جمہوریت کی موت کیسے ہوتی ہے ؟۔ چودھری احسن پریمی



 جمہوریت کتنی مضبوط ہے، اس کی جانچ کے لیے ہارورڈ یونیورسٹی کے 2 پروفیسر اسٹیون لیوٹسکی اور ڈینیئل زیبلیٹ
 ایک چیک لسٹ پیش کرتے ہوئے خبردار کرتے ہیں کہ الیکشن تمام مسائل کا حل نہیں ہے۔ مطلق العنان حکمران بھی منتخب ہوتے ہیں اور جمہوریت کا لبادہ اوڑھے رکھتے ہیں، جبکہ اس کی روح کو کھوکھلا کردیتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ادارے اکیلے ہی منتخب مطلق العنان حکمرانوں کو لگام دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتے بلکہ جہاں سیاسی جماعتوں اور شہریوں پر آئین کی حفاظت لازم ہوتی ہے، وہاں اس کی جمہوری روایات کے ذریعے حفاظت بھی لازم ہے۔ 
اپنی تازہ ترین کتاب How Democracies Die (جمہوریتوں کی موت کیسے ہوتی ہے) میں وہ لکھتے ہیں: مضبوط جمہوری روایتوں کے بغیر آئینی ضوابط اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام جمہوریت کی مضبوطی کا وہ سبب نہیں بنتے جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں۔ ادارے سیاسی ہتھیار بن جاتے ہیں جن کا استعمال وہ لوگ ان کے خلاف کرتے ہیں، جن کا ان اداروں پر اختیار نہیں ہوتا۔
ایک اور سنسنی خیز اقتباس ہے جو نشاندہی کرتا ہے کہ مطلق العنان حکمران کس طرح جمہوریت کو کھوکھلا کرتے ہیں۔ عدالتوں اور دیگر اداروں پر دھونس جما کر، میڈیا اور نجی شعبے کو خرید کر (یا زبردستی خاموش کروا کر) اور سیاست کے قواعد تبدیل کرکے، جس میں میدان مخالفین کے لیے ناموافق بنا دیا جاتا ہے۔ مطلق العنانیت کے انتخابی راستے کا افسوسناک انجام یہ ہے کہ جمہوریت کے قاتل جمہوری اداروں کا ہی آہستگی، غیر محسوس اور قانونی انداز میں استعمال کرتے ہیں تاکہ جمہوریت کو قتل کیا جاسکے۔
  جبکہ سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ نواز شریف اب اپنی غلطیاں مان رہے ہیں اور مجھے ان کے متعدد پیغامات آچکے ہیں لیکن ہمیں اب ان پر اعتبار نہیں ہے۔مضبوط جمہوری روایتوں کے بغیر آئینی ضوابط اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام جمہوریت کی مضبوطی کا وہ سبب نہیں بنتے جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں۔اس ضمن میں سیاسی جماعتوں کے لیڈر کا کہاں کھڑے ہیں کیا وہ محسوس نہیں کر رہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے ؟۔جبکہ آصف علی زرداری نے کہا کہ شریف برادران کبھی الیکشن جیتتے نہیں بلکہ ہمیشہ الیکشن بناتے ہیں، ان لوگوں نے 2013 کے انتخابات بھی آر اوز کے ذریعے بنائے لیکن ہم نے جمہوریت کی خاطر ان کا ساتھ دیا۔انہوں نے کہا کہ میاں صاحب جمہوریت کو چھوڑ کر شہزادہ سلیم بن گئے، پھر ان پر دوسری جمہوری طاقتوں نے حملہ کیا تو اس وقت بھی ہم نے انہیں بچایا لیکن یہ پھر بھی باز نہ آئے اور انہوں نے ڈاکٹر عاصم کے خلاف کیسز بنا دیئے، میرا اینٹ سے اینٹ بجانے والا بیان بھی ان کے لیے تھا کیونکہ ان کے اندر جمہوری طرز عمل نہیں ہے۔آصف زرداری کا کہنا تھا کہ نواز شریف اب اپنی غلطیاں مان رہے ہیں اور مجھے ان کے کئی پیغامات بھی موصول ہوئے ہیں لیکن اب ان پر اعتبار نہیں ہے۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمن نواز شریف کے ساتھی اور میرے سیاسی مخالف ضرور ہیں لیکن وہ جو بات کرتے ہیں اس پر قائم رہتے ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنماوں کی تحریک انصاف میں شمولیت سے متعلق انہوں نے کہا کہ جو لوگ پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں ان کا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے، انٹرنیٹ کا دور ہے ایک بٹن دبانے سے ساری چیزیں سامنے آجاتی ہیں۔آئندہ عام انتخابات میں سیاسی اتحاد کے حوالے سے سابق صدر کا کہنا تھا کہ متحدہ مجلس عمل(ایم ایم اے)سمیت سب کے ساتھ اتحاد ہو سکتا ہے لیکن ابھی اس حوالے سے کسی سے کوئی بات نہیں ہوئی، عام انتخابات میں آزاد امیدوار زیادہ کھڑے ہوں گے جس کے ساتھ اتحاد کے امکانات زیادہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ الیکشن ہوں گے اور صاف و شفاف ہوں گے، آئندہ الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت ہوگی۔عدالتوں کے کردار سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں نے ہمارے خلاف سب سے زیادہ پھرتیاں دکھائیں لیکن ہم نے ہمیشہ عدالتی فیصلوں کے خلاف مثبت تنقید کی۔ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کا رویہ صحیح ہونا چاہیے اور موجودہ چیف جسٹس عدلیہ کو اچھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس وقت کم ہے۔سینیٹ انتخابات میں پیسوں کے استعمال کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اگر پیسے کے استعمال کی بات ہے تو میں نواز سے زیادہ پیسے استعمال نہیں کر سکتا، سینیٹ انتخاب میں پیسے کے استعمال کا نہیں پتہ لیکن میں نے اثر و رسوخ کا استعمال ضرور کیا۔جبکہ سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف نے کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ آئندہ 10 سے 20 دنوں بعد میرا مستقبل کیا ہوگا اور میں کہاں ہوں گا لیکن جہاں بھی ہوں گا میرے نظریے میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھ پر پہلے بھی مشکلات آئیں اور 7 سال جلا وطن کردیا گیا اور 14 ماہ جیل میں بھی رکھا لیکن یہ لوگ مجھے خوف زدہ نہیں کرسکے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ان مظالم اور زیادتیوں کے خلاف ہمیں کھڑا ہونا چاہیے۔نواز شریف نے کہا کہ اگر اب ان اقدامات کے خلاف کھڑے ہوں گے تو ہمارے آئندہ 70 سال بہتر ہوں گے اور اس ملک میں کسی وزیراعظم نے اپنی مدت پوری نہیں کی اور یہ صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں آئین اور قانون کو کچھ نہیں سمجھا جاتا اور اسے اپنے جوتوں کی نوک پر رکھا جاتا۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس ملک کے 3 ستون ہیں؛ عدلیہ، پارلیمان اور حکومت، لیکن آج حکومت کی رٹ کہاں ہے، کیا اب پارلیمان کی کوئی حیثیت ہے؟۔انہوں نے مزید کہا کہ کیا ہم ان سب چیزوں کو بیٹھ کر دیکھتے رہیں گے یا ان کے خلاف کوئی کام بھی کریں گے؟ اور اگر یہ سب نہیں کرنا تو ہمیں عوام کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں۔نواز شریف نے کہا کہ ہمارے لیے اگر مخلوق کی کوئی اہمیت نہیں تو پھر ہمارا فائدہ نہیں، ہمیں اپنی سوچ اور فکر کو تبدیل کرنا ہوگا اور اگر ہم نے اپنی 20 سے 40 سالہ سیاست میں کوئی اصلاحات نہیں لاسکے تو ہمیں معافی مانگنی چاہیے اور اس کی بہتری کے لیے ہمیں عہد کرنا چاہیے اور یہ بہت بڑی خدمت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ آئندہ 10 سے 20 دنوں کے بعد میرا مستقبل کیا ہوگا اور میں کہاں ہوں گا لیکن جہاں بھی ہوں گا میرے نظریے میں تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ اگر ہم نے اپنے ملک کو بدلنا ہے تو ہمیں راستہ بدلنا ہوگا۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گزشتہ 70 برسوں میں ہم رسوائی کے دور سے گزرے اور ہم نے ذلت اٹھائی اور 1971 میں ہمیں اپنی غلطیوں کا خمزایہ بھگتنا پڑا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بطن سے پیدا ہونے والا بنگلہ دیش آج ہم سے آگے نکل گیا اور ان کا ٹکہ ہمارے روپے سے زیادہ مضبوط ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا نعرہ  ووٹ کو عزت دو پاکستان کے گھر گھر میں پہنچ گیا اور لوگوں کو یہ بتادیا کہ ان کے ووٹ کی کیا عزت ہے اور اب ہمیں اس نعرے پر عمل کروانا ہے۔انہوں نے کہا کہ جس طرح لوگوں کے جذبات اب دیکھ رہا ہوں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے اور اب قوم کے بڑے حصے کے کھڑے ہونے کا وقت آگیا ہے۔نمائندوں سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ بہت کوشش کی گئی کہ پارٹی کے لوگوں کو توڑا جائے اور جن لوگوں کو توڑا گیا وہ ہمارے تھے ہی نہیں اور آئندہ عام انتخابات میں ہمیں انہیں ٹکٹ بھی نہیں دینا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی حکومت کی تبدیلی اور سینیٹ انتخابات میں جو ہوا اس کی مثال نہیں ملتی اور لوگوں کو پیسوں سے خریدا گیا اور پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے تیر کے نشان پر ووٹ لگایا گیا۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کس منہ سے تبدیلی کا نعرہ لگاتی ہے جبکہ جماعت اسلامی نے بتا دیا کہ پرویز خٹک نے کہا تھا کہ اوپر سے آرڈر آیا ہے۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اب تحریک اںصاف اوپر سے آرڈر کی وضاحت یہ کہہ کر دے رہی کہ بنی گالا سے آرڈر تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر اوپر سے ہی آرڈر لینے ہیں تو سیاست نہیں کرنی چاہیے اور عمران خان اوپر سے آرڈر لیتے ہیں اور تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور یہ منافقت ہے۔نواز شریف نے کہا کہ عمران خان زرداری کو بیماری کہتے تھے اور انہی کے نشان پر ووٹ دیا اور انہیں چیزوں نے پاکستان کی سیاست کو تبدیل کیا اور اسے صرف عوام روک سکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے دس نکات کا
 اعلان کیا ہے ، جن میں  انہوں نے آئندہ کی پارٹی پالیسی دی ہے۔لاہور میں غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں اور سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ نواز شریف نیلسن منڈیلا نہیں بلکہ مارکوس ہیں، جبکہ شہباز شریف کرپٹ ٹولے کے چیف ہیں۔انہوں نے کہا کہ پہلے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) اور دیگر جماعتیں مدمقابل ہوتی تھیں، لیکن اب تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) میں مقابلہ ہوگا۔ملکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا یہ سول اداروں کے دائرہ اختیار میں ہے، تاہم جہاں سیکیورٹی کے معاملات ہوں وہاں سیکیورٹی اداروں کی مشاورت ضروری ہوتی ہے۔عمران خان نے کہا کہ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے کہا تھا جو بھی ہو مذاکرات کا راستہ بند نہیں ہونا چاہیے، لیکن مودی کا مائنڈ سیٹ ایسا نہیں کہ ان کے ساتھ مذاکرات ہوں۔قوانین اور دیگر نامکمل جمہوری اداروں میں جگہ موجود ہے. لوگ اب بھی ووٹ دیتے ہیں. انتخابی آٹوموٹس جمہوریہ کی نمائش کو برقرار رکھنے کے دوران اپنے مادہ کو بے نقاب کرتے ہیں.جمہوریت کو ختم کرنے کے لئے بہت سی سرکاری کوششیں "قانونی" ہیں، اس لحاظ سے کہ وہ قانون سازی کی طرف سے منظوری دیتے ہیں یا عدالتوں کو قبول کرتے ہیں. انہیں جمہوریت کو بہتر بنانا، عدلیہ کو زیادہ موثر، بدعنوانی کا مقابلہ کرنے یا انتخابی عمل کی صفائی کو بہتر بنانے کی کوششوں کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے.اخبارات اب بھی شائع کرتے ہیں لیکن خود کو خریدنے یا خود سنسر میں ڈال دیا جاتا ہے. شہریوں نے حکومت پر تنقید جاری رکھی ہے لیکن اکثر خود کو ٹیکس یا دیگر قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے. یہ عوامی الجھن کا بوجھ ہے. لوگ فوری طور پر نہیں سمجھتے ہیںکہ کیا ہو رہا ہے. بہت سے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ وہ جمہوریت کے تحت رہ رہے ہیں.لیکن ایسا نہیں ہے۔کیونکہ وہاں کوئی لمحہ نہیں ہے - کوئی مارشل قانون کا اعلان، یا آئین کی معطلی - جس میں حکومت واضح طور پر "تنازعہ" کریکٹر میں "کراس"، معاشرے کے الارم کی گھنٹوں کو کچھ بھی نہیں بنا سکتا. جو لوگ حکومت کی بدعنوانی کی مذمت کرتے ہیں ان کو مبالغہ یا روبوٹ کے طور پر مسترد کیا جا سکتا ہے. ڈیموکریسی کی کشیدگی، بہت سی، تقریبا ناقابل قبول ہے. ایک بار جب اقتدار اور اختیار ملتا ہے تو جمہوریت کو دوسرا اہم امتحان کا سامنا کرنا پڑتا ہے: خود مختار رہنما کیا جمہوری اداروں کو ختم کردیں گے یا ان کی طرف سے پابند رہیں گے؟۔سیاسی جماعتوں اور منظم شہریوں کی طرف سے بلکہ جمہوری معیاروں کے ذریعہ قوانین کا دفاع ہونا چاہئے. مضبوط معیار کے بغیر، آئینی چیک اور بیلنس جمہوریت کی بربادیوں کے طور پر کام نہیں کرتے. ہم انہیں تصور کرتے ہیں. ادارے سیاسی ہتھیار بن جاتے ہیں، جو ان لوگوں کے خلاف کنٹرول کرنے والے افراد پر زور دیتے ہیں جو وہ نہیں کرتے. اخلاقیات کے لئے انتخابی راستہ کی پریشانی کا اختلاف یہ ہے کہ جمہوریہ کے قاتلین جمہوریت کے بہت سے اداروں کو استعمال کرتے ہیں - آہستہ آہستہ، ذلت اور یہاں تک کہ قانونی طور پر بھی اسے  ہلاک کر دیتے ہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ نفرت سے زیادہ ہمیں آئین کے دفاع کی ضرورت ہے۔