قتل عام میں پولیس افسران کا متحرک کردار: چودھری احسن پریمی



قانون نافذ کرنے والے اہلکار(ایل ای او) ایک ایسی اصطلاح ہے جس میں قانون کے تمام افسران شامل ہوتے ہیں خواہ ان کا تقرر ہوا ہو یا منتخب ہوئے ہوں۔ یہ پولیس کے اختیارات استعمال کرتے ہیں
خصوصا گرفتار کرنے یا حراست میں لینے کے اختیارات۔
کسی بھی معاشرہ میں ایک خوب تربیت یافتہ،مناسب وسائل کی حامل قانون نافذ کرنے والی ایجنسی بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں پولیس فورسز کی طرف سے عمومی طور پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور بدعنوانوں کی بہت سی اور مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ان کے تدارک کیلئے مناسب،تربیت اور معقول تنخواہ اہم اقدامات ہوتے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے حکام معاشرے میں افراد کے حقوق کے تحفظ اور خدمات پر مامور ہوتے ہیں۔وہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بناتے ہیں۔ انہیں طاقت کے استعمال سے پہلے جذبہ خدمت کو بروکار لانا چاہیے۔جب وہ اپنے مخصوص مفادات کیلئے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہیں یا بعض صورتوں میں ریاست کے مقاصد کیلئے طاقت کا استعمال کرتے ہیں تو وہ قابل قبول اور طے شدہ حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ وہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان لوگوں کو ظلم کا نشانہ بناتے ہیں جن کی حفاظت کی انہیں ذمہ داری سونپی گئی ہوتی ہے۔
  جبکہ سانحہ ماڈل ٹان سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد پنجاب حکومت نے جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ جاری کردی۔صوبائی حکومت نے 132 صفحات پر مشتمل رپورٹ پبلک ریلیشنز ڈائریکٹوریٹ کی ویب سائٹ کے ذریعے جاری کی۔جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ میں سانحے کی وجہ بننے والے حالات و واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس وقت کے وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ 16 جون 2014 کو اس بات کا فیصلہ کرچکے تھے پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو راولپنڈی سے لاہور لانگ مارچ کی اجازت نہیں دی جائے گی، جس کے لیے انہوں نے 23 جون 2014 کا اعلان کیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ طاہرالقادری کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے سے روکنے کے لیے ایک شخص کے فیصلے نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے پولیس کے استعمال کی خطرناک حکمت عملی کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں اگلے روز ہلاکتیں ہوئیں جنہیں روکا جاسکتا تھا۔اگرچہ جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ میں سانحے کی ذمہ داری کسی پر نہیں ڈالی گئی، لیکن کہا گیا کہ رپورٹ پڑھنے والے حقائق اور حالات کی روشنی میں باآسانی منہاج القرآن واقعے کے ذمہ داران کا تعین کر سکتے ہیں۔
رپورٹ کے چند مذمتی مشاہدات
رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں ہونے والے آپریشن کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئیں جن کو روکا جاسکتا تھا۔واقعے کے حقائق و حالات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ پولیس افسران نے سانحے میں پولیس افسران فعال طور پر شریک ہوئے۔پنجاب کی تمام تر انتظامیہ نے اپنے طرز عمل سے ابہام پیدا کیا۔پولیس کے طرز عمل سے لگتا ہے کہ ان کو فائرنگ کرنے اور لوگوں کی پٹائی کے لیے ہی بھیجا گیا تھا۔
سانحے کی وجہ بننے والے واقعات
اپنی رپورٹ میں جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ 16 جون کے اجلاس کے دوران رانا ثنااللہ کو بتایا گیا کہ پاکستان عوامی تحریک حکومت کا تختہ الٹنے اور انقلاب لانے کا ارادہ رکھتی ہے، جس پر صوبائی وزیر نے واضح طور پر کہا کہ طاہرالقادری کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کمشنر لاہور نے منہاج القرآن کے ارد گرد تجاوزات اور بیریئرز لگانے کے غیر قانونی اقدامات کی رپورٹ پیش کی، اجلاس میں تجاوزات ہٹانے کے لیے فوری کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس میں وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کی جگہ ڈاکٹر توقیر شاہ شریک ہوئے جنہوں نے بیریئرز ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی، جبکہ آپریشن کے فیصلے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے قانونی رائے نہیں لی گئی۔
رپورٹ کے مطابق آپریشن کے لیے پولیس کی نفری کو بھیجا گیا جو 16 جون 2014 کی آدھی رات کو حکم کی تعمیل کے لیے منہاج القرآن پہنچی، تاہم وہاں موجود مشتعل ہجوم اور عوامی تحریک کے ہمدردوں کی جانب سے پولیس پر پتھرا شروع کردیا گیا۔
پولیس نے جوابی کارروائی کے تحت مظاہرین پر فائرنگ شروع کردی، جس سے جائے وقوع پر متعدد افراد زخمی ہوئے، جن میں سے چند بعد ازاں دم توڑ گئے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس والوں نے کھلے عام خون کی ہولی کھیلی۔
جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ پولیس والوں نے ایک دوسرے کو قانونی شکنجے سے بچانے کی کوشش کی اور کسی پولیس افسر یا اہلکار نے یہ نہیں بتایا کہ کس کے حکم پر پولیس نے فائرنگ شروع کی، ٹربیونل کو سانحے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے مکمل اختیارت نہیں دیئے گئے تھے، جبکہ ٹربیونل کو مکمل اختیار نہ دے کر سچ کو چھپایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فائر کھولنے کاحکم یقینا پولیس کے کسی افسر نے کوڈ آف کرمنل پروسیجر 1898 کے سیکشن 128 کے تحت دیا، جس کا رینک اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ یا ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سے کم نہیں ہوگا۔رپورٹ کے مطابق زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ جب وفاقی حکومت نے پوچھا کہ پنجاب پولیس چیف اور ڈی سی او لاہور کو سانحے سے قبل کیوں ہٹایا گیا تو کوئی اطمینان بخش جواب نہیں آیا، ان حقائق اور حالت سے منفی تاثر ملتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ تمام واقعے میں وزیر اعلی پنجاب کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات اٹھتے ہیں۔ان کے مطابق انہوں نے صبح ساڑھے 9 بجے ٹی وی پر کشیدہ صورتحال دیکھ کر فورا اپنے سیکریٹری ڈاکٹر توقیر حسین شاہ کو فون کیا اور پولیس کو پیچھے ہٹنے کا حکم دینے کی ہدایت کی۔تاہم ان کا یہ بیان رانا ثنااللہ اور سیکریٹری داخلہ کے اس بیان سے مطابقت نہیں رکھتا جو انہوں نے پہلے دیا۔ دوسال قبل پنجاب کی صوبائی حکومت نے سانحہ ماڈل ٹان کی رپورٹ لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ کے سامنے بند کمرے میں پیش کردی تھی تاکہ ججز مذکورہ رپورٹ کا انفرادی جائزہ لے سکیں۔اسپیشل ہوم سیکریٹری ڈاکٹر شعیب نے عدالت کے حکم پر حکومت کی جانب سے دائر کی گئی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران مذکورہ رپورٹ پیش کی، جس میں حکومت نے عدالت کے مذکورہ رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔اس سے قبل سانحہ ماڈل ٹان میں ہلاک ہونے والے افراد کے ورثا کی نمائندگی کرنے والے بیرسٹر سید ولی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے جسٹس نجفی کی رپورٹ کو شائع کرنے کے مطالبے کو دہرایا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں پولیس نے دن کی روشنی میں 13 نہتے افراد کو ہلاک اور سیکڑوں خواتین اور بچوں کو زخمی کیا۔انہوں نے موقف اختیار کیا کہ حکومت پنجاب نے عوام کے ممکنہ دبا کے پیش نظر سانحے کے ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے جوڈیشل ٹریبیونل تشکیل دیا تھا، ان کا کہنا تھا تاہم حکومت نے اس کی رپورٹ کو شائع کرنے سے انکار کیا جس میں سانحہ کی ذمہ داری صوبائی حکومت کے اعلی حکام پر ڈالی گئی
 تھی۔بیرسٹر ظفر کا کہنا تھا کہ حکومت کا یہ موقف کہ انہیں رپورٹ کو خفیہ رکھنے کا حق ہے، یہ حیرت انگیز ہے کیونکہ حکومت کی تمام معلومات عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے زور دیا کہ یہ جمہوریت کا بنیادی اصول ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت یہ دعوی نہیں کرسکتی کہ نجفی رپورٹ صرف حکومت کے لیے بنائی گئی تھی۔خیال رہے کہ قانونِ شہادت آرڈر 1984 کے مطابق اگر ایک رپورٹ ٹربیونل کی جانب سے تشکیل دی گئی ہے تو یہ عوامی دستاویز ہے اور حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ اسے شائع کرے۔
بیرسٹر ظفر نے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت آزادی اظہار رائے کا حوالہ دیتے ہوئے زور دیا کہ اگر معلومات کی فراہمی پر پابندی عائد کی جائے گی تو انہیں یہ حق کیسے حاصل ہوگا۔بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ میں شامل ججز جسٹس عابد عزیز شیخ، جسٹس سید شاہ زیب علی رضوی اور جسٹس قاضی محمد امین احمد نے رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد اسے اسپیشل سیکریٹری کو واپس کردیا۔  گزشتہ دنوںلاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاون کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا حکم جاری کردیا ہے۔لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے قیصر اقبال سمیت سانحہ ماڈل ٹان کے دیگر متاثرین کی جانب سے دائر کردہ تحقیقاتی رپورٹ سامنے لانے کی درخواست پر سماعت کی۔سماعت کے بعد عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے سیکریٹری داخلہ پنجاب کو حکم دیا کہ ماڈل ٹان واقعے کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی رپورٹ کو فوری طور پر جاری کیا جائے۔16 صفحات پر مشتمل فیصلے میں عدالت عالیہ کا کہنا تھا کہ جاں بحق ہونے والوں کے ورثا اور زخمیوں کا حق ہے کہ انھیں اصل ذمہ داروں کا پتہ ہونا چاہیے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاون کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ عوامی دستاویز ہے، جوڈیشل انکوائری عوام کے مفاد میں کی جاتی ہے اور اسے عوام کے سامنے ہونا چاہیے۔یاد رہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے درخواست کی گذشتہ سماعت پر اپنے دلائل میں کہا تھا کہ یہ اہم نوعیت کا معاملہ ہے، لہذا اس کو منظرعام پر آنا چاہیے، اس رپورٹ کا تعلق براہ راست عوام سے ہے اور اس کے منظرعام پر آنے سے آئندہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ایڈووکیٹ بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا تھا کہ پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت معلومات حاصل کرنا ہر شہری کا حق ہے، معلومات تک رسائی کا قانون پنجاب حکومت نے خود بنایا ہے، جبکہ مجوزہ قانون میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ عوام کو صرف وہ معلومات نہیں دی جا سکتیں جس سے ملکی مفاد کو خطرہ لاحق ہو۔ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں نہ تو ملکی مفاد کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی پاکستان کی سالمیت سے اس کا کوئی تعلق ہے لہذا عدالت سانحہ ماڈل ٹان کے عدالتی ٹریبیونل کی رپورٹ متاثرین کو فراہم کرنے اور منظر عام پر لانے کے احکامات صادر کرے۔دوسری جانب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ پنجاب حکومت کے عدالتی ٹربیونل کے نوٹیفکیشن میں کہیں نہیں لکھا کہ اس رپورٹ سے عوام کا کوئی تعلق ہے، سانحہ ماڈل ٹان سے متعلق درخواستیں لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کے روبرو زیر التوا ہیں لہذا اس کیس کو بھی دیگر کیسز کی طرح فل بنچ میں جانا چاہیے۔ایڈووکیٹ جنرل کے مطابق اس کیس کا جوڈیشل رپورٹ سے کوئی تعلق نہیں، باقی تمام کیسز ہائی کورٹ کیفل بنچ نے سنے ہیں جن پر ابھی سماعت مکمل نہیں ہوئی۔سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ رپورٹ پنجاب حکومت کے خلاف ہے، حکومت متعدد بار کہہ چکی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹان رپورٹ عوام کے لیے نہیں۔وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے 19 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو گزشتہ پانچ دسمبر کوسنایا گیا۔یاد رہے کہ گذشتہ ماہ سانحہ ماڈل ٹاون میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں مقف اختیار کیا تھا کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹان سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ
 مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔رواں سال اگست میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اس رپورٹ کو منظرعام پر لانے کی 'درخواست' کرنے کے لیے مال روڈ پر دھرنے کا اعلان کیا تھا۔واضح رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا، مگر پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے باعث 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے باقر نجفی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کے حکم کے بعد پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے پریس کانفرنس کے دوران جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جرات کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم نے انصاف کی جانب قدم بڑھایا ہے۔طاہر القادری کا کہنا تھا کہ رپورٹ کا شائع ہونا انصاف کی فتح کی جانب پہلا قدم ہے، جس نے ماڈل ٹان کے شہدا کے ورثا کو انصاف فراہم کرنے کی امید دلائی ہے۔سربراہ عوامی تحریک نے کہا کہ ہم نے سوا تین سال انتظار کیا لیکن ایک بھی شخص قانون کے شکنجے میں نہیں آیا، ہم نے ریلیاں نکالیں، احتجاج کیے اور انصاف کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا، لیکن ہم نے لوگوں کے ذہنوں میں عدلیہ کے خلاف کوئی بدگمانی پیدا نہیں کی۔ڈاکٹر طاہر القادری نے دعوی کیا کہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کو عدالتی کمیشن نے ذمہ دار ٹھہرایا ہے، اگر کمیشن نے وزیراعلی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا تو رپورٹ 3 سال سے کیوں دبائی ہوئی ہے؟ اگر وزیراعلی قاتل نہیں تو پھر قاتلوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے مطالبہ کیا کہ پنجاب کی بیوروکریسی عدالتی حکم کے فوری بعد رپورٹ شہدا کے ورثا کے حوالے کرے۔
 پاکستان عوامی تحریک(پی اے ٹی)نے سانحہ ماڈل ٹاون کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی۔سانحہ ماڈل ٹاون میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں نے درخواست دائر کی، جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاون میں 14 بے گناہ افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔درخواست گزارکا کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاون کی تحقیقات کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنایا گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کر دی تھی تاہم ابھی تک اسے منظر عام پر نہیں لایا گیا۔درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ معلومات تک رسائی ہر شہری کا آئینی حق ہے اور جوڈیشل رپورٹ شائع نہ کرنا ان کو آئین کے تحت حاصل حق کی نفی ہے۔عدالت سے استدعا کی گئی کہ ماڈل ٹاون کے ٹرائل میں جوڈیشل انکوائری رپورٹ انتہائی اہم کردار ادا کرسکتی ہے اور جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے ذریعے سے مظلوموں کو انصاف مل سکتا ہے۔درخواست گزار نے لاہور ہائیکورٹ سے استدعا کی کہ سانحہ ماڈل ٹاون کی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے اور عدالت، رپورٹ میں کسی بھی قسم کی تحریف نہ ہونے کو یقینی بنانے کا حکم جاری کرے۔
واضح رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستانی عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا، مگر پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت اور پولیس آپریشن کے باعث 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ پاکستان عوامی تحریک(پی اے ٹی)کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹان پر جسٹس باقر نجفی کی تحقیقاتی رپورٹ کو منظر عام پر لانے اور وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیاتھا۔لاہور کے ناصر باغ میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران ڈاکٹر طاہر القادری نے مطالبہ کیا کہ سانحہ ماڈل ٹان پر جسٹس باقر نجفی کی تحقیقاتی رپورٹ میں پنجاب حکومت کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، جسے منظر عام پر لایا جانا
 چاہیے۔سابق وزیراعظم کی سبکدوشی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اقتدار سے برطرف ہونے والا کہتا ہے کہ میرا قصور کیا تھا،  میں پوچھتا ہوں کہ سانحہ ماڈل ٹان کے متاثرین کا کیا قصور تھا، جن پر آپ لوگوں نے ظلم کی انتہا کردی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں جعلی دستاویزات جمع کرانے پر 7 سال قید کی سزا ہوسکتی تھی، نواز شریف شکر ادا کریں کہ عدالت عظمی نے انہیں جیل نہیں بھیجا، صرف جھوٹا قرار دے کر عہدے سے ہٹانے کا حکم دیا۔سربراہ عوامی تحریک کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے حکم نامے میں صرف یہ لکھا کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 'حکومت آج بھی آپ کی ہے، مینڈیٹ اور کسے کہتے ہیں، تمام وزرا اور وزیراعظم آپ کا ہی ہے'۔ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ آپ اور آپ کا خاندان اقتدار میں ہوں تو آپ اسے جمہوریت مانتے ہیں، حکومت کا مکمل نظام آپ کے ہاتھ میں ہے اور اس کے باوجود کہتے ہیں کہ جمہوریت نہیں ہے۔عوامی تحریک کے سربراہ نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ شریف خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی)کو ماڈل ٹان کا کیس بھی دیا جائے۔انہوں نے دعوی کیا کہ میں قانون اور جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں اور گزشتہ 3 سال سے عوام کو امن کا درس دے رہا ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کیس میں 126 افراد کو سمن جاری ہوا تاہم ایک بھی شخص گرفتار نہیں ہوا، یہاں تک کہ قتل کرنے والوں کو طلب ہی نہیں کیا گیا۔گزشتہ آٹھ اگست کوڈاکٹر طاہر القادری سے قبل سابق گورنر پنجاب چوہدری سرور، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی سمیت دیگر رہنماں نے عوامی تحریک کے جلسے سے خطاب کیا تھا۔ڈاکٹر طاہر القادری نے لاہور ایئرپورٹ کے باہر میڈیا اور کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی پاکستان آمد کا واحد ایجنڈا انصاف بشکل قصاص ہے، پاکستان میرا گھر اور میرا وطن ہے تاہم حکومتی سیکیورٹی پر بھروسہ نہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ ماڈل ٹان کے شہدا کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، دیت کے نام پر خون بیچے جاتے ہیں وہ دیت نہیں ہوتی۔عوامی تحریک کے سربراہ نے نواز شریف کی بطور وزیراعظم نااہلی سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے انصاف کا راستہ کھل رہا ہے اور 4 سال بعد آرٹیکل 62 کو زبان ملی۔ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا تھا کہ ملک سے کرپشن ختم کرنے کے لیے 62، 63 نافذ کرنی پڑے گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ بحالی کا کریڈٹ لینے والے اس کے منصفانہ فیصلوں کو مانیں، 'نواز شریف کو جھوٹ اور لوٹ مار پر نااہل کیا گیا'۔انہوں نے سابق وزیراعظم کو تجویز دی کہ نواز شریف ڈریں نہیں، جرات سے اس کا نام لیں جس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ نواز شریف جی ٹی روڈ پر کس کے خلاف احتجاج کرتے رہیں ہیں؟۔خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پاکستان میں سیاسی ہل چل کو مدنظر رکھتے ہوئے 31 جولائی 2017 کو عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری نے 8 اگست کو وطن واپس آنے کا اعلان کیا تھا۔اس حوالے سے عوامی تحریک کے سربراہ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں مطالبہ کیا تھا کہ باقر نجفی کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے اور سانحہ ماڈل ٹان میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ان کا اپنے پیغام میں مزید کہنا تھا کہ ہماری جدوجہد اس نظام کے خلاف ہے جس میں امیر اور غریب طبقے کے لیے علیحدہ قانون ہیں اور کمزور پر مزید دبا ڈالا جاتا ہے۔پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی)کے رہنما قاضی شفیق کا کہنا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹان کی رپورٹ پنجاب حکومت کا بیڑا غرق کرنے کیلئے کافی ہے، کیونکہ رپورٹ میں ملوث ملزمان کے چہرے بے نقاب ہوئے ہیں مگر رپورٹ میں موجود تاریخ کی غلطی نے پھر ایک بڑا سوال اٹھا دیا ہے۔ قاضی شفیق کا کہنا تھا کہ شہدا کے ورثا سمیت ہماری جماعت کے تمام لوگ اس رپورٹ کی مصدقہ کاپی لینے جائیں گے اور رپورٹ کو دیکھنے کے بعد حتمی فیصلہ کریں گے۔انہوں نے سانحہ ماڈل ٹان پر حکومت سے سوال کیا کہ ایک دن پہلے رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں اجلاس کر کے فیصلے کیے جاتے ہیں اور اگلے لمحے پولیس حملہ کرکے لوگوں کا قتل عام کردیتی ہے، اس وقت حکومت کہاں تھی اور قتل عام کو روکا کیوں نہیں گیا؟۔ان کا کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹان پر عوامی تحریک آئینی، قانونی اور جمہوری حدود کے اندر رہتے ہوئے آخری حد تک جائے گی۔رواں برس اگست میں سانحہ ماڈل ٹان میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ منظر عام پر لانے کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔دوسری جانب پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹان پر جسٹس باقر نجفی کمیشن کی انکوائری رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔اے پی ایس