یروشلم: کیاامریکہ یکطرفہ فیصلے کرسکے گا۔چودھری احسن پریمی


پاکستان نے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یروشلم سے متعلق پیش کی جانے والی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ ڈالنے والے ممالک کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پیشگی دھمکی جمہوریت کی توہین ہے۔پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا کہ پاکستان پیش کی جانے والی مذکورہ قرارداد پر اصول کی بنیاد پر ووٹ دیا۔جنرل اسمبلی میں مذکورہ قرارداد پیش کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا۔قرارداد میں امریکہ سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا اور عالمی اداروں کے رکن ملکوں سے کہا گیاکہ وہ اپنے سفارت خانے تل ابیب سے یروشلم منتقل نہ کریں۔امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ دنوں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ ان ملکوں کی امداد کم کردے گا جو اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیں گے۔
 دفترِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ یروشلم کے معاملے پر پاکستان کا موقف اصولوں پر مبنی ہے اور پاکستان نے اصول کی بنیاد پر ہی ووٹ دیا۔ترجمان نے کہا کہ آزادی کی کوئی قیمت نہیں اور پاکستان یروشلم پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اعلامیے کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ میں سعودی سفیر عبداللہ معلمی نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کے خلاف جنرل اسمبلی میں قرارداد منظور ہونے کے بعد کہا ہے کہ امریکہ کو ایسا فیصلہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ جنرل اسمبلی نے اس قرارداد پر بڑے پیمانے پر ووٹ ڈال کر امریکہ پر اپنا واضح نکتہ نظر ظاہر کیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ عالمی برادری نے امریکہ کو پیغام دیا ہے کہ وہ ایسے یکطرفہ فیصلے نہیں کر سکتا۔انھوں نے مزید کہا کہ قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالنے والے ممالک کے خلاف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی کہ وہ ان ممالک کی امداد بند کر دیں گے، غلط تھا۔
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے وہ قرارداد منظور کرلی جس میں امریکہ سے کہا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس یا مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے۔قرارداد کے حق میں 128 ممالک نے ووٹ دیا، 35 نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ نو نے اس قرارداد کی مخالفت کی۔قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ شہر کی حیثیت کے بارے میں فیصلہ باطل اور کالعدم ہے اس لیے منسوخ کیا جائے۔اس سے قبل گذشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ مذکورہ قرارداد کے حق میں رائے دینے والوں کی مالی امداد بند کر دی جائے گی۔رائے شماری سے پہلے فلسطینی وزیرِ خارجہ نے اقوام متحدہ کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ دھونس اور دھمکیوں کو خاطر میں نہ لائیں۔دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نے ممکنہ طور پر منظور ہونے والی اس قرارداد کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کو جھوٹ کا گڑھ قرار دیا تھا۔گذشتہ دنوںقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے چار مستقل اور دس غیرمستقل ارکان نے بھی ایسی ہی ایک قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا تاہم صرف امریکی مخالفت کی وجہ سے قرارداد منظور نہیں ہوسکی تھی کیونکہ امریکہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔سلامتی کونسل میں کسی بھی قرارداد کی منظوری کے لیے پانچوں مستقل ارکان، امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کا حق میں ووٹ دینا ضروری ہے۔جن نو ممالک نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا ہے ان میں امریکہ، اسرائیل، گوئٹیمالا، ہونڈیورس، دی مارشل آئسلینڈز، مائیکرونیشیا، نورو، پلا اور ٹوگو شامل ہیں۔اس رائے شماری میں حصہ 35 ممالک نے حصہ نہیں لیا جن میں کینیڈا اور میکسیکو شامل ہیں۔اس قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ممالک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے دیگر چار مستقل ارکان چین، فرانس، روس اور برطانیہ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب، ایران، پاکستان اور امریکہ کے اہم اتحادی مسلم ممالک شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 21 ممالک نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔واضح رہے کہ یروشلم کے بارے میں امریکی اعلان کے بعد عرب اور مسلمان ممالک کی درخواست پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 193 رکن ممالک خصوصی ہنگامی اجلاس بلایا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل نمائندہ نیکی ہیلی کا کہنا ہے کہ امریکہ اس دن کو یاد رکھے گا جب جنرل اسمبلی میں اسے نشانہ بنانے کے لیے منتخب کیا گیا اور وہ بھی اس کے اس عمل کے لیے جو بطور خودمختار قوم اس کا حق ہے۔نیکی ہیلی کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کہنا تھا کہ امریکہ اپنا سفارتخانہ یروشلم میں ہی بنائے گا۔ یہی امریکی عوام ہم سے چاہتے ہیں، اور یہی صحیح ہے۔ اقوام متحدہ میں کسی بھی ووٹ سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور کی جانے والی قرارداد کو فلسطین نے فلسطینیوں کے لیے جیت قرار دیا ہے، جبکہ اسرائیل نے اس رائے شمارے کے نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان کا کہناہے کہ یہ نتائج فلسطینیوں کے لیے جیت ہے۔اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو رائے شماری کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اسے جھوٹ کا گڑھ قرار دیا۔انھوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل یروشلم کے حوالے سے امریکہ کی واضح پوزیشن پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتا ہے، اور ان ممالک کا بھی جنھوں نے اسرائیل اور سچ کے حق میں ووٹ دیا۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکہ نے اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر یروشلم کو تسلیم کرنے کے ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کے خلاف ایک قرارداد کو ویٹو کر دیا تھا۔سیکیورٹی کونسل کے دیگر 14 اراکین نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ ڈالے تھے۔ یہ قرارداد مصر کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔ توقع کی جا رہی تھی کہ فلسطین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔اس سے قبل فلسطین کے وزیر خارجہ ریاض المالکی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ 'جہاں نکی ہیلی (اقوام متحدہ میں امریکی سفیر) ویٹو کو فخر اور طاقت کا ذریعہ سمجھتی ہیں وہاں ہم انھیں دکھا دیں گے کہ بین الاقوامی سطح پہ وہ تنہا ہیں اوران کے موقف کو مسترد کیا جا چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں فلسطینی شہریوں کے حق ارادیت کا موضوع بھی زیر بحث آیا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کو کسی بھی فیصلے کے خلاف ویٹو کا اختیار حاصل تھا لیکن جنرل اسمبلی میں ویٹو نہیں کیا جاتا۔بین الاقوامی اتفاق رائے سے انحراف کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چھ دسمبر کو یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تھا اور کہا کہ وہ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کریں گے۔ ان کے اس اقدام کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی اور مختلف ممالک میں مظاہرے ہوئے۔محمود عباس یروشلم سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدام کے خلاف مسلم دنیا کو متحد کرنا چاہتے تھے۔تاہم امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس نے یروشلم کا دورہ کیا جہاں وہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان سب سے زیادہ متنازع مسائل میں سے ایک بحران پر بات کی ہے۔فلسطینی صدر محمود عباس نے یروشلم کو تسلیم کرنے کے اعلان پر پینس کے ساتھ احتجاجا ایک ملاقات منسوخ کردی ۔ اس کے بجائے اب وہ سعودی عرب کے بادشاہ سلمان اور شہزادے محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے۔واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967 میں مشرق وسطی کی جنگ کے دوران شہر کے مشرقی حصے کا کنٹرول حاصل کیا تھا اور پورے یروشلم کو وہ غیر منقسم دارالحکومت کے طور پر دیکھتا ہے۔ادھر فلسطینی یروشلم شہر کے مشرقی حصے کو مستقبل میں اپنی ریاست کے دارالحکومت کے طور دیکھتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی کے باوجود اقوام متحد کی جنرل اسمبلی نے و قرارداد منظور کر لی ہے جس میں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ و مشرقی یروشلم کو اسرائیل کا درالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان واپس لے۔جس کے بعد بیشتر ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علامتی قرارداد کا امریکہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جبکہ اگر امریکہ نے مخالفت کرنے والے ممالک کی امداد روک لی تو اس کے سنجیدہ نقصانات ہو سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی رائے شماری سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مخالفت کرنے والے ممالک کی امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔لیکن کیا و ایسا کر پائیں گے؟ اس بارے میں تاحال وائٹ ہاوس سے کوئی بیان تو جاری نہیں ہوا لیکن ماہرین کے بقول ایسا کرنا مشکل ضرور ثابت ہو سکتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قرارداد کی کوئی قانونی اہمیت بھی ہے؟۔ قانونی اعتبار سے امریکہ پر ہرگز لازم نہیں کہ وہ قرارداد پر عمل درآمد کو یقینی بنائے لیکن اس سے اسرائیل کے خلاف ایک مرتبہ پھر عالمی براداری یکجا ضرور نظر آئی ہے۔اس سلسلے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک علامتی قرارداد ہے اس سے کچھ بدلنے والا نہیں ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پالیسی بدلنے والے نہیں۔ ایک طرح سے ڈونلڈ ٹرمپ نے تقریبا ساری دنیا کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ یہ بات ظاہر کریں کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا ناقابل قبول ہے۔ ایک مرتبہ پھر اسرائیل دنیا سے کٹ کر رہ گیا ہے۔ یہ اسرائیل اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کی ہار ہے مگر فلسطین کی جیت بھی نہیں، کیونکہ فلسطینیوں کو اس سے کچھ نہیں ملنے والا اور اگر آپ یروشلم کا نقشہ دیکہیں تو فلسطین پہلے ہی اپنی بہت ساری زمین یہودیوں کے ہاتھوں کھو چکا ہے۔خیال رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ عالمی برداری نے بڑی سطح پر اقوام متحد میں امریکہ کی مخالفت کی ہے۔ اس سے پہلے بھی جب فلسطین کو نان سٹیٹ ممبر کا رتبہ دینے پر رائے شماری ہوئی تھی تو بہی امریکہ کی مخالفت ہوئی اور وہاں بھی امریکہ کی ہار ہوئی تھی۔اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر امریکہ ہمیشہ تنہا رہا ہے۔ عراق کی جنگ کے معاملے میں بہی اقوام متحد کی سلامتی کونسل نے امریکہ کی محالفت میں قرارداد منظور کی تہی، مگر عراقی جنگ پھر بھی ہوئی۔جبکہ اسرائیل کا ساتھ دینے کی ایک وجہ امریکی سیاستدانوں میں مضبوط سیاسی لابی ہونا ہے۔ سابق صدر اوباما بھی جاتے جاتے اسرائیل کو 38 بلین ڈالر کی امداد دے کر گئے تھے۔بعض تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اخلاقیات ایک طرف اور طاقت کا سرچشمہ ایک طرف، امریکہ دنیا کا طاقتور ملک ہے اور و اپنے ساتھی ممالک کے خلاف کہیںنہیں جائے گا۔مریکی صدر کے لیے اپنی دھمکی پر عمل درآمد کرنا بظاہر مشکل ضرور ہو گا۔ کیونکہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا صدر ٹرمپ کا فیصلہ امریکہ میںبھی تنقید کا نشانہ بنا ہے، انہیں خاصی مخالفت کا سامنا رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ کیا ایسے میں و اپنے خلاف جانے والے ملکوں کی امداد روکنے کے سلسلے میں حمایت اکھٹی کر پائیں گے؟ لیکن اگر صدر ٹرمپ امداد روکنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو بہت سارے ملک خاصا نقصان اٹھا سکتے ہیں خصوصا وہ ممالک جو غریب ہیں۔واضح رہے کہ امریکہ کی جانب سے سب سے بڑی فوجی امداد لینے والے چھ ملک ہیں جن میں پاکستان، افغانستان اور عراق سمیت پانچ مسلم ممالک اور ایک اسرائیل ہے، تو کیا پاکستان کی مالی امداد ختم کی جا سکتی ہے ؟۔اس سلسلے میں تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ پاکستان یا دیگر ملکوں کو ملنے والی امریکی فوجی امداد اس لیے دی جاتی ہے کیونکہ و امریکہ کے قومی مفاد میں ہے۔ تو و ہ تو نہیں ختم کی جا سکتی لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ جو چھوٹے کم امداد لینے والے ایک دو ملک ہیں ان کو نشانہ بنایا جا سکتاہے محض علامتی طور پر۔ اہم چیز یہ ہے کہ امریکہ تقریبا آٹھ بلین ڈالر کی سالانہ امداد اقوام متحد کو دیتا ہے یعنی و اقوام متحد کو ملنے والی ایک چوتھائی سے زیادہ امداد۔ اگر امریکہ وہ امداد کم کرتا ہے تو اس سے اقوام متحد کے بہت سارے منصوبوں کو دھچکا لگ سکتا ہے۔امریکی سفیر نِکی ہیلی نے اقوام متحدہ کے دیگر ایلچیوں کو خبردار کیا تھا وہ رائے شماری میں حصہ لینے والوں کے ناموں پر نظر رکھیں گی، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کیے جانے کے خلاف قرارداد زیرِ غور آئی۔صدر اِس رائے شماری پر توجہ مرکوز رکھیں گے، اور انھوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں ان ملکوں کے بارے میں انھیں رپورٹ دوں جو ہمارے خلاف ووٹ دیں۔یروشلم کے معاملے پر امریکہ کی جانب سے طویل مدت سے اختیار کردہ موقف کی نفی کرتے ہوئے، صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس مہینے کے اوائل میں اعلان کیا تھا کہ امریکہ یروشلم کو بطورِ دارالحکومت تسلیم کرے گا، جب کہ وہاں اپنا نیا سفارت خانہ تعمیر کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔یہ اعلان اقوام متحدہ کی سلامتی کو نسل میں قرارداد کی منظوری کے حوالے سے لیے گئے اقدام کو زیر نظر رکھ کر کیا گیا ، جس مسودہ  قرارداد میں کہا گیا تھا کہ یروشلم کی   حیثیت
 سے متعلق حالیہ فیصلوں پر ہمیں تشویش اور افسوس ہے۔مسودہ قرارداد، جس میں امریکہ کے فیصلے کا خصوصی ذکر نہیں کیا گیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی فیصلہ یا اقدام جس سے یہ عندیہ ملتا ہو کہ یروشلم کے مقدس شہر کی حیثیت یا جغرافیائی ہیئت کو تبدیل کرنے کی کسی کوشش کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، یہ کالعدم سمجھی جائے گی اور اسے منسوخ کیا جانا چاہیئے۔سلامتی کونسل کے 15 میں سے 14 ارکان نے قرارداد کے مسودے کے حق میں ووٹ دیا۔ تاہم، امریکہ نے ویٹو استعمال کرتے ہوئے اسے منظور نہیں ہونے دیا۔سلامتی کونسل میں رائے شماری کے بعد، سفیر ہیلی نے کہا تھا کہ کسی بھی ملک کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ امریکہ اپنا سفارت خانہ کہاں قائم کرے۔اسلامی ممالک کی تنظیم کے غیر معمولی سربراہ اجلاس میں تیار کیے گئے اعلامیے کے مسودے میں کہا گیا  کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ بطور سرپرست، امریکہ مشرق وسطی امن عمل میں کردار ادا کرنے سے سبکدوش ہوگیا ہے۔مسودے میں 50 سے زائد مسلمان ملکوں کے سربراہان، وزرا اور اہل کاروں نے کہا ہے کہ مشرقی یروشلم کو فلسطین کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا جائے؛ اور سارے ممالک کو دعوت دی جائے کہ وہ ریاستِ فلسطین اور مشرقی یروشلم کو بطور مقبوضہ دارالحکومت تسلیم کریں۔کہا گیا ہے کہ اجلاس میں امریکی اقدام کو مسترد کیا گیا اور اس کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی۔اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کا غیر معمولی سربراہ اجلاس ترکی کے شہر استنبول میں ہوا  جس میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے کے امریکی فیصلے سے پیدا ہونے والی صورتِ حال پر غور کیا گیا۔اجلاس ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے او آئی سی کے موجودہ صدر کی حیثیت سے طلب کیا ہے جس میں تنظیم کے 57 رکن ملکوں میں سے کئی کے سربراہانِ مملکت یا حکومت شریک ہیں۔مسلمان اکثریتی ملکوں کے سربراہان نے اپنے اجلاس میں یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلے کو غیرقانونی قرار دیا۔اجلاس ایسے وقت ہوا جب مشرقِ وسطی میں کشیدگی جاری ہے اور ساتھ ہی یروشلم کے معاملے پر تنقید بڑھ رہی تھی۔یہ اجلاس 57 ممالک پر مشتمل اسلامی ملکوں کی تنظیم کے زیر سایہ منعقد ہوا۔ اِن دِنوں ترکی تنظیم کی قیادت کرتا ہے اور یہ ہنگامی سربراہ اجلاس ترک صدر رجب طیب اردوان نے طلب کیا تھا۔ اجلاس کے آغاز پر، اردوان نے سربراہان کو بتایا تھا کہ میں ان رکن ملکوں کو دعوت دیتا ہوں جو بین الاقوامی قانون اور منصف مزاجی کے قدردان ہیں کہ وہ مقبوضہ یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کریں۔یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی انتظامیہ کے فیصلے کے بعد مسلمان ممالک بشمول ترکی اور پاکستان کی طرف سے شدید ردِ عمل سامنے آیا اور کئی مسلم ملکوں میں امریکہ کے اس اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔خلیجی ممالک کی تنظیم عرب لیگ نے بھی اپنے ایک اجلاس میں امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ یروشلم سے متعلق اپنا فیصلہ واپس لے۔وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی اور وزیرِ خارجہ خواجہ آصف بھی ان کے ہمراہ تھے۔پاکستان کی حکومت پہلے ہی امریکہ سے اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کر چکی ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے عالمی امن خاص طور پر مشرقِ وسطی میں قیامِ امن کی کوششوں کو دھچکا لگے گا۔
 پاکستان کے ایوانِ بالا، یعنی سینیٹ نے بھی امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف مذمتی قرار داد منظور کی تھی۔امریکہ پہلا ملک ہے جس نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارت خانے تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔امریکہ کے صدر ٹرمپ اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے فلسطین اور اسرائیل کے دو ریاستی حل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور امریکہ دونوں کو قابلِ قبول حل پر آمادہ کرنے کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے عزم پر قائم ہے۔اے پی ایس