جنگی حکمت عملی تو یہی ہوتی ہے کہ جب آپ مضبوط ہیں تو ظاہر نہ کریں اور اگر کمزور ہیں تو مضبوطی دکھائیں لیکن یہ بھی کہنا درست ہے کہ خدا نے جنگ کو اس لئے تخلیق کیا کہ امریکی اس سے سبق سیکھیں اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ جب مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو جنگ ہوتی ہے. لیکن اگر آپ جنگ جیت جاتے ہیں تو آپ کو وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے … لیکن اگر آپ شکست کھا جاتے ہیں، تو آپ کو وضاحت کرنے کے لئے وہاں نہیں ہونا چاہئے! اگرچہ تمام جنگیں انسان کی ایک جانورکے طور پر ناکامی کا اعلامیہ ہیں اگر اس کی سوچ امن اور محبت میں برقرار رہے تو وہ آخر تک یہی کہے گا کہ جنگیں بھاڑ میں جائیں۔ لیکن ابھی تک دنیا بھر میں جنگوں میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے کی شرم کو ڈھونڈنے کے لئے کافی بڑا پرچم تخلیق نہیں کیا گیا۔ دنیا بھر میں یہ بات کافی تکلیف دہ ہے کہ جنگیں لڑنے والے بغض رکھنے کی اپنی غلطی کو پورا کرتے ہیں۔ بوڑھے لوگ جنگ کا اعلان کرتے ہیں. لیکن جنگوں میں نوجوانوں کو لڑنے اور مرنے کیلئے پھینک دیا جاتا ہے۔ جبکہ امریکی سینیٹ کے دو ممبران نے ایوان میں قریب دو دہائیوں سے جاری افغان جنگ کے خاتمے کے لئے بل پیش کر دیا ہے۔یہ بل ایسے موقع پر پیش کیا گیا ہے جب امریکی حکام افغان طالبان کے ساتھ امریکی فورسز کی واپسی اور دہشت گردی کے خاتمے سے متعلق مذاکرات کر رہے ہیں۔یہ بل ری پبلکن ممبر سینیٹر رینڈ پال اور ڈیموکریٹ سینیٹر ٹام اوڈال نے پیش کیا ہے، جسے افغان ایکٹ 2019 کا نام دیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعے واشنگٹن افغانستان میں اپنی جیت کا اعلان کرے گا۔جس میں کہا گیا ہے کہ اگلے 45 دنوں میں، ایک پلان بنایا جائے گا جس کے ذریعے فورسز کی باضابطہ واپسی کا طریقہ کار طے کیا جائے گا اور ایک سال کے اندر افغانستان سے سارے امریکی فوجی واپس بلا لیے جائیں گے۔ اور سیاسی مفاہمت کے طے کیے جانے والے فریم ورک کو افغانستان اپنے آئین کے تحت نافذ کرے گا اور اس عمل میں اسے کی معاونت کی جائے گی۔سینیٹر پائل کے بیان میں کہا گیا ہے کہ طویل جنگ ہماری قومی سیکورٹی کو کمزور، ہماری آئندہ نسل کے مستقبل کو شدید قرض کی وجہ سے تباہ اور ہمارے مزید دشمن پیدا کرتی ہے جو ہمارے لئے خطرہ ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ 11 ستمبر 2001 کے حملے پر القاعدہ کو سزا دینے کا مشن پورا ہو چکا ہے اور اب وقت ہے کہ اس طویل جنگ کو ختم کیا جائے۔پاول کا کہنا تھا کہ افغان جنگ میں امریکی فوج نے 2300 سے زائد اہل کاروں کی قربانی دی ہے اور تقریبا 20 ہزار زخمی ہوئے۔ اس جنگ میں امریکہ نے اب تک دو ٹرلین ڈالر کا خرچ برداشت کیا ہے اور ہر سال اس جنگ پر 51 ارب ڈالر کا اضافی خرچ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم امریکہ کی مقامی ضروریات میں خرچ کی جا سکتی ہے۔اس بیان میں سینیٹر اوڈال نے لکھا کہ جلد ہی اب امریکہ اس جنگ میں ایسے فوجی بھیجنا شروع کر دے گا جو جنگ شروع ہونے کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس ملک کی طویل ترین جنگ کے بارے میں مختلف انداز سے سوچنا شروع کر دیں۔سینیٹر پاول نے اس بل کے پیش کئے جانے سے پہلے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اس جنگ میں کئے گئے بے جا اخراجات کا ذکر کیا۔انہوں نے اپنے پیغام میں سوال اٹھایا کہ اب افغانوں کو اپنے اخراجات خود برداشت کرنا ہوں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ اس جنگ میں جیت کا اعلان کرے اور اب یہ اپنے ملک میں تعمیر کا وقت ہے نہ کہ افغانستان میں۔یہ بل ایسے موقع پر پیش کیا گیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرت میں مصروف ہے تاکہ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ختم ہو سکے۔صدر ٹرمپ نے اپنے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اعلان کیا تھا کہ اگر مذاکرات مثبت رہے تو وہ افغانستان میں موجود امریکی افواج میں کمی کر سکتے ہیں۔افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا موجودہ دور قطر میں جاری ہے۔ امریکی ٹیم کی قیادت زلمے خلیل ذاد کر رہے ہیں۔ ابھی تک کسی بھی فریق نے کسی بڑی پیش رفت کا اعلان نہیں کیا ہے۔پچھلے برس کی خزاں کے بعد سے مذاکرات میں تسلسل آیا ہے اور دونوں فریقین نے مذاکرات میں پیش رفت کے بیانات دئے ہیں۔طالبان کا کہنا ہے کہ اب تک مذاکرات اس بات پر ہو رہے ہیں کہ امریکی افواج کب خطے سے نکل جائیں گی اور انخلا کے بعد کیا گارنٹیاں دی جائیں گی جن میں طالبان سے خطے میں دہشت گردی کے خاتمے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر حملے روکنا ہے۔طالبان نے، جو افغانستان کے آدھے سے زیادہ رقبے پر اپنا اثرو رسوخ رکھتے ہیں، افغان حکومت سے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔17 سال سے جاری اس جنگ میں محتاط اندازوں کے مطابق اب تک ڈیڑھ لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں عام شہری، افغان اور بین الاقوامی فورسز کے اہل کار، غیر ملکی کنٹریکٹر اور شورش پسند شامل ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ 2018 میں افغانستان میں تقریبا 4000 عام شہری ہلاک ہوئے جو ایک عشرے دوران اس ملک میں جاری لڑائیوں میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں۔گزشتہ فروری میں ایک امریکی جنرل جوزف ووٹل نے کہا تھاکہ نیا کمانڈر کارکردگی بہتر بنانے کے لیے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کم کر سکتا ہے، جس کے بعد اس کی ایک ہزار سے زیادہ تک ہو سکتی ہے۔گزشتہ فروری میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کانگریس کو بتایا تھا کہ اب جب طالبان شورش پسندوں کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہو رہی ہے۔ اور وہ افغانستان میں امریکی فورسز کی تعداد میں کمی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عظیم قومیں نہ ختم ہونے والی جنگیں نہیں لڑتیں۔تاہم امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے کہا کہ افغانستان میں اس وقت لگ بھگ 14 ہزار امریکی فوجیوں کی تعداد میں کچھ کمی کے فیصلے کا تعلق امن کی ان کوششوں سے نہیں، بلکہ اس کی بجائے یہ جنرل اسکاٹ ملر کی ایک کوشش کا حصہ ہے، جنہوں نے امریکی وسائل کے بہتر استعمال کے لیے ستمبر میں 17 سال سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ کا چارج سنبھالا ہے۔اومان کے اپنے دورے میں ایک انٹرویو میں جنرل ووٹل نے کہا کہ جنرل ملر نے فوج کی تعداد میں کمی کی ابتدا یہاں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد کی ہے اور وہ زمین پر اپنی کارکردگی ہر ممکن طور پر بہتر اور موثر بنانا چاہتے ہیں۔جنرل ملر کا یہ فیصلہ کئی برسوں کے بعد ان فیصلوں کا الٹ ہے، جن میں امریکی فوج نے ٹرمپ کے پیش رو براک اوباما کے دور میں فوجیوں کی تعداد گھٹانے کی رفتار میں کمی تھی یا اسے مکمل طور پر روکنے کے اقدامات کیے تھے۔یہ واضح نہیں ہے کہ اب تک فوجیوں کی تعداد میں کتنی کمی ہو چکی ہے۔ پنٹگان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 14 ہزار کے قریب ہے لیکن اس کا یہ بھی کہنا کہ اس تعداد میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔دوسرے ذرائع فوجیوں کی تعداد گھٹانے سے متعلق نسبتا کمتر تخمینے پیش کر رہے ہیں۔ سفارتی ذرائع کا خیال ہے کہ کارکردگی بہتر بنانے کی اس کوشش افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد گھٹ رہی ہے جس پر کابل حکومت کو اعتراض ہے۔ایک سینیر مغربی سفارت کار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر خبررساں ادارے روئیٹرز کو بتایا کہ ہم اس صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ جنرل ملر کی اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی خواہش افغانستان میں فوجیوں کی تعداد پر پہلے ہی اثر ڈال رہی ہے۔جب جنرل ووٹل سے پوچھا گیا کہ آیا جنرل ملر اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے سلسلے میں افغانستان میں ایک ہزار سے زیادہ فوجی کم کر دیں گے تو انہوں نے کہا کہ غالبا وہ ایسا کریں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ ممکن ہے کہ کچھ فوجی افغانستان سے کہیں اور منتقل کر دیے جائیں، جو بوقت ضرورت سمندر پار سے بھی دستیاب ہو سکیں۔ووٹل نے اس بارے میں کہ جنرل کتنے فوجیوں کو واپس بھیج سکتے ہیں، کسی مخصوص تعداد کا ذکر کیے بغیر کہا کہ یہ ایک کمانڈر کی حیثیت سے ان کا فیصلہ ہو گا کہ وہ اپنی کارکردگی کی بہترین سطح برقرار رکھتے ہوئے دستیاب وسائل کو کس طرح موثر انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ملر کے ترجمان فوجی کرنل ڈیو بٹلر نے مستقبل میں فوجیوں کی تعداد کے بارے میں کسی قیاس آرائی سے انکار کیا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ملر کو افغانستان میں جب بھی کسی مشن کے لیے فوجیوں کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہوئی تو وہ انہیں دستیاب ہوں گے۔کابل اور واشنگٹن کے درمیان گفت و شنید میں اخراجات پر توجہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صدر اشرف غنی نے حال ہی میں ٹرمپ کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے افغانستان میں امریکی اخراجات میں کمی کی پیش کش کی تھی۔واشنگٹن کے لیے افغانستان کے سفیر رویا رحمانی کا کہنا تھا کہ طویل عرصے سے اس پر کام کر ہے ہیں کہ اخراجات میں کس طرح مزید کمی کی جا سکتی ہے۔امریکی عہدے دار گزشتہ سال قطر میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور کر چکے ہیں۔امریکی عہدے دار رائٹرز کو بتا چکے ہیں کہ افغانستان میں موجود 14 ہزار امریکی فوجیوں میں سے لگ بھگ نصف کو نکالنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے جس سے یہ خدشات پیدا ہوئے ہیں کہ آیا نسبتا ایک چھوٹی فورس افغان فوج کی مدد کرنے کی اہلیت رکھ سکے گی اور آیا دوسری یورپی ملکوں کے فوجی دستے بھی وہاں سے چلے جائیں گے جن کا انحصار امریکی ہیلی کاپٹروں اور دوسری نوعیت کی معاونت پر ہے۔اس صورت حال سے یہ سوالات بھی سامنے آئے ہیں کہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے امریکی فوج کی کتنی تعداد امریکہ میں بدستور رہ سکے گی۔ووٹل نے کہا کہ انہیں فوجی دستوں کی واپسی کے لیے کسی طرح کے احکامات موصول نہیں ہوئے، اس لیے وہ اس موضوع پر کوئی بات نہیں کریں گے۔امریکہ کے قائم مقام وزیر دفاع پیڑک شناہن نے ایک ایسی ہی یقین دہانی کا اعادہ کرتے ہوئے نیٹو کے فکر مند اتحادیوں کو بتایا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی کوئی بھی ممکنہ واپسی مربوط طریقہ کار کے تحت ہو گی۔ اگرچہ ایک دانشمند آدمی اپنے بیوقوف دوستوں کے مقابلے میں اپنے دشمنوں کو زیادہ استعمال کرتا ہے۔۔۔۔ جنگ جیتنا کافی نہیں ہے بلکہ امن کو منظم اور برقرار رکھنیکے لئے یہ ضروری ہے. لیکن جب جنگ خود دہشت گردی ہے تو آپ دہشت گردی پر جنگ کیسے کر سکتے ہیں؟ تاہم دنیا بھر میں جنگ کی عدم موجودگی میں امن زیادہ اہم ہے۔ امن معاہدہ ہے ۔ اہم آہنگی کا۔۔۔۔۔۔۔ آج جو ایک چیز لوگوں پر تھونپ دی جاتی ہے وہ اکثر اگلے روز جھوٹی ثابت ہوجاتی ہے اور جو چیز نہیں ہوتی وہ اگلے روز سچ سے بھری باہر نکل آتی ہے۔ دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں ہے جو افغانستان سے کہیں زیادہ قدرتی وسائل سے تباہ کن ہے. 11 ستمبر 2001 تک جنگ میں افغانستان میں کیا ہوا اور آج تک امریکی افغانستان میں کیا کرتے رہے ہیں اس کے درمیان ایک براہ راست تعلق ہے جو تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر موجود رہے گاَ۔اے پی ایس