وزیر داخلہ احسن اقبال، فائرنگ سے زخمی





 نارووال:(اے پی ایس)وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نارووال کے علاقے کنجروڑ میں قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئے۔وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے ٹویٹر میں وفاقی وزیرداخلہ پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ'میرے دوست احسن اقبال پر قاتلانہ حملے کی کوشش کی شدید مذمت کرتا ہوں'۔ان کا کہنا تھا کہ 'ابھی ان سے بات ہوئی ہے اور وہ ماشااللہ بلند حوصلہ ہیں اور جو بھی اس گھناونے کام میں ملوث ہیں انھیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا'۔پولیس کے مطابق احسن اقبال اپنے حلقے میں جلسے سے خطاب کے لیے پہنچے جہاں ان پر نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کی گئی اور ان کے بازو میں گولی لگی۔ ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی پی اور نارووال عمران کشور نے کہا کہ فائرنگ 21 سالہ نوجوان نے کی۔ان کا کہنا تھا کہ حملہ آور نے 30 بور پستول سے 20 گز کے فاصلے سے فائرنگ کی۔وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال(ڈی ایچ کیو) نارووال منتقل کردیا گیا جہاں ان کی حالت خطرے سے باہر ہے بعد ازاں انھیں بذریعہ ہیلی کاپٹر لاہور منتقل کیا گیا۔وزیرمملکت داخلہ طلال چوہدری نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ احس اقبال فرنٹ لائن سے لڑ رہے ہیں اور ان پر فائرنگ افسوس ناک ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ کے دائیں کندھے میں گولی لگی جبکہ ایک نوجوان کو حراست میں لیا گیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔رپورٹس کے مطابق احسن اقبال جلسے سے خطاب کے بعد واپس جا رہے تھے کہ ان پر فائرنگ کی گئی۔پنجاب حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 'وزیرداخلہ احسن اقبال پر فائرنگ کرنے والے ایک ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے اور پولیس تفتیش کررہی ہے اور احسن اقبال کو ڈی ایچ کیو نارووال میں طبی امداد دی جارہی ہے'۔فائرنگ کے واقعے کے فوری بعد پولیس بھی پہنچی اور تفتیش کا آغاز کردیا ہے اور ایک نوجوان کو حراست میں لیا۔وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے انسپکٹر جنرل (آئی جی)پنجاب سے واقعے 
 رپورٹ طلب کرتے ہوئے ملزم کے خلاف کارروائی کی ہدایت جاری کردی۔

احسن اقبال پر فائرنگ کی مذمت
وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے وزیرداخلہ احسن اقبال پرحملیکی مذمت کی اور آئی جی پنجاب سے فائرنگ کے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی۔وزیراعلی پنجاب سے وفاقی وزیر داخلہ پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے فوری کارروائی کے احکامات جاری کیے۔انھوں نے احسن اقبال کو فوری طور پر لاہور منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر بھی روانہ کردیا۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے بیان میں کہا کہ 'اللہ رب العزت احسن اقبال صاحب کو زندگی اور صحت عطا فرمائے، آمین، یہ ملک ہمارا ہے اور اس میں بگاڑ پیدا کرنے والی قوتوں کا محاسبہ کرنا ہو گا'۔پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ وفاقی وزیرداخلہ پرحملہ نہیں بلکہ یہ ریاست پرحملہ ہے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ احسن اقبال کی جلد صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں اور حملے میں ملوث کردار کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔سابق صدر آصف زرداری اور پی پی پی رہنما نیئربخاری نے بھی احسن اقبال کی پر فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق سینیڑ شاہی سید نے اپنے بیان میں وفاقی وزیرداخلہ پر فائرنگ کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ احسن اقبال پر حملہ سیکیورٹی پر سوالیہ نشان ہے، حملے میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے ٹویٹر میں اپنے پیغام میں احسن اقبال پر حملے کی مذمت کی۔پی ٹی آئی کی جانب سے مذمتی بیان دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ وزیر داخلہ احسن اقبال کی سلامتی و مکمل صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ واقعیکی تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے۔امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے بھی وفاقی وزیر داخلہ پر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ احسن اقبال پر حملہ انتہائی بزدلانہ کارروائی ہے اور اس حملے کے پس پردہ عزائم بے نقاب ہونے چاہئیں۔آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے وفاقی وزیرداخلہ احسن اقبال پر فائرنگ کی مذمت کی اور جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ 1958 میں جنم لینے والے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے رہنما احسن اقبال اس وقت وفاقی وزیر داخلہ اور وزیر منصوبہ بندی و ترقی ہیں۔احسن اقبال ممتاز تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہیں، انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور، یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (لاہور)، جارج ٹان یونیورسٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ان کا تعلق ایک سیاسی پس منظر رکھنے والے گھرانے سے ہے، ان کی والدہ آپا نثار فاطمہ بھی پارلیمینٹیرین رہی ہیں اور قیامِ پاکستان سے قبل ان کے نانا چوہدری عبدالرحمن خان بھی قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے۔احسن اقبال نے 1988 میں اسلامی جمہوی اتحاد کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا جس کے بعد جنم لینے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) کا حصہ بنے۔انھوں نے این اے اس وقت 90 (جو 2013 میں 117 حلقہ) نارووال سے پہلی مرتبہ 1993 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے جس کے بعد 1997، 2008 اور 2013 کے عام انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تاہم انھیں ایک مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔احسن اقبال نے وفاقی حکومت میں اہم وزارتوں کے قلم دان سنبھالے اور کلیدی کردار ادا کیا۔انھوں نے بطورڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن اور چیئرمین پاکستان انجینئرنگ بورڈ خدمات انجام دیں۔وہ نیشنل اسٹیئرنگ کمیٹی آن انفارمیشن ٹیکنالوجی آئی کیو ایم پروڈکٹیوٹی کے بھی چیئرمین رہے۔احسن اقبال کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی انفارمیشن ٹیکنالوجی پالیسی کے خالق ہیں جو انھی کا شروع کیا گیا منصوبہ تھا۔انہوں نے سن دو ہزار دو سے دو ہزار سات تک محمد علی جناح یونیورسٹی، اسلام آباد کی انتظامیہ میں بھی خدمات انجام دیں۔وہ ایک تھنک ٹینک 'بیٹر پاکستان فانڈیشن' کے بھی سربراہ رہے۔احسن اقبال کے پاس 2008 میں بننے والی پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت میں وفاقی وزارت برائے تعلیم اور اقلیتی امور کا قلم دان بھی رہا تاہم ان کی وزارت کا دورانیہ اس لیے مختصر رہا کہ ان کی جماعت نے اختلافات کے باعث مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال اور پارٹی میں ان جیسے دیگر رہنما آزاد خارجہ پالیسی کی وکالت کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ نائین الیون کے بعد کی امریکی پالیسیاں پاکستانی عوام کے اندر موجود امریکا مخالف جذبات پر جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتی رہی ہیں۔احسن اقبال کو 2013 کے عام انتخابات میں پارٹی امیدواروں کا فیصلہ کرنے کے لیے قائم مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ میں بھی شامل کیا گیا تھا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ بورڈ میں زیادہ تر وہ اراکین شامل ہیں جو نواز شریف کے وفادار تصور کیے جاتے تھے اور انھوں نے مشرف دورمیں جماعت کو زندہ رکھا تھا۔پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وفاقی حکومت بنائی تو احسن اقبال کو ایک مرتبہ پھر وزارت منصوبہ بندی کا قلم دان سونپا گیا اور انھوں نے 54 بلین ڈالر کے پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبے کو عملی شکل دینے میں مرکزی کردار ادا کیا۔احسن اقبال کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمی میں وزیرداخلہ اور منصوبہ بندی اور ترقی کی وزارت کا بھی قلم دان دیا گیا تاہم ان کے حوالے سے گزشتہ سال اس وقت تنازع سامنے آیا تھا جب ان کے پاس سعودی عرب کا اقامہ سامنے آگیا تھا۔