میڈیا کا گلا دبانے کی لگی بازی ایک بڑا سانحہ کی منتظر



تحریر: چودھری احسن پریمی
عالمی یومِ آزادی صحافت، کا مقصد عالمی سطح پر آزاد صحافت کو حملوں سے محفوظ رکھنے اور صحافیوں کے خلاف ہونے والے جرائم کے خلاف قانونی کارروائی کو ممکن بنانے کے لیے آواز اٹھانا ہے سو رواں برس عالمی آزادی صحافت کا دن بھی ایسے موقعے پر آیا ہے جب پاکستان میں میڈیا کی آزادی محدود ہوتی جا رہی ہے، خاص طور پر ایسے موقعے پر جب عام انتخابات سر پر ہیں۔ گزشتہ ماہ انگریزی اخبارات کے لیے باقاعدگی سے لکھنے والے کئی کالم نگاروں کو ایڈیٹرز کی جانب سے مطلع کیا گیا کہ ان کے کالم ان کے اخبارات میں شائع نہیں ہوں گے۔مشرف زیدی 10 برسوں سے دی نیوز کے لیے لکھتے رہے ہیں، مگر ان 10 سالوں میں پہلی بار اخبار نے ان کا کالم شائع نہیں کیا۔انہوں نے اپنا کالم ٹوئٹر پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ، مضبوط قومیں صحتمند بحث کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ جبکہ کمزور قومیں اس سے خائف ہوتی ہیں۔ پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے جتنی اجازت ملی ہوئی ہے پاکستان اس سے زیادہ مضبوط ہے۔جب بابر ستار کا کالم بھی اسی اخبار سے خارج کیا گیا تو انہوں نے ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے اپنا کالم ٹوئیٹ کردیا۔ اخبار میں شائع ہوچکے کچھ مواد کو اخبار کی ویب سائٹ سے خارج کردیا گیا ہے۔جہاں پریس اس ملک میں جو دہائیوں فوجی آمریت کے سائے تلے رہا ہے، سینسرشپ سے انجان نہیں، وہاں آج، میڈیا کے درمیان تقسیم نے اس غیر جمہوری دبا کی مزاحمت کرنے کی پریس کی صلاحیت کو کمزور کردیا ہے۔میڈیا کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے فریڈم نیٹ ورک کی تازہ رپورٹ کے مطابق مئی 2017 سے اپریل 2018 کے درمیان صحافیوں پر 157 حملے ریکارڈ کیے گئے جبکہ ان میں سے 55 حملے تو صرف اسلام آباد میں ہی ہوئے۔ایک کالم نویس رزشتہ سیٹھنا نے گزشتہ دنوں عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر ایک انگریزی اخبار میں اپنے کالم میں تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ اب جبکہ عسکریت پسندوں کی جانب سے خطرات نمایاں حد تک کم ہوچکے ہیں، مگر پھر بھی وفاقی دارالحکومت صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک جگہ بن کر سامنے آیا۔ لیکن اس بار، ریاستی ایجنسیوں کی جانب سے سنجیدہ خطرات کا سامنا ہے۔ہمارے ملک جیسی ناپختہ جمہوریتوں میں تنقیدی خیالات کو نشانہ بنانے کی وجہ کمزور ادارے، محدود عدالتی ڈھانچے اور سیاسی عزم کی کمی ہے، جہاں ایسی صورتحال ہو وہاں آزاد صحافت کا تصور کس طرح ممکن ہے۔بہرحال میڈیا کو سیلف سینسرشپ جیسے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یعنی اپنی آواز خود ہی بند کر لینا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکریٹری جنرل نے بتایا کہ، دائیں، بائیں اور مرکز سے دبا ہوتا ہے۔ میں اپنی مرضی کے مطابق تحریر نہیں کرپاتا ہوں۔ آخر میں اس بات کی ذمہ داری کس طرح لے سکتا ہوں جس بات کو لکھنے کے لیے مجھے کہا گیا ہے؟۔موجودہ حالات میں کالم نگاروں کا کہنا ہے کہ انہیں کچھ 'حساس' موضوعات پر نہ لکھنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ حقوق کے لیے مطالبہ کرنے والی پشتون تحفظ موومنٹ بھی ایسا ہی ایک مسئلہ ہے۔دی نیوز انٹرنیشنل کے طلعت اسلم نے ایک کالم نویس کو  بتایا ہے کہ کیوں: "ہمیں کہا گیا تھا کہ اس معاملے پر کم رپورٹنگ کریں کیوں کہ یہ (سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے)بیانیے کے ایک بڑے حصے کو زک پہنچا رہا ہے۔ کئی سالوں تک وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میڈیا کی نظروں سے مکمل طور پر اوجھل رہے۔ ہمیں صرف آئی ایس پی آر کی جانب سے مارے گئے جنگجوں کی تعداد بتائی جاتی۔ پہلی دفعہ ہم اس کے لیے رہنماوں سے ان مسائل کے بارے میں سن رہے ہیں جن پر ہم نے کبھی بھی بات نہیں کی ہے۔ تبھی اس بیانیے کو فوج مخالف سمجھا گیا، اور جیسے ہی اس میں کابل کی مداخلت کا شبہ ہوا، تو کوریج پر پابندی کا حکم دیا گیا۔"شمالی وزیرستان سے ایک رپورٹر رسول داور ایک کالم سے کہتے ہیں کہ قبائلی صحافی جانتے ہیں کہ انہیں فوج کے بالکل بھی خلاف نہیں جانا ہے۔ ان کے مطابق نوجوان پختون کارکنوں کی جانب سے پریس پر پابندی کا سوشل میڈیا کے ذریعے مقابلہ کرنے کے باوجود وہ اب بھی اس قابل نہیں کہ ایسے ہی مسائل، مثلا جبری گمشدگیوں کے بارے میں لکھ سکیں۔جنگ گروپ کا جیو ٹی وی ملک کے زیادہ تر حصوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ یہ پابندی نہ ہی سرکاری ریگولیٹری ادارے پیمرا اور نہ ہی وزارتِ اطلاعات کی جانب سے عائد کی گئی۔ کیبل آپریٹرز کا دعوی ہے کہ انہیں ہدایات دی گئی تھیں کہ کن چینلز کو پچھلے نمبرز پر دھکیلنا، یا پھر بند ہی کر دینا ہے۔کئی صحافیوں اور ایڈیٹرز کا کہنا ہے کہ انہیں یا تو 'ہدایات' دی جاتی ہیں کہ کون سی خبریں نہیں جانی چاہیئں، یا پھر وہ خود ہی خوف کے مارے اپنے مواد پر کنٹرول رکھتے ہیں۔سینیئر صحافی نسیم زہرہ اسے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے احساسِ عدم تحفظ کے طور پر دیکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ"ہر طرح کی سینسرشپ کی مذمت کی جانی چاہیے۔ اس میں اگر مگر کی گنجائش نہیں ہے۔ میڈیا کو لڑ جھگڑ کر وہ آزادی واپس لینی چاہیے جو اس نے حاصل کی تھی۔"کاروبار میں رہنے کی بنیادی شرائط یہ ہیں کہ فوج پر کسی بھی قسم کی تنقید کو سینسر کر دیا جائے، اور مسلم لیگ (ن) کی جانب جھکا محسوس ہو تو اسے دبا دیا جائے، بشمول سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی اپنی نااہلی کے بعد عدلیہ مخالف تقاریر کی میڈیا کوریج کو۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ حالات کبھی اتنے خراب ہوئے ہوں۔ ضیا اور جونیجو دور میں بھی دبا ہوتا تھا مگر اب یہ زیادہ کھلے عام اور مطلق العنان ہے۔ سینیٹ انتخابات میں جو ہوا اور خواجہ آصف کی نااہلی کو دیکھتے ہوئے یہی پوچھوں گا آخر ہم کس طرح کے انتخابات کی جانب جا رہے ہیں؟"سینیئر صحافی حامد میر کہتے ہیں، "جیو کو اس حوالے سے ادارتی پوزیشن لینی چاہیے مگر (نواز) شریف کا وکیل نہیں بننا چاہیے۔"انہوں نے بتایا کہ سینسرشپ کا تازہ ترین دور صحافیوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے جنہوں نے ہمیشہ غیر یقینی اور خوف کا سامنا کیا ہے۔"2015 میں تو حالات اور بھی خراب تھے جب صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ مگر آج ہمیں کبھی لائیو جانے والے اپنے پروگرام پہلے سے ریکارڈ کرنے پڑتے ہیں اور ہمارے مضامین روک دیے جاتے ہیں۔"اپوزیشن جماعتوں اور کچھ میڈیا اداروں کی جانب سے اس طرح کی جابرانہ ہدایات پر کم ہی ردِ عمل سامنے آتا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر کے مطابق پارٹی کا "الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ معقول تعلق ہے۔ یہ تعلق ترش یا دشمنی پر مبنی نہیں ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت میڈیا پر دباو نہیں ڈال سکتی مگر حکومتیں کر سکتی ہیں اور کرتی بھی ہیں۔"جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کی جماعت نے میڈیا پر پابندیوں کے خلاف کیوں بات نہیں کی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ: "میڈیا کی آزادی کو سب سے بڑا خطرہ موجودہ حکومت کی جانب سے دولت کے بل پر (میڈیا پر اثرانداز)ہونے سے ہے۔"یاد کریں کہ جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے 2007 میں نجی ٹی وی چینلز کے خلاف کریک ڈاون کیا تھا، تو سیاسی جماعتوں اور ایڈیٹرز، دونوں نے ہی اس کے خلاف احتجاج کیا تھا۔مگر اب کی بار مضبوط ہوتی ہوئی اس گرفت کے خلاف حزبِ اختلاف کی کسی بھی جماعت نے اب تک احتجاج نہیں کیا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ میڈیا گروپس کی آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے صنعت مزید مشکلات کا شکار ہوئی ہے۔پاکستان میں اپنی پریس کے بارے میں مرکزی بیانیہ یہ ہے کہ یہ بے قابو ہے، چنانچہ جب کسی میڈیا ہاوس کا گلا گھونٹا جاتا ہے اور کئی میڈیا گروپس سینسرشپ کی 'ہدایات' پر عمل کرتے ہیں تو اسے آزادی اظہار کے خلاف نہیں سمجھا جاتا، خود میڈیا کے اپنے کئی حلقوں کی جانب سے بھی نہیں۔مگر جو بازی لگی ہوئی ہے، اسے دیکھتے ہوئے واضح ہے کہ ایک سانحہ ہمارا منتظر ہے"۔
 جدید صحافت میں ایک اصطلاح "گیٹ کیپر" استعمال ہوتی ہے جس کے ذمے ان خبروں کو روکنا ہوتا ہے جن سے معاشرے پر منفی اثر پڑنے کا خدشہ ہو۔ یہ انتہائی اہم ذمہ داری ہے اور اسے معاشرتی اتار چڑھا اور مزاج سے واقف شخص ہی سر انجام دے سکتا ہے۔گیٹ کیپر ایک ہلکا لفظ ہے، شاید اسی لیے اہم ہونے کے باوجود پاکستان کا کوئی صحافی یا صحافتی ادارہ اسے اپنے اوپر چسپاں کرنا توہین صحافت سمجھتا ہے۔ صحیح علم تو نہیں مگر لگتا یہی ہے کہ پاکستان میں اس عہدہ پر کوئی صحافی فائز نہیں ہے.مطلق العنانی چونکہ ہمارے ہاں عام ہے لہذا اس کا نتیجہ بھی اکثر نکلتا رہتا ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی بھی صحافتی ادارے کا
 مالک ایک خبر کو عام کرنا چاہے اور گیٹ کیپر اسے یہ کہہ کر رد کر دے کہ یہ معاشرے کے لیے مناسب نہیں۔بعض دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ صحافتی اداروں میں اس قسم کی پالیسی کے نتائج وہی نکلتے ہیں جو ہم نے گزشتہ دنوں سے دیکھے ہیں۔ باقی دنیا کی بات نہیں کرتے مگر وطن عزیز میں آزادی صحافت کا حقیقی مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ صحافی برادری کو اس بات کے کلی اختیارات حاصل ہوں کہ وہ سرعام کسی کا بھی پائجامہ ڈھیلا کر سکیں۔اختلاف رائے رکھنا زندہ معاشروں کی پہچان ہے مگر کسی بھی فرد یا ادارے کا محض اسے رسوا کرنے کے لیے پیچھا کرنا مناسب عمل نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں میڈیا کو محض کسی کے خلاف یا حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔گو میڈیا کا کام لوگوں کی راہنمائی کرنا اور اطلاع دینا ہی ہے مگر انہیں اپنے معاشی مفاد کے لیے استعمال کرنا ہرگز نہیں ہے۔ میڈیا لوگوں کو آگاہ تو کر سکتا ہے انہیں سمت تو دکھا سکتا ہے مگر فیصلہ خود نہیں کر سکتا اور نہ ہی اسے اس بات کا اختیار ہے کہ وہ لوگوں کو وہی سمت دکھائے جو وہ دکھانا چاہتا ہے یا دوسرے لفظوں میں وہ سمت جس کا اس نے سودا طے کر رکھا ہو۔ یہ بھی وضاحت ضروری ہے کہ تمام میڈیا ایسا نہیں ہے مگر زیادہ تر ایسا ہی ہے۔پاکستان صحافت کے لیے خطرناک ملک ہے۔ اعداد و شمار یہی بتاتے ہیں مگر پاکستانی صحافت میں کرپشن اور غیر ذمہ داری کے اعداد و شمار آج تک سامنے نہیں آئے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو بہت جلد عام لوگوں کا اعتماد صحافت سے مکمل طور پر اٹھ جائے گا جو جزوی طور پر پہلے ہی اٹھ چکا ہے۔یہ بات طے ہے کہ لوگوں کی راہنمائی کا حق صرف اسی کو حاصل ہے کہ جس کا اپنا دامن مکمل صاف ہو، غلطی ہو سکتی ہے مگر غلطی کو بار بار دہرانا غلطی شمار نہیں کیا جا سکتا ہے، پاکستان میں آزادی اظہار پر پابندیاں ضرور رہی ہیں مگر گزشتہ عشرے سے ملنے والی آزادی کو ہمارے میڈیا نے جس طرح "کیش" کرانے کی کوشش کی ہے وہ چند الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ادھر صحافت جن اداروں یا افراد کے خلاف صف آرا ہے ان کا بھی اللہ ہی حافظ ہے مگر یہاں ان پر بات کرنے سے بات لمبی ہو جائے گی۔اس ساری صورتحال کا حل بہرحال تمام صحافتی اداروں کو تلاش کرنا اور اس پر عمل کرنا ہو گا۔ صحافت ایک فن ہونے کے ساتھ ساتھ پیشہ، تجارت اور ذمہ داری بھی ہے اور اس کے کچھ قواعد و ضوابط بھی ہیں جن پر اگر تو مروجہ صحافت عمل پیرا ہے تو پھر اسے واویلا کرنے کا حق بھی ہے اور اس حق کی راہ میں مرنے والا شہید بھی ہے. لیکن اگر کوئی صحافت اور آزادی صحافت کا نام استعمال کر کے اپنے ذاتی مقاصد حاصل کرنا چاہے تو اسے صحافی اور شہید نہیں بلکہ مجرم قرار دینا چاہیے۔پاکستان میں صحافت کی کچھ ساکھ اب بھی باقی ہے چنانچہ اسے بہتر کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے صرف ایک ہی کام کرنا ہو گا کہ قواعد و ضوابط اور صحافتی اصولوں کو مدنظر رکھ کر صحافت اور لوگوں کی راہنمائی کی جائے ورنہ عوام کا ساتھ ہی چھوٹ گیا تو صحافت اور صحافتی اداروں کی نہ صرف عزت دو کوڑی کی ہو جائے گی بلکہ وہ کوڑی کوڑی کے محتاج بھی ہو جائیں گے اور اس کے بعد ان لوگوں کو بھی کھل کرکھیلنے کا موقع مل جائے گا جن کے خلاف آج صحافت عوام کے لئے صف آرا ہے۔ گلوبلائزیشن کے دور کی آمد کے ساتھ کئی دقیانوسی، قدیم وضع کی اقدار اب ختم ہوچکی ہیں اور یہ اقدار ایک اور قدیم اصول سے منسلک ہیں جس میں آزاد میڈیا کو ایک طرف حکمرانی پر نظر رکھنے والی آنکھ تو دوسری جانب شہریوں کی جائز شکایات پر اٹھنے والی آواز تصور کیا جاتا ہے۔بعض اخبارات اب بھی اکثر و بیشتر تنقید کا نشانہ بننے والے سچ بولنے کی عادت پر قائم ہیں۔ اس کے لیے کبھی ریاستی اداروں تو کبھی سیاسی جماعتوں کا دبا وبھی اپنے کندھوں پر برداشت کیا ہے۔مگر پھر بھی انہوں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ وہ نئے دور سے متصادم اس عادت پر قائم رہیںگر سادہ الفاظ میں کہیںتو بعض اخبارات نے نسبتا پروقار طریقے اور ہر جائز و قانونی راستے کو اپناتے ہوئے سچ بولنے کا سفر جاری رکھا ہے۔سچ بولنے کی عادت پر قائم رہنا اور اپنا سفر جاری رکھنا قارئین کی وجہ سے ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ مگر اس قومی فوقیت کے ساتھ ان پر ایک بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ کسی بھی ادارے کو مستقل مگر لچکدار انتظام کی ضرورت ہوتی ہے اوراس انتظام پر قائم رہنے کے لیے نہ صرف روایات میں تسلسل ضروری ہے، بلکہ روایات پر قائم رہنے کا پختہ عزم بھی درکار ہے۔تاہم یہ طرزِ عمل پاکستان کی نئی نسل، جو موجودہ پاکستان میں ایک اکثریت ہے اور جس میں 30 سال سے کم عمر کے شہری شامل ہیں  کی نئی اقدار سے ہم آہنگ نظر نہیں آتا۔پر اگر یہ نسل پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں آزادیِ صحافت کے لیے اخبارات کی جدوجہد کے پیچھے موجود ورثے سے پوری طرح واقف نہیں ہے، تو پھر بھی یہ ایک آزاد معاشرے کی اخلاقی حمایت اور آزاد پسند خیالات کے ذریعے آگاہی کی اس کمی کو پورا کر دیتی ہے۔کچھ لوگ کہیں گے کہ اس نسل کو اس حوالے سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کی یہ نوجوان نسل ہمارے معاشرے کی تعمیرِ نو کے لیے ہمارے پاس موجود سب سے زبردست وسیلہ ہے۔ اس لیے سچ بولنے کی ضرورت اب بھی موجود ہے۔سچ بولنے کی روایت کو قائم رکھنے کے لیے اخبارات میں مضبوط ادارہ جاتی انتظامات موجود ہونا چاہیے ۔اخبارات کے ادارتی اور انتظامی فیصلہ سازی کے شعبوں کو الگ رکھا جانا چاہیے۔ نیز اخبارات کا مدیر ایک پروفیشنل صحافی ہونا چاہیے۔ جسے اس کی صحافتی ایمانداری، قابلیت، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی معقول رویے، اور خبریں اکٹھی کرنے اور ایک منصفانہ تبصرہ دینے میں اس کی غیر جانبداری کی بنا پر تعینات کیا جاتا ہے۔ایک بار تعیناتی کے بعد مدیران تمام ادارتی فیصلے خود لیں کیونکہ ان کا براہِ راست اثر خبریں اکٹھی کرنے کے عمل پر پڑتا ہے۔ کارپوریشن کے انتظامی اہلکار و افسران ادارتی فیصلے نہیں لیتے اور اس طرح وہ خبروں کے مواد پر کسی بھی طرح سے اثرانداز نہیں ہوسکتے۔اگر کسی مسئلے پر اختلافِ رائے پیدا ہو تو اسے مدیر اورپبلشر، جو کہ انتظامیہ کا سربراہ ہوتا ہے، کے درمیان باہمی مشاورت کے ذریعے حل کیا جائے، اور یہ سب کسی بھی خبر کے شائع ہونے کے بعد ہوتا ہے، نہ کہ اس کی اشاعت سے پہلے۔اخبارات کی ادارتی اور انتظامی فیصلہ سازی کے درمیان ایک غیر مرئی دیوار کاموجود  رہنا ضروری ہے۔اخبارات کے مدیر قدرتی طور اپنے اخبار کی مالیاتی کارکردگی، خصوصی طور پر اشتہارات اور سرکولیشن کے معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں، مگر یہ بھی باہمی مشاورت کے طے شدہ اور روایتی اصولوں کے تحت ہوتا ہے تاکہ خبروں اور منافع کے درمیان کسی قسم کے مفادات کا ٹکرا نہ پیدا ہو۔ اس باہمی مشاورت کے دونوں شرکا مدیر اور پبلشر کو نظریاتی اور عملی طور پر ایک آزاد اخبار کے اصولوں پر قائم رہنا چاہیے، اور پاکستان میں آزادیِ صحافت کی کوششوں پر عمل پیرا رہنا چاہیے۔ ملک میں چاہے جو کچھ بھی تبدیل ہو، مگر اس اصول پر عمل پیرا رہنے کی ضرورت تبدیل نہیں ہونی چاہیے۔اب جبکہ ریاست کی جانب سے سنجیدہ اور معقول ادارتی طرزِ عمل کے باوجود اخبارات کی سرزنش کی جارہی ہے تو ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں حکومتوں اور ریاستی اداروں کی جانب سے بغیر غور و خوض کے اور غلط جگہوں پر ردِعمل دینا بے حد عام ہے۔ کوئی بھی اخبار اپنے کامل ہونے اور غلطیوں سے پاک ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا۔کوئی بھی ادارہ فیصلہ سازی میں غلطی کرسکتا ہے اور اس کا اطلاق کسی بھی اخبار یا ٹی وی چینلز پر بھی ہوسکتاہے کسی بھی دوسری حکومت کی طرح موجودہ اور آنے والی حکومتوں کو بھی اس مسئلے کو دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ اس طرح حل کرنا چاہیے، جیسا کہ ایک جمہوری حکومت کو شفاف، منصفانہ اور آزاد انداز میں کرنا چاہیے۔اور ہاں، ہمیں بھی ہمیشہ خبر کی تصدیق کے اپنے طریقہِ کار کے متعلق محتاط رہنا چاہیے، خبروں کو حقائق پر مبنی اور منصفانہ رکھنا چاہیے، اور جب اس طرح کی رپورٹنگ کی بات آئے، تو قومی سلامتی پر جائز خدشات اور مطالبوں کو سمجھنا چاہیے۔

عالمی یوم آزادی صحافت کے موقع پر نیشنل پریس کلب اسلام آباد، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور راولپنڈی اسلام آبادیونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام 3مئی عالمی یوم آزادی کی مناسبت سے این پی سی اسلام آبادمیں گول میز کانفرنس بعنوان صحافیوں کو درپیش جانی و معاشی خطرات اور سیاسی جماعتوں کا منشور منعقد کیا گیا تھا۔ گو مل میز کانفر نس میں صحافیوں نے سیاسی جماعتوں کے منشورمیں آزادی صحافت اور صحافیوں کی تحفظ کے حوالے سے تجاویز اور سفارشات پیش کیں۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے نیشنل پریس کلب کے یادگار شہد ا پرحاضری دی اور پھول بھی چڑھا ئے  خورشید شاہ نے کہا کہ پی ایف یو جے کا آزادی صحافت کے لئے کردار تاریخ ساز ہے پارلیمنٹ میں الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے آنے والے بل کی بھر پور حمایت کریں گے ان کا کہنا تھاکہ میڈیاکی آزادی کو ہمیشہ ڈکٹیٹروں اور نیم ڈکٹیٹروں نے دبانے کی کوشش کی ہے میڈیا میں کام کرنے والے صحافیوں کو برقت معاوضہ ملنا چاہئے، ملکی سیاسی صورتحال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن وقت پر ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، عمران خان کو خواب میں وزارت عظمی کی کرسی نظر آتی ہے، نوازشریف جیل میں ہو یا باہر اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔جمعرات کے رو ز نیشنل پریس کلب اسلام آبادمیں عالمی یوم آزادی صحافت کے حوالے سے منعقدہ سیمینارمیں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ، نیشنل پریس کلب کے صدر طارق محمود چوہدری، سیکرٹری این پی سی شکیل انجم،آر آئی یو جے صدر مبارک زیب، اے آر وائی کے اینکر پر سن ارشد شریف،عامر وسیم ڈیلی ڈان بیورچیف، زمیر حیدر،شہزادہ،شفیع الدین، سیکرٹری آرآئی یو جے علی رضا علوی،آر آئی یو جے کے فنا نس سیکرٹر ی اصغر چوہدری سمیت دیگر صحافیوں نے کثیر تعداد میں شرکت کیں۔ پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہاکہ 16 سال کی طویل جدوجہد اٹھویں ویج بورڈ کی منظوری کے بعد ویج بورڈ کا پہلا اجلاس آج ہوا۔ان کا کہناتھا کہ اٹھویں ویج بورڈکی منظور ی پوری صحافتی کمیونٹی کے لئے خوش آئندبات ہیں۔اقوام متحدہ کے رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ان 10ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر صحافیوں کی جان اور معاشی صورتحال بدحالی کا شکار ہے۔آر آئی یو جے صدر مبارک زیب نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ سند ھ میں سب سے زیادہ صحافیوں کو قتل کردیا گیا۔دوسرے نمبر بلوچستا ن تیسرے نمبر پر خیبر پختونخوااور آخری نمبر پرپنجاب آتا ہے ان کا کہنا تھا کہ وفاقی دارلحکومت جیسے پر امن شہر میں بھی صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔مبار ک زیب نے سیاسی جماعتوں کی منشورمیں پریڈم آ ف پریس کے حوالے سے شرکا صحافیوں کے تجاویز لئے۔ ارشد شریف نے کہا کہ پی ایف یو جے اور آر آئی یو جے کا کردار بہت اہم ہے صحافتی تنظیموں کو آفس میں تفروقوں کے بجائے اتحاد کا مظاہر ہ کرنا چاہئے۔ان کاکہنا تھاکہ پریس فریڈم کی خلاف ورزیوں کے خلاف اور پریس پریڈیم میں ڈالنے والوں کے خلاف رپورٹس شائع کرنے چاہئے۔زمیر حیدر کا کہنا تھاکہ آزادی صحافت خود ہمارے ہاتھوں سے نکلتی جارہی ہے صحافیوں کی حقوق کے حوالے قوانین موجود ہیں ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہیں۔ شفیع الدین کا کہناتھا کہ ایک اسلامی جماعت کی اخبار کا کیس ان کے پاس آیاجس میں ملازمین کو کام 18سال کام کرنے کے باوجود بھرتی کے حکم نامے نہیں دیئے گئے تھے۔میڈیا میں صحافی کام ضرور کرتے ہیں لیکن خبر کی جانچ پڑتا ل مالکا ن کرتے ہیں ان کا کہنا تھاکہ صحافت کے اند ر گلیمر آ گیا اصولوں کا صحافت بن گیا۔قوانین موجو د ہیں صحافی اپنے معاملات سے بے خبر ہیں۔ سیکرٹری این پی سی شکیل انجم نے کہا کہ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے پریس کلب کے پلیٹ فارم سے صحافیوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کریں گے۔پریس کلب میں ریڈیو کے لائسنس کے لئے رجوع کیا تھا جو کہ حکومتی ، اپوزیشن اور کچھ اداروں کے آپس کے اختلاف  کی نظر ہوگیا۔ انہوں نے صحافیوں کو خوشخبری دیتے ہوئے کہاکہ پریس کلب اپنا ویب ٹی وی لانچ کررہا ہے جس کے ذریعے صحافیوں کی آواز کو عوام تک بغیر کسی رکاوٹ کے پہنچایا جائے گا۔اے پی ایس