عوام اور قانون ساز بے ایمان لوگ پارلیمنٹ میں نہیں چاہتے۔ تحریر:چودھری احسن پریمی



 ہماری آزادی پاکستان کے آئین کو برقرار رکھنے پر منحصر ہے۔ پاکستان کے لوگ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ دونوں کے حقدار مالک ہیں، جو آئین کو ختم کرنے کے لئے نہیں، بلکہ ایسے لوگوں کو ختم کرنے کے لئے ہیں جو آئین کو ختم کر دیتے ہیں۔اگرچہ مقننہ کے ظلم سے واقعی سب سے زیادہ خطرہ ہے، اور آنے والے کئی سالوں تک ایسا ہی جاری رہنے کی توقع ہے۔ لیکن ایک متحرک عدلیہ کے ہوتے ہوئے وہ دن دور نہیں جب ایگزیکٹو پاور کے ظلم سے عوام نجات حاصل کرلیں گے۔وطن عزیز کیلئے اربوں ڈالر کے غیر ملکی قرضے لئے گئے لیکن آج کوئی بتانے والا نہیں کہ کہاں خرچ ہوئے ؟
 عدالتی جائزہ لینے کا مطلب تو یہ ہے کہ عدلیہ کو روکنے میں ہر چیز کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم عدالتی نظام سب سے زیادہ مہنگی مشین ہے جو "کیا ہوا "اور اس کے بارے میں "کیا کرنا ہے " تلاش کرنے کے لئے ایجاد ہوئی ہے۔ موجودہ جج اصلی دنیا کے تجربات اور پس منظر کے ساتھ حقیقی لوگ ہیں۔ہم ان کے تجربات اور پس منظروں کو ذہنیت سے خارج کرنے کی توقع نہیں کر سکتے ہیں جو ان کے عدالتی فیصلے سے متعلق ہیں۔جبکہ آئین صرف ان لوگوں کی حفاظت نہیں کرتا جن کے خیالات ہم  بانٹتے پھرتے ہیں بلکہ یہ ان لوگوں کو بھی تحفظ دیتا ہے جن کے خیالات سے ہم متفق نہیں ہیں.آئین نے ہمیں زندگی ، آزادی اور خوشحالی کے حقوق کے حصول کی ضمانت دی ہے۔یہ سب کچھ ہے تاہم یہ خیرات کرنے کے حقوق کی ضمانت نہیں دیتا۔اس آئین کو ایک دن کے لئے نہیں بنایا گیا تھا، اور نہ ہی اس طرح کے لچکدار مواد سے متعلق ہے جس کے مطابق کسی بھی طور پر مبنی اثر و رسوخ کے مقاصد کے لئے جنگ بندی کی جائے گی.بعض کے نزدیک ایک آئین کو مختصر اور غیر واضح ہونا چاہئے تاہم ایک اچھا آئین سب سے بہترین تخیل سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ آئین کے تحت اگر آپ ایک برے شہری ہیں تو آپ اب بھی ایک شہری ہیں؛ یہ ہمارا راستہ ہے۔جب انتظامیہ کی جانب سے قانون سازی کے نفاذ کا اختیار نامزد کیا جاتا ہے۔توایک آزاد آئین کے اصولوں کو ناقص طور پر کھو دیا جاتا ہے۔ایک آئین جس کو تمام قوم کے لئے بنایا گیا ہے وہ کسی  ایک کے لئے نہیں بنایاگیا ہے۔جب ہم آئین پر عمل کرتے ہیں اور جب اسے الگ کرنے کا انتخاب کرتے ہیں تو ہم عملی طور پر ایسا نہیں کرسکتے ہیں۔اگر آپ اس آئین کے تحت پوزیشن حاصل کرتے ہیں جو اکثریت کے نقطہ نظر کے خلاف ہے، تو آپ کو یہ کافی اچھی طرح سے سمجھنا پڑے گا کہ ان میں سے کچھ اکثریت آپ کے ساتھ اتفاق بھی کر سکتی ہے۔بعض کا خیال ہے کہ آئین عام لوگوں کے لئے بنایا گیا تھا.آئین غیر جانبدار نہیں ہے. حکومت کو عوام کی حمایت سے دور کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا تھا۔تاہم پاکستان کے محب وطن اور ذمہ دار شہریوں کوآئین کے معاملات پر یقین ہے کہ یہ صرف کاغذ کے چند ٹکڑے نہیں ہے۔آئین کی طاقت ہر شہری کے مطابق اس کی حفاظت کے لئے مکمل طور پر ہے۔صرف اس صورت میں اگر ہر ایک شہری اس دفاع میں اپنا حصہ لینے کے لئے پابندی فرض محسوس کرتا ہے تو آئین کے حقوق محفوظ ہیں۔ایک وطن پرست شہری ہمیشہ اپنی حکومت کے خلاف اپنے ملک کی حفاظت کے لئے تیار رہتا ہے ۔محب وطن کا خون آزادی کے درخت کا بیج ہے۔محب وطن ہونے کا مطلب یہ نہیںہے کہ سب سے زیادہ حکمرانوں کی خدمت کو ترجیح دی جائے بلکہ محب وطن کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ اپنے ملک کی حفاظت کے لئے آگاہی حاصل کریں، اپنے آئین کی حفاظت کے بارے میں جاننا ، اپنے ملک کے تحفظ کے بارے میں جاننا ہے۔ جبکہ پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ الحمد اللہ ہمیں کوئی نکال باہر نہیں کرسکتا، ہماری ذمہ داری انصاف کرنا ہے جس سے معاشرہ قائم رہتا ہے، ریاست کے ستون کی بنیاد عدلیہ ہے، ہم پریشان ہیں اور نہ ہی قوم پریشان ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ ریمارکس انتخابی اصلاحات کیس کی سماعت کے دوران دیے جو ان کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ سن رہا تھا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت آئین کے تحت بنائی گئی ہے۔ عدالتیں ختم ہوجائیں تو پھر جنگل کاقانون ہوگا۔ ہم نہ تو جلسہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کو ہاتھ کھڑا کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے جسٹس اعجاز الاحسن نے برطانیہ کی عدالت کا ایک فیصلہ نکال کر دکھایا ہے جس کے مطابق اگر عدالتی فیصلے پر بلاجواز تنقید ہو تو ججز جواب دے سکتے ہیں۔سماعت کے دوران بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے کا جواب دینا پڑتا ہے۔ کسی آئینی ادارے کو دھمکانا یا تنقید کرنا آئین کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی ہے۔دورانِ سماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ نواز شریف نے عدالت اور لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی۔ اٹھارہویں ترمیم میں آرٹیکل 62 ون ایف کو برقرار رکھا گیا۔ آئین ایک عمرانی معاہدہ اور بہت مقدس ہے جس نے عدلیہ اور فوج کو تحفظ دیا ہے۔ آئین کا تحفظ اصل میں ملک کا تحفظ ہے۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ اس عدلیہ پر حملہ کس نے کیا۔ عدالت اتنی رحم دلی نہ دکھائے کہ ریاست کو جھیلنا پڑے۔لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پاناما نظرِ ثانی کیس کا فیصلہ اخبار میں مکمل نہیں چھپا۔ پورا فیصلہ چھپ جاتا تو یہ نہ کہتے پھرتے کہ مجھے کیوں نکالا۔ سسلین مافیا اور گارڈ فادر کی عدالتی آبزرویشن درست تھی۔ عدالت نے انھیں گارڈ فادر ایسے ہی نہیں کہا۔لطیف کھوسہ کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ آج کہا جارہا ہے کہ چیف جسٹس سمیت تمام ججوں کو باہر نکال دیں۔ یہ لوگ اپنے خلاف خبر نہیں چھپنے دیتے۔ عدالت کے سامنے جعلی دستاویزات پیش کی گئیں۔ نوازشریف نااہل ہونے کے بعد سپر وزیرِ اعظم بن گئے ہیں۔ بطور پارٹی صدر، نواز شریف وزیرِ اعظم کو بھی نکال سکتے ہیں۔سماعت کے دوران مسلم لیگ (ن)کے رہنما سینیٹر راجہ ظفر الحق کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ راجہ ظفر الحق صاحب! آپ عدالت میں آتے ہیں تو ہمیں خوشی ہوتی ہے۔ آج کل آپ کے ڈرانے والے لوگ نہیں آتے۔ انہیں تو لے کر آئیں کہ ذرا دیکھیں ہم ڈرتے ہیں یا نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ لطیف کھوسہ کے خلاف فیصلہ دیا لیکن ان کے ماتھے پر شکن نہیں آئی۔ لطیف کھوسہ فیصلے کو برا کہتے ہیں لیکن احترام کرتے ہیں۔ ججز کو اختیار آئین اور عدلیہ نے دیے ہیں۔ ہمیں عدلیہ کے وقار کو بحال کرنا ہے۔ کون صحیح اور کون غلط ہے، اس کا فیصلہ لوگوں کو کرنا ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدلیہ کی تضحیک اور تذلیل پر آرٹیکل 204 کے تحت سزا دے سکتے ہیں۔ توہین عدالت کیس میں مجرم کی سزا چھ ماہ قید ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں کوئی نکال نہیں سکتا۔ پاکستان کے عوام سپریم کورٹ کی ریڑھ کی ہڈی بنیں گے۔ ہماری ذمہ داری انصاف کرنا ہے جس سے معاشرہ قائم رہتا ہے۔ ناانصافی سے معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کرتے کے سوال پر آگے سے سوال نہیں اٹھایا۔ موجودہ وزیرِ اعظم کہتے ہیں کہ انھیں کسی نے وزیر اعظم بنایا ہے۔سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو اسکینڈلائز کیا جارہا ہے۔ پاناما کیس کے فیصلے میں عدالت نے واضح طور پر قرار دیا کہ نواز شریف نے مکمل سچ نہیں بتایا۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ نواز شریف نے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی۔ وزیرِ اعظم کہتے ہیں کہ انھیں نواز شریف نے وزیرِ اعظم بنایا ہے اور اب بھی وہی ان کے وزیرِ اعظم ہیں۔لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل ختم کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 آئین سے متصادم ہے اور اسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے بھی اس قانون پر ہاتھ کھڑا کیا ہوگا؟ آپ کے مطابق آئین کی روح یہ ہے کہ ریاست پر ایمان دار شخص حکمرانی کرے۔ اگر ادارے کا سربراہ ایمان دار نہ ہو تو پورے ادارے پر اثر پڑتا ہے۔ کیا پارلیمنٹ کے ذریعے عدالتی فیصلے کا اثر ختم کیا جاسکتا ہے؟ کیا ہم اس بنیاد پر قانون کو کالعدم قراردے سکتے ہیں؟۔بعد ازاں عدالت نے الیکشن ایکٹ 2017 کا مکمل ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت اگلے روز تک کے لیے ملتوی کردی۔کئی سیاسی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں جس کے تحت عدالت سے نااہل قرار پانے والے شخص کو پارٹی کا سربراہ رہنے کا اختیار دیا گیا ہے۔اس قانون کی منظوری کے بعد سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کا بدستور سربراہ رہنے کی راہ ہموار ہوگئی تھی جنہیں عدالتِ عظمی نے اپنے اثاثے چھپانے کے الزام میں
 گزشتہ سال وزارتِ عظمی کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ بے ایمانی کا مطلب چیٹنگ اور فراڈ ہے جس کے مرتکب افراد پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے۔ گزشتہ ماہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں عدالتِ عظمی کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس کی سماعت کی تھی۔سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی طرف سے سینئر وکیل اعظم نذیر تارڑ پیش ہوئے اور کیس کی تیاری کے لیے ایک ہفتے کا وقت دینے کی درخواست کی جو عدالت عظمی نے منظور کرلی۔چودہ سابق ارکانِ اسمبلی نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کے لیے عدالتِ عظمی میں درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں اور عدالت نے تمام درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیاتھا۔بینچ میں جسٹس عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں۔درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ ارکانِ اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر عدالتوں نے نااہل قرار دیا تھا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ گزشتہ روز جاری کیا جانے والا پبلک نوٹس ان لوگوں کے لیے تھا جو متاثرہ ہیں۔ تمام متاثرہ لوگ اپنے لیے ایک مشترکہ وکیل کر لیں۔ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین کرنا چاہتے ہیں۔اللہ ڈنو نامی مدعی کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ ان کے موکل کو 2013 میں 2008 کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہونے پر ڈی نوٹیفائی کیا گیا۔ عدالت 62 ون ایف کے معاملے کو حل کرے۔ آرٹیکل 63 میں نااہلی کے ساتھ سزا کا تعین بھی ہے۔ زیادہ سے زیادہ نااہلی پانچ سال کی ہونی چاہیے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر عدالت کسی شخص کو نااہل کر دے تو کیا وہ شخص تین ماہ بعد انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے؟۔وکیل طارق محمود نے کہا کہ نااہلی پانچ سال کی ہونی چاہیے۔ پشاور ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کو بد دیانتی پر تاحیات نااہل قرار دیا۔عدالتی معاون منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن لڑنا سب کا بنیادی حق ہے۔ اٹھارویں ترمیم سے قبل آرٹیکل 63 میں ماضی کے کنڈکٹ پر نااہلی تاحیات تھی۔ اٹھارویں ترمیم میں پارلیمنٹ کی بصیرت یہ تھی کہ تاحیات نااہلی کو مدت سے مشروط کردیا۔جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بیشر مہمند نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیب قانون اور عوامی نمائندگی ایکٹ میں بھی نااہلی تاحیات نہیں۔ تاحیات نااہلی کا لفظ پارلیمنٹ نے نہیں لکھا۔ نااہلی کی مدت نہ لکھے ہونے پر عدالت نے تاحیات قرار دیا۔ ریاست کے خلاف جرم کرنے والا پانچ سال بعد اہل ہوجاتا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں ترمیم کے لیے پارلیمنٹ سے رجوع کیا جاتا ہے، عدالت سے نہیں۔ ڈیکلریشن کا لفظ شامل کرتے ہوئے نااہلی کی مدت بھی لکھی جا سکتی تھی۔ عدالت میں بات قوم کی قیادت کی ہورہی ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قوم کے رہنماوں کے متعلق بات ہو رہی ہے، تعزیراتِ پاکستان والے ملزمان کی نہیں۔ قوم کے رہنماوں کے لیے معیار مقرر ہونا چاہیے۔ کئی لوگوں کی گاڑیوں اور واشنگ مشینوں سے پیسے برآمد ہوئے۔ کیا ایسے کرپٹ لوگ پانچ سال بعد رکن، وزیر یا وزیرِ اعظم بن سکتے ہیں؟ انتخابی فارم کے حلف کو عدالت بہت سنجیدگی سے لیتی ہے۔ غلط بیانی عوام کے ساتھ جھوٹ تصور ہوتی ہے۔ سزا بھگت کر واپس آنے والا اہل کیسے ہوسکتا ہے؟ اہلیت، نااہلیت اور سزا میں فرق کا جائزہ لینا ہوگا۔ کیا غداری کا ملزم بھی سزا کے بعد اہل ہو جائے گا؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا نااہل شخص ضمنی یا آئندہ انتخابات لڑسکتا ہے؟ الیکشن سے تین ماہ پہلے بے ایمان قرار پا کر نااہل ہونے والا کیا آئندہ انتخابات لڑ سکے گا؟ فراڈ کرنے والوں پر تاحیات پابندی ہونی چاہیے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایمانداری تو آرٹیکل 62 ون ایف کا صرف ایک حصہ ہے، دیگر الفاظ بھی دیکھنا ہوں گے۔سپریم کورٹ میں آئین کی دفعہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کا مقدمہ آخری مراحل میں داخل ہوگیا ہے۔گزشتہ جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران عاصمہ جہانگیر نے اپنے دلائل مکمل کرلیے ہیں جب کہ عدالت نے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کو عدالتی معاونت کے لیے طلب کرلیا ہے۔دورانِ سماعت چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انفرادی مقدمات میں حقائق کے مطابق نااہلی کی مدت کا تعین ہوگا جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بے ایمان قرار دیا گیا شخص کچھ عرصے بعد ایمان دار کیسے ہو جائے گا؟۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس کی سماعت کی۔کئی سابق ارکان اسمبلی نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کے لیے عدالتِ عظمی میں درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں جس کی سماعت پانچ رکنی لارجر بینچ کررہا ہے۔بینچ ے ارکان میں جسٹس عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں۔درخواستوں میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ ارکانِ اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنا پر نااہل کیا گیا۔جمعرات کو سماعت شروع ہوئی تو رائے حسن نواز کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے اپنے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف میں ابہام ہے۔ ڈیکلیریشن کون سی عدالت دے گی یہ بھی واضح نہیں۔ نااہلی کی مدت کیا ہوگی یہ بھی نہیں بتایا گیا۔انہوں نے کہا کہ کمپنی کے اثاثے ظاہر نہ کرنے پر رائے حسن نواز کو نااہل قرار دیا گیا جبکہ کمپنی رائے حسن نواز فروخت کرچکے تھے۔ 1962 میں 7 ہزار لوگ نااہل کیے گئے تھے۔ 1985 تک نااہلی کے لیے عدالتی فیصلہ ضروری نہیں تھا۔عاصمہ جہانگیر نے موقف اختیار کیا کہ اسلام کی بنیادی معلومات ایران کے علاوہ کسی ملک میں لازمی نہیں۔ بی اے کی ڈگری کی شرط سے ووٹرز کی پسند محدود ہوگئی۔ عدالت نے 2009 کے فیصلے میں اس بات کو تسلیم کیا۔عاصمہ جہانگیر نے اپنے دلائل میں کہا کہ جو کام سیاست دان نہیں کرسکے وہ عدالت کیسے کرسکتی ہے۔ سیاسی معاملات پر فیصلے پارلیمنٹ سے ہی ہونے چاہئیں۔ کیا نظریہ پاکستان کی تعریف بھی عدالت کرے گی؟۔جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آرٹیکل 63 کے تحت نااہلی فوجداری جرم پر ہے۔ نااہلی کی مدت ڈیکلیریشن برقرار رہنے تک ہو گی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہمارے سامنے سوال نظریہ پاکستان کا نہیں۔ عدالت صرف ٹھوس سوالات کا ہی جائزہ لیتی ہے۔ احتجاج کے بعد مستعفی ہونے والے دوبارہ عوام کے پاس جاتے ہیں۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے عاصمہ جہانگیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ پارلیمنٹ کو مکمل آزاد سمجھتی ہے۔ ہم آپ کی رائے سے متفق نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یا نااہل ہونے والا شخص ضمنی انتخاب لڑسکتا ہے؟ قانون مبہم ہو تو تشریح عدالت کو کرنی ہوتی ہے۔ عدالت 62 ون ایف کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی۔ بے ایمان شخص کو مختصر مدت کے لیے کیسے نااہل کیا جاسکتا ہے؟۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت ایمانداری کا تعین کرسکتی ہے۔ عوام اور قانون ساز بے ایمان لوگ پارلیمنٹ میں نہیں چاہتے۔ بے ایمان قرار دیا گیا شخص کچھ عرصے بعد ایمان دار کیسے ہوگا؟ ڈیکلیریشن کے خلاف فیصلے تک امیدوار نااہل رہے گا۔ ہماری نظر میں آرٹیکل 62 اور 63 آزاد اور الگ ہیں۔ قانون سازوں نے سزا پر نااہلی کی مدت کا تعین خود کیا۔ اٹھارہویں ترمیم میں 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا۔ آئینی نکتے کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ممکن ہے نااہلی کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین کریں۔ انفرادی مقدمات میں حقائق کے مطابق نااہلی کی مدت کا تعین ہوگا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اعلی معیار کے لوگوں کو اسمبلیوں میں ہونا چاہیے۔ جس پر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ اتنے اعلی معیار کے لوگ پاکستان میں نہیں ہیں۔اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ عام آدمی اور منتخب نمائندے کے لیے معیار مختلف ہے۔ آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق صرف منتخب نمائندوں پر ہوتا ہے۔عاصمہ جہانگیر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے قرار دیا کہ آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت میں دلائل دیں گے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت آج پیر تک ملتوی کردی ہے۔
عدالت نے مذکورہ مقدمے میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو بھی فریق بننے کے لیے نوٹس جاری کیا تھا تاہم انہوں نے اس مقدمے میں فریق بننے سے معذرت کرلی ہے۔نواز شریف کو بھی سپریم کورٹ نے اسی آئینی دفعہ کے تحت نااہل قرار دیا تھا جس پر انہیں وزارتِ عظمی کا منصب چھوڑنا پڑا تھا۔اے پی ایس