71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش، کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان


 آئی ایم ایف کے دباو پر تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنا ظلم ہے
ایک کروڑ افراد کے خط غربت سے نیچے جانے کا خدشہ
رپورٹ: چودھری احسن پریمی ۔ ایسوسی ایٹڈ پریس سروس (اے پی ایس)
ملک بھر کے عوامی حلقوں نے موجودہ حکومت کے پیش کردہ دوسرے وفاقی بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ غریب کش بجٹ ہے، اس کے نتیجے میں مہنگائی اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا جبکہ کاروباری بدحالی نے تاریخی ریکارڈ قائم کردیے ہیں۔ حکومت نے اپنی نالائقی پہلے کورونا کے پیچھے چھپانے کی کوشش کی اور افسوس حکومتی نااہلی کی سزاقوم اور ملک کو مل رہی ہے۔ بجٹ اعلانات سے ثابت ہوا کہ حکومت اصلاح احوال اور دانشمندی کی راہ اپنانے کو تیار نہیں جبکہ ٹیکس ریونیو کا 1.7 ٹریلین ارب کاتاریخی خسارہ موجودہ حکومت کی کارکردگی ہے۔ آئی ایم ایف کے دباو پر تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنا ظلم ہے، اگر یہ بجٹ ہے تو قوم منی بجٹ کے لیے تیار رہے۔ حکومت کی گزشتہ برس کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے عوام کو ریلیف دینے والے بجٹ کی توقع نہیں تھی۔ افراط زر سے عام آدمی کی قوت خرید میں ہونے والی کمی کی وجہ سے توقع تھی کہ تنخواہوں میں اضافہ ہوگا۔ حکومت نے بجٹ میں سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جس کے باعث اب سرکاری ملازم ا س سال 10 فیصد کم خریداری کرسکیں گے۔ حکومت نے کورونا کے بعد کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے بجٹ میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا جبکہ صنعتوں کو مراعات تو ایف بی آر اپنے ایس آر اوز کے ذریعے کرتا رہتا ہے۔ بجٹ میں صوبوں کے ساتھ مل کر اخراجات کے معاملے پر بھی بجٹ میں کوئی بات نظر نہیں آئی۔
جبکہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی حکومت نے 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا جس میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے بجٹ پیش کیا۔قومی اسمبلی میں مالی سال 21-2020 کی بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے صنعت حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا دوسرا سالانہ بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز اور مسرت کی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں اگست 2018 میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا، ہم نے ایک مشکل سفر سے ابتدا کی اور معیشت کی بحالی کے لیے اپنی کاوشیں شروع کی تاکہ وسط مدت میں معاشی استحکام اور شرح نمو میں بہتری لائی جاسکے، ہماری معاشی پالیسی کا مقصد اس وعدے کی تکمیل ہے جو ہم نے نیا پاکستان بنانے کے لیے عوام سے کر رکھا ہے اور ہر گرزتے سال کے ساتھ ہم اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 2 سال کے دوران ہمارے رہنما اصول رہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، سرکاری اداروں میں زیادہ شفافیت لائی جائے، احتساب کا عمل جاری رکھا جائے اور ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں میرٹ پر عمل درآمد کیا جائے۔حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے عوام کی صلاحیت پر پورا اعتماد ہے اور مطلوبہ اہداف کے حصول میں ان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے، تحریک انصاف سماجی انصاف کی فراہمی، معاشرے کے کمزور طبقات کے حالات بہتر کرنے کے اصول پر کاربند ہے اور پسے طبقے کے لیے کام کرنے کا عزم رکتھی ہے۔انہوں نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے سے قبل میں ایوان کو یہ بتانا چاہوں گا کہ گزشتہ حکومت سے ورثے میں ہمیں کیا ملا، جب 2018 میں ہماری حکومت جب آئی تو ایک معاشی بحران ورثے میں ملا، اس وقت ملکی قرض 5 سال میں دوگنا ہوکر 31 ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا، جس پر سود کی رقم کی ادائیگی ناقابل برداشت ہوچکی تھی، کرنٹ اکانٹ خسارہ 20 ارب روپے جبکہ تجارتی خسارہ 32 ارب روپے کی حد تک پہنچ چکا تھا اور برآمدات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا اور ڈالر کو مصنوعی طریقے سے مستحکم رکھا گیا تھا جس سے برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوا۔بجٹ 21-2020 کے اہم نکات:دفاعی بجٹ 1290 ارب روپے رکھنے کی تجویز،ایف بی آر کی ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے رکھنے کی تجویز،نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 1610 ارب روپے رکھنے کی تجویز،این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کے لیے 2 ہزار 874 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز،وفاقی حکومت کا خالص ریونیو کا تخمینہ 3 ہزار 700 ارب روپے ہے،اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہے،مجموعی بجٹ خسارہ 3 ہزار 195 ارب روپے تجویز،وفاقی بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز،سبسڈیز کی مد میں 210 ارب روپے رکھنے کی تجویز،پنشن کی مد میں 470 ارب روپے رکھنے کی تجویز،صوبوں کو گرانٹ کی مد میں 85 ارب روپے فراہم کرنے کی تجویز،دیگر گرانٹس کی مد میں 890 ارب روپے رکھنے کی تجویز،آئندہ مالی سال کا وفاقی ترقیاتی بجٹ 650 ارب روپے رکھنے کی تجویز،نیا پاکستان ہاسنگ کے لیے 30 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز،احساس پروگرام کے لیے 208 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز،سول اخراجات کی مد میں 476 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز،آئندہ مالی سال کا مکمل بجٹ یہاں پڑھیں۔وفاقی وزیر نے بتایا کہ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے ذخائر 18 ارب ڈالر سے کم ہوکر 10 ارب ڈالر رہ گئے تھے جس کی وجہ سے ملک دیوالیہ ہونے کے قریب آگیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ بجٹ خسارہ 2300 ارب روپے کی بلند سطح پر پہنچ چکا تھا، ناقص پالیسیوں اور بد انتظامیوں کے باعث بجلی کا گردشی قرضہ 1200 ارب روپے کی انتہائی حد تک جاپہنچا تھا۔ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرکاری اداروں کی تعمیر نو نہ ہونے سے ان کو 1300 ارب سے زائد کے نقصان کا سامنا تھا، اسٹیٹ بینک سے بہت زیادہ قرضے لیے گئے، منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا تھا۔بجٹ اجلاس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے 20-2019 کا آغاز پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کردہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جس کے لیے موزوں فیصلے اور اقدامات اٹھائے، جس کی وجہ سے مالی سال 19-2018 کے مقابلے میں 20-2019 میں اہم معاشی اشاریوں میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی۔انہوں نے کہا کہ مالی سال 20-2019 کے پہلے 9 ماہ میں کرنٹ اکانٹ خسارے کو 73 فیصد کم کیا گیا، تجارتی خسارے میں 21 فیصد کمی کی گئی، اس کے علاوہ بجٹ خسارہ 5 فیصد کم کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ حکومت نے 6 ارب ڈالر کے بیرون قرضے کی ادائیگی کی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 4 ارب ڈالر تھی، اس کے باوجود اس سال زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم سطح پر رہے۔حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ہم نے 5 ہزار ارب روپے کا سود ادا کیا جو گزشتہ قرضوں پر دیا گیا، اس کے علاوہ بیرون سرمایہ کاری تقریبا دوگنی ہوگئی۔بات کا جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کے جن معاشی فیصلوں کے ذریعے معاشی استحکام پیدا ہوا اس میں بجٹ اصلاحات کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک سے قرض لینا بند کیا گیا، اس کے علاوہ کوئی سپلمنٹری گرانٹ نہیں دی گئی، ترقیاتی اخراجات میں حائل سرخ ٹیپ کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔انہوں نے کہا کہ نومبر 2019 میں نیشنل ٹیرف پالیسی کی منظوری دی گئی، اس کے علاوہ میک ان پاکستان کے تحت پاکستانی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں متعارف کروایا گیا۔حماد اظہر کا کہنا تھا حکومت نے اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت پبلک فنانس منیجمنٹ اصلاحات شروع کیں، جس سے وفاقی حکومت کی مالی انتظامی معاملات میں بہتری آئی ہے۔وزیر صنعت کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ احساس کے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل نو کرکے شفافیت لائی گئی جبکہ پاکستان پورٹل کا آغاز کرکے ادائیگیو
ں کے نظام میں بہتری لائی گئی۔انہوں نے کہا کہ آر ایل این جی پلانٹس جو بند ہونے کے قریب تھے ان کی بحالی کے ٹھوس اقدامات کیے گئے، جس سے ان کی کارکردگی میں قابل قدر بہتری آئی، اس کے علاوہ کلیدی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا گیا، این ایچ اے، پاکستان پوسٹ، کراچی پوسٹ جیسے اہم اداروں کی آمدن میں بالترتیب 70 فیصد، 50 فیصد اور 17 فیصد اضافہ کیا گیا اور ان کی استطاعت، کارکردگی اور شفافیت میں بہتری لائی گئی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کاروبار اور صنعت کو ترقی دینے اور بیرونی سرمایہ کاری کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کے لیے کاروبار میں آسانیوں کے انڈیکس کے لیے اقدامات اٹھائے جس کے نتیجے میں پاکستان کاروبار میں آسانیوں کی رینکنگ میں پوری دنیا کے 190 ممالک میں 136ویں نمبر سے بہتری حاصل کر کے ایک سال میں 108ویں نمبر پ پہنچ گیا ہے اور انشااللہ اس میں مزید بہتری آئے گی۔وفاقی وزیر نے کہا کہ جون 2018 میں پاکستان کو 'گرے لسٹ' میں ڈال دیا گیا اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایکشن پلان کے 27 قابل عمل نکات پر عملدرآمد کا مطلبہ کیا گیا، ہماری حکومت نے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے زبردست کاوشیں کیں تاکہ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔اس ضمن میں وفاقی حکومت نے قومی اور بین الاقوامی اینٹی منی لانڈرنگ ، ٹیرر فنانسنگ سرگرمیوں اور حکمت عملی کی تشکیل اور نفاذ کے لیے نیشنل ایف اے ٹی ایف کوآرڈینیشن کمیٹی کی سربراہی مجھے سونپی ہے۔ جامع قسم کی ٹیکنیکل اور قانونی اصلاحات شروع کی گئی ہیں، ان اقدامات سے پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ بہتر ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ نتیجتا ایف اے ٹی ایف ایکشن پلان کے 27 قابل عمل نکات کے سلسلے میں ہم نے قابل ذکر پیشرفت کی ہے، ایک سال کے عرصے میں 14 نکات پر مکمل عمل کیا گیا اور 11 پر جزوی طور ر عملدرآمد کیا گیا ہے جبکہ دو شعبوں میں عملدرآمد کے لیے زبردست کوششیں کی جارہی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے کورونا وائرس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے دنیا کو سنگین سماجی اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، پہلے تو اسے انسانی صحت کے لیے مسئلہ سمجھا گیا، لیکن جلد ہی اس کے معاشی اور سماجی مضرمات بھی سامنے آئے۔حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان بھی کورونا کے اثر سے محفوظ نہیں رہا اور اس نے معیشت کے استحکام کے لیے جو کاوشیں اور محنت کی تھیں اس آفت سے ان کو شدید دھچکا لگا ہے، اس مشکل وقت میں عوام کو زندگی کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح ہے جس کے لیے ایسے اقدامات اور فیصلے کیے جا رہے ہیں جن سے لوگوں کی زندگی اور ذریعہ معاش کم سے کم متاثر ہو۔انہوں نے کہا کہ طویل لاک ڈان، ملک بھر میں کاروبار کی بندش، سفری پابندیوں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں جس کی وجہ سے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو اور سرمایہ کاری پر منفی اثرات متب ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بے روزگاری بڑھنے سے ترقی پذیر ممالک میں مشکلات میں مزید اضافہ ہوا جس سے پاکستان بھی نہ بچ سکا، مالی 20-2019 کے دوران پاکستان پر کورونا کے جو فوری اثرات ظاہر ہوئے ان کی تفصیل یہ ہے:تقریبا تمام صنعتیں، کاروبار بری طرح متاثر ہوئے۔جی ڈی پی میں اندازا 3300 ارب روپے کی کمی ہوئی جس سے اس کی شرح نمو 3.3 فیصد سے کم ہو کر منفی 0.4 فیصد تک رہ گئی۔مجموعی بجٹ خسارہ جو ڈی پی کا 7.1 فیصد تھا وہ 9.1 فیصد تک بڑھ گیا۔ایف بی آر محصولات میں کمی کا اندازہ 900 ارب روپے ہے، وفاقی حکومت نان ٹیکس ریونیو 102 ارب روپے کم ہوا۔ترسیلات زر اور برآمدات بری طرح متاثر ہوئیں اور بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا۔حماد اظہر نے کہا کہ حکومت اللہ کے کرم سے اس سماجی اور معاشی چیلنج کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے، اس مقصد کے لیے معاشرے کے کمزور طبقے اور شدید متاثر کاروباری طبقے کی طرف حکومت نے مدد کا ہاتھ بڑھایا ہے تاکہ کاروبار کی بندش و بے روزگاری کے منفی اثرات کا ازالہ کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں حکومت نے 1200 ارب روپے سے زائد کے ریلیف پیکج کی منظوری دی ہے، مجموعی طور پر 875 ارب روپے کی رقم وفاقی بجٹ سے فراہم کی گئی ہے جو درج ذیل کاموں کے لیے مختص ہے:طبی آلات کی خریداری، حفاظتی لباس اور طبی شعبے کے لیے 75 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔150 ارب روپے ایک کروڑ 60 لاکھ کمزور اور غریب خاندانوں اور پناہ گاہ کے لیے مختص کیے گئے ہیں جو کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔200 ارب روزانہ اجرت کمانے والے مزدوروں، کیش ملازمین اور کیش ٹرانسفر کے لیے مختص کیے گئے۔50 ارب روپے یوٹیلٹی اسٹورز پر رعایتی نرخوں پر اشیا کی فراہمی کے لیے مختص کیے گئے۔100 ارب ایف بی آر اور وزارت تجارت کے لیے مختص ہیں تاکہ وہ برآمد کنندگان کو ری فنڈ کا اجرا کر سکیں۔100 ارب روپے بجلی اور گیس کے موخر شدہ بلوں کے لیے مختص کیے گئے۔وزیر اعظم نے چھوٹے کاروبار کے لیے خصوصی پیکج دیا جس کے تحت کم از کم 30 لاکھ کاروباروں کے تین ماہ کے بل کی ادائیگی کے لیے 50 ارب روہے فراہم کیے گئے۔کسانوں کو سستی کھاد، قرضوں کی معافی اور دیگر ریلیف کے لیے 50 ارب کی رقم دی گئی۔100 ارب روپے ایمرجنسی فنڈ کے لیے مختص ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس ریلیف پیکج سے وفاقی حکومت کے اخراجات میں اضافہ ہوا ہے جس کے لیے وفاقی حکومت کو سپلیمنٹری گرانٹس کی منظوری دینا پڑی، فنانس ڈویژن نے متعلقہ اداروں خصوصا احساس، این ڈی ایم اے، یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے لیے فنڈ کا انتظام اور اجرا کیا، ہمیں اداروں کے ریلیف پیکج پر عملدرآمد کرنے کے سلسلے میں بجا لائی گئی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے کسانوں اور عام آدمی کا احساس کرتے ہوئے ریلیف کے اقدامات کیے جس کے لیے انہیں خوراک اور طبی ساز و سامان کی مد میں 15روبے کی ٹیکس کی چھوٹ دی، 280 ارب روپے کسانوں کو گندم کی خریداری کی مد میں ادا کیے گئے، پیٹرول کی قیمتوں میں 42 روپے فی لیٹر اور ڈیزل کی قیمتوں میں 47 روپے فی لیٹر کمی کر کے پاکستان کے عوام کو 70 ارب روپے کا ریلیف دیا۔انہوں نے کہا کہ معیشت کی بحالی کے لیے ہم نے تعمیراتی شعبے کو ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے لیے رعایتی ٹیکس متعارف کرا کر تاریخی مراعات بھی دی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:فکس ٹیکس رجیم کو وضع کیا۔بلڈرز اور ڈیولپرز سوائے اسٹیل کے خریداروں کے ود ہولڈنگ ٹیکس میں چھوٹ دی ہے تاکہ عوام کو سستے گھر میسر آسکیں۔آمدنی کا ذریعہ نہیں پوچھا جائے گا۔خاندان کے لیے ایک گھر پر کیپیٹل گین ٹیکس کی چھوٹ ہو گی۔سستی رہائشوں کی تعمیر پر 90 فیصد ٹیکس کی چھوٹ دے گئی ہے۔تعمیرات کو صنعت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈان کے برے اثرات کے ازالے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی بہت سے اقدامات متعارف کرائے ہیں جس کے تحت پالیسی ریٹ میں 5.25 فیصد کی بڑی کمی کی گئی ہے جو 13.25 فیصد سے کم ہو کر 8 فیصد رہ گیا ہے، کاروبار کے پے رول لون میں تین ماہ کے لیے 96 ارب کی رقم 4 فیصد کم شرح سود پر فراہم کی گئی ہے تاکہ بے روزگاری سے بچا جا سکے۔7 لاکھ 75 ہزار قرض دہندگان کو 491 ارب کے پرنسپل قرض کی ادائیگی ایک سال کے لیے موخر کر کے سہولت پہنچائی ہے اور 75 ارب کا قرض ری شیڈول کیا گیا ہے، جبکہ افرادی اور کاروباری قرضوں کے لیے بینکوں کو اضافی 800 ارب روپے قرض دینے کی اجازت دے دی گئی ہے جس کے لیے قرض کی حد میں اضافہ کیا گیا ہے۔بجٹ کے نمایاں خدوخال بارے وفاقی وزیر نے کہا کہ بجٹ 21-2020 میں عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لیے کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا۔انہوں نے کہا کہ مجوزہ ٹیکس مراعات معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی، ان تجاویز میں کورونا اخراجات اور مالیاتی خسارے کے مابین توازن قائم رکھنا، پرائمری بیلنس کو مناسب سطح پر رکھنا، معاشرے کے کمزور اور پسماندہ طبقات کی مدد کے لیے احساس پروگرام کے تحت سماجی اخراجات کا عمل جاری رکھنا، آئی ایم ایف پروگرام کو کامیابی سے جاری رکھنا، کورونا کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے مالی سال میں عوام کی مدد جاری رکھنا، ترقیاتی بجٹ کو موزوں سطح پر رکھنا شامل ہیں تاکہ معاشی نمو میں اضافے کے مقاصد پورے ہوسکیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوسکیں۔حماد اظہر نے کہا کہ بجٹ میں ملک کے دفاع اور داخلی تحفظ کو خاطر خواہ اہمیت دی گئی ہے، ٹیکسز میں غیر ضروری رد و بدل کے بغیر محصولات کی وصولی
 میں بہتری لانا، تعمیرات کے شعبے میں مراعات بشمول نیا پاکستان ہاسنگ پروجیکٹ کے لیے وسائل مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ خصوصی علاقوں یعنی سابق فاٹا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے بھی فنڈز رکھے گئے ہیں تاکہ وہاں بھی ترقی اور معاشی نمو کا عمل یقینی بنایا جاسکے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم کی قیادت میں خصوصی پروگرامز یعنی کامیاب جوان، صحت کارڈ، بلین ٹری سونامی وغیرہ کا بھی تحفظ کیا گیا ہے۔حماد اظہر نے کہا کہ کفایت شعاری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی یقینی بنائی جائے گی، معاشرے کے مستحق طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کے لیے سبسڈی کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی کی جائے گی اور سابقہ فاٹا کے علاقوں کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کے وقت صوبوں نے مالیاتی اعانت کے جو وعدے کیے تھے انہیں پورا کرنے کے لیے رابطے تیز کیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ کل ریونیو کا تخمینہ 6 ہزار 573 ارب روپے ہے جس میں ایف بی آر ریونیو 4 ہزار 963 روپے ہیں اور نان ٹیکس ریونیو ایک ہزار 610 ارب روپے ہے۔حماد اظہر نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو 2 ہزار 874 ارب روپے کا ریونیو صوبوں کو منتقل کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ نیٹ وفاقی ریونیو کا تخمینہ 3700 ارب روپے ہے، کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 7 ہزار 137 ارب روپے لگایا گیا ہے، اس طرح بجٹ خسارہ 3 ہزار 437 ارب روپے تک رہنے کی توقع ہے جو جی ڈی پی کا 7 فیصد بنتا ہے اور پرائمری بیلنس منفی 0.5 فیصد ہوگا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقات کی معاونت ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے، اس کے لیے ایک مربوط نظام وضع کیا گیا ہے جس کے تحت تمام متعلقہ اداروں کو پوورٹی ایلیویشن ڈویژن بنا کر اس میں ضم کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس غریب پرور پروگرام کے لیے پچھلے سال 187 ارب روپے رکھے گئے تھے جسے بڑھا کر 208 ارب روپے کردیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس میں سماجی تحفظ کے بہت سے پروگرامز شامل ہیں جیسے بی آئی ایس پی، پاکستان بیت المال کے محکمے شامل ہیں، یہ مختص رقم حکومت کی منظور کردہ پالیسی کے مطابق شفاف انداز سے خرچ کی جائے گی۔حماد اظہر کا کہنا تھا کہ توانائی، خوراک اور مختلف شعبوں کو مختلف اقسام کی سبسڈیز دینے کے لیے 180 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے خاص طور پر پسماندہ طبقات کو فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈیز کا رخ درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اعلی تعلیم کے لیے وافر رقوم رکھی گئی ہے اس لیے ایچ ای سی کے لیے سال 20-2019 میں مختص کی گئی 60 ارب روپے کی رقم بڑھا کر 64 ارب روپے کردی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ہاسنگ اتھارٹی کو 30 ارب روپے فراہم کیے گئے، انہوں نے کہا کہ اخوت فانڈیشن کی قرض حسنہ اسکیم کے ذریعے کم لاگت کے رہائشی مکانات کی تعمیر کے لیے ڈیڑھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خصوصی علاقوں آزاد جموں و کشمیر کے لیے 55 ارب روپے اور گلگت بلتستان کے لیے 32 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاس کے لیے 56 ارب روپے مختص کیے گئے۔انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ سندھ کو 19 ارب روپے اور بلوچستان کو 10ارب روپے کی خصوصی گرانٹ ان کے این ایف سی حصے سے زائد فراہم کی گئی ہے۔حماد اظہر نے کہا کہ زرمبادلہ بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے جس سے رقوم کی منتقلی بینکوں کے ذریعے بڑھانے کے لیے 25 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو سستی ٹرانسپورٹ سروسز فراہم کرنے کے لیے پاکستان ریلوے کے لیے 40 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے ہمیشہ پاکستان کو ترقی پسند ملک بنانے کے لیے نوجوانوں کے کردار پر زور دیا ہے، انہوں نے کہا کہ کامیاب نوجوان پروگرام نوجوانوں کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے حکومت کا خصوصی پروگرام ہے جس کے کیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ لاہور اور کراچی میں وفاقی حکومت کیزیر انتظام ہسپتالوں کے لیے 13 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جن میں شیخ زید ہسپتال لاہور، جناح میڈیکل سینٹر کراچی اور دیگر 4 ہسپتال شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ ای گورننس کے ذریعے پبلک سروسز کی فراہمی کو بہتر بنانا ہے وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے، وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے تمام وزارتوں اور ڈویژنز کو الیکٹرانک طور پر مربوط کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے ایک ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ فنکار ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں ، ان کی مالی امداد اور فلاح و بہبود کے لیے صدر پاکستان کی ہدایت پر حکومت نے آرٹسٹ ویلفیئر فنڈ کی رقم 25 کروڑ روپے سے بڑھا کر ایک ارب روپے کردی ہے۔حماد اظہر نے کہا کہ مختلف اصلاحاتی پروگرامز کے لیے خصوصی فنڈز کا قیام کیا گیا ہے جن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے لیے وائبلیٹی گیپ فنڈ کے لیے 10 کروڑ روپے، ٹیکنالوجی اپ گریڈیشن فنڈ کے لیے 40 کروڑ روپے اور پاکستان انوویشن فنڈ کے لیے 10 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ زرعی شعبے میں ریلیف پہنچانے کے لیے اور ٹڈی دل کی روک تھام کے لیے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے مالی سال 21-2020 کے دوران ان اہداف کے حصول کا فیصلہ کیا ہے:جی ڈی پی کی شرح نمو کو منفی 0.4 سے بڑھا کر 2.1 فیصد پر لایا جائے گا۔کرنٹ اکانٹ خسارے کو 4.4 فیصد تک محدود رکھا جائے گا۔مہنگائی کو 9.1 فیصد سے کم کرکے 6.5 فیصد تک لایا جائے گابراہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 25 فیصد تک اضافہ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے وژن کے مطابق ترقیاتی ایجںڈا پر عملدرآمد جاری ہے تاکہ مستحکم معاشی شرح نمو کا حصول ممکن ہوسکے اور غربت میں کمی، بنیادی انفراسٹرکچر میں بہتری اور خوراک، پانی اور توانائی کے ٹحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔حماد اظہر نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مجموعی ترقیاتی اخراجات کا حجم ایک ہزار 324 ارب روپے ہے۔انہوں نے کہا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام ترقیاتی مقاصد کو حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے جس کے لیے 650 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے مالی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے مںصوبوں کی لاگت میں اضافے سے بچنے کے لیے جاری منصوبوں کے لیے 73فیصد اور نئئے مںصوبوں کے لیے 27 فیصد رقم مختص کی گی ہے۔حماد اظہر نے کہا کہ سماجی شعبے کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دی گئی ہے جس کے لیے گزشتہ سال کے 206 ارب روپے کی رقم بڑھا کر 249 ارب کردیے گئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے پبلک فنانس منیجمنٹ ایکٹ 2019 کی دفعات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ، اس حوالے سے بڑے شعبوں کے لیے مختص رقوم کی تفصیل درج ذیل ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت نے کورونا اور دیگر آفات کی وجہ سے انسانی زندگی پر ہونے والے منفی اثرات کو زائل کرنے اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی ترقیاتی پروگرام وضع کیا ہے جس کے لیے 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی توجہ توانائی کے توسیعی منصوبوں اور بجلی کی ترسیل و تقسیم کا نظام بہتر بنانے اور گردشی قرضوں کو کم کرنیکی طرف مرکوز ہے، بجٹ میں خصوصی اکنامک زونز کو بجلی کی فراہمی کے منصوبوں اور غیرملکی امداد سے چلنے والے مںصوبوں کے لیے خاطر خواہ مالی وسائل رکھے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں حکومت نے 80 ارب روپے مختص کیے ہیں، ان فنڈز کو خاص طور پر بجلی کی طلب اور پیداوار کے درمیان فرق کو ختم کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان پانی کے شدید بحران کا شکار ہے، اس سال حکومت پانی سے متعلق منصوبوں پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور اس ضمن میں 69 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔حماد اظہر نے کہا کہ کثیرالمقاصد ڈیم بالخصوص دیامر بھاشا، مہمند اور داسو ڈیم کے لیے خاطر خواہ مالی وسائل فراہم کیے گئے ہیں، ان منصوبوں سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے اور بجلی کی پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ روزگار کے 30 ہزار سے زائد مواقع پیدا ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ صنعتی رابطوں، تجارت و کاروبار کے فروغ کے لیے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے تحت جاری منصوبوں کی تکمیل کو ترجیح دی گئی ہے، اس سلسلے میں 118 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ریلوے کے ایم ویل ون منصوبے اور دیگر منصوبوں کے لیے 24 ارب روپے جبکہ مواصلات کے دیگر
 منصوبوں کے لیے 37 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے تناظر میں صحت کا شعبہ حکومت کی خصوصی ترجیح ہے اور بہتر طبی خدمات، وبائی بیماریوں کی روک تھام، طبی آلات کی تیاری اور صحت کے اداروں کی صلاحیت میں اضافے کے لیے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔حماد اظہر نے کہا کہ کورونا کے علاج اور تدارک کے اقدامات کے علاوہ حکومت اپنی توجہ ہیلتھ سروسز کو بہتر بنانے کے لیے آئی سی ٹی سلوشن کی طرف مرکوز کررہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ صوبائی حکومتیں ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہیں گی۔انہوں نے کہا کہ یکساں نصاب کی تیاری، معیاری نظام، امتحانات وضع کرنے، اسمارٹ اسکولوں کا قیام، مدرسوں کی قومی دھارے میں شمولیت سے تعلیمی نظام میں بہتری لائی جائے گی، جس کے لیے رقم مختص کردی گئی ہے اور ان اصلاحات کے لیے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، مزید برآں ہائر ایجوکیشن ترجیحی شعبہ جات میں سے ایک ہے۔حماد اظہر کا کہنا تھا کہ 21ویں صدی کے معیاری تعلیم پر پورا اترنے کے لیے تحقیق اور دیگر جدید شعبہ جات مثلات آرٹیفیشل انٹیلی جنس، روبوٹکس، آٹومیشن اور اسپیس ٹیکنالوجی کے شعبے تحقیق اور ترقی کے لیے کام کیا جاسکتا، لہذا تعلیم کے شعبے میں جدت اور اس حصول کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ امرجنگ ٹیکنالوجی اور نالج اکانومی کے اقدامات کو فروغ دینے کے لیے تحقیقی اداروں کی صلاحیت اور گنجائش کو بڑھانا اشد ضرورت ہے، مزید برآں ای گورننس اور آئی ٹی کی بنیاد پر چلنے والی سروسز، 5 جی سیلولر سروسز کے آغاز پر حکومت کی توجہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان شعبوں میں منصوبوں کے لیے 20 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔حماد اظہر کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے کیمیکل، الیکٹرانک، پروسیجن ایگری کلچرل کے منصوبوں پر عمل درآمد کیا جائے گا اور آر این ڈی کا صنعت کے ساتھ رابطہ مضبوط کیا جائے گا۔بجٹ تجاویز پیش کرتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے تناظر اور ماحول پر ظاہر ہونے والے اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان بھی اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے پاکستان پر بھی بہت سے اثرات ہیں جیسے غیرموسمی بارشیں، فصلوں کے پیداواری رجحان میں کمی اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں لہذا اس سال موسمیاتی تبدیلی کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے جاتے ہیں۔وفاقی بجٹ کی تقریر کے دوران حماد اظہر نے کہا کہ رواں برس بجٹ کے تحت مختص رقوم کے علاوہ حکومت نے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں منصوبوں کے لیے 40 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز رکھیں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ علاوہ ازیں خیبرپختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں مختلف مںصوبوں کے ذریعے 48 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس پروگرام کے تحت ترقیاتی بجٹ میں 24 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔بجٹ تقریر کے دوران حماد اظہر نے بتایا کہ تحفظ خوراک کے فروغ کے لیے ترقیاتی منصوبوں میں 12 ارب روپے کی رقم خرچ کی جائے گی۔انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کے ضم اضلاع میں ٹی ڈی پی کے انضام و انصرام کے لیے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے جبکہ افغانستان کی بحالی میں معاونت کے لیے 2 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔قبل ازیں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا۔اجلاس کے دوران آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ تجاویز کی منظوری دی گئی۔اس سال کے بجٹ اجلاس کو محض رسمی سمجھا جا رہا ہے کیونکہ حزب اختلاف کی دو بڑی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اس مقصد پر رائے دہی کے لیے دبا نہ ڈالنے اور 30 جون تک بجٹ کی منظوری تک کورم کی نشاندہی نہ کرنے پر متفق ہوگئی ہیں۔خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے مالی سال 20-2019 میں 70 کھرب 22 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا اور اس سے قبل پی ٹی آئی نے اقتدار میں آنے کے بعد محض 5 ماہ کے عرصے میں 2 منی بجٹ بھی پیش کیے تھے۔مالی سال 21-2020 کے بجٹ کو مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی جانب سے 'کورونا بجٹ' کا نام دیا گیا ہے۔رواں سال کا بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا جارہا ہے جب ملک کو عالمی وبا کورونا وائرس کے باعث صحت کے بحران کے سامنا ہے جس نے ملکی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔اس حوالے سے یہ بھی مدنظر رہے کہ 9 جون کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے مذاکرات میں وفاقی حکومت کے اخراجات منجمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے مکمل بجٹ میں سال 20-2019 کے لیے 70 کھرب 22 ارب روپے سے زائد کا وفاقی بجٹ پیش کیا تھا جس میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 31 کھرب 512 ارب روپے اور 7.2 فیصد تجویز کیا گیا تھا۔گزشتہ بجٹ میں ایف بی آر کی جانب سے وصولی کا ہدف 55 کھرب 50 ارب روپے رکھا گیا تھا جسے بعد ازاں کم کرکے 48 کھرب کیا گیا تھا لیکن کورونا وائرس کے باعث اس میں مزید کمی کرتے ہوئے 38 کھرب کردیا گیا تھا۔علاوہ ازیں مالی سال 20-2019میں وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب روپے رکھا گیا تھاجو 19-2018 کے مقابلے میں 19 فیصد زیادہ تھا۔قرضوں پر سود کی ادائیگی کا تخمینہ 28 کھرب 914 ارب روپے، اعلی تعلیم کے لیے 45 ارب روپے، وفاقی ترقیاتی بجٹ میں زراعت کے لیے 1200 ارب روپے رکھے گئے تھے۔پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں کابینہ کے تمام وزرا کی تنخواہ میں 10 فیصد کمی کی تھی جبکہکم از کم تنخواہ بڑھا کر 17 ہزار 500 روپے ماہانہ مقرر کی تھی۔قبل ازیں مالی سال 19-2018 میں 52 کھرب 46 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا جبکہ اخراجات 53 ارب 85 ارب روپے ہوگئے تھے۔اس سے قبل مالی سالی 17-2018 میں 47 کھرب 53 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا جبکہ اخراجات 48 کھرب 57 ارب روپے ہوگئے تھے۔17-2016 میں 43 کھرب 96 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا لیکن اخراجات 42 کھرب 56 ارب روپے رہے۔مالی سال 16-2015 میں 40 کھرب 86 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا اور اس سال بھی اخراجات بجٹ کے اندر رہتے ہوئے 40 کھرب 69 ارب رہے تھے۔اس سے قبل مالی سال 18-2017 میں جی ڈی پی کا ہدف 6 فیصد مقرر تھا، مالی سال 17-2016 میں 5.7 فیصد، 16-2015 میں 5.5 فیصد، 15-2014 میں 5.1 فیصد اور 14-2013 میں اس کا ہدف 4.4 فیصد رکھا گیا تھا۔خیال رہے کہ جی ڈی پی میں زراعت کے حصے پر نظر ڈالیں تو مالی سال 19-2018 کیلئے یہ 3.8 فیصد مقرر کیا گیا تھا تاہم یہ 0.8 رہا، 17-2016 میں عارضی طور پر 3.46 فیصد رہا، 16-2015 میں 0.27 فیصد، 15-2014 میں 2.13 فیصد اور 14-2013 میں یہ 2.5 فیصد تھا۔جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کا حصہ مالی سال 19-2018 کے لیے 8.1 فیصد مقرر کیا گیا تھا لیکن یہ منفی 0.3 فیصد رہا، 17-2016 میں عارضی طور پر 5 فیصد رہا، 16-2015 میں 5.8 فیصد، 15-2014 میں 5.2 فیصد اور 14-2013 میں یہ 4.53 فیصد تھا۔جی ڈی پی میں اشیا کی پیداوار کے شعبے کا حصہ مالی سال 19-2018 کے لیے 7.6 فیصد مقرر کیا گیا لیکن یہ 1.40 رہا، 17-2016 میں عارضی طور پر 4.3 فیصد، 16-2015 میں 3 فیصد، 15-2014 میں 3.6 فیصد، 14-2013 میں 3.49 فیصد تھا۔سروسز کے شعبے میں شرح نمو کی ترقی مالی سال 19-2018 کے لیے 6.5 فیصد مقرر کی گئی تھی لیکن یہ 4.71 رہی، 17-2016 میں عارضی طور پر 5.6 فیصد، 16-2015 میں 5.6 فیصد، 15-2014 میں 4.4 فیصد اور 14-2013 میں 4.46 فیصد رہی۔گزشتہ بجٹس کے دوران جی ڈی پی کی شرح میں ٹیکس ریونیو کی شرح 19-2018 میں 12.6 رہی، 17-2016 میں 8.5 فیصد، 16-2015 میں 12.6 فیصد، 15-2014 میں 11 فیصد اور 14-2013 میں یہ 10.2 فیصد رہی۔گذشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے وزیراعظم کیمشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ آنے والے بجٹ میں کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے لوگوں کو مزید مراعات اور مزید ریلیف دیں اور سماجی تحفظ کے پروگرامز میں مزید فنڈنگ دیں تاکہ وہ لوگوں تک پہنچ سکیں اور ہم اپنی صنعت کو اچھے انداز میں چلا سکیں۔مشیر خزانہ نے کہا تھا کہ ہماری خصوصی طور پر کوشش ہو گی کہ نئے ٹیکسز نہ لگائے
 جائیں اور ٹیکسز کا بھی جائزہ کے لر ان میں کمی لائی جائے تاکہ لوگوں کو معاشی ریلیف پیکج مل سکے اور صورتحال سے بہتر انداز میں نمٹ سکیں۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ مالی سال 20-2019 میں مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو کا تخمینہ منفی 0.4 فیصد ہے، اس میں زرعی شعبے میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد ہے جس میں صنعت خاص طور پر متاثر ہوئی اور اس میں ترقی کی شرح منفی 2.64 ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ خدمات کا شعبہ جس میں کاروباری طبقہ ہے جسے ہم ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ کہتے ہیں اس میں منفی 3.4 فیصد شرح نمو ہے۔مشیر خزانہ نے کہا تھا کہ مینوفیکچرنگ میں کافی کمی ہوئی جو منفی 22.9 فیصد رہی۔انہوں نے کہا تھا کہ کورونا وائرس اور لاک ڈان کی وجہ سے ٹرانسپورٹ، ریلوے اور ایئر ٹرانسپورٹ بند رہے تو اس میں منفی ترقی ہوئی اور یہ شرح منفی 7.1 ہے۔مشیر خزانہ نے کہا تھا کہ ہمارے پورے ملک کی آمدنی 0.4 فیصد کم ہوگئی حالانکہ ہم سمجھ رہے تھے کہ آمدنی 3 فیصد بڑھے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں قومی آمدن میں 3 سے ساڑھے 3 فیصد نقصان دیکھنا پڑا۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا تھا کہ کورونا وائرس کے باعث ملکی آمدن میں 30 کھرب روپے کا نقصان ہوا۔قومی اقتصادی سروے کے مطابق جولائی 2019 سے مارچ 2020 تک کے عرصے میں ملک کا مجموعی قرض اور واجبات 20 کھرب 59 ارب 70 کروڑ روپے تک جا پہنچے۔قرض و واجبات مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کے 102.6 فیصد تک پہنچ چکے ہیں، سروے کے اعداد و شمار کے مطابق مارچ 2020 تک سرکاری قرض
 جی ڈی پی کے 84.4 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔گزشتہ روز مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ نے پریس کانفرنس میں سرکاری قرض جی ڈی پی کے 88 فیصد تک پہنچے کا اعلان کیا جس میں مارچ سے اب تک لیے گئے قرض مثال کے طور پر اپریل میں آئی ایم ایف سے لیے گئے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر بھی شامل ہیں۔اقتصادی جائزہ رپورٹ کے مطابق جولائی 2019 سے اپریل 2020 کے عرصے کے دوران صارف قیمت اشاریہ (چی پی آئی) افراط زر 11.22 فیصد رہی جو گزشتہ مالی سال اس عرصے میں 6.51 فیصد تھی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ جلدی خراب ہونے والی کھانے کی اشیا کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور اس شعبے میں مہنگائی کی شرح 34.7 فیصد ریکارڈ کی گئی۔اقتصادی سروے 20-2019 کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں ٹیکس مراعات کی لاگت گزشتہ سال کے 972 ارب 04 کروڑ کے مقابلے میں 18.25 فیصد اضافے کے ساتھ 11 کھرب 49 ارب روپے ہوگئی۔ انکم ٹیکس مراعات سال 2019۔20 میں بڑھ کر 378 ارب روپے ہوگئی جو گزشتہ سال میں 141 ارب 64 کروڑ روپے تھی 166.88 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔اس ٹیکس مراعات میں کل آمدنی سے 212.07 ارب روپے اور کاروباری افراد کو دیے گئے 104.498 ارب روپے شامل ہیں۔سب سے زیادہ اس ٹیکس مراعات سے فائدہ اٹھانے والے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) ہیں۔سیلز ٹیکس میں مراعات 2019-2020 میں کم ہوکر 518.8ارب روپے ہوگئی جو 2018-19 میں 597.7 ارب روپے تھی جو 13 فیصد کی کمی ظاہر کرتی ہے۔اقتصادی سروے پاکستان مطابق ملک میں کورونا وائرس کے اثرات سے مزید ایک کروڑ افراد کے خطِ غربت سے نیچے جانے کا خدشہ ہے۔سروے میں کہا گیا کہ کورونا وائرس کے باعث پاکستان کی معیشت پر منفی اثر پڑنے کی توقع ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 5 کروڑ سے بڑھ کر 6 کروڑ ہو سکتی ہے۔پلاننگ کمیشن نے ضروریات زندگی کی لاگت یا کوسٹ آف بیسک نیڈ (سی بی این) کے طریقے سے غربت کا تخمینہ لگایا جس کے مطابق ماہانہ 3 ہزار 250 روپے فی بالغ شخص رقم بنتی ہے، اس طریقہ کار کے مطابق 24.3 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔