کی سربراہی میں مسلم لیگ ن کا اہم اجلاس ہوا، اجلاس میں دھرنے کے شرکا کے خلاف آپریشن سیپیدا ہونے والی صورتحال اور نیب مقدمات سمیت دیگر اہم سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اورمسلم لیگ ن کی آئندہ کی حکمتِ عملی مرتب کی گئی ۔
  آپریشن والے دن سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ ن کا اہم اجلاس جاتی امرا رائیونڈ میں 4گھنٹے سے زائد جاری رہا۔وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ،اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ، وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف ، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق ، وزیر مملکت برائے اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب ،وفاقی وزیر چوہدری برجیس طاہر، وزیر قانون پنجاب رانا ثنااللہ ، ایم این اے حمزہ شہباز، سینیٹر پرویز رشید اور سینیٹر ڈاکٹر آصف کرمانی سمیت دیگر رہنماوں نے شرکت کی۔اجلاس میں دھرنے کے شرکا کے خلاف آپریشن سے پیدا ہونیوالی صورتحال اورنیب کے کیسز سمیت دیگراہم سیاسی امورپر تبادلہ خیال کیاگیا۔مسلم لیگ ن کی آئندہ کی حکمتِ عملی بھی مرتب کی گئی،وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اجلاس کے بعدہیلی کاپٹر کے ذریعے روانہ ہو گئے۔
پیمرا نے تمام نیوز چینلز آف ائر کرنے کے حکم کے بعد ملک بھر میں فیس بک ، ٹوئٹر اور اب یوٹیوب کو بھی انٹر نیٹ برائوزر پر بند کردیا ہے ۔ذرائع کے مطابق پیمرا نے نیوز چینلز کو آف ایئر کرنے کا حکم اسلام آباد دھرنے کی براہ راست کوریج کرنے پر دیا ہے جس میں میڈیا پر کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کرنے کا کہا گیا ہے۔پیمرا کی جانب سے نیوز چینلز کو آف ایئر کرنے کے حکم کیبعد مختلف علاقوں میں نیوز چینلز کی
 نشریات بند ہوگئیں۔دوسری جانب ملک بھر میں سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب کو انٹرنیٹ براوزر پر بند کردیا گیا ہے۔انٹرنیٹ صارفین موبائل ایپلی کیشنز کیذریعے فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے اسلام آباد میں دھرنا مظاہرین کے خلاف آپریشن کے دوران انہیں ایک بار پھر مذاکرات کی پیشکش کردی اور کہا کہ ہم ختم نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عقیدے کے محافظ ہیں۔سرکاری ٹی وی سے گفتگو میں وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ دھرنے والے اتنے سادہ نہیں ہیں، ان کے پاس ریاست کیخلاف استعمال ہونے والی اشیا موجود ہیں، حکومت دھرنے والوں سے مذاکرات کے لیے ہر وقت تیار ہے، کوشش ہے کم سے کم نقصان ہو۔ان کا مزید کہناتھاکہ عدالتی احکامات کی روشنی میں آپریشن شروع کیا گیا ،عدلیہ کے احکامات کی بجاآوری سے انکار نہیں کیا جاسکتا،ہرممکن کوشش ہے کہ جان و مال کا نقصان نہ ہو۔احسن اقبال یہ بھی کہا کہ ملک میں انتشارپھیلانے میں ایک جماعت ملوث ہورہی ہے،یہ لوگ بین الاقوامی سازش میں استعمال ہو رہے ہیں،حکومت اسلامی اقدار اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاسبان ہے،دھرنے والوں سے مذاکرات کیلئے ہر وقت تیار ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے تین دن میں فیض آباد دھرنا ختم کرانے کی ہدایت کی،عدالتی احکامات کی روشنی میں آپریشن شروع کیا گیا، دھرنا مظاہرین کے پاس آنسو گیس کے شیل ہیں جو انہوں نے سیکورٹی فورسز پر فائر کیے ہیں،انتظامیہ نے ہرممکن کوشش کی کہ جان ومال کا نقصان نہ ہو۔
وفاقی وزیرداخلہ کا کہناتھاکہ کچھ ہفتوں سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے،پاکستان کے دشمن دھرنے والوں کی سرگرمیوں سے ملک کا نام بدنام کررہے ہیں،دھرنے والے ختم نبوت کے حساس معاملے کوسیاست کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے کہا ہے کہ قانون کی بالادستی کے لئے فیض آباد دھرنا مظاہرین کے خلاف آپریشن ہونا تھا ،لیکن ساری
 جماعتوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔
 جبکہ پیپلز پارٹی نے موجودہ صورتحال میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کردیا ہے۔بلاول ہائوس میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی زیر صدارت پی پی کی اعلی قیادت کا مشاورتی اجلاس ہوا۔اجلاس میں قومی اسمبلی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ ، وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ سمیت کئی پارٹی رہنما شریک ہوئے ۔اجلاس میں ملکی داخلی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ،اس موقع پر وزیراعلی سندھ نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر بریفننگ بھی دی ۔اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں پی پی قیادت نے ہر حالت میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے دفاع کے عزم کا اعادہ کیا۔پی پی قیادت نے حکومت سے آئینی تقاضے پورے کرنے کا مطالبہ کیااور کہا کہ حکومت حالات کا ادراک اور تدارک نہ کرسکی ۔ اعلامیے کے مطابق پیپلزپارٹی جمہوریت اورجمہوری اداروں کیساتھ کھڑی ہے، حکومت اپنی آئینی اوراخلاقی ذمہ داری پوری کرے۔بلاول بھٹوزرداری نے ہدایت کی ہے کہ سرکاری املاک،عوام کیتحفظ کیاقدامات کیے جائیں،وزیر اعلی سندھ نے بتایا کہ سندھ میں امن و امان کی صورتحال قابومیں ہے۔دینی معاملات کی نزاکت و حساسیت محتاج بیاں نہیں۔ اس بابت متبعین کے عقائد و نظریات اس قدر راسخ ہوتے ہیں وہ اپنے مکتبہ فکر کے تناظر میں جس بات کو درست خیال نہیں کرتے اس کے خلاف کسی بھی حد تک جانے اور کچھ بھی کر گزرنے میں ذرہ برابر بھی متامل نہیں ہوتے۔ کوئی دلیل، کوئی معذرت قبول نہیں کی جاتی اور اپنے مطالبے کو من وعن تسلیم کیا جانا معاملات کی درستی کا آخری حل قرار دیا جاتا ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر، دم تحریر پچھلے اٹھارہ دن سے دھرنا دیئے، تحریک لبیک یا رسول اللہ ۖ کے کارکن اور علما بھی اسی طرز عمل کو اختیار کئے بیٹھیہیں۔ کسی سے نہاں نہیں کہ معاملہ کہاں سے شروع ہوا اور کس طرح حکومت پس قدمی پر مجبور ہوئی۔ حکومت نے قانونی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کے امیدواروں کی رکنیت فارم کے ساتھ لازم، ڈیکلریشن میں اقرار ختم نبوت کی شق کے شروع میں حلفیہ اقرار کرتا ہوں کے الفاظ دوبارہ شامل کردیے اور یوں قانون سازی کی حد تک اس دانستہ فعل یا غفلت مجرمانہ کا ازالہ ہوگیا۔ اس کے باوجود حکومت اسی نکتے پر معتوب و مغضوب ہے کہ آخر اتنی بڑی جسارت کا ارتکاب کیونکر ہوا؟ ایسا حکومت نے قصدا کیا تو کس کے اشارے پر اور کس کی خوشنودی کے لئے؟ اس ضمن میں راجہ ظفر الحق کی سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی کی تحقیقات سامنے لانے کا مطالبہ بھی زور پکڑ گیا تاکہ اس مجرمانہ جسارت کے ذمہ دار کا تعین کیا جاسکے تاہم یہ رپورٹ ہنوز پردہ اخفا میں ہے۔ دھرنا دینے والوں کا دوسرا مطالبہ وزیر قانون زاہد حامد کا استعفاہے۔ استدلال یہ ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے ایسا کیوں ہوا؟ حکومت یہ مطالبہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں، یہ افواہیں یا خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ وزیر قانون تو اپنا عہدہ چھوڑنے پر تیار ہیں لیکن حکومت ایسا نہیں چاہتی کہ اس سے اس کی کمزوری مزید عیاں ہو جائے گی۔ بہرکیف دھرنے کی وجہ سے لاکھوں شہری آمدورفت کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہیں۔ وزیر داخلہ احسن اقبال متعدد مرتبہ دھرنا دینے والوں کے اکابرین سے گفت و شنید کر چکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ شوکت عزیز صدیقی نے بھی دھرنا دینے والوں کی درخواست کی سماعت کو دھرنے کے خاتمے سے مشروط کردیا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ان حالات میں عام الناس کی نظریں فوج کی طرف اٹھیں تو یہ جواب سامنے آیا کہ فوج سیاسی حکومت کے فیصلے پر عمل کرے گی۔ بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے دھرنے پر ازخود نوٹس لے لیا اور جمعرات کے روز جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسی نے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ عدلیہ نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو دھرنے والوں کی سپلائی لائن کاٹنے کی ہدایت کی۔اور استفسار بھی کیا کہ ان کے پیچھے کون ہے، فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟ عدلیہ نے اس حوالے سے آئی ایس آئی اور آئی بی کی رپورٹس بھی مسترد کر دیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ غلطی سب سے ہوتی ہے لیکن بضد نہیں ہونا چاہئے، کوئی غیر شرعی بات ہے تو شرعی عدالت موجود ہے۔ حکومت جتنی نرمی برت سکتی تھی برت چکی، معاملہ اب عدلیہ میں ہے، جس نے شرعی عدالت کی راہ بھی سجھائی ہے۔ دھرنا دینے والوں کے نزدیک یہ شرعی مسئلہ ہے تو وہ شرعی عدالت سے بھی رجوع کرسکتے ہیں اور ایسا کرنا سب کے حق میں ہوگا۔ بصورت دیگر خرابی بسیاررو کے نہ رکے گی اور اس کے اثرات دور تک جائیں گے۔ کوئی شک نہیں کہ مسلمان کیسا ہی بے عمل کیوں نہ ہو ناموس رسالت ۖ پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا، تاہم کیا یہ درست نہیں کہ ایسی قانونی راہ اپنائی جائے کہ اس اندیشے کی راہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے، بجائے اس کے کہ بات تصادم اور تشدد کی طرف جائے، احتجاج اب اس نہج پر آچکا کہ بضد ہونے کے بجائے معاملے کا قانونی اور دائمی حل نکالا جائے تاکہ آئندہ ایسی کسی کاوش کا احتمال ہی نہ رہے۔ فریقین کو اب معاملات کے حل کی طرف آنا چاہئے خواہ شرعی عدالت سے رجوع کرنا پڑیتاکہ معاملات تصادم کی طرف نہ جائیں۔اے پی ایس