یروشلم ایک ٹائم بم: جارحیت کو کون روکے گا؟۔ چودھری احسن پریمی


 یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی صدر کے فیصلے کے بڑے پیمانے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ٹرمپ کا یہ فیصلہ امریکی سر زمین پر مزید دہشت گرد حملوں کی راہ ہموار کر سکتا ہے اور اس سے امریکی معیشت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے واشنگٹن اور عرب دنیا میں اس کے اتحادیوں کے درمیان تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوگا۔دنیا بھر میں اس فیصلے کو خطرناک اور غیر دانش مندانہ تصور کیا جا رہا ہے۔ یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے سے مشرق وسطی میں عدم استحکام جنم لے سکتا ہے۔ اس سے عرب اور مسلم اقوام ایک دوسرے کے قریب آئیں گی جس سے انتہا پسندی کا راستہ ہموار ہو سکتا ہے، جو تباہ کن ہوگا۔ اس فیصلے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ دنیا میں ہر اس جگہ طاقت کا استعمال کر سکتے ہیں جس سے وہ مطمئن نہیں ہیں۔ یہ فیصلہ امریکہ اور عرب دنیا کے تعلقات پر منفی طور پر اثر انداز ہو گا ۔ اس سے اسرائیل اور سعودی عرب درمیان تعلقات میں مزید تنا پیدا ہو گا، جس سے انتہاپسند مذہبی اور قوم پرست گروپس میں یہودی اور امریکہ مخالف جذبات کی ایک نئی لہر جنم لے سکتی ہے۔
یروشلم ایک ٹائم بم تھا جسے سب خوف سے دور رہ کر پھٹنے کا انتظار کر رہے تھے۔ یروشلم کا نظریہ دنیا کی تاریخ ہے. یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ یہ زمین اور آسمان کی تاریخ ہے. بقول" مٹ رومنی "یہودی ازم کا عزم تھا کہ ایک قوم کو اپنے دارالحکومت کا انتخاب کرنے کی صلاحیت ہے، اور یروشلم اسرائیلی دارالحکومت ہوگا جبکہ فلسطینی قیادت کا اس کے برعکس عزم تھا کہ فلسطینی پرچم جب تک یروشلیم اور تمام فلسطین میں نہیں لہرایا جاے گا، فتح کی پیش رفت جاری رہے گی۔حالانکہ اوبامہ انتظامیہ نے مسلسل صرف اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر یروشلم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
  امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے رد عمل میں مقبوضہ غربِ اردن میں فلسطینیوں اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں سینکڑوں فلسطینی  زخمی ہو رہے ہیں ۔ابتدائی اطلاعات کے مطابق زیادہ تر فلسطینی آنسو گیس اور گولیوں سے زخمی ہوئے ہیں۔امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور فلسطینی گروپ حماس کی جانب سے انتفادہ کی کال کے بعد اسرائیل نے غربِ اردن میں سینکڑوں مزید فوجی تعینات کر دیے ہیں۔امریکی اعلان کے خلاف غربِ اردن اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں نے ہڑتال کی ہے اور سڑکوں پر احتجاج کیا ہے۔ غربِ اردن کے علاقے الخلیل اور البیرہ میں ہزاروں فلسطینی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ مظاہرین یروشلم فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے کے نعرے لگا رہے ہیں۔دوسری جانب غزہ کی پٹی میں درجنوں مظاہرین اسرائیلی سرحدی دیوار کے قریب جمع ہوئے اور اسرائیلی فوجیوں پر پتھرا وکیا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کے بعد فلسطینی آزادی کی تحریک چلانے والی جماعت حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے اسرائیل کے خلاف انتفادہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔یہ اعلان اسماعیل ہنیہ نے غزہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس سے قبل فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف انتفادہ کی دو تحریکیں چلائیں جا چکی ہیں۔امریکی صدر کے اعلان کے بعد سے بین الاقوامی سطح پر اس کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔امریکی صدر نے وائٹ ہاس میں خطاب کرتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں یہ اقدام امریکہ کے بہترین مفاد اور اسرائیل اور فلسطنیوں کے درمیان قیامِ امن کے لیے ضروری تھا۔
نئے امریکی صدر سے بڑھتی ہوئی قربت کے باوجود سعودی عرب کی جانب سے جاری کیے گئے شاہی بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ 'بلاجواز اور غیر ذمہ دارانہ' ہے اور 'یہ فلسطینی عوام کے حقوق  کے منافی' ہے۔دوسری جانب ایران نے بھی صدر ٹرمپ کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے 'اسرائیل کے خلاف ایک اور انتفادہ شروع ہو سکتا ہے۔ یہ اشتعال انگیز اور غیر دانشمندانہ فیصلہ سخت اور پرتشدد ردعمل کا باعث بن سکتا ہے۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 میں سے آٹھ ممالک نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی فیصلے کے حوالے سے رواں ہفتے کے اختتام تک ہنگامی اجلاس بلایا جائے۔فرانس، بولیویا، مصر، اٹلی، سینیگال، سویڈن، برطانیہ اور یوراگوائے نے اس ہنگامی اجلاس کا مطالبہ کیا ہے اور توقع ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اس میں خطاب کریں گے۔حال ہی میں سعودی عرب میں اپنے استعفے کا اعلان کرنے کے بعد رواں ہفتے اسے واپس لینے والے لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے کہا ہے کہ 'ہمارا ملک بھرپور طریقے سے فلسطینیوں کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کرتا ہے اور ان کا علیحدہ ملک جس کا دارالحکومت یروشلم ہو، قائم کرنے کے مطالبے کا ساتھ دیتا ہے۔'ادھر یورپ کے دوسرے ممالک کی طرح جرمنی سے بھی امریکی فیصلے کی مذمت سامنے آئی ہے۔ جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے ترجمان کے ذریعے پیغام جاری کیا جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ 'صدر ٹرمپ کے فیصلے کی قطعی حمایت نہیں کرتیں۔'انھوں نے مزید کہا کہ'یروشلم کے رتبے کے بارے میں فیصلہ صرف دو ریاستوں پر مبنی حل کے تحت ہو سکتا ہے۔'فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے امریکی صدر کے اس فیصلے پر کہا ہے کہ 'صدر ٹرمپ کے شرمناک اور ناقابل قبول اقدامات نے امن کی تمام کوششوں کو کمزور کر دیا ہے۔'
 فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے دو ریاستی حل کی امید کو تباہ کر دیا گیا ہے۔اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گرتیرس نے یروشلم پر اسرائیلی حاکمیت کے حوالے سے صدر ٹرمپ کے اقدام کو سختی سے مسترد کر دیا۔انتونیو گتریس نے اپنے بیان میں صدر   ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ
 یروشلم کے تنازع کو ہر صورت اسرائیل اور فلسطینیوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ 'اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے میں روز اول سے مسلسل کسی بھی ایسے یکطرفہ حل کے خلاف بات کرتا رہا ہوں جس سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن کے امکانات کو زِک پہنچ سکتی ہے۔'یورپی یونین کی فارن پالیسی کی سربراہ فیڈریکا مگیرینی نے صدر ٹرمپ کے اقدام پرشدید تشویش کا اظہار کیا ہے.فیڈریشنیکا مگیرینی نے کہا یروشلم کے بارے فریقین کی خواہشات کو پورا کیا جانا نہایت ضروری ہے اور مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہر صورت مذاکرات کا راستہ ڈھونڈنا چاہیے۔برطانوی وزیرِ اعظم ٹریزا مے نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ٹریزا مے کے ایک ترجمان کا کہنا تھا ہم امریکہ کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں کہ وہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرے اور یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرے۔اردن نے ٹرمپ کے فیصلے کو بین الاقوامی اصول کے منافی قرار دیا ہے۔ادرن کی حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا ہے امریکی صدر کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور وہاں اپنا سفارت خانہ منتقل کرنا بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ترکی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا 'ہم امریکی انتظامیہ کے اس غیر ذمہ دار بیان کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ بین الااقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے خلاف ہے۔'ادھرترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع امریکہ قونصل خانے کے باہر لوگوں نے مظاہرے کیے جبکہ تیونس میں تمام بڑی لیبر یونینز نے مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔مصر نے امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کو مسترد کر دیا۔فرانسیسی صدر نے ٹرمپ کے اعلان کے ردعمل پر کہا کہ وہ امریکہ کے یکطرفہ فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے جس میں اس نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔'یہ فیصلہ افسوسناک ہے جس کو فرانس قبول نہیں کرتا اور یہ فیصلہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف جاتا ہے۔' اسرائیلی اور فلسطینی دونوں اس 'مقدس' شہر پر اپنا دعوی پیش کرتے ہیں اور اس کا تنازع بہت پرانا ہے۔یروشلم اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان کشیدگی کی بڑی وجہ بھی ہے۔ یہ شہر مسلمانوں، یہودیوں اور مسیحیوں تینوں کے نزدیک اہمیت کا حامل ہے۔پیغمبر حضرت ابراہیم سے اپنا سلسلہ جوڑنے والے تینوں مذاہب یروشلیم کو مقدس مقام کہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے اس شہر کا نام مسلمان، یہودیوں اور مسیحیوں کے دلوں میں آباد ہے۔ یہ شہر عبرانی زبان میں یروشلایم اور عربی میں القدوس کے نام سے معروف ہے جبکہ یہ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔اس شہر پر کئی بار قبضہ کیا گیا، مسمار کیا گیا اور پھر سے آباد کیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ اس سرزمین کی تہوں میں ایک تاریخ موجود ہے۔ٹرمپ دو ممالک کے تصور سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ایک ایسا ملک چاہتے جس پر فریقین میں اتفاق ہو۔آج یروشلم مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان تقسیم اور تنازعات کی وجہ سے سرخیوں میں رہتا ہے جبکہ اس شہر کی تاریخ ان لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتی بھی ہے۔شہر کے مرکز میں ایک قدیمی شہر ہے۔ تاریخی فن تعمیر کے نمونے سے مالا مال بھول بھلیاں جیسی تنگ گلیوں کے درمیان یہ چار حصوں مسیحی، اسلامی، یہودی اور ارمینیائی میں منقسم ہے۔اس کے چاروں جانب دیوار ہے جس کے اندر دنیا کے بہت سے مقدس مقامات ہیں۔ اور ہر حصے کی اپنی مخصوص آبادی ہے۔عیسائیوں کے دو علاقے ہیں کیونکہ آرمینیائی بھی عیسائی ہیں۔ تمام علاقوں میں قدیم ترین آرمینیا کا علاقہ ہے۔یہ آرمینیائی نسل کا قدیم ترین مرکز بھی ہے۔ سینٹ جیمز چرچ اور موناسٹری میں آرمینیائی باشندوں نے اپنی تاریخ اور ثقافت کو محفوظ کر رکھا ہے۔مسیحی علاقے میں دا چرچ آف دی ہولی سیپلکر یعنی کنیس القیامہ ہے۔مسیحی علاقے میں دا چرچ آف دی ہولی سیپلکر یعنی کنیس القیامہ ہے جو دنیا بھر میں مسیحیوں کے لیے باعث احترام ہے۔ روایات کے مطابق یہیں حضرت عیسی کو مصلوب کیا گیا تھا۔اسی کو کیلوری کا پہاڑ کہا جاتا ہے اور بعض روایت کے مطابق یہیں ان کا مقبرہ ہے اور بعض کے مطابق وہ یہیں سے آسمان پر اٹھا لیے گئے تھے۔اس چرچ کا انتظام مسیحی برادری کے مختلف فرقوں بطور خاص یونانی آرتھوڈوکس پیٹریارک، رومن کیتھولک چرچ کے فرانسسکن فرایرس اور آرمینیائی پیٹریارٹ کے علاوہ ایتھوپیائی، قبطی اور شامی آرتھوڈوکس چرچ سے منسلک پادری بھی سنبھالتے ہیں۔ہر سال لاکھوں لوگ یہاں آتے ہیں اور دعا کے ساتھ توبہ کرتے ہیں۔مسلمانوں کا علاقہ چاروں علاقوں میں سب سے بڑا ہے اور یہیں ڈوم آف دا راک (قب الصخرہ) اور مسجد الاقصی واقع ہے۔ یہ ایک سطح مرتفع پر واقع ہے جسے مسلمان حرم الشریف یا بیت مقدس کہتے ہیں۔مسجد الاقصی اسلام کا تیسرا سب سے مقدس مقام ہے اور ایک اسلامی ٹرسٹ یعنی وقف کے ذمے اس کا انتظام و انصرام ہے۔مسلمانوں کا ایمان ہے کہ پیغمبر حضرت محمد کو یہیں سے معراج ہوئی تھی۔ہر روز ہزاروں مسلمان اس مقدس مقام پر آتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں۔ رمضان کے مہینے اور جمعہ کے دن یہاں ان کی بہت زیادہ تعداد ہوتی ہے۔یہودیوں کے علاقے میں کوٹیل یا مغربی دیوار ہے۔ یہ وال آف دا مانٹ کا باقی ماندہ حصہ ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یہودیوں کا مقدس مقام کبھی اس جگہ تھا۔کہا جاتا ہے کہ اسی کے اندر 'ہولی آف دا ہولیز' یعنی یہودیوں کا مقدس ترین مقام تھا۔یہودیوں کا یقین ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے کائنات کی تخلیق ہوئی اور یہیں پیغمبر ابراہیم نے اپنے بیٹے حضرت اسحاق (مسلمان حضرت اسماعیل کی قربانی کی بات کہتے ہیں) کی قربانی کی تیاری کی تھی۔ کئی یہودیوں کا خیال ہے کہ ڈوم آف دا راک ہی ہولی آف دا ہولیز ہے۔آج مغربی دیوار یہودی کی نزدیک ترین مقام ہے جہاں سے یہودی ہولی آف دا ہولیز کا تقرب محسوس کرتے ہیں۔اس کا انتظام مغربی دویار کے ربائی کے ہاتھوں میں ہے جبکہ ہر سال وہاں دنیا بھر سے لاکھوں یہودی پہنچتے ہیں۔فلسطینی اور اسرائیلی تنازعے کے مرکز میں قدیم یروشلم شہر ہی ہے۔ یہاں کے حالات میں معمولی سی تبدیلی بھی کئی بار تشدد اور بڑی کشیدگی کا باعث بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یروشلم میں رونما ہونے والا ہر واقعہ اہم ہو جاتا ہے۔یہ شہر نہ صرف مذہبی طور پر اہم ہے بلکہ سفارتی اور سیاسی طور پر بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔زیادہ تر اسرائیلی یروشلم کو غیر منقسم اور بلا شرکت غیرے اپنا دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں۔ اسرائیل کا ایک ملک کے طور پر سنہ 1948 میں قیام عمل میں آیا تھا۔ اس وقت اسرائیلی پارلیمنٹ کو شہر کے مغربی حصے میں قائم کیا گیا تھا۔ جبکہ سنہ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر بھی قبضہ کر لیا۔اس کے ساتھ قدیمی شہر بھی اسرائیل کے قبضے میں آ گیا لیکن بین الاقوامی سطح پر اس کے قبضے کو تسلیم نہیں کیا گیا۔یروشلم پر اسرائیل کی مکمل حاکمیت کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا ہے جس پر اسرائیلی رہنما اپنی مایوسی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔فلسطینیوں کا موقف اس کے برعکس ہے۔ وہ مشرقی یروشلیم کو مستقبل کا اپنا دارالحکومت کہتے ہیں۔ اور اسرائیلی اور فلسطینی کے درمیان امن مذاکرات میں اس پر رضامندی کی بات بھی شامل ہے۔اس امن پراسیس کو دو قومی نظریے کے حل کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ اس کے تحت سنہ 1967 سے قبل کی سرحد پر ایک آزاد فلسطینی ملک کی تعمیر کا خیال ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں میں یہ بھی درج ہے۔یروشلم کی ایک تہائی آبادی فلسطینی آبادی ہے جن میں سے بہت سے خاندان صدیوں سے وہیں آباد ہیں۔ شہر کے مشرقی حصے میں یہودی بستیوں کی تعمیر بھی تنازعے کا بڑا سبب ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت یہ تعمیرات غیر قانونی ہیں لیکن اسرائیل اس سے انکار کرتا ہے۔بین الاقوامی برادری کئی دہائیوں سے کہہ رہی ہے کہ یروشلم کی حیثیت میں کوئی تبدیلی صرف امن مذاکرات سے ہی آ سکتی ہے۔ لہذا تمام ممالک کے اسرائیل میں سفارتخانے تل ابیب میں واقع ہیں اور یروشلم میں صرف قونصل خانے ہیں۔لیکن صدر ٹرمپ اپنے سفارت خانے کو یروشلم منتقل کرنے پر مصر ہیں۔ٹرمپ دو ممالک کے تصور سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ایک ایسا ملک چاہتے ہیں جس پر فریقین میں اتفاق ہو۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ بین الاقوامی کنونشن سے انحراف کرتے ہوئے اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کریں گے۔انھوں نے کہا تھا کہ صدر منتخب ہونے کے پہلے ہی روز وہ اس بارے میں احکام جاری کریں گے۔تاہم یکم جون کو صدر ٹرمپ نے اپنے پیش روں کی طرح 'یروشلم ایمبیسی ایکٹ 1995' پر دستخط کر کے چھ ماہ کے لیے امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کرنے کے فیصلے کو موخر کر دیا تھا۔صدر ٹرمپ نے یہ توجیح دیتے ہوئے 'یروشلم ایمبیسی ایکٹ 1995' پر دستخط کیے کہ وہ مشرق وسطی میں جاری امن معاہدے کی کوششوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔تاہم اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کے جانب سے اس فیصلے کو موخر کرنے پر کہا کہ اس فیصلے کو موخر کرنے سے امن حاصل کرنے میں مدد نہیں ملے گی بلکہ امن میں مشکلات پیش آئیں گی۔1995 سے اب تک امریکی صدر ہر چھ ماہ بعد اس فیصلے کو موخر کرتے چلے آئے ہیں۔ اس فیصلے کو پہلی بار سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے موخر کیا تھا۔یکم جون کے بعد صدر ٹرمپ نے اس امریکی سفارتخانے کی منتقلی کے حوالے سے دوبارہ فیصلہ یکم دسمبر کو کرنا تھا۔ تاہم  اس حتمی فیصلے کی تاریخ چار دسمبر کو رکھی گئی۔ لیکن اس تاریخ کو بھی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے کہا کہ اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ بدھ کو کیا جائے گا۔'یروشلم ایمبیسی ایکٹ 1995' آٹھ نومبر 1995 کو منظور کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت امریکی سفارتخانے کو اسرائیل کے دارالحکومت یروشلم منتقل ضرور ہونا چاہیے۔تاہم اس قانون میں ایک شق میں امریکی صدر کو حق دیا گیا کہ وہ سکیورٹی وجوہات پر اس فیصلے کو چھ ماہ کے لیے موخر کر سکتے ہیں۔ تاہم اس فیصلے پر ہر چھ ماہ بعد نظرثانی کرنا ضروری ہے۔اور اسی شق کو استعمال کرتے ہوئے بل کلنٹن سے لے کر چھ ماہ قبل تک صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس فیصلے کو موخر کرتے چلے آئے ہیں۔امریکی پالیسی بنانے والوں کا کہنا ہے کہ 80 کی دہائی اور 90 کے اوائل میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کرنے کے حوالے سے صدارتی بحث کا حصہ ہونا اور اس حوالے سے صدارتی مہم کے دوران وعدے کرنا عام تھا۔سابق صدر بل کلنٹن نے فروری 1992 میں کہا تھا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے حق میں ہیں۔بل کلنٹن کے صدر بننے کے بعد جب یہودی لابی نے دبا ڈالا تو وائٹ ہاس کو اندازہ ہوا کہ یہ کہہ دینا آسان ہے لیکن ایسا کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔بل کلنٹن کے مشرق
 وسطی کے مشیر مارٹن انڈیک نے اسرائیلی اخبار ہیرٹز کو بتایا کہ صدر بننے کے ایک ہفتے کے اندر اس قسم کے فیصلے لینے کا بہترین وقت ہوتا ہے۔ اگر کرنا ہے تو جلد از جلد فیصلہ کرنا ضروری ہے۔'یروشلم ایمبیسی ایکٹ 1995' کیا ہے؟۔اس قانون میں کہا گیا ہے کہ 1950 سے یروشلم اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت ہے اور اس شہر میں اسرائیلی صدر، پارلیمان اور سپریم کورٹ کے علاوہ کئی وزارتیں بھی قائم ہیں۔1948-1967 تک یروشلم منقسم شہر تھا اور تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے اسرائیلی شہریوں اور تمام ممالک کے یہودی شہریوں کو اس علاقے میں جانے کی اجازت نہیں تھی جو اردن کے کنٹرول میں تھا۔1967 میں چھ روزہ جنگ کے بعد متحد یروشلم میں اسرائیل کے زیر انتظام تمام مذاہب کے لوگوں کے حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے۔اس میں یہ بھی کہا گیا کہ یروشلم کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرنا چاہیے اور اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کو 31 مئی 1999 سے قبل یروشلم منتقل کرنا چاہیے۔صدارتی استثنی کے حوالے سے اس قانون میں کہا گیا ہے کہ صدر چھ ماہ کے لیے سفارتخانے کی منتقلی کو موخر کر سکتے ہیں اگر وہ سمجھتے ہیں اور کانگریس کو بتاتے ہیں کہ اس فیصلے کو موخر کرنا امریکہ کے قومی سکیورٹی مفاد میں ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیرِ خارجہ آرتھر بیلفور کا مقامی سکولوں کے نصاب میں تذکرہ سننے کو نہیں ملتا لیکن اسرائیل اور فلسطین کے کئی طالب علم ان کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ان کا بیلفور اعلامیہ دو نومبر 1917 میں جاری ہوا تھا، اس کے بارے میں تاریخ کی جماعتوں میں پڑھایا جاتا ہے اور اہم باب کو اسرائیل اور فلسطین میں ایک بالکل الگ الگ قومی بیانیے میں پڑھایا جاتا ہے۔اس وقت کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور کے اعلامیے کا ذکر صیہونیت کے مرکزی حمایتی لارڈ والٹر روتھسچائلڈ کو لکھے گئے ایک خط میں شامل ہے۔ صیہونیت تحریک کا مقصد یہودیوں کی اپنی تاریخی سرزمین پر بحیرہ روم سے دریائے اردن کے مشرقی کنارے تک یہودی ریاست قائم کرنا تھا۔ اس علاقے کو فلسطین کہا جاتا تھا۔اس میں کہا گیا تھا کہ برطانوی حکومت یہودیوں کے لیے فلسطین میں ملک کے قیام کے حق میں ہے۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا تھا کہ اس وقت وہاں موجود غیر یہودی برادریوں کے شہری اور مذہبی حقوق کے ساتھ تعصب نہیں برتنا چاہیے۔فلسطینیوں نے اس کو بہت بڑے دھوکے کے طور پر دیکھا، خاص کر ایک علیحدہ ریاست کے وعدے کے بارے میں، جس میں کہا گیا تھا کہ عربوں کی سیاسی اور عسکری مدد کرنا تھی جو پہلی جنگِ عظیم میں سلطنتِ عثمانیہ کی حکمرانی میں تھے۔اس میں رائے دی گئی تھی کہ برطانیہ سلطنتِ عثمانیہ کے زیادہ تر حصے میں ان کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کرے گا۔ عربوں نے سمجھا کہ اس میں فلسطین بھی شامل ہے اگرچہ اس کا بالخصوص تذکرہ نہیں تھا۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ برطانیہ فلسطینی عوام کے ساتھ جرم کا مرتکب ہوا؟ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ کے سکول میں ایک ٹیچر نے سبق پڑھانے کے دوران بچوں سے پوچھا۔تو کلاس میں ہر ایک نے ہاتھ کھڑے کر کے اس کی تائید کی۔ایک پندرہ برس کی لڑکی نے کہا کہ یہ اعلامیہ خلافِ قانون تھا کیونکہ فلسطین سلطنتے عثمانیہ کا حصہ تھا اور برطانوی اس کو کنٹرول نہیں کرتے تھے۔ برطانیہ نے عربوں کو اقلیت کے طور پر لیا حلانکہ وہ آبادی کا نوے فیصد تھے۔بیلفور اعلامیے کو ہائی سکول کے آخری سالوں میں پڑھنے والے اسرائیلی بچے اس اعلامیے کو برطانوی مداخلت کو مثبت انداز میں لیتے ہیں۔ جس وقت یہ اعلامیہ جاری ہوا اس سے صیہونی تحریک کو ایک بڑی امید اور بڑا عزم ملا۔ لوگوں نے دیکھا کہ اگر برطانوی حکومت نے اس قسم کا اعلامیہ جاری کیا ہے تو اس صورت میں ایک دن یہودیوں کا وطن بن سکتا ہے جو حقیقت میں1948 میں ہو گیا جب اسرائیل کے نام سے ایک نیا ملک وجود میں آ گیا۔فلسطینی علاقوں میں بیلفور اعلامیے کو فلسطینیوں سے دھوکے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ بیلفوریا کے دیگر رہائشیوں سمیت یہودی آبادی 1925 میں فلسطین میں بڑھ رہی تھی جب لارڈ بیلفور نے وہاں کا دورہ کیا تو ان کا پرجوش استقبال کیا گیا۔اس وقت یہ علاقہ برطانیہ کے زیرِانتظام تھا۔ بیلفور اعلامیہ باضابطہ پور پر برطانیہ کے فلسطین کے بارے میں مینڈیٹ کا احاطہ کرتا ہے۔ اس مینڈیٹ کے پہلے حصے میں برطانیہ نے یہودی تارکین وطن کی بڑی تعداد میں آمد کی اجازت دی لیکن عرب مخالفت اور تشدد کے بڑھنے کے سبب اسرائیلیوں کو یاد ہے کہ خاص کر ہولوکاسٹ کے دنوں میں کس طرح تشدد اور جبر سے فرار ہونے والوں کا راستہ روکا گیا۔یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی کا افتتاح بیلفور نے کیا تھا اور اس یونیورسٹی کی پروفیسر روتھ لپڈوتھ نے 67 الفاظ پر مشتمل اس دستاویز کو پڑھ رکھا ہے۔بین الاقوامی قانون کی ماہر پروفیسر روتھ نے کہا کہ یہ اعلامیہ قانونی طور پر پابند کرتا تھا لیکن برطانوی کو اپنے وعدے کو پورا کرنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔جب نازی حکومت میں آئے تو سیاسی صورتحال کافی خراب تھی اور پھر انگلینڈ کو عرب ممالک کی دوستی کی صورت میں مدد کی ضرورت تھی۔ پھر ان کو اعلامیے پر عمل درآمد کو محدود کرنا پڑا اور یہ قابلِ افسوس ہے۔'پروفیسر روتھ نے دوسری جنگِ عظیم شروع ہونے سے ایک برس قبل سنہ 1938 میں جرمنی چھوڑ دیا تھا اور اس وجہ سے ان کو اعلامیے میں ذاتی دلچسپی بھی ہے۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے بالفور اعلامیے کو اپنے ملک کے قیام کے عمل میں ایک مرکزی سنگ میل سے تعیبر کیا۔نیو کے مطابق بالفور اعلامیے سے صیہونی تحریک کو ایک بڑی امید اور بڑا عزم ملا تھا۔برطانوی حکومت نے گزشتہ دنوںانھیں اس اعلامیے کی صد سالہ تقریبات کے سلسلے میں لندن مدعو کیا۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیام امن کی دم توڑتی امیدوں کے درمیان اس فیصلے نے فلسطینیوں کو اشتعال دلایا اور انھوں نے احتجاج کا پروگرام بنایا ہے۔فلسطینی چاہتے ہیں کہ برطانیہ بالفور اعلامیے پر معافی مانگے۔ فلسطین کے وزیر تعلیم صابری صیدام کا کہنا ہے کہ' گزرتے وقت کے ساتھ ان کے خیال میں برطانوی تاریخ کے سبق کو بھول رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ فلسطینی اب بھی اسرائیل کے ساتھ اپنی ریاست کا قیام چاہتے ہیں اور تنازعے کو ختم کرنے کے خود ساختہ دو ریاستی حل کی بنیاد پر ہے جس کو عالمی برادری کی حمایت بھی حاصل ہے۔انھوں نے کہا کہ' اب وقت آ گیا ہے کہ فلسطین آزاد ہو جائے اور طویل عرصے سے ادھورا وعدہ پورا ہو۔ کیونکہ یروشلم ایک تہوار اور ایک تنا وہے. اس کا گانا، عمر بھر میں ایک نازک، مضبوط، ماتم زبور ہے جو روحانی ثقافتوں کا ایک عظیم جشن میں ہے.
آنکھوں میں ایک خوفناک خوف
جارحیت کو کون روکے گا؟
آپ پر، مذاہب کے موتی؟
تمہاری خونی دیواروں کو کون دھوے گا؟
بائبل کی حفاظت کون کرے گا؟
قرآن کو کون بچائے گا؟
کون مسیح کو بچائے گا؟
ان لوگوں سے جو مسیح نے مارا ہے؟
انسان کو کون بچائے گا؟
صرف خدا ہی جنگ کے ایک موسم کو امن کے ایک موسم میں بدل سکتا ہے. کیا آپ میرے ساتھ امن کے لئے دعا میں متفق ہوں گے؟۔ اے پی ایس