عوام نے مغربی ایجنڈے کو ناکام بنادیا۔ چودھری احسن پریمی



بعض کے نزدیک آئین پاکستان اور بعض کے نزدیک پارلیمنٹ سپریم ہے تاہم ایک محب وطن کے نزدیک ملکی سلامتی سب سے پہلے ہے اور وہ بھی ایسے حالات میں جب ملک دشمن کسی ایسی سازش میں ملوث ہوں کہ جس سے خدشہ ہو کہ پاکستان میں خانہ جنگی برپا کرنے کیلئے عوام اور فوج کو آمنے سامنے کیا جائے۔ ایسے میں جب پاک سرزمین پر سب سے زیادہ قابل اعتماد سپہ سالار جنرل قمرجاوید باجوہ نے بروقت مداخلت کر کے ملک دشمنوں کی سازش کو خاک میں ملا دیا ہے۔ پاک فوج جغرافیائی سرحدوں کی محافظ تو پہلے ہی ہے لیکن اس دفعہ اس نے نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کیلے بھی کلیدی کردار کیا ہے۔ محب وطن ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب سے زیادہ حکمرانوں کی خدمت کو ترجیح دی جاے. محب وطن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ اپنے ملک کی حفاظت کے لئے جانتے ہیں، جب آپ اپنے آئین کی حفاظت کرتے ہیں تو جان لیں کہ جب آپ اپنے ہم وطنوں کی حفاظت کرتے ہیں، تو ایسے میں مخالفین کو محب وطنوں کا طرز عمل ناپسند گزرتا ہے۔ محب وطنوں کو غیر ممالک کی آشیر آباد کی ضرورت نہیں ہے. کیونکہ ایک محب وطن کا خون آزادی کے درخت کا بیج ہے.ایک وطن پرست ہمیشہ اپنی حکومت سمیت ملک دشمنوں کے خلاف اپنے ملک کی حفاظت کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔اگرچہ بعض تجزیہ کاروں کو یہ بات بہت ناگوار گزری ہے کہ مذہبی جماعت اور حکومت کے درمیان فوج کی جانب سے معاہدہ کرانا تشویشناک ہے۔معروف تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا ہے کہ دھرنے کے خاتمے کے نتیجے میں دیکھے گئے واقعات کے بعد ملک سے قانون کی بالادستی کی بات ختم کر دینی چاہیے، اگر شیڈول فور میں شامل افراد سے معاہدے کرنے ہیں تو آپریشن ردالفساد اور دیگر کارروائیاں ختم کر دینی چاہیے جبکہ ان تمام افراد کو بھی رہا کر دینا چاہیے جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔انہوں نے کہا کہ جن افراد نے دارالحکومت کو یرغمال بنا رکھا تھا، ڈی جی رینجرز پنجاب انہیں گلے لگا کر ہزار روپے دے رہے ہیں کہ آپ اپنے علاقوں میں واپس جائیں، ایسا کس جگہ پر ہوتا ہے؟۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد دھرنے کے نتیجے میں مذہبی جماعت اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کو اگر دیکھا جائے تو اس میں جماعت کی جانب سے پیش کیے گئے تمام مطالبات مان لیے گئے، لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان ہونے والا یہ معاہدہ فوج کی جانب سے کروایا گیا ہے۔زاہد حسین کا کہنا تھا کہ اس دھرنے کے نتیجے میں ہونے والے واقعات کی حکومت ذمہ دار ہے، کیونکہ اس نے 21 دن تک بیٹھ کر تماشہ دیکھا اور وزیر داخلہ احسن اقبال نے بیان دیا کہ وہ یہ آپریشن نہیں کرنا چاہ رہے تھے لیکن عدالتی حکم پر انتظامیہ نے مظاہرین کو ہٹایا۔دھرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت نے ایک کے بعد ایک حماقت کر کے اپنے لیے مسائل پیدا کیے، حزب اختلاف کی جانب سے حکومت سے کہا جاتا رہا کہ مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے لیکن انہوں نے 21 دن تک اسے طول دیا اور فیض آباد کو کھلواتے کھلواتے پورا ملک بند کر دیا۔انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کو بند کر کے حکومت نے دوسری بڑی حماقت کی، جس سے مزید قیاس آرائیوں نے جنم لیا۔اس معاملے پر مسلم لیگ کے رہنما شیخ روحیل اصغر کا کہنا تھا کہ چند روز قبل زاہد حامد نے کہا تھا کہ اگر میرے استعفی دینے سے معاملات درستگی کی جانب جاتے ہیں تو میں اس کے لیے تیار ہوں، لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ مذہبی جماعت کی جانب سے معاملات کو طول دینا طے تھا تاہم زاہد حامد کے استعفی کے بعد یہ ممکن نہیں رہا۔
واضح رہے کہ گزشتہ پیر کی صبح وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی جانب سے استعفی دینے کے بعد گزشتہ 20 روز سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد کے مقام پر مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے جاری دھرنا ختم کر دیا گیا تھا۔مذہبی جماعت کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملک بھر میں موجود اپنے رہنماوں اور کارکنوں سے کہا کہ وہ مختلف شہروں میں جاری دھرنا ختم کر دیں اور کارکنان اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں، جبکہ ہڑتال بھی ختم کرکے دکانیں کھول دی جائیں۔پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ ہم لاہور سے صرف اور صرف ختم نبوت کی حفاظت کے لیے چلے تھے، ہمارا مطالبہ تھا کہ وزیر قانون کو برطرف کریں لیکن ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا، ہم پر الزامات لگائے گئے جن کی کوئی حیثیت نہیں۔اس سے قبل مذہبی جماعتوں کے دھرنے اور ملک میں ہونے والے مظاہروں کے باعث زاہد حامد نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اپنا استعفی پیش کیا جو منظور کر لیا گیا۔اپنا موقف پیش کرتے ہوئے زاہد حامد کا کہنا تھا کہ قومی مفاد کی خاطر وزارت سے استعفی دیا اور یہ فیصلہ ذاتی حیثیت میں کیا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا قانون تمام پارلیمانی اور سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر بنایا تھا، اس ایکٹ میں براہ راست میرا کوئی تعلق نہیں۔تحریک لبیک پاکستان کے مرکزی امیر علامہ خادم حسین رضوی نے مطالبات پورے کے بعد اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر کئی ہفتے سے جاری دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔دھرنا ختم کرنے کے اعلان کے بعد شرکا فیض آباد سے کارواں کی صورت میں روانہ ہوگئے، کارواں راولپنڈی سے ہوتا ہوا داتا دربار پہنچے گا، جہاں سے شرکا اپنے آبائی علاقوں کو روانہ ہوجائیں گے۔دھرنے کے اسٹیج سے دھرنا ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ شرکا کو بتایا گیا کہ باقی گرفتار کارکنان کو اگلے دو، تین دن تک رہا کردیا جائے گا۔قبل ازیں علامہ خادم حسین رضوی کا کہنا تھا کہ حکومت نے ہمارے گرفتار کارکنوں کی رہائی کے لیے 12 گھنٹے کا وقت مانگا ہے، 12 گھنٹے میں ہمارے کارکنوں کو رہا کردیا گیا تو ہم فیض آباد کا دھرنا ختم کردیں گے۔فیض آباد کے مقام پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے ملک بھر میں موجود اپنے قائدین سے کہا کہ وہ مختلف شہروں میں جاری دھرنا ختم کردیں اور کارکنان اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں جبکہ آج کی ہڑتال بھی ختم کرکے دکانیں کھول دی جائیں۔واضح رہے کہ گزشتہ 20 روز سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد کے مقام پر مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے دھرنا جاری تھا جبکہ اس دھرنے کے خاتمے کے لیے حکومت اور مذہبی جماعت کے درمیان 6 نکاتی معاہدہ طے پایا تھا۔علامہ خادم حسین رضوی نے کہا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے نمائندے بھیجے جن سے معاہدہ کیا گیا اور انہوں نے ہمارے مطالبات پورے کیے۔علامہ خادم حسین رضوی نے کہا کہ یہ مطالبات ہمارے شہدا کے خون کی قیمت نہیں ہے۔
پریس کانفرنس میں انہوں نے بتایا کہ ہمارے جو مطالبات پورے ہوئے ہیں ان کے مطابق وزیر قانون پنجاب رانا ثنااللہ علما کے سامنے بیان دیں گے، اس بیان کی روشنی میں علما کا بورڈ جو فیصلہ کرے گا اس پر عمل کیا جائے گا۔علما بورڈ کے سربراہ پیر محمد افضل قادری ہوں گے، اس کے علاوہ پیر حسین الدین شاہ، مفتی منیب الرحمن ، پیر عنایت الحق شاہ، مفتی سبحان قادری کے سامنے بھی رانا ثنااللہ پیش ہوں گے۔انہوں نے بتایا کہ عدالتی سزا یافتہ ناموس رسالت کے قیدیوں کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی، لاوڈ اسپیکر کے استعمال پر کوئی پابندی عائد نہیں ہو گی جبکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ ان کی ماں اور بہن کو اعتماد میں لے کر اقدامات کریں گے۔انہوں نے کہا کہ نصاب بورڈ میں تبدیلی کے لیے ہماری تحریک کے 2 نمائندے شامل ہوں گے، جو نصاب میں قرآن کا ترجمہ اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم و اکابرین امت کے اسباق شامل کریں گے۔انہوں نے بتایا کہ 9 نومبر کو یوم اقبال کی چھٹی بحال کی جائے گی۔اس موقع پر انہوں نے اعلان کیا کہ شہدا کا چہلم جمعرات 4 جنوری کو 10:00 بجے دن لیاقت باغ راولپنڈی میں منعقد ہو گا جبکہ ہر سال 25 نومبر کو شہدا ناموس رسالت کا دن منایا جائے گا۔اس سے قبل مذہبی جماعتوں کے دھرنے اور حال ہی میں ملک میں ہونے والے مظاہروں کے باعث وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اپنا استعفی پیش کیا تھا جو منظور کر لیا گیا۔اپنے موقف میں زاہد حامد کا کہنا تھا کہ قومی مفاد کی خاطر وزارت سے استعفی دیا اور یہ فیصلہ ذاتی حیثیت میں کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا قانون تمام پارلیمانی اور سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر بنایا تھا،اس ایکٹ میں براہ راست میرا کوئی تعلق نہیں۔تحریک لبیک پاکستان کی مرکزی قیادت کی
 جانب سے ہدایت ملنے کے بعد کراچی کے مختلف علاقوں میں جاری دھرنے ختم کردیے گئے۔واضح رہے کہ فیض آباد دھرنے کی حمایت میں کراچی میں مرکزی دھرنا نمائش چورنگی پر جاری تھا جبکہ لیاقت آباد، ٹاور، سہراب گوٹھ، اورنگی، نارتھ کراچی، کورنگی سمیت مختلف مقامات پر بھی دھرنے دیے گئے تھے۔مقامی رہنماعلامہ رضی حسینی اور سنی تحریک کے رہنما شاہد غوری کی جانب سے اعلان کے بعد کارکنان منتشر ہوگئے۔اس موقع پر مظاہرین کی جانب سے آپس میں مٹھائی بھی تقسیم کی گئی جبکہ دھرنے کے مقامات کی صفائی بھی کی گئی۔مظاہرین نے دھرنے کے اختتام سے قبل فیض آباد کے شہدا کے لیے دعا مغفرت کی اور درود و سلام بھی پڑھا گیا۔دھرنوں کے ختم ہونے کے بعد شہر قائد میں ٹریفک کی روانی بھی بحال ہوگئی۔ادھر قیادت کی ہدایت کے بعد پشاور میں بھی فیض آباد دھرنے کی حمایت میں دیا گیا دھرنا ختم کردیا گیا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ مرکزی قیادت کی ہدایت کے بعد دھرنا ختم کردیا اور رنگ روڈ کو دونوں اطراف سے کھول دیا، ساتھ ہی چاروں طرف سے بند کی گئی جمیل چوک کو بھی ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔واضح رہے کہ رنگ روڈ پشاور میں بڑی اہمیت کا حامل ہے، افغانستان سے جو تجارت ہوتی ہے وہ اسی شاہراہ کے ذریعے ہوتی ہے جبکہ اسی سڑک سے مسافر بردار مال گاڑیاں اور آئل ٹینکرز بھی گزرتے ہیں۔دو روز سے اس شاہراہ کی بندش کے باعث شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا تھا۔دوسری طرف مرکزی قیادت کی ہدایت کے باوجود لاہور کے مختلف مقامات پر دھرنا جاری رہا اور مظاہرین نے دھرنا ختم کرنے سے انکار کردیاتھا۔مقامی قائدین کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ صرف زاہد حامد کے استعفی کی حد تک نہیں تھا بلکہ ہمارے اور بھی مطالبات ہیں جسے ہم آج 27 نومبر کو پریس کانفرنس میں بتائیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے تو ہم پھر آئندہ کے لاحہ عمل کا اعلان کریں گے۔واضح رہے کہ لاہورمیں 22 مقامات پر جاری احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے باعث ٹریفک کی روانی متاثر رہی اور شہریوں کو آمد و رفت میں مشکلات کا سامناتھا۔دھرنوں کے باعث لاہور اسٹیشن سے ریلوے کا نظام متاثر  اور اسٹیشن سے دیگر شہروں کو جانے اور آنے والی ٹرینوں کا نظام معطل رہا۔اس کے علاوہ دھرنے کی وجہ سے شہریوں کو ایئرپورٹ پہنچنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے پروازوں کا شیڈول بھی متاثر ہوا۔ فیض آباد دھرنا ختم کرنے کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ آرمی چیف ملک کے چیف ایگزیکٹو کا حکم ماننے کے بجائے ثالث بن گئے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کر رہے تھے۔جسٹس شوکت صدیقی نے آئی بی کو ہدایت جاری کرتے ہوئے دھرنے سے متعلق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی آڈیو کے بارے میں پتہ لگا کر عدالت کو آگاہ کرنے اور فیض آباد آپریشن کی ناکامی کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوج کون ہوتی ہے ثالثی کا کردار ادا کرنے والی، کیا فوج اقوامِ متحدہ ہے جو ثالثی کروا رہی ہے۔انہوں نے استفسار کیا کہ پاکستانی قانون میں ایک میجر جنرل کو ثالث بنانے کا اختیار کہاں دیا گیا ہے، جس بندے کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے تھا اسے ثالث بنا دیا گیا۔جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کہاں گیا ان کا رد الفساد یہاں ان کو فساد نظر نہیں آیا؟ یہ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پیچھے یہی تھے۔سیکشن 4 کے تحت انتظامیہ کو ہنگامی صورتحال میں فوج بلانے کا اختیار حاصل ہے جبکہ سیکشن 5 کے تحت فوج انتظامیہ کا حکم ماننے کی پابند ہے۔انہوں براہِ راست فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فوج اپنی آئینی حدود میں رہے کیونکہ اب عدلیہ میں جسٹس منیر کے پیروکار نہیں ہیں اور جن فوجیوں کو سیاست کا شوق ہے وہ حکومت کی دی ہوئی بندوق واپس کرکے ریٹائرڈ ہوجائیں اور سیاست کا شوق پورا کرلیں۔وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت انوشہ رحمن کو بچانے کے لیے زاہد حامد کی قربانی دے رہی ہے۔جسٹس صدیقی نے کہا کہ انوشہ رحمان ڈرٹی گیم کھیل رہی ہے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کیس میں انوشہ رحمن کے کردار پر نکتہ اٹھایا تھا۔عدالت کے جج کے اس سوال پر کہ احسن اقبال آپ بتائیں قانون میں کہاں یہ اختیار دیا گیا؟ جس پر وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اندرونی سیکیورٹی کے حالات بن رہے تھے، روزانہ کسی کرنل، میجر، ایڈیشنل آئی جی پر حملے ہو رہے ہیں اور ایک ایٹمی قوت کی حامل ریاست کو ناکام دکھانے کے لیے ملک میں اندرونی حالات خراب کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موٹرویز، ریلویز اور شہروں کو بند کیا جا رہا تھا اس لیے مظاہرین کے ساتھ جو معاہدہ ہوا وہ ملک کو ان حالات سے نکالنے کے لیے کیا گیا۔وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ اس خاتون کا بیٹا ہوں جس نے ختم نبوت کے قانون کی قرارداد پیش کی تھی، جس پر جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ آپ عظیم ماں کے بیٹے اور عظیم تر نانا کے نواسے ہیں۔جسٹس شوکت صدیقی نے آئی بی کو مظاہرین کے پاس ٹیئر گنز، آنسو گیس شیل اور ماسک کی موجودگی کی تحقیقات کرکے اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔جج کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی بی میں بھی بہت کچھ ہو رہا ہے اور آئی بی والے اپنا کام کرنے کے بجائے آئی ایس آئی سے لڑائی میں مصروف ہیں۔جسٹس شوکت عزیز نے کہا کہ مجھے پتہ ہے ان ریمارکس کے بعد میں بھی لاپتہ افراد میں شامل ہو جاں گا، یا مارا جاں گا۔اس سے قبل جسٹس شوکت عزیز صدیقی مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران وفاقی وزیر داخلہ کی عدم پیشی پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے انہیں 15 منٹ کے اندر عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال عدالتی احکام کی تعمیل کرتے ہوئے مقررہ وقت میں اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے اور عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وفاقی حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدہ ہو گیا ہے اور کچھ ہی دیر میں دھرنا ختم ہوجائے گا۔عدالتی کارروائی کے دوران احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ قومی قیادت کی مشاورت سے صورتحال کی فوری بہتری کے لیے مظاہرین کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا گیا ہے جس میں قومی قیادت نے اہم کردار ادا کیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اب انشا اللہ کچھ دیر میں فیض آباد سے مذہبی جماعت کا 20 روز سے زائد جاری رہنے والا دھرنا ختم ہوجائے گا۔سماعت کے دواران انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد خالد خٹک، چیف کمشنر ذوالفقار احمد بھٹہ اور ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر) مشتاق بھی عدالت میں موجود تھے۔عدالت نے وفاقی وزیر داخلہ کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) آفتاب سلطان اور سیکریٹری کمانڈر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو بھی عدالت میں طلب کررکھا تھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے خلاف شہریوں کی جانب سے دائر درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے حکومت اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے معاہدے کی شرائط پر سنگین اعتراضات اٹھائے ہیں۔عدالتی اعتراض میں میجر جنرل فیض حمید کے معاہدے پر دستخط کرنا شامل ہیں جبکہ معاہدے میں پاک فوج کے سربراہ کی ثالثی کے کردار کو سہرائے جانے پر عدالت نے حیرانی کا اظہار کیا۔عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ بادالنظر میں فوج نے جو کردار ادا کیا وہ آئین و قوانین کے مطابق نہیں جبکہ مسلح افواج ملکی قوانین کے تحت مینڈیٹ سے باہر نہیں جاسکتیں۔حکم نامے میں کہا کہ اعلی عدالت کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال کی گئی تھی لیکن حکومت اور ثالثی نے معاہدے میں دھرنے والوں سے معافی مانگنے کا بھی مطالبہ نہیں کیا۔عدالتی حکم نامے یہ بھی کہا گیا کہ حکومت اور فوجی کے آئینی کردار اور فوج کے بطور ثالث کردار ادا کرنے پر عدالت کو مطمئن کیا جائے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی بی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک آڈیو کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا جبکہ دھرنے کے خلاف ناکام آپریشن اور مظاہرین کو مدد فراہم کرنے کی رپورٹ بھی طلب کر لی۔بعد ازاں عدالت نے سماعت کو آئندہ ہفتے 4 دسمبر تک ملتوی کردیا۔گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے فیض آباد انٹر چینج پر مذہبی جماعتوں کا جاری دھرنا ختم کرانے کے عدالتی احکامات پر عمل در آمد نہ کرنے پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کردیا تھا۔علاوہ ازیں عدالت نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سینٹر کمانڈر کو آئندہ کی سماعت پر طلب کیا تھا اور راجہ ظفرالحق کی رپورٹ کو بھی 27 نومبر تک پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔یاد رہے کہ اس سے قبل 20 نومبر کو اسلام
 آباد ہائی کورٹ میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے احسن اقبال سے کہا تھا کہ کورٹ کا احترام نہیں ہورہا، آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی، ان تنظیموں کو سیاسی جماعتوں کے طور پر ڈیل کیا جائے۔عدالت میں سماعت کے دوران پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سازشی عناصر پاکستان میں ایک مرتبہ پھر سانحہ ماڈل ٹان اور لال مسجد جیسا واقعہ کروانا چاہتے ہیں تاہم پاکستان بھر کے علما اور مشائخ کو طلب کیا گیا ہے تاکہ معاملے کا پرامن حل نکلا جا سکے۔تاہم وفاقی وزیر داخلہ نے عدالت سے 48 گھنٹے کی مہلت مانگتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ راستہ کلئیر کرالیں گے۔بعد ازاں عدالت نے فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے لیے انتظامیہ کو 23 نومبر تک کا وقت دے دیا تھا۔واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعتوں کا دھرنا گزشتہ 7 نومبر سے جاری تھا، دھرنا ختم کروانے کے عدالتی حکم پر جب انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا، تو مشتعل افراد نے ملک کے دیگر شہروں میں بھی مظاہرے شروع کر دیئے۔فیض آباد میں 7 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد اسے معطل کر دیا گیا جبکہ سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا، لیکن ملک کے دیگر شہروں میں بھی صورتحال کشیدہ ہوگئی اور کئی شہروں میں معمولاتِ زندگی معطل ہوگئی۔بعدِ ازاں وفاقی حکومت نے ڈی جی پنجاب رینجرز کو نگراں مقرر کردیا جس کے بعد ان کے اور دھرنا مظاہرین کے درمیان مذاکرات ہوئے اور حکومت نے مظاہرین کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے وزیرِ قانون زائد حامد کو وزارت سے برطرف کردیا۔ ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع تبدیلی کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آگئی۔حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کی ہدایت پر تشکیل دی گئی تین رکنی کمیٹی میں سینیٹر راجہ ظفرالحق، وزیر داخلہ احسن اقبال اور وزیر موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان شامل تھے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے معاملے سے متعلق مذہبی جماعتوں کی درخواستوں کی سماعت کے دوران سیکریٹری داخلہ کو کمیٹی کی رپورٹ پیش کرنے کو یقینی بنانے اور اسے آئندہ سماعت تک عوام کے سامنے نہ لانے کی ہدایت کی تھی۔رپورٹ کے مندرجات کے مطابق تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے بل کے اصل مسودے، مجوزہ بل میں پیش کی گئی ترامیم اور سینیٹ میں ہونے والی تقاریر کا جائزہ لیا۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاسوں میں بل میں کئی ترامیم کی تجاویز دی گئیں، لیکن میں سے کوئی بھی ختم نبوت سے متعلق نہیں تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ سینیٹ کمیٹی کی طرف سے ایوان میں بھیجے گئے بل پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر حمداللہ نے ختم نبوت کے حلف نامے میں الفاظ کی تبدیلی پر اعتراز اٹھاتے ہوئے اسے اصل حالت میں بحال کرنے کا مطالبہ کیا، مسلم لیگ (ن) نے حافظ حمد اللہ کی ترمیم کی حمایت کی۔آئینی طریقہ کار کے مطابق بل کو دوبارہ قومی اسمبلی بھیجا گیا کیونکہ قومی اسمبلی کی جانب سے سینٹ کو بھیجے گئے بل کے اصل مسودے میں ترامیم تھیں۔بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جارہا تھا، تمام جماعتوں کے ارکان کو یہ اندازہ ہوا کہ انہوں نے غلطی کردی جسے دور کیا جانا چاہیے، تاہم اپوزیشن کے سیکشن 203 پر ہنگامہ آرائی کی وجہ سے بل، جو ترمیم شدہ تھا، منظور کر لیا گیا اور اسے حتمی منظوری کے لیے سینیٹ کو بھیج دیا گیا۔ماحول میں کشیدگی کے باوجود سینیٹ میں ختم نبوت کے حلف نامے سے متعلق ترامیم متفقہ طور پر منظور ہوگئیں، جس کے بعد بل کو صدر مملکت نے منظور کرلیا اور وہ قانون بن گیا۔رپورٹ کے مطابق یہ حقیقت ہے کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور ہم تحقیقات کرنا چاہتے تھے کہ اصل حلف نامہ کس طرح اور کیوں تبدیل ہوا۔ذرائع کے مطابق اس کے لیے ایک مشیر سے مشورہ کیا گیا۔ایک وزیر، جو کمیٹی کی سطح پر بل کا مسودہ تیار کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ایک وزیر کے ساتھ تین یا چار ملاقاتیں کی گئیں جنہوں نے تسلیم کیا کہ بنیادی طور پر یہ ان کی پہلی ذمہ داری تھی کہ وہ یہ دیکھتے کہ مسودے میں کوئی متنازع بات شامل نہ ہو، لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی قانونی مہارت، تجربے اور زبان پر عبور کے باوجود اپنا فرض ادا نہیں کر سکے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ عوام ان لوگوں کے خلاف ایکشن کی توقع کر رہے ہیں جنہوں نے ختم نبوت کے حلف نامے کو تبدیل کیا اور اس مسئلے کی وجہ بنے۔رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی کہ معاملے کے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لازمی طور پر لیا جانا چاہیے۔رپورٹ پر کمیٹی کے دو ارکان راجہ ظفرالحق اور مشاہد اللہ خان نے دستخط بھی کیے۔خیال رہے کہ الیکشنز ایکٹ 2017 میں متنازع ترمیم کے ذریعے ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کے باعث مذہبی جماعتیں اشتعال میں آگئیں اور انہوں نے مغربی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے جان بوجھ کر اس تبدیلی کا الزام لگایا۔اگرچہ پارلیمنٹ کے ذریعے حلف نامے کو اصل حالت میں بحال کردیا گیا، لیکن مذہبی جماعتوں کی جانب سے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ اور فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دیا گیا۔راجہ ظفر الحق کمیٹی کی یہ رپورٹ تاحال کسی آفس کو جمع نہیں کرائی گئی۔جبکہ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا کہنا ہے کہ ملک میں ابھرتے ہوئے ٹرینڈز ریاست کے لیے خطرناک ہیں جبکہ بتایا جائے حکومت فوج کو بلانے اور معاہدہ کرنے پر کیوں مجبور ہوئی؟۔سینیٹ اجلاس کے دوران رضا ربانی نے فیض آباد دھرنے کے شرکا سے معاہدے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 22 دن اسلام آباد اور راولپنڈی یرغمال رہا، دھرنے کے شرکا سے معاہدہ اور اسلام آباد میں فوج کو طلب کیا گیا، وزیر قانون زاہد حامد عہدے سے مستعفی ہوگئے، ملک میں اتنا کچھ ہوا لیکن پارلیمنٹ کو کسی فیصلے سے متعلق اعتماد میں نہیں لیا گیا۔انہوں نے کہا کہ حکومت پارلیمنٹ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی، وزیر اعظم ملک میں موجود ہیں نہ وزیر داخلہ تو کیا حکومت ٹھیکے پر دے دیں؟ وزیرداخلہ 15 منٹ کے نوٹس پر عدالت میں پیش ہوسکتے ہیں تو پارلیمنٹ میں کیوں نہیں، جبکہ وزیر اعظم کو خود ایوان میں آنا چاہیے۔چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم جدہ میں موجود ہیں، جدہ زیادہ اہم ہے یا ملکی صورتحال؟ شاہد خاقان عباسی کو ایوان میں آکر موجودہ صورتحال سے متعلق پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا، ایوان جاننا چاہتا ہے کہ حکومت کو کس بات نے دھرنے کے شرکا سے معاہدہ اور اسلام آباد میں فوج کو بلانے پر مجبور کیا؟انہوں نے کہا کہ دھرنے کے دوران ارکان پارلیمنٹ اور ان کے گھروں پر حملے کیے گئے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو یرغمال بنایا گیا لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ملک میں ابھرتے ہوئے ٹرینڈز نہ صرف سیاست اور جمہوریت بلکہ ریاست کے لیے بھی خطرناک ہیں، پارلیمنٹ جمہوری نظام پر کوئی آنچ نہیں آنے دے گا اور ریاست کی رٹ کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا جائے گا۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے ملک میں ہونے والے تمام دھرنوں کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا۔ارکان سینیٹ نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ حکومت کو تمام حقائق پارلیمنٹ کے سامنے رکھے۔واضح رہے کہ پیر کی صبح وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی جانب سے استعفی دینے کے بعد گزشتہ 20 روز سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد کے مقام پر مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے جاری دھرنا ختم کر دیا گیا تھا۔اے پی ایس