باجوہ ڈاکٹرائن، عدلیہ اور قانون کی بالادستی۔ چوھری احسن پریمی



 کسی بھی منطق یا دلیل کے نظریات یا ڈاکٹرائن کا جسم نہیں ہے، لیکن دنیا کی آئینے کی تصویر ضرور ہے.  لیکن منطق یا دلیل اس کی ٹرانسمیشن یا ترسیل ہوسکتی ہے۔ ہر نسل اپنی تیاری کیلئے اس ڈاکٹرائن یا نظریے کو انتہائی اونچے شیلف پر رکھتی ہے جہاں بچے اس تک پہنچ نہیںسکتے ہیں۔واحد سوال جسے کوئی دانشمند آدمی اپنے آپ سے پوچھ سکتا ہے، اور جو کوئی ایماندار شخص خود سے پوچھتا ہے، کیا یہ ڈاکٹرائن کا عقیدہ صحیح یا غلط ہے۔کیونکہ بہت سارے ڈاکٹرائن یا نظریے ایک کھڑکی کی طرح ہیں۔ ہم اس کے ذریعے سچ دیکھتے ہیں لیکن یہ ہمیں سچ سے تقسیم کرتا ہے۔کسی بھِی ڈاکٹرائن یا نظریے کی اخلاقیات ایسی نہیں ہے کہ ہم کس طرح خود کو خوش کر سکیں گے،بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو خوشی کے قابل کیسے بنا سکتے ہیں۔کسی بھی ڈاکٹرائن یا نظریہ کی اخلاقیات کے خلاف سب سے مضبوط دلیل عالمی سطح پر انسانی فطرت کی شناخت ہوسکتی ہے۔کہ تمام انسانوں کی زندگی، آزادی اور خوشحالی کے حصول کے لئے بے حد خواہشات ہیں. خالی سلیٹ کا نظریہ یا  ڈاکٹرائن ... مجموعی طور پر خواب ہے.اندھی اطاعت اور کسی غیر تسلیم شدہ انسانی طاقت کو  تسلیم کرنے کا نظریہ، چاہے سول ہو یا عسکری نظریات کا نظریہ اس کی کسی جمہوریہ اور عوام کے درمیان کوئی جگہ نہیں ہے۔
 جبکہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ فوج کا ملکی سیاست کے کسی بھی این آر او سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے باجوہ ڈاکٹرائن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی ڈاکٹرائن ہے تو وہ نجی ٹی وی چینل پر دیئے گئے ایک انٹرویو کے مطابق پاکستان میں امن کی بحالی کے حوالے سے ہے۔ یہ ہر پاکستانی کی ڈاکٹرائن ہونی چاہیے، جبکہ اس ڈاکٹرائن کا 18ویں ترمیم، عدلیہ یا این آر او سے کوئی تعلق نہیں۔جنوبی ایشیا میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان نے خطے میں اپنا کردار ادا نہ کیا ہوتا تو امریکا سپر پاور نہ ہوتا۔انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان کے کردار کو مثبت انداز میں دیکھا جائے، پاکستان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ خطے میں امن کی راہ ہموار ہو۔ پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ مالی نقصان بھی ہوا، تاہم اس کی بحالی کے لیے معاشی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔لائن آف کنٹرول کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2018 کے آغاز کی صورتحال 2017 کے آغاز کی صورتحال سے بہت مختلف ہے، جہاں بھارت کی جانب سے متعدد مرتبہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی جس میں کئی شہریوں کی جانیں چلی گئیں۔میجر جنرل آصف غفور نے بھارت کی جانب سے دھمکی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بھارت کی جانب سے کوئی دھمکی آتی ہے تو پورا پاکستان ایک ہوجاتا ہے چاہیے وہ ایک عام آدمی ہو یا کسی سیکیورٹی فورس کا اہلکار ہو۔ پاک فوج بھارت کے خلاف کسی بھی جارحیت کے لیے بھرپور تیار ہے، قوم کو پاکستان کی طاقت پر بھروسہ کرنا چاہیے۔بلوچستان کی سیکیورٹی کی صورتحال پر بات چیت کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ فوج کی زیادہ تر توجہ صوبے میں جاری معاشی ترقی اور ضربِ عضب کے تحت جاری آپریشن پر ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کے دورہ ایران کے بعد سے صوبہ بلوچستان میں سرحد پر سیکیورٹی اور اندرونی سیکیورٹی کے معاملات بہتر ہوئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ تربت میں ایک ایونٹ منعقد کیا گیا تھا جس میں آرمی چیف نے اور ملک کے نامور گلوکاروں نے شرکت کی تھی، جہاں مقامی افراد نے رات گئے تک وہاں پر شرکت کی۔آپریشن ردالفساد کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال میں سیکیورٹی اداروں نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں جس کے اثرات سامنے آرہے ہیں۔ سیکیورٹی اداروں نے 7 بڑے دہشت گرد نیٹ ورک ختم کیے ہیں اور اس عرصے میں 16 خودکش بمباروں کو گرفتار کیا۔پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اگر ان اداروں کی محنت نہ ہوتی تو پاکستان میں یہ امن قائم نہ ہوتا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ جو عناصر پاکستان کو پرامن دیکھنا نہیں چاہتے، وہ ایسے اہداف کو نشانہ بناتے ہیں جو ان کے مقاصد میں پورا نہیں ہونے دیتے۔انہوں نے کہا کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، ہم ایک ذمہ دار قوم ہیں، تاہم یومِ پاکستان کی پریڈ کے دوران بھارتی ہائی کمشنر کو اپنی تہذیبی و اخلاقی صفت کو سامنے رکھتے ہوئے مدعو کیا۔کراچی کی صورتحال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2018 کا شہرِ قائد 2013 سے بہت مختلف ہے۔انہوں نے کہا کہ 2013 میں کراچی دنیا کا چھٹا سب سے خطرناک شہر تھا، تاہم اب پاکستان کا اس فہرست میں 67واں نمبر ہے۔ کراچی میں شٹر ڈان ہڑتالوں کا نام و نشان ختم ہوگیا ہے اور یہاں پر معاشی سرگرمیان بہتر ہو رہی ہیں۔پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) فائنل کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیشنل اسٹیڈیم کراچی فائنل کے لیے تیار نہیں تھا، لیکن اسے میچ سے قبل تیار کرلیا گیا، جبکہ پاکستان میں دیگر کرکٹ کے ایونٹ کے لیے راولپنڈی، پشاور، ملتان اور فیصل آباد کو بھی تیار کیا جائے گا۔ گزشتہ ہفتے پاکستان کے لیے بہت اہم تھا جس میں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا فائنل اور اسلام آباد میں 23 مارچ کے لیے پریڈ ہونی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں ایونٹ بہترین انداز میں گزر گئے ہیں، جس کے لیے اسلام آباد پولیس اور عوام کے شکر گزار ہیں۔ پی ایس ایل کے فائنل میں لوگوں کا جوش و خروش اور پاکستان زندہ باد کے نعروں کو دیکھ بے حد خوشی ہوئی۔واضح رہے کہ 25 مارچ کو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں پی ایس ایل کے فائنل کے لیے سیکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کیے گئے تھے اور 27 ہزار افراد کی گنجائش والے نیشنل اسٹیڈیم کی سیکیورٹی کے لیے پاک فوج سمیت 8 ہزار سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔اسٹیڈیم میں داخل ہونے کے لیے شائقین کو کئی چیک پوسٹوں پر تلاشی کے مرحلے سے گزرنا پڑا، لیکن سخت گرمی کے باوجود ان کا جوش دیدنی تھا۔سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی فوجی اتحاد (آئی ایم سی ٹی سی)کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کے بارے میں بات کرنا میرے اختیار میں نہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان آئی ایم سی ٹی سی کی کسی ایسی مہم کا حصہ نہیں بنے گا جو کسی دوسرے ملک کے خلاف ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی فوج سعودی عرب نہیں بھیج سکتا، تاہم دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی تعاون کا معاہدہ موجود ہے اور اسی کے تحت فوج ٹریننگ کے لیے سعودی عرب جاتی ہے۔ پاکستانی فوج صرف سعودی عرب کی سرحدی حدود کے اندر ہوگی اور ایران و یمن کے خلاف کسی عمل کا حصہ نہیں ہوگی۔پاک ۔ امریکا تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امریکا نے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کی ہیں۔میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ سے باہمی تعلقات پر فرق پڑا، اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا سپرپاور ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے تعاون سے ہی امریکا سپر پاور بنا ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا جغرافیائی سیاست سے جغرافیائی معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے، لہذا جغرافیائی سیاست کی نظر سے معاملات کو دیکھنے سے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے بلکہ انہیں جغرافیائی معیشت کے حوالے سے دیکھنا ہوگا۔پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد شروع ہوا تھا، جسے افغانستان سے مدد مل رہی تھی۔پاک فوج کی چیک پوسٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ چیک پوسٹیں اتنی نہیں ہیں جتنی بتائی جاتی ہیں، تاہم جب تک خطروں کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جاتا تب تک چیک پوسٹوں پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی چیک پوسٹس پر موجود جوان عوام کی حفاظت کے لیے ہی وہاں موجود ہے، جو کسی بھی خطرے کے خلاف پہلا دفاع ہے۔جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے پہلی مرتبہ میڈیا میں زیر بحث آنے والا باجوہ ڈاکٹرائن کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں اور عدلیہ میں تصادم ہوا تو مسلح افواج سپریم کورٹ کی پشت پر ہوں گی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسی صورتحال پیش آتی ہے تو اس کے ذمہ دار سابق وزیر اعظم نواز
 شریف کی جارحانہ پالیسی اور عدلیہ اور مسلح افواج پر حملے ہوں گے۔عمران کا کہنا تھا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ نواز شریف کس طرح عدلیہ پر حملے کر رہے ہیں اور وہ بڑی چالاکی کے ساتھ مسلح افواج کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے دو چیلے ہیں مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی جو عدلیہ اور فوج پر حملہ کرتے ہیں یہاں تک کہ محمود خان اچکزئی نے تو فوج پر کھلے عام حملے بھی کیے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ایسی صورتحال میں مجھے لگتا ہے کہ باجوہ ڈاکٹرائن، عدلیہ اور قانون کی بالادستی کے پیچھے کھڑی ہوگی۔عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو اس کا فائدہ نواز شریف کو ہوگا کیونکہ انہوں نے فوج کو بلانے کی مہم چلا رکھی ہے تاکہ وہ خود کو جمہوریت پسند ثابت کر سکیں اور فوج اور عدلیہ کی عزت پر حملہ کرسکیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص کو اس بات کا اندازہ لگانا چاہیے کہ نواز شریف یہ سب فوج کو بلانے کے لیے کر رہے ہیں اور اس کا نتیجے میں نواز شریف یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ سب کچھ اپنی کرپشن کے بجائے جمہوریت کو بچانے کے لیے کر رہے ہیں۔انٹرویو کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی نے آئندہ عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)کے ساتھ اتحاد کیے جانے پر منفی رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ایک کرپٹ انسان ہیں جس پر سیاسی مفادات اور شراکت داری کے لیے کبھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر مجھے حکومت کے لیے مینڈیٹ حاصل کرنے کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنا پڑا تو زرداری کا پہلا مطالبہ ایسی حکومت کا قیام ہوگا جو ان کی کرپشن کو بچا سکے اور وہ مجھ سے این آر او جیسا معاہدہ بھی مانگیں گے جیسا انہوں نے ماضی میں نواز شریف کے ساتھ کیا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ کرپشن کے خلاف کھڑے ہونے والی جماعت کی ایسی حکومت کا کیا فائدہ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کا پیپلز پارٹی سے اتحاد ممکن نہیں ہے۔ جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طاقتور شخصیات کے بارے میں اکثر افسانوی باتیں گھڑی جاتی ہیں۔ اب ہم نظریہِ باجوہ کے بارے میں سن رہے ہیں۔ اس لفظ کا استعمال کچھ میڈیا حلقے اور خود ایک ٹی وی انٹرویو میں آئی ایس پی آر کے سربراہ بھی کرچکے ہیں۔اس نظریے کے مطابق آرمی چیف کے پاس نازک سیاسی مسائل سے لے کر معیشت اور خارجہ پالیسی تک ہر چیز پر ایک عظیم الشان وژن ہے۔ کیا ہمیں حیرت زدہ ہونا چاہیے؟ بالکل نہیں۔ کیا ہم فوج کے گزشتہ سربراہان کو بھی ایسا ہی دانا قرار دیا جانا بھول چکے ہیں؟۔مگر جنرل قمر باجوہ کی جو خوبیاں گنوائی جا رہی ہیں، وہ انہیں اپنے پیشروں سے بھی بالاتر دکھا رہی ہیں، یعنی ایک ایسا مسیحا جس کی قوم کو ایک عرصے سے ضرورت تھی۔ اگر میڈیا حلقوں پر اعتبار کیا جائے تو یہ 'نظریہ' خارجہ پالیسی میں ایک انقلابی تبدیلی لانے کا وعدہ کرتا ہے جو کہ گزشتہ 70 سال کی 'احساسِ برتری' کی پالیسی سے بالکل مختلف ہوگی۔ یہ تو بہت زبردست بات ہے۔اس 'نظریے' کے مطابق جنرل پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں اور عالمی طاقتوں سے تعلقات میں توازن چاہتے ہیں۔ پرتشدد انتہاپسندی بالکل بھی قابلِ قبول نہیں مگر سدھر جانے والے جہادیوں کو مرکزی دھارے میں لانا اس 'نظریے' کے تحت اہم ہے۔'جمہوریت پسند' اور قانون کی بالادستی کے سخت حامی قرار دیے جانے والے جنرل اس 'نظریے' کے مطابق ہمارے سیاسی نظام سے ناخوش ہیں، اور ان کا ماننا ہے کہ آئین میں 18ویں ترمیم نے ملک کو کنفیڈریشن میں بدل دیا ہے۔ بظاہر ان کا سب سے بڑا خدشہ معاشی پالیسی میں بدانتظامی ہے جس نے ان کی نظروں میں پاکستان کو دیوالیہ پن کے قریب لا کھڑا کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن)کی حکومت کے شروع کیے گئے مہنگے انفراسٹرکچر منصوبوں مثلا موٹروے اور میٹرو بس، اور بینظر انکم سپورٹ پروگرام کو بھی معیشت پر بوجھ سمجھتے ہیں۔حقیقتا صحافیوں کے ایک وفد کے ساتھ حالیہ ملاقات میں آرمی چیف نے ان سب باتوں کا اظہار کیا جنہیں اب تبدیلی کے ایک عظیم 'نظریے' کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنرل صرف اپنے ادارے کی سوچ کا اظہار کر رہے تھے، جسے ان کے ذاتی وژن کے طور پر نہیں سمجھنا چاہیے۔ کوئی شخص ان کی(یا فوج کی)جانب سے مسائل کی تشخیص سے اتفاق کرسکتا ہے مگر نازک سیاسی اور معاشی مسائل کے لیے ان کے حل بے انتہا سادہ ہیں۔ایک کے بعد ایک فوجی حکمرانوں نے حالات بدلنے کے نام پر تختے الٹے مگر انہوں نے اگر زیادہ نہیں تو اتنے ہی خراب حالات میں ملک کو چھوڑا جن میں انہوں نے اقتدار سنبھالا تھا۔ اسی طرح بھلے ہی ان کی اظہار کردہ نیت کے بارے میں شک نہ ہو، مگر سیاسی صورتحال، معیشت اور دیگر مسائل پر ان کی آرا نے منتخب سویلین حکومت اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو آشکار کردیا ہے۔بھلے ہی جنرل اقتدار حاصل کرنا نہیں چاہتے مگر کچھ لوگوں کے نزدیک یہ بحرانی صورتحال میں سب سے آسان کام ہے۔ وہ منتخب سویلین حکومتوں کو کھلی چھوٹ بھی نہیں دینا چاہتے۔ سیاستدانوں پر عدم اعتماد شدید ہے مگر اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ عام انتخابات ہوں گے۔لیکن اگر سینیٹ چیئرمین شپ کے حالیہ انتخابات کسی چیز کا اشارہ ہیں تو یہ واضح ہے کہ نواز شریف اور ان کے حامیوں کو مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ میں جگہ نہیں دی جائے گی۔ عدلیہ کے ساتھ مل کر فوج کا سایہ ابھرتے ہوئے سیاسی سیٹ اپ پر قائم رہے گا۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ ملک کے زیادہ تر تفتیشی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پہلے ہی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی زیرِ نگرانی کام کر رہے ہیں۔مگر جو چیز سب سے زیادہ تشویش ناک ہے وہ 18ویں ترمیم کے بارے میں فوج کے نظریات ہیں۔ تاریخی قانون سازی جس نے صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خودمختاری دی ہے، اسے پارلیمنٹ نے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے اتفاق سے منظور کیا تھا۔ یہ بات درست ہے کہ کچھ صوبوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں صلاحیت کے مسائل کا سامنا کیا ہے مگر اسے بھی باقاعدہ مرحلے کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے۔اس سے بھی اہم بات یہ کہ 18ویں ترمیم نے وفاق کو مضبوط کیا ہے اور مرکز اور صوبوں کے درمیان کشمکش کی ایک مستقل وجہ کو ختم کردیا ہے۔ مرکز میں اختیارات کے جمع ہونے سے بالخصوص چھوٹے صوبوں کے لیے سنگین مسائل پیدا ہوئے تھے۔ ملک کو واقعی یکساں تعلیمی نظام کی ضرورت ہے اور صوبائی قوانین میں بہتری کی بھی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ 18ویں ترمیم کو ختم کرنے کی واحد کوشش اگر ہوسکتی ہے تو غیر آئینی ہی ہوسکتی ہے، اور اگر ایسا کرنے کی کوشش بھی کی گئی تو اس کے نتائج تباہ کن ہوسکتے ہیں۔یہ بات بھی درست ہے کہ معیشت نہایت خراب حالت میں ہے اور سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار جو اب کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اس مالی بدانتظامی کے لیے ذمہ دار تھے۔ یہ بحران کافی عرصے سے جنم لے رہا تھا اور یہ مسئلہ تیزی سے گرتے ہوئے زرِ مبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے مزید سنگین ہوا۔ مگر پھر بھی صورتحال ناقابلِ درستی نہیں ہے۔نظریہِ باجوہ کہلایا جانے والا یہ وژن بحران کا کوئی فوری حل نہیں پیش کرسکتا۔ معیشت قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے، مگر اتنا ہی ضروری جمہوری مرحلے کا جاری رہنا بھی ہے، چاہے اس میں کتنی ہی خامیاں کیوں نہ ہوں۔ معاشی ترقی سیاسی استحکام سے بھی منسلک ہے اور فوجی حکومتوں کا بھی کوئی قابلِ فخر معاشی ریکارڈ نہیں رہا ہے۔یہ نظر آ رہا ہے کہ خارجہ اور قومی سلامتی پالیسیاں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ہی ہاتھ میں رہی ہیں۔ جنرل باجوہ کے ان الفاظ سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں غیر معمولی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ مگر ہمارے خارجہ پالیسی چیلنجز بہت بڑے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر چیلنجز سیکیورٹی کے گرد گھومتی ہماری پالیسیوں کی وجہ سے ہیں جس کے لیے عسکری قیادت ذمہ دار ہے۔ یہ معیشتوں کا دور ہے اور ایک جامع خارجہ پالیسی کے لیے ضروری ہے کہ ہم پڑوسی ممالک بشمول ہندوستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات وسیع کریں۔ہاں ہم نے عسکریت پسندی کو شکست دینے اور قبائلی علاقوں میں ریاست کی رٹ بحال کرنے کے لیے بہت کچھ کیا ہے مگر ابھی بھی ہمارے وجود کے لیے خطرہ بنی ہوئی پرتشدد مذہبی انتہاپسندی سے نمٹنے کی کوئی واضح حکمتِ عملی نظر نہیں آتی۔ملکی اور خارجہ پالیسی مسائل پر ایک متبادل 'نظریہ' پیش کرنے کے بجائے سول ملٹری قیادت کے درمیان خارجہ پالیسی کے اہم امور پر خلیج پر کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔بدقسمتی سے ہمارے پاس کسی بھی چیز پر قومی بیانیہ نہیں ہے۔ نظریہِ باجوہ کہلانے والا یہ نظریہ ایک شخص کے نظریات سے زیادہ ایک ادارہ جاتی سوچ ہے۔ایسوسی ایٹڈ پریس سروس(اے پی ایس)