امریکی صدر کا انتخاب۔ تحریر حفصہ عزیز



 تحریر حفصہ عزیز
امریکی صدارتی انتخابات برائے نام قومی مقابلہ ہوا کرتا ہے، جس کا فیصلہ مقبول ووٹ کی بنیاد پر ہوتا ہو۔ اس کے نتائج کا دارومدار 50 انفرادی ریاستوں کی رائے پر ہوتا ہے، جب کہ امیدواروں کی جیت الیکٹورل کالج کی بنیاد پر ہوتی ہے، جس کا انحصار ہر ریاست کی آبادی اور کانگریس میں اس کی نمائندگی کی بنا پر ہوتا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی ہیلری کلنٹن جو سابقہ وزیر خارجہ ہیں؛ اور ری پبلیکن پارٹی کے ڈونالڈ ٹرمپ جو جائیداد کے نامور کاروباری شخص ہیں جو پہلی بار کسی عوامی عہدے کا انتخاب لڑ رہے ہیں؛ دونوں کی کوشش ہے کہ 538 الیکٹرز کی اکثریت، یعنی 270 ووٹ حاصل کرلیں، تاکہ وہ وائٹ ہاس کے عہدے تک رسائی کا دعوی کر سکیں۔
 گزشتہ دنوںجاری ہونے والے رائے عامہ کے نئے جائزے کے مطابق، چاروں فیصلہ کن ریاستوں میں کلنٹن کو ٹرمپ پر کافی سبقت حاصل ہوگئی ہے، جب کہ وہ قومی ووٹروں کے سروے میں بھی آگے دکھائی دیتی ہیں۔
دیگر اندازوں سے پتا چلتا ہے کہ کسی وقت ٹیلی ویژن ریلٹی شو کے میزبان کے مقابلے میں واضح سبقت حاصل ہے، جو بات الیکٹورل کالج کے اندازوں سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ تاہم، وہ ابھی 270 کی اکثریت کے عدد تک نہیں پہنچ پائیں، ایسے میں جب وہ حمایت کی اوپر نیچے ہوتی ہوئی سطح والی ریاستوں میں ڈیموکریٹک اور ری پبلیکن کی حمایت دونوں صدارتی امیدواروں کے حق میں تقریبا مساوی دکھائی دیتی ہے۔
 امریکہ کے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کلنٹن کے 270 کے عدد تک پہنچنے کے آثار زیادہ ہیں۔ وہ واضح طور پر پسند کی جانے والی امیدوار ہیں۔ لیکن، یہ دوڑ ابھی ختم نہیں ہوئی۔
بیٹل گرانڈ ریاستوں کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ کلنٹن کو مشی گن کی وسط مغربی ریاست میں اپنے مدِ مقابل پر 9 فی صد شرح کی سبقت حاصل ہے؛ نیو ہیمپاشئر کی شمال مشرقی ریاست میں وہ 11 نکتوں کی شرح سے آگے ہیں؛ جب کہ پنسلوانیا کی مشرقی ریاست اور فلوریڈا کی جنوب مشرقی ریاست میں 6 پوائنٹ کی سبقت حاصل ہے۔ یہ تمام وہ ریاستیں ہیں جہاں حالیہ مقابلوں کے دوران ٹرمپ نے انتخابی مہم چلائی ہے اور ڈیموکریٹک ووٹنگ کے شمار کا نقشہ الٹ چکے تھے، تاکہ انھیں نومبر کے انتخاب میں برتری مل سکے کہ وہ صدر براک اوباما کی جگہ لے سکیں، جب وہ جنوری میں اپنی میعاد مکمل کریں گے۔
قومی جائزوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کلنٹن، جو کہ ملک کی پہلی خاتون صدر بننے کے لیے کوشاں ہیں، تیزی سے نمایاں ہو رہی ہیں۔ تاہم، انھیں ٹرمپ کے مقابلے میں ناقابل ِتسخیر پوزیشن حاصل نہیں ہوئی۔ جائزوں کا تناسب نکالا جائے تو ٹرمپ کے مقابلے میں کلنٹن کو تقریبا چھ پوائنٹ کی برتری حاصل ہے؛ جو 41.5 کے مقابلے میں 47.4 کی شرح کی ہے۔ حالانکہ تازہ ترین جائزے سے پتا چلتا ہے کہ گذشتہ ہفتے ڈیموکریٹک نیشنل کنوینشن کے بعد خطاب کرنے والوں کی جانب سے ٹرمپ کی مذمت کے بعد یہ شرح 39 کے مقابلے میں 49 تک پہنچ گئی تھی۔
تازہ ترین رائے عامہ کا جائزہ ایسے میں کیا گیا ہے جب ری پبلیکن پارٹی کے رہنماں نے گذشتہ ہفتے ٹرمپ کے خلاف سخت بیانات دیے تھے اور مایوسی کا اظہار کیا تھا۔
ٹوئٹر پر انٹرویوز اور بیانات میں تواتر سے ٹرمپ سنہ 2014 میں یوکرین کے کرائیمیا کے جزیرے پر روس کے قبضے سے باخبر نہیں لگے، وہ سنہ 2004 میں عراق میں جان دینے والے مسلمان امریکی فوجی کے والدین سے بارہا الجھے، جب انھوں نے کنویشن میں ان پر تنقید کی؛ اور پھر متعدد بار ٹیلی ویژن انٹرویوز میں انھوں نے اگلے ہفتے ہونے والی پارٹی کے پرائمری الیکشن کے لیے ملک کے چوٹی کے ری پبلیکن اہل کار، ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر پال رائن کی حمایت سے انکار کیا۔
ری پبلیکن پارٹی صدارتی نامزد امیدوار، ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ انھیں ڈر ہے کہ امریکی انتخاب، جس میں اب صرف تین ماہ رہ گئے ہیں، ان کے خلاف دھاندلی سے کام لیا جائے گا۔مارگریٹ جرگنسن نے کہا ہے کہ وہ میری لینڈ کی منٹگمری کانٹی میں کبھی یہ نہیں ہونے دیں گی، جو واشنگٹن سے منسلک کثیر آبادی والا علاقہ ہے۔
جرگنسن کانٹی کے انتخابی بورڈ کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ نظام ایسا ہے جس میں دھاندلی ممکن ہے، شاید انھوں نے انتخابات سے واسطہ رکھنے والے کسی منتظم کے ساتھ وقت نہیں گزارا۔
سخت مقابلے والے اِس ماحول میں انتظامی نظام پر عدم اعتماد دائیں بائیں بدمزگی کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ ورمونٹ سے تعلق رکھنے والے سینیٹر برنی سینڈرز نے، جنھوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی کے لیے ہیلری کلنٹن سے مقابلہ کیا، کہا ہے کہ پارٹی کے قومی رہنماں نے ان کے خلاف کام کیا تاکہ سابق وزیر خارجہ کو نامزدگی مل سکے۔
جمہوریت کے محاذ کی اگلی صفوں پر، جرگنسن نے بتایا ہے کہ وہ گذشتہ 20 برس سے اس میدان میں ہیں، انھوں نے کبھی ووٹ چوری ہونے کی شکایت نہیں سنی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ امریکی ووٹروں کی تعداد کثیر ہے۔ لیکن، کسی ووٹر کی جانب سے دھوکہ دہی کا کیس ریکارڈ پر کم ہی ہے۔
تاہم، انتخابات کی حرمت کے بارے میں مباحثہ، جس طرح کہ اِس کھچا والے سیاسی ماحول میں ہر چیز دکھائی دیتی ہے، وہ ترش اور مخاصمانہ انداز کی سی لگتی ہے۔
جان فورٹر کے بقول، یہ کچھ اِس طرح کی ہے، ری پبلیکنز کو سکیورٹی سے متعلق زیادہ تشویش ہے؛ جب کہ ڈیموکریٹس کو رسائی کے بارے میں تشویش لاحق ہے۔ فورٹر واشنگٹن میں قائم ڈیموکریسی پراجیکٹ کے سربراہ ہیں، جو دونوں فریق سے تعلق رکھنے والا پالیسی مرکز ہے۔یوں لگتا ہے کہ جھگڑا ووٹروں کی فہرست اور شناخت کے قوانین کی بنا پر ہے۔
کانٹی الیکشن بورڈز میں رجسٹر ہونے والے ووٹروں کی فہرستیں رکھی جاتی ہیں۔ ووٹروں کی فہرست ہمیشہ بدلتی رہتی ہے چونکہ لوگ متحرک رہتے ہیں، فوت ہوتے ہیں، شادی اور طلاق کی صورت میں نام تبدیل کرتے ہیں۔ یوں، فہرستوں کو تازہ رکھنے کا کام سال بھر جاری رہتا ہے۔
جرگنسن کے مطابق، کسی کانٹی میں 10 لاکھ مکین ہوتے ہیں، اور ہم ہر ماہ 30000 دستاویز کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم سال میں صرف دو دِن کام کرتے ہیں۔
 ہر ریاست میں ووٹنگ کے نتائج کی بنیاد پر جیتنے والے امیدوار کو مخصوص تعداد میں نمائندے یا الیکٹر مختص کے جاتے ہیں جو الیکٹورل کالج تشکیل دیتے ہیں۔
امریکہ میں صدر کا انتخاب عوامی ووٹوں کی گنتی کی بجائے ایک الیکٹورل کالج کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
پرائمری انتخابات میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کی طرف سے صدارتی امیدوار نامزد کیے جانے کے بعد، نامزد امیدوار نائب صدر کے عہدے کے لیے ایک ساتھی منتخب کرتے ہیں۔
اس کے بعد دونوں پارٹیوں کی ٹیمیں نومبر کے اوائل تک صدارتی انتخاب کے لیے جارحانہ مہم چلاتی ہیں۔
عام انتخاب کے دن اندراج شدہ ووٹر مقامی پولنگ مراکز میں صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالتے ہیں۔اگرچہ عوامی ووٹوں کی تعداد بہت اہمیت رکھتی ہے مگر صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج کے نظام کے تحت کیا جاتا ہے۔
ہر ریاست میں ووٹنگ کے نتائج کی بنیاد پر جیتنے والے امیدوار کو مخصوص تعداد میں نمائندے یا الیکٹر مختص کے جاتے ہیں جو الیکٹورل کالج تشکیل دیتے ہیں۔
زیادہ آبادی والی ریاستوں کے پاس زیادہ نمائندے یا الیکٹر ہوتے ہیں۔ کم آبادی والی ریاستوں کے کم نمائندے ہوتے ہیں۔صدر کا انتخاب جیتنے کے لیے امیدوار کو الیکٹورل کالج کی نمائندوں کی اکثریت یعنی کم از کم 270 الیکٹر جیتنا لازمی ہے۔
عام انتخاب کے ایک ماہ بعد یہ نمائندے یا الیکٹر اپنا ووٹ ڈالتے ہیں۔ تاہم نیا صدر جنوری میں صدر کی حلف برداری کی تقریب کے بعد ہی اپنا عہدہ سنبھالتا ہے۔
یو ہیمپشائر پرائمر ی منگل کو منعقد ہو رہی ہے۔ روایتی طور پر اس کا انعقاد ہر چوتھے برس امریکی صدارتی انتخاب سے قبل ہوتا ہے۔ یہ آئیووا کاکس کے بعد ہوتی ہے، جو اِس سال یکم فروری کو منعقد ہوئی تھی۔
امریکی صدارتی انتخاب کی ووٹنگ دو مرحلوں میں ہوا کرتی ہے۔ یکم، کاکسز اور پرائمریز کا سلسلہ جو جون کے وسط تک جاری رہتا ہے، جہاں ہر ریاست یا علاقے کے ووٹر ڈیلیگٹ کا چنا کرتے ہیں، جو بالآخر ہر اہم پارٹی کے امیدوار کی نامزدگی کرتے ہیں۔ 
پھر، ریپلیکن اور ڈیموکرٹیک امیدوار، اور کبھی کبھار دیگر امیدوار بھی۔۔ جو نام نومبر کے پہلے پیر کے بعد آنے والے پہلے منگل کے روز پورے ملک میں منعقد ہونے والے انتخابات میں پیلٹ پیپر پر سر فہرست شامل ہوتے ہیں۔ اِس سال، یہ انتخابات 8 نومبر کو ہوں گے۔
ووٹنگ کے پہلے مرحلے کا کیا مطلب ہے۔ اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
پرائمری اور کاکس میں کیا فرق ہے؟
پرائمری انتخابات ریاست یا مقامی حکومتوں کی جانب سے منعقد کرائے جاتے ہیں، جب کہ کاکسز نجی تقریبات پر مشمتل ہوتی ہیں، جنھیں سیاسی جماعتیں خود براہِ راست منعقد کرتی ہیں۔ کچھ ریاستیں صرف کاکسز منعقد کراتی ہیں جب کہ دیگر دونوں ہی کا انعقاد کرتی ہیں۔ اِس سلسلے میں، مختلف ریاستوں میں مختلف تاریخ پر ووٹنگ ہوتی ہے۔
پرائمری الیکشن کے لیے ریاست کی حکومتیں رقوم فراہم کرتی ہیں، اسی طرح سے ہی جیسے موسمِ خزاں میں عام انتخابات کے لیے فنڈ فراہم کیے جاتے ہیں اور ان کا انعقاد ہوتا ہے۔ ووٹر پولنگ کے مقام تک جاتے ہیں، ووٹ دیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔
ایک کاکس کے لیے، کسی جماعت کے پسندیدہ افراد کو آگے لایا جاتا ہے جنھیں ڈیلیگٹ چنا جاتا ہے۔ ایک مربوط گفت و شنید اور مباحثے کے بعد، غیر رسمی رائے دہی کی جاتی ہے جس میں یہ طے ہوتا ہے کہ کون سے افراد پارٹی کے قومی کنوینشن میں ڈیلیگٹ کے فرائض انجام دیں گے۔
پرائمری الیکشن اور کاکس کی قسمیں؟
پرائمری الیکشنز کی چار عام قسمیں ہیں: کھلے عام، بند کمرے میں، نیم کھلے اور نصف کھلے الیکشن۔ ہر ریاست کو یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس طریقہ کار کو اپنائے گی۔
اوپن پرائمریز اینڈ کاکسز میں تمام اہل ووٹر بغیر پارٹی تعلق کے، کسی بھی جماعت کے مقابلے میں ووٹ دے سکتے ہیں۔
کچھ ریاستیں جو اس قسم کو اختیار کرتی ہیں وہ ایک واحد بیلٹ چھاپ سکتی ہیں اور ووٹر خود اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کون سی سیاسی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے، جس عہدے کے لیے وہ اپنی مرضی کے امیدوار کے حق میں ووٹ دیتا ہے۔
کلوزڈ پرائمریز اینڈ کاکسز کے لیے ضروری ہے کہ ووٹر کسی جماعت کے ساتھ اپنا ووٹ رجسٹر کرائے، تاکہ وہ اس پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ ڈال سکیں۔
سیمی اوپن پرائمریز اینڈ کاکسز کوئی بھی رجسٹرڈ ووٹر کسی بھی پارٹی مقابلے میں ووٹ کا اہل ہوتا ہے۔ تاہم، جب وہ انتخابی عہدے داروں کو اپنی شناخت کرائیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ اس پارٹی کا خاص بیلٹ پیپر طلب کریں۔
سیمی کلوزڈ پرائمریز اینڈ کاکسز اسی طرح کے ضابطوں پر عمل پیرا ہوں گے جو کلوزڈ طریقہ  کار کا جزو ہیں۔ تاہم، ایسے ووٹر جو کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ منسلک نہیں، انھیں اِس بات کی بھی اجازت ہوتی ہے کہ وہ کسی کو بھی ووٹ دے سکتے ہیں۔
ووٹنگ کب منعقد ہوتی ہے؟
ایسے میں جب ہر سال پرائمری انتخابات اور کاکسز کی تاریخیں مختلف ہوتی ہیں، رسمیہ طور پر، سب سے پہلے، چار طرح کی ووٹنگ ہوتی ہے: آئیووا ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک کاکسز، جن کے بعد، نیو ہیمپشائر ڈیموکریٹک اور ریپبلیکن پرائمری الیکشن ہوتے ہیں۔
اِس سال، آئیووا کاکسز پیر، یکم فروری کو منعقد ہوئے؛ اور اب 9 فروری کو نیو ہیمپشائر پرائمری ہو رہی ہے۔
نیوہیمپشائر پرائمری کا طریقہ کار؟
(امریکہ کی شمال مشرقی ریاست) نیو ہیمپشائر عشروں سے امیدواروں کی جانب سے اپنا لوہا منوانے کا موقع فراہم کرتا رہا ہے۔
امیدوار نام نہاد آڑہت کی سیاست کا دور چلاتے ہیں، جس دوران وہ غیر روایتی ماحول میں ممکنہ ووٹروں سے بالمشافی ملاقاتیں کرتے ہیں، مثال کے طور پر رات کا کھانا، کلیسا میں بیٹھک اور اسکول کے جیمخانہ میں محافل رچانا، ساتھ ہی باضابطہ مباحثے میں شرکت۔ چونکہ اِس بار امیدواروں کی قسمت سنوارنے کی صلاحیت کے ضمن میں موجودہ انتخابات قومی دھارے میں بھونچال کا باعث ہیں، ذرائع ابلاغ کے خبروں سے وابستہ نمائندے اور ملک کی ہر سمت سے امنڈ آنے والے سیاسی سیاح اتنی بڑی تعداد میں آچکے ہیں کہ نیو ہیمپشائر کے ووٹروں کی تعداد تھوڑی لگنے لگی ہے۔نیو ہیمپشائر پرائمری سیمی اوپن (نیم عوامی) معاملہ ہے، جس میں ایسے ووٹر جنھوں نے اپنا نام کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ درج نہیں کرایا، پھر بھی انھیں ان کی آواز شامل ہو سکتی ہے، جن کا نتائج پر اثر پڑ سکتا ہے۔ لیکن، پھر وہ کسی دوسری جماعت کے لیے ووٹ نہیں دے سکتے۔ باضابطہ پولنگ کے مقامات پر ووٹر بے نام بیلٹ کا استعمال کرسکتے ہیں۔نیوہیمپشائر پرائمری اس لحاظ سے بھی نمایاں مرحلہ ہے کہ ڈِکس ویل نوچ، ہارٹس لوکیشن اور ملزفیلڈ کے تین بہت ہی مختصر قصبوں میں ووٹنگ کا آغاز نصف شب ہی سے ہو جاتا ہے۔
نیوہیمپشائر پرائمری ہر ایک کے لیے ایک کھلا فورم ہے، جو ملک کے اعلی ترین عہدے کے لیے میدان میں آنے کا خواہاں ہو، اور 1000 ڈالر کی فی ادا کرکے یا حمایت سے متعلق کم از کم 100 دستخط کا شمار پیش کر سکتا ہو۔ اس لیے، زیادہ جان پہچان نہ رکھنے والے امیدوار، مثال کے طور پر، لوبسٹرمین بھی، انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ پرائمری کے بارے میں یہ بات نیو ہیمپشائر کے تاریخ داں، مائیکل شانے نے سی اسپان کو دیے گئے ایک وڈیو انٹرویو میں بتائی ہے۔
نیو ہیمپشائر ووٹروں کے بارے میں چند حقائق؟
پبلک پالیسی سے وابستہ ماہرین نے بتائی ہے۔ انھوں نے اِس جانب توجہ دلائی ہے کہ چونکہ آبادی کے اعداد و شمار میں کافی تبدیلی چکی ہے، اِس لیے ڈیموکریٹک پرائمری کے ووٹوں کی تعداد کافی بڑھی ہے، جب کہ ریپبلیکن کی پوزیشن میں کوئی اضافہ نہیں آیا۔
قومی آبادی کے سرکاری اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ ریاست کے 13 لاکھ مکینوں میں سے تقریبا تمام (94 فی صد) سفید فام ہیں، اور زیادہ تر، دیہات میں مقیم ہیں۔ مجموعی طور پر ملک کے 33 کروڑ مکینوں میں سے 63 فی صد اپنے آپ کو ہسپانوی سفید فام قرار دیتے ہیں، جب کہ اِن میں سے صرف 15 فی صد دیہاتی کانٹیز میں رہتے ہیں۔